اقبال ۔۔۔شاعر انقلاب

اقبال ایک انقلابی شاعر ہے۔ ملت اسلامیہ نے اقبال کے لیے کئی القاب و خطابات تجویز کیے، کوئی انہیں حکیم ملت کہتا ہے اور کوئی ترجمان حقیقت، کوئی انہیں شاعر اسلام کہتا ہے۔ یہ تمام القاب بجا اور درست ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی صفات کے اور بہت سے پیرہن ہیں جو اس کے قامت پر راست آتے ہیں۔ وہ پیام بر خودی بھی ہے اور مبلغ ارتقاء بھی اور رمز شناس عشق بھی، لیکن اقبال کی تمام شاعری اور اس کے افکار اور جذبات پر جو چیز طاری معلوم ہوتی ہے وہ تمنائے انقلاب ہے۔ موجودہ دنیا کی کوئی حیثیت، کوئی شوکت، کوئی حکمت اور کوئی مذہب اس کو اطمینان بخشتا دکھائی نہیں دیتا، وہ مشرق و مغرب دونوں سے بے زار ہے، دونوں طرف زاویہ نگاہ اور نظریہ حیات اس کو غلط معلوم ہوتا ہے، تمام موجودہ زندگی پر اس کی تنقید مخالفانہ ہے، وہ صرف ملت اسلامیہ ہی میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں اور اس کے ہر شعبے میں انقلاب کا آرزو مند ہے۔ عصر حاضر میں یا گذشتہ تین چار صدیوں میں جہاں جہاں انقلابی تحریکیں ہوئیں وہ پسندیدگی سے ان کا ذکر کرتا ہے۔ لوتھر کی اصلاح کلیسیا کی تحریک جس نے مغرب کے دینی تفکر کو بہت کچھ آزاد کر دیا اور حکمت و علم کی ترقی کے لیے راہیں کشادہ کر دیں، انقلاب فرانس جس میں حریت و مساوات و اخوت کا نعرہ بلند ہوا اور مغرب کی تمام زندگی تہ و بالا ہو گئی، مسولینی کی احیائے اطالیہ کی انقلابی کوشش، ان سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ انقلابات نفوس میں ہیجان ہو اضطراب سے پیدا ہوتے ہیں۔ ملت اسلامیہ کچھ صدیوں سے ساکن و جامد تھی لیکن اب اس کے اندر ایک بیتابی نمایاں ہے، ضرور ہے کہ اس میں بھی انقلاب پیدا ہو۔ انقلابات جس جذبے سے پیدا ہوتے ہیں، اقبال اس جذبے کو عشق کہتا ہے۔ ٹھنڈی حکمت اور مفاد کوشی کبھی نظم حیات میں کوئی بنیادی تغیر پیدا نہیں کر سکتی۔ اقبال پوچھتا ہے کہ یہ کایا پلٹ کرنے والا جذبہ اب کس وادی اور منزل میں ہے؟ آخر ہماری طرف بھی متوجہ ہو گا
اقبال ---شاعر انقلاب 
:
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں


دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دین
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں


حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں


چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں


ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں


روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں


دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
اقبال کی زندگی ہی میں کئی اقوام میں انقلاب آیا اور بعض انقلابات اس کی وفات کے دس پندرہ سال کے اندر ہی واقع ہوئے۔ وائرلو میں نپولین کو شکست فاش ۱۸۱۵ء میں ہوئی۔ اس کے قریبا ً ایک صدی بعد ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم واقع ہوئی۔ اس صدی میں چھوٹی بڑی جنگیں تو دنیا میں ہوتی رہی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کا ہر خطہ ایک خاص نظام کے اندر بغیر کسی بڑے ہیجان کے زندگی بسر کرتا رہا۔ ۱۹۱۴ء کی جنگ سے لے کر آج تک دنیا میں جو تلاطم بپا ہوا ہے اس کی مثال تاریخ کے کسی اور دور میں نہیں مل سکتی۔ دنیا کے تمام مغلوب گروہ انسانیت کے بنیادی حقوق طلب کرنے کے لیے آمادہ پیکار ہو گئے، ہر جگہ ملوکیت کے قصر میں زلزلہ آیا اور اس کے در و دیوار پیوند زمین ہو گئے، کاشتکار خون چوسنے والے زمینداروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جہاد کرنے لگے، مزدوروں نے سرمایہ داروں سے اپنے حقوق چھینے۔ سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ علوم و فنون میں بھی انقلاب آیا، طبعی سائنس نے ذروں کا جگر چیر کر اس کے اندر پنہاں قیامت کو آشکار کیا۔ انیسویں صدی میں اہل فرنگ فقط اپنے آپ کو زندہ اور متحرک اور ترقی پذیر سمجھتے تھے، تمام ایشیا ان کے نزدیک جمود و سکون کا مجسمہ تھا، ترکی کو مغربی سیاستدان مرد بیمار کہتے تھے، جو چراغ سحری تھا اور اس کی وسیع سلطنت کے حصے بخرے کرنے کے لیے کرگسوں کی طرح اس کے گرد منڈلاتے تھے، چین کو زبردستی افیون کا عادی بنانے کے لیے اس کے خلاف جنگ کر دی۔ ہندوستان کے متعلق انگریزوں کا خیال تھا کہ چند مغربی تعلیم یافتہ غیر مطمئن لوگ سرکاری عہدوں اور اقتدار میں کچھ حصہ لینے کے لیے ہنگامہ بپا کرتے ہیں، باقی رعایا مطمئن اور برکات حکومت برطانیہ کے راگ گاتی ہے، ایران کو روسیوں اور انگریزوں نے اپنی خفیہ سیاست کی بساط پر تقسیم کر رکھا تھا، فرانسیسی سمجھتے تھے کہ ہند چینی میں ہمیشہ ان کا اقتدار قائم رہے گا۔ انڈونیشیا میں ولندیزی تین سو سال سے تمام ملک کی دولت کو سمیٹ کر اطمینان سے لطف اٹھاتے تھے کہ ان اقوام میں اندرونی ہیجان اور حقوق کا احساس بیدار ہونے میں صدیاں گزر جائیں گی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ ہوا کہ صدیوں کی خفتہ قومیں بیدار اور ہشیار ہو گئیں اور آزادی کی جنگ میں ہر قسم کے ہتھیار استعمال کرنے لگیں۔ اقبال کے لیے ہر وہ تحریک خوش آئند تھی جو زندگی کے جمود کو توڑے، لیکن اس کی طبیعت ایسے ہمہ گیر انقلاب کی آرزو مند تھی جو صرف سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ انسان کی فطرت میں بھی کوئی نمایاں تبدیلی کرے۔ عالم اسلامی میں اقبال کے سامنے ایران اور ترکی میں انقلابی صورت پیدا ہوئی، وہ اس سے خوش تھے کہ ترکوں نے جہاد اور ایثار سے اپنے آپ کو مستحکم کر لیا۔ ایران کے انتشار میں رضا شاہ کی آمریت نے جو جمعیت پیدا کی وہ بھی اصلاح و ترقی کی طرف ایکج اہم قدم تھا، لیکن علامہ اقبال اسلامی ممالک میں ایسا انقلاب چاہتے تھے تو ملت کو نہ صرف مغربی سیاست کے پنجہ آہنی سے چھڑانے بلکہ مغربی مادیت، وطنیت اور الحاد سے بھی نجات دلوائے۔ مصطفی کمال اور رضا شاہ نے استحکام وطن کے لیے بہت کچھ کیا، لیکن مغرب سے سیاسی چھٹکارا حاصل کر کے تہذیب و تمدن میں فرنگ کی کورانہ نقالی اور تقلید شروع کر دی، اس بات کی تلقین شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کے تمام کارناموں میں نظر آنے لگی کہ قوت و نجات اسی میں ہے کہ ہم بھی ہر حیثیت سے مغربی اقوام کے مشابہ و مماثل ہو جائیں۔ اسلامی زندگی کے مخصوص اقدار ان کی نظر سے اوجھل رہے، مشرق کے شعور میں ہمیشہ روحانی زندگی کو فوقیت حاصل رہی ہے، ہزاروں سال سے مشرق تمام ادیان عالیہ کا مولد اور گہوارہ رہا ہے، اسی لیے اقبال بعض اوقات روح اسلامی کی بجائے روح شرق کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔ جب مصطفی کمال اور رضا شاہ اس کو زیادہ تر مغرب زدگی، نسلی قومیت کی پرستش اور وطنیت ہی نظر آئی تو وہ یہ پکار اٹھا:
نہ مصطفیٰ نہ رجا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
پیام مشرق کی ایک نظم میں مصطفی کمال پاشا کو خطاب کیا ہے اور ’’ زایدہ اللہ‘‘ کہہ کر اس کے لیے دعائے ہدایت کی ہے۔ علامہ اقبال کو اس کا افسوس تھا کہ اس مرد غازی نے اپنی قوم کو فرنگ کے پنجے سے تو چھڑایا اور اس میں ملی استحکام پیدا کیا مگر وہ اپنی اصلاحات میں روبہ فرنگ ہو کر اسلامی جذبات اور اسلامی نظریات سے غافل ہو گیا۔ دہلی کے لال قلعہ میں دیوان خاص کی دیواروں پر جو اشعار ثبت ہیں ان میں سے ایک شعر یہاں حسب حال معلوم ہوتا ہے جو غالباً فیضی کا ہے:
عزم سفر مشرق و رو در مغرب
اے راہرو پشت بہ منزل ہشدار
مصطفی کمال کو اس نظم میں اقبال یہ بھولی ہوئی حقیقت یاد دلا رہا ہے کہ مسلمان اقوام ایک امی کی حکمت و بصیرت سے رموز تقدیر سے آشنا ہوئیں اور اسی کی بدولت ان کو دنیا میں تفوق حاصل ہوا۔ وہ اس بارے میں مصطفی کمال سے اتفاق کرتا ہے کہ اسلام کو فقہائے تنگ نظر نے جامد بنا دیا اور اس میں سے وہ عشق ناپید ہو گیا جو افراد و اقوام کی زندگی کا سرچشمہ ہے، لیکن پیر حرم سے بیزار ہو کر اسلام ہی کی طرف سے منہ موڑ لینا ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی فلاح کا باعث نہیں ہو سکتا۔ جس نبی ؐ کی بدولت ہمارے ذرے خورشید جہاں تاب بن گئے اس سے براہ راست کسب فیض دین و دنیا میں حقیقی کامیابی کا باعث ہو سکتا ہے۔ نقل فرنگ کی تدبیر اور کورانہ تقلید سے ملت کو حقیقی فروغ حاصل نہیں ہو سکتا، تقلید میں آخر مات ہی ما ت ہے:
امیے بود کہ ما از اثر حکمت او
واقف از سر نہاں خانہ تقدیر شدیم


اصل مایک شرر باختہ رنگ بودست
نظرے کرد کہ خورشید جہاں گیر شدیم


نکتہ عشق فروشست ز دل پیر حرم
در جہاں خوار باندازۂ تقصیر شدیم


’’ہر کجا راہ وہد اسپ برآں ناز کہ ما
بارہا مات دریں عرصہ بتدیر شدریم‘‘
(نظیری)
ایک اور شعر میں افسوس کیا ہے کہ ’’ ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب‘‘ ان ترکوں نے اپنے تئیں فرنگ کا ہمسایہ سمجھ رکھا ہے اور اس وہم باطل میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ہمارا شمار بھی اقوام فرنگ میں ہو۔
مصر اور ہندوستان کے مسلم راہنما بھی قوم کو جو سبق پڑھا رہے تھیا س میں اقبال کو ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی ترقی کی شاہراہیں نظر نہ آتی تھیں، تہذیبی نقطہ نظر سے یہ بھی مغلوب الغرب ہی تھے۔ بانگ درا کی نظموں میں ایک قطعے میں یہ اشعار ملتے ہیں:
کلی ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پہ رو رو کے کہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستان کے ملسم بناے ملت مٹا رہے ہیں


یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا ہو جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
ملتوں کے اندر اضطراب و تب و تاب، کشاکش، تراش خراش، شکست و فشار کے بغیر انقلاب پیدا نہیں ہو سکتا۔ سکونی حالت اور سکونی تصورات حالات میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتے۔ تعمیر کہن کی شکست و ریخت سے گھبرانا نہیں چاہیے، بقول عارف رومی:
ہر بناے کہنہ کا باداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند
نظام کہن کو برقرار رکھنے کے آرزو مند وہی لوگ ہیں جن میں حرارت حیات باقی نہیں ہوتی۔ اقبال انقلاب چاہتا ہے اور ارتقائی انقلاب جو محض تغیر حال نہ ہو بلکہ زندگی کے لیے نئی وسعتیں اور جدید قوتیں پیدا کرے۔ مسلمان عصر حاضر کے تزلزل سے پریشان دکھائی دیتے ہیں اور اس وہم باطل کا شکار ہو رہے ہیں کہ اس تخریب میں کوئی تعمیری صورت دکھائی نہیں دیتی لیکن رموز حیات سے آشنا اقبال ان کو سر ارتقاء سے واقف کرتا اور تسلی دیتا ہے کہ رسوم کہن کے انہدام سے زندگی فنا نہیں ہوتی بلکہ جادہ ارتقاء پر گامزن ہوتی ہے۔ بانگ درا مینایک لاجواب نظم ہے جس کا عنوان ارتقاء ہے۔ یہ ایک مشہور فارسی شعر کی تضمین ہے:
’’مغان کہ دانہ انگور آب می سازند
ستارہ می شکند آفتاب می سازند‘‘


ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویٰؐ سے شرار بو لہبی


حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی


سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہی
ہزار مرحلہ ہاے فغان نیم شبی


کشا کش زم و گرما تپ و تراش و خراش
زخاک تیرہ دروں تا بہ شیشہ حلبی


مقام بست و شکست و فشار و سوز و کشید
میان قطرۂ نیسان و آتش عنبی


اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی


مغان کہ دانہ انگور آب می سازند
ستارہ می شکنند آفتاب می سازند
تہذیب حاضر کے پرستار نوجوان تقلید فرنگ میں اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں کہ ہم میں نئی روشنی اور علم و فن کی تنویر پیدا ہو گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام نمائشی چہل پہل حیات مستعار ہے، ملت کے اپنے نفوس میں سے کچھ نہیں ابھرا، ایسے غلامانہ ذہنیت والے لوگوں کی بیداری بیداری نہیں او ران کی آزادی غلامی کی پردہ دار ہے۔ یہ تازہ پرواز طیور کی دل کشی مے مسحور ہو کر اپنے آشیانے سے اتنا دور اڑ گئے ہیں کہ بھٹک جانے کی وجہ سے پھر اس پر واپس نہ آ سکیں گے۔ مادی خواہشات کی ہوس اس تہذیب کے مدعی طبقے میں تیز ہو گئی ہے، ایثار کی جگہ خود فروشی اور صبر و استقلال کی جگہ ناشکیبائی کا ظہور ہے۔ یہ اس دھوکے میں ہیں کہ ان کی زندگیوں میں ایک خوش آئند انقلاب پیدا ہو گیا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قلب و نظر میں کوئی حیات آفریں تبدیلی نہیں ہوئی۔ ملت کے اندر سے کسی خلائی جذبے نے کام نہیں کیا۔ اس فروغ مستعار سے ذرے اس فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ان میں جگنو کی سی فروزی ہے۔ تہذیب حاضر کے عنوان سے اقبال نے فیضی کے اس شعر کو تضمین کی ہے:
تو اے پروانہ ایں گری ز شمع محفلے داری
چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری
حافظ کا یہ شعر بھی اس مضمون کے قریب ہے:
آتش آن نیست کہ ہر شعلہ او خندو شمع
آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند


حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیب حاضر میں
بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی


کیا ذرے کو جگنو، دے کے تاب مستعمار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی


نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بیباکی


تغیر آ گیا ایسا تدبر میں تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی


کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن
مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی


حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی


فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھی
مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی


’’تو اے پرواز این گرمی ز شمع محفلے داری
چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری‘‘
اقبال کو نہ مشرق کی کہنہ خیالی اور فرسودگی پسند ہے اور نہ فرنگ کی جدت طرازی۔ نہ مروجہ اسلام پسند ہے اور نہ سائنس کی پیدا کردہ تہذیب حاضر، نہ مغربی جمہوریت پسند ہے اور نہ روسی اشتراکیت۔ مغرب پر اقبال کی مخاصمانہ تنقید سے اقبال کا کلام لبریز ہے لیکن موجودہ مشرق کے لیے بھی اس کے ہاں کوئی مدح و ستائش نہیں:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے؟ اس کا یہ جواب کافی ہو گا کہ وہ اصلی اسلام اور اس کے پیدا شدہ علم و فن اور سیاست و معاشرت کا آرزو مند ہے۔ یہ بیان بہت مہمل ہے اور جب تک کسی قدر تفصیل سے اس زندگی کے خدو خال کا خاکہ سامنے نہ آئے تب تک ذہن کو تشفی نہیں ہوتی۔
اقبال کے کلام میں سلبی تنقید بہت غالب معلوم ہوتی ہے لیکن ایجابی پہلو بھی غائب نہیں ہے۔ جس انقلاب کا نقشہ اس کے تخیل میں ہے اس کے تجزیے سے مفصلہ ذیل عناصر حاصل ہوتے ہیں:
۱۔ وہ حیات انسانی کی کسی ایک طرفہ ترقی کو مفید نہیں سمجھتا۔ زندگی نفس اور بدن دونوں پر مشتمل ہے اور حقیقت حیات و کائنات میں انفس بھی ہیں اور آفاق بھی۔ ماحول سے منقطع روحانیت، جسے رہبانیت کہتے ہیں، ایک حیات کش طریق حیات ہے جس میں زندگی کا مادی اور جسمانی پہلو فنا ہو جاتا ہے۔ بغیر اس کے کہ روح کو تقویت یا بصیرت حاصل ہو۔ اسلام کے نظریہ حیات میں ہمہ گیری ہے اور وہ ظاہر و باطن کو ایک ہی حقیقت کے دوپہلو قرار دے کر ان کو الگ الگ نہیں کرتا۔
۲۔ انسانی زندگی میں دو بڑی قوتیں کار فرما ہیں، ایک عقل ہے اور دوسری کا نام عشق ہے۔ا یک کا تعلق دماغ سے ہے اور دوسری کا دل سے، مگر دل اس مضغہ گوشت کا نام نہیں جو سینے میں بائیں طرف دھڑکتا ہے۔ عقل بے عشق حقیقت رس نہیں ہو سکتی۔ خالی زیرکی سے نہ اقدار حیات کی آفرینش ہوتی ہے اور نہ زندگی کو حقیقی عروج حاصل ہوتا ہے بقول عارف رومی:
مں شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
ہر ایسی تعلیم ناقص ہے جو فقط مادی زندگی کے اغراض کے لیے مظاہر حیات کی پیمائش کرتی رہے اور حقیقت کے پہلو اس کے پیمانوں میں نہ آ سکیں، ان سے انکار کا شیوہ اختیار کر لے۔
۳۔ انسان کے اندر خدا نے لامتناہی قوتیں مضمر رکھی ہیں۔ ممکنات حیات کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ حیات کا مقصود ان ممکنات کو مسلسل وجود میں لاتے رہنا ہے۔ حیات خود اپنا مقصود ہے اس کا کسی ایک صورت پر قائم ہو جانا اس کی نفی کا باعث ہوتا ہے۔ دین اور حکمت اور ہر قسم کی تعلیم و تربیت کا مقصود یہی ہونا چاہیے کہ انسان اپنی لا محدود خودی کو پہچان کر زندگی میں مسلسل ارتقاء پیدا کرتا رہے۔ خیر و شر کا معیار بھی یہیں سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ لذت فی نفسہ غیر ہے اور رنج و الم شر ہے۔ زندگی کو مسرت و کلفت کے پیمانوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ ہر وہ فکر یا عمل جو نفس انسانی یا خودی کو استوار کرے، خیر ہے اور ہر وہ فکر یا عمل جو اس میں انتشار یا ضعف پیدا کرے شر ہے۔ انسان کو خدا نے بالقویٰ مسخر کائنات بنایا ہے اس لیے عجز نہیں بلکہ قو ت کے حصول کی طرف قدم اٹھنے چاہئیں۔
۴۔ چونکہ خدائے خلاق واحد ہے، اس لیے حیات و کائنات میں بھی کثرت و تنوع کے ساتھ ساتھ ایک وحدت پائی جاتی ہے۔ نوع انسان جو خدا کا مظہر عظیم ہے، وہ بھی ایک وحدت ہے۔ از روئے قرآن ایک نقش واحدہ تمام نوع انسان کا ماخذ ہے۔ اس لیے ہر وہ نظریہ حیات فساد انگیز ہے جو نوع انسان کو نسل یا رنگ یا زبان یا جغرافیائی حدود کی بنا پر ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ مغرب کی وطن پرستی اور قوم پرستی بت پرستی کے اقسام ہیں۔ وطن اور قوم، دیوتا اور معبود بن گئے ہیں۔ توحید الٰہی اور توحید انسانی کا عقیدہ اور اس پر عمل ہی اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔
۵۔ وحدت انسانی کو قائم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق مساوی ہوں۔ دولت، انسانیت کے وقار کا معیار نہ ہو۔ نوع انسان کی پیدا کردہ دولت اور قوت میں سے سب انسانوں کو حصہ ملنا چاہیے۔
۶۔ اسی وجہ سے اقبال اشتراکیت کے اس پہلو کو پسند کرتا ہے کہ اس نے ملکیت زمین اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا، لیکن وہ اس سے بیزار بھی ہے کہ اس نے خواہ مخواہ مادیت اور الحاد کو اپنے نظریہ حیات اور طریق زندگی کا جزو لاینفک بنایا اور مساوات انسانی زیادہ تر مساوات شکم میں محدود ہو گئی۔ مادیت انسان کی لامتناہی روحانی قوتوں کی منکر ہے اور اس کا نقطہ نظر وہی ابلیس کا زاویہ نگاہ ہے، جو آدم کی لا محدود عرفانی قوتوں کے ممکنات کو نہ دیکھ سکا اور یہ کہنے لگا کہ مجھے تو یہ محض مٹی کا پتلا نظر آتا ہے۔
۷۔ مغربی تہذیب و تمدن کے کار ہائے نمایاں کا اقبال منکر نہیں، لیکن وہ اس ترقی کو یک طرفہ ترقی سمجھتا ہے۔ گزشتہ تین سو سال میں مغرب نے مسلسل مادیت کے نقطہ نظر کو استوار کیا ہے۔ طبعی سائنس کا تعلق ایک جزوی حقیقت سے ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ مغرب کے دل و دماغ پر یہ غلط خیال مسلط ہو گیا کہ زندگی محض مادیت اور محسوسات کا نام ہے۔ وہ اس راز سے بیگانہ ہوگیا کہ حاضر کے مقابلے میں غیب لامتناہی ہے اور جسم و مادہ حیات لامتناہی کے عارضی اور ادنیٰ پہلو ہیں۔ اسی وجہ سے مغرب کی حکمت و حکمت نہ رہی جسے قرآن خضیر کثیر کہتا ہے۔
۸۔ صحیح تعلیم اور حیات بخش تہذیب وہ ہو گی، جس میں مادیت یا عقلیت روحانیت کے زیر نگیں ہو جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ یہ تعلیم یا تہذیب اس دور میں نہ مشرق میں پائی جاتی ہے اور نہ مغرب میں۔ انسانیت کا مستقبل یہی ہے کہ خارجی فطرت کی تسخیر باطنی قوت اور بصیرت کے دوش بدوش کرتی کرے۔ملت اسلامیہ کی بقا اس لیے ضروری ہے کہ فقط یہی ملت ہے جس کو از روے وحی تعلیم دی گئی تھی اور اسی کی بدولت اس کو آناً فاناً حیرت انگیز عروج حاصل ہوا تھا۔ا سی ملت کے ضمیر میں یہ موجود ہے کہ رنگ اور نسل وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں کی تقسیم نہ کی جائے۔ قومیت اور وطنیت کے خلاف اسی نے آواز بلند کی اور اس پر عمل کر کے دکھایا۔ عربوں کے قوت و اقتدار حاصل کرنے اور ہر طرح غلبہ پانے پر نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عرب ہونے پر فخر نہیں کیا بلکہ اعلان کیا کہ کسی عرب کو محض قوم و نسل کی بناء پر کسی عجمی پر فضیلت حاصل نہیں اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی تفوق ہے۔ یہ سبق بعد میں مسلمان بہت کچھ بھول گئے لیکن اب بھی دوسری قوموں کے مقابلے میں ان میں یہ شعور بہت کچھ باقی ہے۔ نوع انسان کو وحدت کا عملی سبق دینے کے لیے یہ لازم ہے کہ یہ ملت مساوات انسانی کا اصلی اسلامی نقشہ پھر بطور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ مظہور انگریز مورخ نائن بی نے اس کا اقرار کیا ہے کہ میرے نزدیک ابھی اسلام کا وظیفہ حیات باقی ہے اور مستقبل میں بھی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور وہ اس لیے کہ نسل اور رنگ اور قومیت کے تعصبات پر جس طرح اسلام اور اسلامی معاشرت غالب آئی ہے اس طرح کوئی اور تہذیب غالب نہیں آ سکی۔ مغرب کو اسی مرض نے فنا کیا ہے جو اس کی سیاست اور تمدن میں لا علاج سا معلوم ہوتا ہے۔ جب تک اس مرض کی خاطر خواہ علاج نہ ہو، نوح انسان کی بقا ہی ممکن نہیں ہوتی۔ا سرار خودی کے انگریز مترجم پروفیسر نکلسن نے علامہ اقبال کو ایک خط میں لکھا کہ تمہارے مخاطب فقط مسلمان معلوم ہوتے ہیں اور فقط انہیں کی اصلاح و بقا تمہارے مد نظر ہے، تمہارا خطاب نوع انسان سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں علامہ مرحوم نے اس کو لکھا کہ نوع انسان میں خاص نظر اور طریق زندگی پیدا کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ پہلے ایک ملت اس کا نمونہ پیش کرے اور میں سمجھتا ہوں کہ اپنے عقائد، اپنی تاریخ اور اپنی معاشرت کے مضمرات کی بناء پر اس ملت میں یہ صلاحیت ہے اور مزید پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ ایک عالم گیر اخوت اور مساوات کی مثال پیش کر سکے، یہاں تک کہ اخوت اسلامی اخوت انسانی بن جائے۔
جب اقبال ملت اسلامیہ کا ذکر بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے سامنے اس ملت کا دور حاضر کا نقشہ نہیں بلکہ اس کی نظر اس اسلام اور اسلامی زندگی پر پڑتی ہے۔ جو رسول اکرم ؐ اور صحابہ کرام کی بصیرت اور ہمت سے ظہور میں آئی۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا یہ صورت مسخ ہوتی چلی گئی۔ اسلام خاص بندگان میں رہ گیا اور جماعت کی زندگی اس سے بہت کچھ ہٹ گئی ہے۔ لیکن اسلام ایک ایسی ہمہ گیر انقلابی اور اسلامی چیز تھی کہ اس کی مدھم صورتوں نے بھی بحیثیت مجموعی صدیوں تک ملت اسلامیہ کو دیگر معاصرانہ ملتوں کے مقابلے میں پیش پیش ہی رکھا یا پھر اقبال کی نظر اس مستقبل پر ہے جس میں اسلام کے حقائق، جو زندگی کے ابدی حقائق ہیں، ارتقائے حیات سے تمام دنیا پر آشکار ہو جائیں گے۔ اقبال کسی خاص قوم یا ملت کا عاشق نہیں، وہ اسلام کا عاشق ہے خواہ وہ کہیں پایا جائے۔ اس وقت اس کو اسلام نہ مشرق میں نظر آتا ہے اور نہ مغرب میں اور مسلمان کہلانے والی ملت تو اس سے خاص طور پر محروم دکھائی دیتی ہے۔ ایک عام قاعدہ ہے کہ اپنی ملتوں کے پرستار ان کی نسبت بڑے کبر و ناز سے بات کرتے ہیں۔ ان کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے اور ان کی اصلی یا موہوم خوبیوں کو وہ چند کر کے دکھاتے ہیں۔ اقبال کی یہ روش نہیں۔ اس کو تو ایک نصب العین اور زندگی میں اس کو متحقق کرنے والے افراد یا اقوام سے واسطہ ہے۔ دیکھئے اپنی ملت کی موجودہ حالت کے متعلق کس قدر افسوس اور قلب مجروح کے ساتھ کہتا ہے:
شوق بے پروا گیا فکر فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے


وہ جگر سوزی نہیں وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے


رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے


آج ہیں خاموش وہ دشت جنون پرور جہاں
رقص میں لیلا رہی لیلا کے دیوانے رہے


وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
نگاہیں نا امید نور ایمن، اور بجلیاں آسودہ دامان خرمن ہو گئی ہیں، ملتوں کی آبرو اور ان کا اقتدار ان کی جمعیت کی بدولت ہوتا ہے جس میں کوئی فرد اپنے تئیں محض ایک فرد نہیں بلکہ عضویہ نظام جماعت کا ایک عضو سمجھتا ہے۔ یہ بات مسلمانوں میں سے غائب ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے وہ رسوائے دہر ہیں:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
کبھی ہجوم یاس میں کہہ اٹھتا ہے:
زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب روشینہ ہو سکتی نہیں
جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے اس ملت مرحومہ کے متعلق کیا کچھ نہیں کہا۔ خدا ایک نصب العینی آدم کی تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ملت کی مٹی اس قابل نہیں معلوم ہوتی:
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
اس ملت کے ہاتھوں میں زور نہیں۔ دل الحاد سے خوگر ہیں۔ نمازوں اور روزوں کی کچھ باطنی یا ظاہری صورت کچھ غریبوں میں نظر آتی ہے۔ دولت و اقتدار والوں کے ہاں یہ شعائر غائب ہیں۔ نئی تعلیم و تہذیب کے دلدادہ مذہب سے روگرداں ہیں۔ علم و فن کی یہ حالت ہے کہ
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
جیسے کفر کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’ الکفر ملتہ واحدۃ‘‘ اسی طرح اسلام اور ملت اسلامیہ کے متعلق یہ بات صحیح ہونی چاہیے تھی کہ ’’ الاسلام ملتہ واحدۃ‘‘ لیکن موجودہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ ذات پات اور قبائل و اقوام کی غیر اسلامی تقسیم و تفریق میں مسلمان مسلمان کا بھائی نہیں رہا۔ شعائر اغیار بھی وہی آنکھوں میں سمائے ہیں جن کے اختیار کرنے میں کوئی نفع نہیں بلکہ صریح گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ نئی پود کی نگاہ طرز سلف سے بیزار اور ان کے انداز حیات کو فرسودہ سمجھتی ہے۔ کسی کے قالب میں سوز اور روح میں احساس نظر نہیں آتا۔ زبان سے کلمہ تو پڑھتے ہیں لیکن پیغام محمد ؐ کا کسی کو پاس نہیں۔واعظ قوم جاہل اور خام خیال ہے، اس کے وعظ میں نہ حکمت کا ساز ہے اور نہ محبت کا سوز۔ موذن کی اذان میں روح ہلالی نہیں، استدلالی بھول بھلیوں والے فلسفے نظر آتے ہیں، لیکن کوئی غزالی اب ملت میں سے نہیں ابھرتا۔ نہ حیدری فقر ہے اور نہ دولت عثمانی۔ جسے دیکھو وہ ذوق تن آسانی میں مست ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملت نے خود کشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔ غیور و خود دار مسلمان نظر نہیں آتے۔ ذرا ذرا سے اختلاف پر شیشہ اخوت پاش پاش ہو جاتا ہے، قوموں کی توقعات اپنے نوجوانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس ملت کے نوجوانوں کا یہ حال ہے:
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے


ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
عہد نو کی بجلی تمام اقوام کہن پر گری ہے۔ تمام قدیم انداز و افکار حیات ایندھن کی طرح جل رہے ہیں۔ ملت اسلامیہ کے پیراہن میں بھی شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ اس آتش نمرود کو ابراہیمی ایمان ہی گلشن بنا سکتا ہے، لیکن اس ملت میں تو وہ ایمان نظر نہیں آتا۔ اصلاح کے آرزو مند کہتے تھے کہ قوم جاہل ہے، جب اس میں تعلیم عام ہو جائے گی تو اس کی حالت درست ہو جائے گی، لیکن تعلیم نے بھی مرض میں اضافہ ہی کیا ہے:
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ


گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ
ملت اسلامیہ میں اسلامیہ میں اقبال کو نام کے مسلمانوں اور درحقیقت غیر مسلموں کا ایک بے مقصود ہجوم نظر آتا ہے:
خوب ہے تجھ کو شعار صاحبؐ یثرب کا پاس
کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں


جس سے تیرے حلقہ خاتم میں گردوں تھا اسیر
اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں


وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح
ہو گئی ہے اس سے اب نا آشنا تیری جبیں


دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا
وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں


تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے
ہے وہی باطل ترے کاشانہ دل میں مکیں
صائب کا ایک شعر ہے:
ہماں بہتر کہ لیلیٰ در بیابان جلوہ گر باشد
ندارد تنگ ناے دہر تاب حسن صحرائی
بانگ درا میں اس پر تضمین کرتے ہوئے اقبال نے اپنی ملت کے متعلق مایوسانہا شعار کہے ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ تو ایسی ملت کو بیدار کرنے کے لیے کیا نوا گری کر رہا ہے جس میں کوئی احساس ہی باقی نہیں۔ اس کے جوان ہمت خواہ ہیں اور نہ اس کے پیر بیدار دل۔ اس محفل میں کوئی نشوونما کا تقاضا نہیں:
کہاں اقبال تو نے آ بنایاں آشیاں اپنا
نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامان رسوائی


شرارے وادی ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن
نہیں ممکن کہ پھوٹے اس زمین سے تخم سینائی


کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی
جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی


قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستان کی
نہ ہے بیدار دل پیری نہ ہمت خواہ برنائی


دل آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں
نواگر کے لیے  زہراب ہوتی ہے شکر خائی


نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستان سے
کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی
اقبال نے اپنا تمام کمال اور تمام جذبہ اپنی قوم کو بیدار کرنے میں صرف کیا۔ کبھی اس کو کامیابی کا گماں ہوتا تھا کہ قوم میں کچھ جنبش پیدا ہوئی ہے اور میری بانگ درا سے یہ کاروان خفتہ پھر جادہ پیمائی کے لیے تیار ہوا ہے۔ پھر کسی وقت چاروں طرف نظر دوڑاتا تھا تو عملی تبدیلی کے آثار کہیں نہ دکھائی دیتے تھے۔ ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور ان کے کچھ احباب علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تقاضا کیا کہ آج آپ سے کچھ تازہ اشعار رسالہ ’’ کارواں‘‘ کے لیے لے کر ٹلیں گے۔ حسن اتفاق سے اس تقاضے کے دوران میں طبیعت میں کچھ تحریک پیدا ہوئی اور فی البدیہہ چند لمحات کے وقفوں میں پانچ سات اشعار کی وہ غزل ہو گئی جس کی ردیف اور قافیہ ہے سمجھتا تھا جب مقطع میں یہ شعر نکلا:
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
تو اقبال پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ زار و قطار رونے لگے۔
جاوید نامہ کے آخر میں جاوید اور نژاد نو کو خطاب کرتے ہوئے بہت دل افروز نصیحتیں کی ہیں اور بتایا ہے کہ زندگی کس قسم کے ذوق و شوق کا نام ہے، لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس زندگی کو اگر مسلمانوں میں تلاش کرو گے تو نہیں ملے گی۔ یہ زندگی قرآن میں سے مل سکتی ہے، مگر قرآن پڑھانے والے روح قرآن سے بے نیاز ہیں۔ نور باطن اور تزکیہ نفس کے لیے اگر صوفیوں کی طرف رجوع کرو گے تو یہ لمبے بالوں والے پیر تجربے سے بھیڑیے ہی ثابت ہوں گے:
در مسلماناں مجو آن ذوق و شوق
آن یقیں آں رنگ و بو آں ذوق و شوق


عالماں از علم قرآں بے نیاز
صوفیاں وزندہ گرگ و مو دراز


گرچہ اندر خانقاباں ہاے و ہوست
کو جواں مردے کہ صۃبا در کدوست
ملا اور صوفی سے نا امید ہو کر اگر مغرب زدہ فرنگی مآب لیڈروں اور نوجوانوں کو دیکھو گے تو ان کو بھی دھوکوں میں مبتلا پاؤ گے۔ یہ موج سراب کو چشمہ کوثر سمجھ کر بے تابانہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ اس سراب سے ان کے دل کی پیاس نہیں بجھ سکتی اور نہ ملت کا چمن سیراب ہو سکتا ہے۔ یہ طبقہ دین سے مطلق بیگانہ ہے، اسی بیگانگی کی وجہ سے ان میں محبت اور ایثار کا فقدان ہے۔ ان کے سینوں میں کینہ ہے عشق نہیں:
ہم مسلمانان افرنگی مآب
چشمہ کوثر بجویند از سراب


بے خبر از سر دین اند ایں ہمہ
اہل کین اند اہل کین اند ایں ہمہ
صوفی، ملا، جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کا طبقہ، بے درد زمینداروں کا طبقہ، جھوٹی جمہوریت میں ابھرنے والے لیڈروں کا گروہ، اگر تمام ملت انہی ’’ ظلوماً جہولا‘‘ پر مشتمل ہے تو احیاء نشاۃ ثانیہ اور بیداری کی توقع کس عنصر سے ہو سکتی ہے۔ میں نے ایک مرتبہ براہ راست علامہ سے عرض کیا کہ یہ ملت اگر ایسی ہی مردہ ہے تو آپ خواہ مخواہ اس کو انجکشن دے کر زندہ کرنے کی سعی لا حاصل کیوں فرما رہے ہیں۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ تمام ملت ایسی نہیں ہے۔ اس ملت میں دین و دنیا کی رہبری کے مدعی تو سب ایسے ہی ہیں جیسا کہ میں نے ان کا نقشہ کھینچا ہے، لیکن اس کے عوام میں بہت اچھی صلاحیتیں مضمر ہیں۔ اگر اس کو کوئی صحیح قسم کے درویش منش، صاحبان بصیرت و ہمت راہبر توفیق الٰہی سے مل گئے تو حیات ملی میں بڑ اانقلاب پیدا ہو جائے گا۔ اسی عقیدے کو انہوں نے کئی جگہ اردو اور فارسی کلام میں پیش کیا ہے۔ خطاب بہ جاوید ہی میں فرماتے ہیں:
خیر و خوبی بر خواص آمد حرام
دیدہ ام صدق و صفا را ور عوام
اردو میں بھی فرماتے ہیں:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اقبال نے اپنی ملت کی حالت زبوں کا ایسا بھیانک نقشہ کھینچا ہے اور اس کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اس کے دل میں ایسی بے زاری پیدا ہوئی ہے کہ اس ملت کے احیاء کی بجائے کبھی کہہ اٹھتا ہے کہ اے خدا اب تو اس کا صفایاہی کر دے تو اچھا ہے:
کہ ایں ملت جہاں را بار دوش است
اس کی تعمیر کا اب ملبہ بن چکا ہے۔ یہ انسانیت کے راستے سے ہٹ ہی جائے تو اچھا ہے، لیکن اس قسم کی بد دعا اس کے دل سے نہیں نکلتی۔ یہ بد دعا ایسی ہی ہے جیسے غصے میں اپنے پیارے بچے کے لیے اس کی شرارتوں اور بد عنوانیوں سے تنگ آ کر ماں کی زبان سے کبھی کبھی نکلتی ہے کہ جا تیری ٹانگ ٹوٹے یا جا تجھے موت آئے، لیکن بچے کو اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بے چین ہو جاتی ہے۔ اقبال کا دل اسلام اور مسلمانوں سے کبھی پوری طرح مایوس نہیں ہوتا۔ اس کا وظیفہ حیات ان یاس انگیز حالات کے باوجود قوم کے دل میں خود اعتمادی اور امید پیدا کرنا ہے۔ وہ یقین کامل رکھتا ہے کہ ملت اسلامیہ کا ایک درخشاں مستقبل ہے کیوں کہ اسلام ایک ابدی حقیقت ہے اور ہزار ٹھوکریں کھا کر بھی آخر اسی کو اسلام کا حامل اور علم بردار بننا ہے، وہ اس پیغام کو بار بار مختلف اشعار میں دہراتا ہے کہ
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

’’جہاں کا فرض قدیم ہے تو ادا مثال نماز ہو جا‘‘