زہد و رندی کی نظم میں اقبال کے متعلق ایک مولوی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا تھا:
ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
مولوی صاحب کو خدشہ اس سے پیدا ہوا کہ اقبال اپنے مذہبی عقائد کو جس انداز میں بیان کرتا تھا وہ عام راسخ العقیدہ ملاؤں اور فقیہوں کے انداز سے الگ تھا اس انداز کا نرالا پن اقبال کے اندر آخر تک قائم رہا، اس انوکھے پن کی وجہ سے وہ شروع ہی میں کہہ رہا تھا:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اقبال کے دینی عقائد کو چند صفحات میں بیان کرنا دشوار ہے لیکن یہ کوشش لازمی ہے۔
اقبال موحد ہے اور توحید میں کسی قسم کے اشتراک کو گوارا نہیں کرتا۔ مسلمانوں میں بعد میں وحدت وجود اور وحدت شہود کی بحثیں چھڑ گئیں، اقبال کے نزدیک یہ بحثیں دینی بحثیں نہیں بلکہ فلسفیانہ مسائل و مباحث ہیں، اسلام میں توحید کے مقابلے میں فقط شرک ہے، وحدت و کثرت کی بحث اسلامی بحث نہیں اور نہ ہی اشاعرہ اور معتزلہ کے یہ کلامی مباحث اصل اسلام سے کچھ تعلق رکھتے ہیں کہ وحدت ذات کے اندر کثرت صفات الٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات۔
اس کے نزدیک خدا ایک نفس کلی یا ایک ’’ انا‘‘ ہے انائے کامل و مطلق فقط خدا ہے، اس کی عینی اور اساسی صفت خلاقی ہے ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ کے معنی اقبال کے نزدیک یہی ہیں کہ اس کی خلاقی مسلسل اور لامتناہی ہے، ’’ کن فیکون‘‘ کی صدا ہر لمحے میں آ رہی ہے۔
انگریزی لیکچروں میں اس نے اس عقیدے کا اظہار کیا ہے کہ خدا اپنی ماہیت میں چونکہ ایک نفس ہے اس لیے وہ نفوس ہی کو خلق کرتا ہے؟ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو قوت و شعور کے لحاظ سے ارتقاء کے مختلف مدارج میں ہیں۔ یہ عقیدہ پہلے مسلمان حکماء و صوفیہ میں بھی ملتا ہے، یہ عقدہ عارف رومی کے اساسی عقائد میں سے ہے چنانچہ مثنوی کے آغاز ہی میں یہ خیال ملتا ہے کہ کائنات ارواح کا ایک نیستان ہے ہر روح خدا ہی میں سے الگ ہوئی ہے اور ا سکے اندر بے تابی اور فریاد کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے اصل کی طرف عود کرنا چاہتی ہے، ’’ کل شی یرجع الی اصلہ‘‘
ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
اسی وجہ سے تمام موجودات میں ایک جذبہ ا رتقاء پایا جاتا ہے۔
’’ انا‘‘ کی سب سے زیادہ ارتقاء یافتہ صورت انسان میں ملتی ہے لیکن چونکہ خدا تک واپسی کا راستہ لامتناہی ہے اس لیے اناے انسانی کے ممکنات ارتقاء بھی لا محدود ہیں۔
انائے انسانی مخلوق ہے لیکن اس میں ابد قرار ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اقبال نے عرفان نفس کا نام خودی رکھا ہے جو اس کی اپنی وضع کردہ اصطلاح ہے؟ خودی کا لفظ اقبال سے پہلے انانیت کے معنوں میں نہیں بلکہ انانیت کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا، اور یہ معنی مستحسن نہیں بلکہ مذموم تھے۔
جذبہ تخلیق و ارتقاء کا نام عشق ہے سعی تخلیق و ارتقاء حرکت کے بغیر ناممکن ہے اس لیے زندگی سراپا حرکت و انقلاب ہے۔
مقصود حیات اور غایت دین انسان کی خودی کو بیدار کرنا اور اس کے جذبہ عشق میں اضافہ کرنا ہے، دنیا ہو یا آخرت، یہ عالم ہو یا وہ عالم، ہر جگہ، ہر حالت اور ہر مقام پر جذبہ عشق اور شوق ارتقاء کا پایا جانا لازمی ہے۔
اسلام اسی لیے ایک دین کامل ہے کہ اس کی تعلیم میں انسان پر زندگی کی ماہیت کو واضح کر دیا گیا ہے اور اس کو تکمیل خودی کے سیدھے راستے بتا دیے گئے ہیں، ان طریقوں کا عرفان جدوجہد ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ قلزم حیات کے کنارے پر بیٹھ کر جو حکمت حقیقت تک پہنچنا چاہتی ہے، اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی اس لیے کہ زندگی حرکت ہے اور سکون سے سمجھ میں نہیں آ سکتی، فقط جدوجہد کرنے والوں کو خدا حقیقت حیات سے آشنا کرتا ہے الذین جاھد افینا لنھد پنھم سبلنا
ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من کیستم
موجے ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر می روم گرنہ روم نیستم
تمام احکام شریعت کا مقصو دیہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ اور قوی بنائے جو طریق عمل اس کی وسعت اور قوت میں خارج ہوتے ہیں ان سے اجتناب کی تلقین کرے۔
اسلام پیش کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خودی تمام انبیاء اور انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار اور استوار تھی، اسی لیے ان کی زندگی نوع انسان کے لیے اسوۂ حسنہ بن گئی۔ اسلام ایک خالص ترین پیغام حیات ہے، نہ نبی کی ترقی کی کوئی انتہا ہے اور نہ عام انسانوں کی ترقی کی کوئی آخری حد ارتقاء جاری ہے اور جاری رہے گا، لیکن نبوت کا مقصد حقیقت حیات کو واضح کر دینے کے بعد پورا ہو گیا، اکملت لکم دینکم کے یہی معنی ہیں۔ اگر قرآن نے واضح طور پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین نہ بھی کہا ہوتا تو بھی وضاحت مقصود دین کے بعد کسی اور نبی کا آنا تحصیل حاصل ہوتا، اقبال بڑی شدت کے ساتھ ختم نبوت کے قائل تھے۔ ایک مغربی مفکر نے اقبال کے عقائد پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ارتقائے لامتناہی کا قائل ختم نبوت کا کس طرح قائل ہو سکتا ہے؟ جب زندگی ابد الآباد تک نئے اقدار نئے انداز حیات پیدا کر سکتی ہے تو کسی ایک شخص کی تعلیم یا زندگی خاتم کیسے ہو سکتی ہے؟ دراصل یہ تناقض ایک ظاہری تناقض ہے، اقبال کے ہاں اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کے لامتناہی ارتقاء اور اس کے لا محدود ممکنات کو واضح کر دینا ہی نبوت کا منتہیٰ تھا۔ یہ کام وپرا ہو گیا تو نبوت بھی لازما ختم ہو گئی خود نبی کے انسان کامل ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی اپنی ذات کے لیے کوئی بلند تر درجہ ارتقاء باقی نہیں رہا۔ ارتقاء کی آخری منزل تو خدا ہے مگر کوئی شخص لامتناہی ارتقاء سے بھی خدا نہیں بن سکتا نہ عمل کی کوئی انتہا ہے اور نہ علم کی اسی لیے نبی مسلسل استغفار بھی کرتا ہے اور ’’ رب زدنی علما‘‘ کی دعا بھی مانگتا ہے۔ عرفان کی بھی کوئی انتہا نہیں اس لیے مدارج میں بھی ’’ ماء فناک حق معرفتک‘‘ کہتا ہے۔
اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک صورت میں جامد کرنا نہ تھا بلکہ اسے لامتناہی انقلاب و ارتقاء کا راستہ بتانا تھا۔ نبوت کا ایک انداز ختم ہو گیا لیکن ارتقائے حیات ختم نہیں ہوا۔ اسلام کے دین کامل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس نے انسانی زندگی کی کوئی آخری صورت معین کر دی بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ تلقین کی کہ کوئی صورت قابل پرستش نہیں:
’’ صورت نہ پرستم من‘‘
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اقبال قرآن کریم کو دین کی ایک مکمل کتاب سمجھتا ہے، اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ فقط قرآن اسلام کے لیے کافی نہیں اور حدیث کے بغیر قرآن کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ صحیح اور مستند احادیث مقاصد قرآن اور مقاصد اسلام کو واضح کرتی ہیں اور خاص حالات پر اسلامی عقائد کا اطلاق ہیں، لیکن جہاں تک اصول اور اساس اسلام کا تعلق ہے، قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں، احادیث کی صداقت و صحت کا معیار بھی قرآن ہی ہے:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
قرآن بھی ماہیت حیات اور نفس انسانی کی طرح اپنے اندر لامتناہی زندگی رکھتا ہے انسانی زندگی کے مزید ارتقاء میں کوئی دور ایسا نہیں آ سکتا جس میں قرآنی حقائق کا نیا انکشاف ترقی حیات میں انسان کی رہبری نہ کر سکے۔ زندگی نو بہ نو صورتیں پیدا ہوتی جائیں گی لیکن قرآن کے اساسی حقائق کبھی دفتر پارینہ نہ بنیں گے۔
اقبال کے ہاں عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ کا تصور بھی عام عقائد سے بہت کھ الگ ہو گیا ہے، وہ جنت کو مومن کا مقصود نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے ابدی عشرت کا مقام خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک جنت یا دوزخ مقامی نہیں بلکہ نفسی ہیں:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ جہاں حرکت و ارتقاء اور مسلسل خلاقی نہیں وہاں زندگی کا فقدان ہے، جنت اگر جز اے اعمال حسنہ ہو تو وہ اس کیفیت نفس کا نام ہونا چاہیے جہاں عرفان خودی، استحکام خودی اور عشق خلاق ترقی یافتہ صورتوں میں پایا جائے، دوزخ خودی کے سوخت ہو جانے کا نام ہے اس لیے نار دوزخ کی ماہیت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ وہ ایک آگ ہے جس کے شعلے کسی خارجی ایندھن سے نہیں بلکہ قلب انسانی میں سے بلند ہوتے ہیں۔
’’ تطلع علی ت الافندۃ‘‘
بقاے روح کی نسبت علامہ اقبال کا خیال تھا یہ بقا غیر مشروط نہیں، جسمانی موت کے بعد روح کا باقی رہنا یا نہ رہنا یاس کا کسی ایک مخصوص حالت میں رہنا انسان کی خودی پر موقوف ہے۔ اگر کسی شخص نے صحیح علم و عمل سے اپنی خودی کو استوار نہیں کیا تو اس کا امکان ہے کہ وہ فنا ہو جائے اور اگر اچھی زندگی سے اس نے اپنی روح کو قوی بنا لیا ہے تو وہ باقی رہے گی۔ کچھ اسی قسم کے خیال کی طرف مثنوی مولانا روم میں بھی ایک اشارہ ملتا ہے وہاں بحث یہ ہے کہ ’’ کل شیی ھالک الا وجہہ‘‘ اور کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام اگر درست ہے تو انسانوں کے انفرادی نفوس کا باقی رہنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں۔ ’’ کل شی ھالک‘‘ کے بعد ’’ الا وجہہ‘‘ موجود ہے لہٰذا انسان کی بقا اسی حالت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ وجہ الٰہی یعنی صفات ذات الٰہی میں داخل ہو کر اپنی زندگی کو قائم رکھے صحیح زندگی بسر کرنا وجہ الٰہی میں داخل ہو کر زندہ رہنا ہے، خواہ وہ اس عالم میں ہو یا کسی اور عالم میں۔ خدا سے باہر رہ کر کوئی زندگی نہیں ہو سکتی اور خدا کے اندر رہ کر زندگی ہی زندگی ہے۔ روح انسانی بقائے ذات الٰہی سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے لیکن یہ عشق الٰہی ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ اقبال بھی کہتا ہے کہ عشق سے انسان اپنی روح کو قوی اور پائدار کرتا ہے اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ فنا ہو جائے گا:
بمیری گر بہ تن جانے نداری
وگر جانے بہ تن داری نہ میری
اسی عقیدے کے مطابق مرض الموت کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کہ میں معالجے سے جسمانی صحت کی درستی میں اس لیے کوشاں ہوں کہ مجھے خدشہ ہے کہ جسمانی اضمحلال اور اختلال میری خودی کو کمزو رنہ کر دے اور اس جسم کو چھوڑتے ہوئے میرا ’’ انا‘‘ ضعیف نہ ہو۔ میں دوسرے عالم میں ایک قوی ’’ انا‘‘ کے ساتھ داخل ہونا چاہتا ہوں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ اس عالم اور دوسرے عالم کے درمیان ایک برزخ ہے لیکن اس برزخ کی وسعت بھی مختلف انسانوں کے لیے مختلف ہوتی ہے شہداء کے لیے کوئی برزخ نہیں وہ براہ راست ایک برتر عالم میں داخل ہو جاتے ہیں۔
جنت کی طرح دوزخ کو بھی اقبال ایک نفسی کیفیت سمجھتا ہے، دوزخ کی آگ نفس ہی کی آگ ہے، اس عقیدے کے بیان میں یہ اشعار ملتے ہیں۔
دور جنت سے آنکھ نے دیکھا
ایک تاریک خانہ، سرو و خموش
طالع قیس و گیسوے لیلیٰ
اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش
خنک ایسا کہ جس سے شرما کر
کرۂ زمہریر ہو روپوش
میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی
حیرت انگیز تھا جواب سروش
یہ مقام خنک جہنم ہے
نار سے نور سے تہی آغوش
شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے
جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش
اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انکار ساتھ لاتے ہیں
اقبال کے نزدیک اسلام کی تعلیم کا ایک اہم حصہ قرآن کریم کے بیان کردہ قصہ آدم میں ملتا ہے۔ اسلام سے قبل ہبوط آدم کی داستان عیسائیوں میں اس انداز سے بیان کی جاتی تھی کہ آدم و حوا جنت میں رہتے تھے، حوا کو شیطان نے بہکایا کہ شجر ممنوعہ کا پھل کھاؤ تو تمہیں خلود حاصل ہو جائے گا۔ حواس کے جھانسے میں آ گئی اور ا سنے آدم کو بھی خدا کی عدول حکمی پر راضی کر لیا،ا س کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدم و حوا گناہ سے ملوث ہو گئے، جنت سے اس عالما رضی میں سزا بھگتنے کے لیے بھیج دیے گئے یہ گناہ ایسا عظیم اور ناقابل عفو تھا کہ تب سے اولاد آدم و حوا میں وراثتاً منتقل ہوتا رہتا ہے۔ کوئی بچہ معصوم پیدا نہیں ہوتا، اس کی روح پیدائش ہی سے آبائی گناہ سے داغ دار ہوتی ہے، عورتوں کی بچہ جننے کی مصیبت اسی گناہ کا نتیجہ ہے اور عورتوں کو یہ سزا اسی لیے ملتی ہے کہ آدم کو حوا ہی نے اس گناہ کے ارتکاب پر راضی کیا تھا۔ یہ گناہ ایسا شدید تھا کہ اعمال حسنہ سے بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہ ہو سکتا تھا؟آخر خدا کے اکلوتے یسوع مسیح نے اپنے آپ ک وبھینٹ بنا کر بطور کفارۂ پیش کیا۔ حضرت مسیح ناکردہ گناہ مصلوب ہوئے تاکہ ان کو ماننے والے دوزخ سے نجات پا سکیں مگر جو شخص کفارہ مسیح کو نہ مانے اس کی نجات اس قربانی کے بعد بھی ممکن نہیں۔ قرآن نے قصہ آدم کو بالکل دوسرے رنگ میں بیان کیا ہے، خلاف ورزی کی کوئی تصریح نہیں، صرف اشارہ کر کے آگے گزر گیا ہے، کیونکہ خلاف ورزی کا داغ فوراً ہی اقبال گناہ سے دھل گیا۔ یہاں یہ تعلیم دینا مقصود تھا کہ گناہ کوئی ہمیشہ کے لیے انسان کو چمٹ جانے والی چیز نہیں، حسنات سے سینات کا اثر زائل ہو جات اہے اور زندگی کا رخ صحیح طرف پھیرنے یعنی توبہ کے بعد عروج کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ چنانچہ آدم کو عفو و در گزر کے بعد اس عالم ارضی میں خدا کا نائب مقرر کیا گیا عیسائیت کا زوال آدم کا قصہ قرآن میں عروج و کمال آدم کی داستان بن گیا ۔ قرآن کا آدم ایک نصب العینی انسان ہے اور اس کی سیرت انسانیت کی نظر گاہ اور اس کی معراج ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصود نیابت الٰہی میں عناصر و ارکان پر حکمرانی یعنی تسخیر فطرت ہے جس کا ذکر قرآن نے وضاحت سے کیا ہے؟ جس طرح فطرت خدا کے ہاں مسخر ہے اسی طرح انسان کی جدوجہد سے بھی اس کو مسخر ہونا چاہیے۔ آدم عشق الٰہی کی بدولت نائب ہوا اور ملائکہ سے زیادہ علم حاصل کرنے سے اس کو ان پر فضیلت حاصل ہوئی؟ ابلیس نے تکبر اور ادنیٰ قسم کی زیرکی سے کام لیا اس لیے وہ مردود و مقہور ہو گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر اور محدود عقل پر ناز شیوۂ ابلیسی ہے جو انسان کو قعر مذلت میں گرا سکتا ہے۔ اقبال کی تعلیم میں وقار آدم اور عروج آدم کا نظریہ ایک مرکزی عقیدہ ہے۔ اقبال نے اس عقیدے پر افکار و تاثرات کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی ہے اور انسانی زندگی کے ممکنات اور تسخیر حیات کو اسلامی تعلیم کی اساس قرار دیا ہے۔ اسلام نے انسان کے اندر اعتماد نفس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے تئیں نائب الٰہی سمجھ کر فطرت پر حکمرانی کرے اور فطرت کے عناصر اور اس کی قوتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے ان کو بلا استثنا قابل تسخیر سمجھے اس قوت تسخیر میں اضافہ اقبال کے ہاں استحکام خودی کی تلقین بن گیا ہے؟ اسلام میں توحید کا عقیدہ اور وقار انسانی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، نہ کوئی فطرت کی قوت انسان کی معبود ہو سکتی ہے اور نہ کوئی ایک انسان دوسرے انسانوں کا معبود بن سکتا ہے۔ انسان کے اوپر خدا کے سوا کچھ نہیں، ’’ لا غالب الا اللہ۔‘‘
حدیث نبوی کے متعلق علامہ اقبال کے زاویہ نگاہ کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ احادیث کے بارے میں افراط اور تفریط نے مسلمانوں کے دو گروہ بنا دیے ہیں، ان دونوں گروہوں کے عقائد میں اعتدال مفقود ہے ایک گروہ علی الاعلان اس کا مدعی ہے کہ حدیث قرآن کا ایک لازمی تکملہ ہے تمام اسلامی کو محض قرآن میں سے اخذ نہیں کر سکتے، اس گروہ میں سے بعض افراد نے یہاں تک غلو کیا ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بتاتے ہیں؟ اس لحاظ سے حدیث قرآں کے مقابلے میں زیادہ مستند ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرا گروہ، جو مقابلتاً قلیل ہے اپنے آپ کو اہل قرآن کہتا ہے اور احادیث کے تمام مجموعے کو نہ صرف نا قابل اعتبار سمجھتا ہے بلکہ مخرب اسلام قرار دیتا ہے علامہ اقبال اس بارے میں نہایت معقول رائے رکھتے تھے، ان کے نزدیک اساسی اور ابدی اسلام قرآن میں موجود ہے اور قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ اس میں تمام باتوں کی تبیین اور تفصیل ہے، ان کے نزدیک بالکل برحق ہے؟ اس سے زندگی کی جزئی تفصیلات مراد نہیں ہو سکتیں اس لیے کہ زندگی کی تفصیلات اس کے تغیرات اور تنوع کی وجہ سے لامتناہی اور نا قابل احصا ہیں قرآن کریم جن تفصیلات پر حاوی اور اپنی تعلیمات کے لحاظ سے جامع اور مانع ہے وہ زندگی کے ان بنیادوں اصولوں کی تفصیلات ہیں جو قوانین فطرت کی طرح ناقابل تغیر اور اٹل ہیں۔ قرآن کریم نے خود وضاحت سے اپنے آپ کو قوانین فطرت اور قوانین حیات انسانی کا آئینہ بنایا ہے اور دین قیم اسی دین کو بتایا ہے جس کے متعلق ’’ لا تبدیل للحلق اللہ‘‘ اور’’ لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا‘‘ کہ سکیں۔ علامہ اقبال قرآن کریم کے بارے میں کسی تنسیخ اور تغیر کے قائل نہ تھے لیکن احادیث اور فقہ کے بارے میں از روے تحقیق اپنے آپ کو آزاد سمجھتے تھے، بہت سی حدیثیں جن کو لوگوں نے مسلم اور مستند سمجھ لیا ہے وہ ان کے نزدیک موضوع اور بے بنیاد تھیں اور بعض دیگر احادیث جن کا استناد ضعیف شمار ہوتا ہے وہ انہیں بصیرت نبوی کا اعلیٰ نمونہ تصور کرتے تھے اور اپنے کلام میں جا بجا ان سے استفادہ کرتے تھے۔ بہت سے مسلمان صوفیہ اور حکما کا بھی اس سے قبل یہی رویہ رہا ہے، مثنوی مولانا روم میں بعض اعلیٰ درجے کے اشعار انہی احادیث کی شرح میں ہیں جو محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ یہی حال امام غزالی علیہ الرحمتہ جیسے بالغ نظر عالم اور حکیم صوفی کا ہے۔ احیاء العلوم اور کیمیاے سعادت پر اکثر محدثین نے یہی اعتراض کیا ہے کہ امام صاحب نے ان کتابوں میں ضعیف حدیثیں بھر دی ہیں۔ معاملات کے متعلق علامہ اقبال جن احادیث کو استناد کے لحاظ سے صحیح بھی خیال کرتے تھے ان کی نسبت بھی ان کی رائے یہ تھی کہ ان کا اطلاق مخصوص حالات پر ہوتا ہے، وہ فقہ اسلامی کے بعض عناصر کو تمام نوع انسانی کے لیے قابل عمل خیال کرتے تھے لیکن بعض فروغ میں وہ اجتہاد کے قائل تھے اور ان کی یہ رائے تھی کہ اجتہاد کا دروازہ بند کر دینے اور اجتہاد کی صلاحیت کے ناپید ہو جانے کی وجہ سے ملت اسلامیہ کو زوال آیا ہے۔
ملت اسلامیہ میں حامیان دین کے دو گروہ عرصہ دراز سے چلے آ تے ہیں ایک کو ملا اور دوسرے کو صوفی کہتے ہیں ملا کا گروہ وہی ہے جسے شیخ کا لقب دے کر شعراء اور متصوفین نے بہت کچھ برا بھل اکہا ہے۔ اقبال ان دونوں طبقوں سے بیزار تھے، انہیں تخریب اسلام کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ ملا پر یہ طعن تشنیع وہ اطراف سے شروع ہوئی، ایک تو اہل دل اور اہل باطن کی طرف سے جنہوں نے دیکھا کہ فقہا اور علم برداران دین کا ایک بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی زندگی میں دین کے کچھ ظواہر تو ملتے ہیں لیکن کہیں بھی ظاہر کی تہ میں تزکیہ اور بصیرت قلب نظر نہیں آتی یہی طبقہ فروعات کے متعلق ایک دوسرے سے بر سر پیکار اور دست و گریبان رہتا ہے، چھوٹے چھوٹے اختلافات پر ایک نیا فرقہ بن جاتا ہے جو اس فرقے سے باہر خدا کے نیک بندوں کی تکفیر کو باعث نجات سمجھتا ہے، ایسے اخلاق والے لوگ بھلا عامتہ الناس کی کیا اصلاح کریں گے؟ او خویشتن گم است گرا رہبری کند ان لوگوں کے پاس دین کا چھلکا ہوتا ہے جو ان کی خوراک بن جاتا ہے لیکن اس چھلکے کے اندر کے گودے سے ان کا کام و دہن آشنا نہیں ہوتا:
جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چوں نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زدند
(حافظ)
ہفتاد و دو طریق حسد کے عدو سے ہیں
اپنا ہے یہ طریق کہ باہر حسد سے ہیں
(ذوق)
حقیقت شناس اہل دل کے علاوہ ایک دوسرا گروہ بھی موقع دیکھ کر اور صوفیہ کے کلام سے شہ پا کر علمائے ظاہر کے خلاف پھبتیاں کسنے لگا، یہ رندوں کا گروہ تھا جو دین کے ظاہر اور باطن دونوں سے بری ہونا چاہتا تھا اس گروہ نے سلایا شنج کو ہدف ظرافت بنا لیا۔ ان کے علاوہ مسلمانوں میں ایک قلیل تعداد حکماء کی تھی جو ملا سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ شعائر اسلام احکام شریعت اور عقائد دینیہ کی حکمت سے نا آشنا ہے اور اسی لیے اس کے اقوال و اعمال تمام تر تقلیدی ہوتے ہیں، حیات و کائنات کے کچھ حقائق کا انکشاف عقل سے ہوتا ہے اور کچھ اسرار حیات ایسے ہیں جو عشق کی بدولت منکشف ہوتے ہیں ملا نے حکمت کو بھی دین سے خارج کر دیا اور محبت خدا و خلق سے بھی بیگانہ رہا۔
تصوف کے سلسلے مسلمانوں میں ظاہر پرستوں کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف متوجہ کیا جائے اور دین کو مرد مومن کے لیے ایک ذاتی تجربہ حیات بنایا جائے تاکہ لوگ محض مقلدانہ طور پر دین کی حقیقت کو تسلیم نہ کریں لیکن جس طرح فقہ میں جمود اور تقلید نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو جامد اور بے روح بنا دیا تھا، اسی طرح تصوف میں غیر اسلامی عناصر نے دخل پا کر اسلامی زاویہ نگاہ کو خراب کیا اور رفتہ رفتہ تصوف جو تحقیق سے شروع ہوا تھا، خود ایک دوسری قسم کی تقلید بن گیا اور تصوف کے سلسلے بھی جامد ہو گئے دونوں طبقوں نے دین کو دنیاوی منافع اور مفاد حاصل کرنے کے لیے دام تنزویر بنا لیا۔
ملا کہلانے والا طبقہ تو در حقیقت قابل رحم ہے؟ ایک طرف حکومت یا دولت والوں کی طرف سے اس کی کوئی سرپرستی نہیں اور دوسری طرف بے چارے ملا کی تعلیم نہایت محدود ہوتی ہے، مفلسی اور کم علمی کی وجہ سے وہ سوسائٹی میں بے حیثیت ہو گیا ہے، اس سے مسجد کی صفائی اور مردہ شوئی کا کام لیا جاتا ہے، حقوق و فرائض کے متعلق اس کا علم بہت خام ہوتا ہے، کئی اسباب اس کی ذہنی اور اخلاقی پستی کے ذمہ دار ہیں، فیضی اس کے متعلق کہتا ہے:
مشاجرات فرائض کہ کس نخوانا دش
زمن مجوے کہ ایں علم مردہ شویان است
اچھی معیشت اور اچھے گھرانوں کے لوگ اپنے بیٹوں کو ملا بنانا نہیں چاہتے اس لیے کہ ملا کے لیے نہ عزت کی روزی ہے اور نہ سوسائٹی میں وقار؟ یہ لوگ زیادہ تر ایسے ہی طبقوں سے آتے ہیں جن میں تعلیم و تربیت نہیں اور خود داری پیداکرنے والی دنیاوی وجاہت نہیں؟ پھر یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے اور کہ ان بے چاروں سے لوگ بلند خیالی اور بلند حوصلگی کی توقع رکھتے ہیں اور جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ان کو متہم کر کے ان پر فقرے کسنے لگتے ہیں۔ جب تک حکومت اور ملت علوم دینیہ میں زندگی وقف کرنے والوں کے لیے باوقار روزگار اور اجتماعی وقار کا بندوبست نہ کرے تب تک ان کی حالت ایسی ہی ناگفتہ بہ رہے گی۔
کچھ ہوشیار ملا ایسے بھی ہیں جنہوں نے د نیا طلبی کے لیے سیاسی لیڈری شروع کر دی ہے، اس طریقے سے روزگار کا بھی اچھا بندوبست ہو جاتا ہے اور سوسائٹی میں بھی چرچا ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے یہ افراد سیاست میں دخل انداز ہوتے ہیں ویسے ویسے رہا سہا دین بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے؟ کسی صحت مندانہ سیاست کی ان سے توقع نہیں ہو سکتی کیونکہ جتنے یہ دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں صدیوں پہلے ابن خلدون نے ان کے متعلق فتویٰ دیا تھا کہ (العلماء ابعد الناس عن السیاستہ) موجودہ دنیا میں سیاست ایک بڑی پیچدار چیز بن گئی ہے۔ معاشیات کے پیچ در پیچ مسائل اس کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں، اسلامی بنا پرسیاست اور معیشت میں قابل عمل مشورہ دینے کے لیے علوم جدیدہ اور حالات حاضرہ سے گہری واقفیت درکار ہے جو اس گروہ میں نہیں پائی جاتی، ملت اسلامیہ کی خرابی یہ ہے کہ اہل سیاست دین سے بیگانہ ہیں اور مدعیان دین سیاست کی ابجد سے واقف نہیں۔
ملا کے علاوہ ہمارے ہاں کے صوفی ہیں جنہیں لوگ پیر کہتے ہیں۔ پیری کا سلسلہ اکثر کسی اہل دل سے شروع ہوتا ہے جو تزکیہ باطن اور بصیرت روحانی کی بدولت مرجع خلائق بن جاتا ہے؟ ایسے شخص میں شق الٰہی، اصلاح ذات اور فلاح خلق کے سوا اور کوئی جذبہ یا محرک نہیں ہوتا، وہ انبیاء کی طرح لوگوں سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوتا، اس مرد خدا کے گزر جانے کے بعد اس کی اولاد اس کی جانشین ہو جاتی ہے اور سجادہ نشینی ایک قسم کی جاگیرداری بن جاتی ہے، عقیدت مند نقدی اور نذرانے بھی پیش کرتے ہیں، جو رفتہ رفتہ ایک مستقل ٹیکس کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ زمینوں کے عطیے سے اوقاف قائم ہو جاتے ہیں، پھر کسی طرح سے یہ اوقاف پیروں کی ذاتی ملکیت بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ سجادہ نشین صاحب جاگیر ہو جاتا ہے اور سرمایہ داروں کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے، جہالت کی وجہ سے معتقدین کے اعتقاد میں کچھ خلل نہیں آتا، رفتہ رفتہ ہر شخص (الا باستثناے مردے چند) جس کو پیری ورثے میں ملی ہے اس کو زمینداری اور امیری بھی ورثے میں مل جاتی ہے، حکومت کی طرف سے بڑے بڑے خطابات حاصل ہوتے ہیں پھر کونسلوں میں داخل ہو کر پیری کے بعد وزیری کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
اقبال کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ مسلمانوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک طبقہ پیدا ہو لیکن اس اہم فریضے کے لیے اہل دل اور اہل علم ہونے کی ضرورت ہے اور زبردست جذبہ ایثار اس کے لیے لازم ہے۔ جب وہ دیکھتا تھا کہ عوام کو دین کی خبر نہیں (اگرچہ اس بے خبری کے باوجود ان کے اخلاق خواص سے کچھ بہتر ہی ہوتے ہیں) اور حامیان شرع متین ملا اور صوفی کا یہ حال ہے تو بعض اوقات مایوسی میں یہ پکار اٹھتا تھا کہ اے خدا اس ملت کو دنیا سے اٹھا لے اور حسب وعدہ کوئی اور ملت اسلام کی خدمت کے لیے پیدا کر:
کہ ایں ملت جہان را بار دوش است
اقبال نے ملا کی نسبت عام شاعروں کی طرح فقط لطیفہ بازی نہیں کی، اس نے جو کچھ کہا ہے وہ بربناے بصیرت اور بربناے تجربہ کیا ہے، اس کا انداز ظریفانہ نہیں بلکہ اس کی تہ میں درد و رنج ہے، اکثر اشعار میں ملا پر جو اعتراض کیا ہے اس کی وجہ بھی بتائی ہے۔
ملا میں رواداری نہیں ہوتی:
کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
ملا کے خدا کا تصور بھی ادنیٰ تشبیہی اور مکانی تصور ہے:
بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ
خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
بھلا نبھے گی تری ہم سے کیوں کر اے واعظ
کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں
اسلام کا خدا رب العالمین اور اس کا نبی رحمتہ للعالمینؐ ہے، تنگ نظری نے خدا کو صرف رب المسلمین اور نبی کو صرف رحمتہ للمسلمین بنا دیا اور یہ رحمت بھی تمام مسلموں کے لیے نہیں بلکہ اپنے فرقے کے چند افراد کے لیے ہے بشرطیکہ وہ تمام فروع میں آپ کے ہم خیال اور ہم نوا ہوں۔ اسلام کا تقاضا یہ تھا کہ رسم محبت کو عام کیا جائے اور عدل و رحم کو صرف اپنے گروہ تک محدود نہ رکھا جائے، تنگ نظر علما نے محبت کو عام کرنے کی بجائے نفرت کو عالمگیر بنا دیا اس لیے کہ خلق خدا کی کثیر تعداد تو کسی ایک ملت اور ایک فرقے سے خارج ہی ہوتی ہے، نفرت اور تکفیر کا بازار گرم ہو گیا، جو تم سے پوری طرح متفق نہیں اس کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھو، جو فلاں امام کے پیچھے نماز پڑھے گا اس کی بیوی پر طلاق عائد ہو جائے گی، مسجدوں میں اس مضمون کے بورڈ لگنے شروع ہو گئے کہ مسلمانوں کے فلاں فلاں فرقوں کے افراد کے لیے اس مسجد میں نماز پڑھنا ممنوع ہے (ایک بڑی مسجد میں اس قسم کا بورڈ راقم الحروف نے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا ہے) بلند آواز سے آمین کہنے پر لوگ مسجدوں میں ہی پٹ گئے اور اس کے بعد مسجد کو غسل دیا گیا کہ بلندی آمین کی ناپاکی رفع ہو جائے؟ مسلمان غیر مسلموں سے تو کسی قدر رواداری برتنے بھی لگے لیکن اپنی ملت کے اندر تشدد میں اضافہ کرتے گئے، نئے متنبی اور مجدد ایسے نکلے کہ ملت کے اندر اتحاد کو ترقی دینے کی بجائے افتراق کی آگ کو ہوا دینے لگے، جو ان کے دعوؤں کو نہ مانے وہ خداو رسول ؐ کو ماننے کے باوجود کافر یا کم از کم یہ کہ اس سے معاشرتی تعلقات منقطع کر لیے جائیں، رشتہ ناطہ بند، نماز میں شرکت ممنوع اور یہ سب کوشش احیائے ملت اور تجدید دین کے نام پر اگر اسلام دیگر مذہب کے مقابلے میں رسم محبت کو عام کرنے کا نام نہیں ہے تو پھر اس میں اور کونسی فضیلت باقی رہ جاتی ہے۔
ایک شعر میں اقبال نے کہا ہے کہ محبت کی فراوانی اور جہانگیری ہی کا نام اسلام ہے، اسلام نے تو عملاً رواداری کو ترقی دینے کے لیے یہاں تک اجازت دے دی تھی کہ ایک اہل کتاب عورت تمہاری اولاد کی ماں ہو سکتی ہے اور اس کی خدمت مسلمان اولاد کے لیے ویسی ہی فرض ہے جیسی کہ اس ماں کے مسلمان ہونے کی حالت میں ہوتی، لیکن ملائی اسلام نے اس دین کو اتنا تنگ کر دیا کہ فقہی اور فروعی اختلافات کی بناء پر ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا، خدا کی عبادت کرنا اور بیاہ شادی ممنوع و مقطوع ہو گئی۔ جن مکتبوں میں ایسی تعلیم دی جاتی ہے ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایسی تنگ نظری میں رعنائی افکار کہاں سے آئے گی؟ عجیب بات یہ ہے کہ یہ رواداری خانقاہوں سے بھی مفقود ہو گئی ہے حالانکہ یہی خانقاہیں اچھے زمانوں میں کبر و نصاریٰ اور یہود و ہنود کے لیے بھی کشش کا باعث تھیں، کثرت سے غیر مسلم صوفیہ کی رواداری اور حسن سلوک ہی کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے:
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟
پیروں کے ہاں اب قوالی تو ہوتی ہے لیکن وہاں خود انگیختہ وجد و حالی کی تہ میں کہیں پائدار روحانی عشق کا جذبہ نہیں ابھرتا جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے خانقاہوں میں اب کرامات کا بیان بیچا جاتا ہے اور یہ کرامات جن کا حقیقی روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں روحانیت کا معیار بن گئی ہیں ملا بیچارہ ظاہر پرستی سے بے عرفان اور محروم عشق رہ گیا اور صوفی کی باطنیت فقط ہو حق اور کرامات کا افسانہ بن گئی:
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ باے کرامات رہ گئے باقی
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
اقبال صرف صوفی اور ملا ہی سے بیزار نہیں وہ ان فلسفہ سے بھی کچھ توقع نہیں رکھتا جو فقط عقل جزوی اور استدلال کی بناء پر حقیقت رس ہونے کے مدعی ہیں۔ ایسے فلسفے سے دماغ کی ورزش تو ہو جاتی ہے لیکن دل محبت اور بصیرت سے بیگانہ ہو کر مردہ ہو جاتا ہے:
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد
اقبال کے نزدیک اسلام سراپا حرکت ہے اور ہمہ سمتی جدوجہد کا نام ہے۔ حفاظت دین اور حمایت حق میں تلوار اٹھانا اس جہاد کا فقط ایک ہنگامی پہلو ہے۔ ہمارے فقہا اور حامیان دین کے لیے کوئی اچھا میدان عمل باقی نہ رہا، نہایت دور از کار باتوں پر معرکہ آرائی شروع کر دی اور مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانا ان کے لیے جہاد کا بدل بن گیا:
میں جانتا ہو انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
دین کے مدعی ایسے ہی لغو معرکوں میں حریفوں کو شکست دے کر غازی بن بیٹھے۔
تصوف کی بابت اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی یہ بات کہی ہے کہ روحانی وجدان حاصل کرنے کے لیے صوفیوں کے قدیم سلسلے کار آمد نہیں رہے:ـ
تیری طبیعت ہے اور، تیرا زمانہ ہے اور
میرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ
دور حاضر کے انسانوں کی نفسیات میں بہت کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے اب روحانی ترقی کے حصول کے لیے پرانے طریقوں کے افکار اور صوفیانہ مشقیں کار آمد نہیں رہیں:
تھا جہاں مدرسہ شیری و شہنشاہی
آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی
اقبال کو یقین تھا کہ اس شمشیر برہنہ تنقید کی وجہ سے تمام فقہا ان کے مخالف ہو جائیں گے لیکن یہ صورت حال پیدا نہ ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ شعر میں کہا اور مسلمانوں کی ذہنی روایات میں عرصہ دراز سے یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ شعر میں جو کچھ کہا جائے وہ معارف ہے۔ رندی و ہوس ناکی ہو یا کفر، یاعناں گسیخنہ آزاد خیالی اور بے راہ روی، اگر اس کا بیان شعر میں ہو تو مسلمان اسے شیر مادر کی طرح پی جاتا ہے لیکن وہی بات اگر نثر میں کہی جائے تو پھر جان و آبرو کی خیریت نہیں، خوش قسمتی سے اقبال کی یہ توقع کہ:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف
پوری نہ ہوئی۔ ہاں اگر فقہ و تفسیر و حدیث پر نثر میں کچھ لکھتے تو سید احمد خاں سے کہیں زیادہ ہدف ملامت بنتدے نثر میں لکھنے کے ارادے ہی کرتے رہے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا، ملت اسلامی کی تشکیل نو کے متعلق خطبات انگریزی میں لکھے اور وہ بھی ایسے فلسفے کی زبان میں جو ملا تو درکنار اعلیٰ انگریزی داں طبقے کے لیے بھی آسانی سے قابل فہم نہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کو اردو زبان میں منتقل کرے کیوں کہ ان کو خطرہ تھا کہ بغیر تشریح و توضیح ان سے شدید غلط فہمی پیدا ہو گی:
میں جانتا ہوں جماعت کا محشر کیا ہو گا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
اس میں شعر میں یہ شکایت ہے کہ زندگی کے حقیقی مسائل عملی ہوتے ہیں اور خیر و شر کا معیار بھی عمل ہی سے قائم ہوتا ہے لیکن جب کسی قوم کی قوت عمل میں ضعف آ جاتا ہے تو فقہا، خطیب او رحکما نظری بحثوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
ملا میں لفظی اور فروعی بحث و تکرار کا شوق اس قدر غالب ہے کہ اگر وہ یہی سیرت لے کر جنت میں بھی داخل ہوا تو اس کو اس دار السلام میں بھی کچھ لطف نہ آئے گا، وہاں صلح و سکون کی فضا میں بحث و تکرار کی گنجائش نہیں اور مذاق فتنہ کے لیے تسکین کا سامان نہیں:
ملا اور بہشت
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت
عرض کی میں نے الٰہی مری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت
نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقول
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنشت
اقبال کو اس کا افسوس ہے کہ متصوفین نے تصوف کو خراب کیا، شریعت کے حامیوں نے اس کی وسعت، اس کی حکمت اور اس کے جمال کو مسخ کیا اور متکلمین کے علم کلام مے اسلام کو عجمی اور یونانی افکار کا گورکھ دھندا بنا دیا اب یہ حال ہے کہ ہر ایک سنہ کے لیے پرانی لکیریں ڈھونڈتا ہے:
’’خیال زلف بتاں میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر‘‘
علم و عشق دونوں غائب ہیں اور ملت میں فقط روایت پرستی رہ گئی ہے:
تمدن تصوف شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اب تسبیح و مناجات میں بھی روح باقی نہیں رہی، تسبیح کی دانہ شماری ایک میکانکی فعل بن گیا؟ ایران، عربی ممالک اور ترکی میں یہ رواج عام ہے کہ ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے، دنیا داری کی لغو باتیں ہو رہی ہیں لیکن ہاتھ میں سبحہ گردانی جا ری ہے۔ میں نے ان ممالک میں کئی مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ تم اس تسبیح میں کیا ذکر یا ورد کر رہے ہو؟ ہمیشہ جواب یہی ملا کہ یوں ہی عادت ہو گئی ہے، ہم پڑھتے کچھ نہیں، معلوم ہوا کہ جمادات و نباتات کی طرح ایک غیر شعوری حرکت ہے:
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات
جن طرہ باز، خطاب یافتہ، جاگیر دار پیروں کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، وہ پنجاب میں کافی تعداد میں ملتے ہیں۔ اگرچہ ان کا جو زور شور سندھ میں ہے وہ شاید کہیں اور نہیں۔ بنگال میں بھی پیروں کا کافی دور دورہ ہے لیکن غالباً وہاں ان کو زیادہ امیری اور جاگیرداری میسر نہیں آئی۔ اقبال کو پنجاب کا تجربہ تھا اس لیے یہاں کی پیری کے متعلق ایک مستقل نظم لکھ دی ہے:
پنجاب کے پیرزادوں سے
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم میں ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار
کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں میری بینا ہیں و لیکن نہیں بیدار
آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہوا بند
ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار
عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں
پیدا کلہ فقر سے ہو طرۂ دستار
باقی کلہ فقر سے تھا ولولہ حق
طروں نے چڑھایا نشہ خدمت سرکار
اسلام کی نسبت علامہ اقبال کے افکار حکیمانہ ہیں۔ انگریزی خطبات میں بھی اور اشعار میں بھی جا بجا یہ زاویہ نگاہ ملتا ہے کہ اسلام ماہیت حیات و کائنات کے عرفان اور اس کے مطابق زندگی کے رحجان اور میلان کا نام ہے۔ جس طرح طبیعیات کے قوانین بلا امتیاز مذہب و ملت سب پر مساوی عمل کرتے ہیں، اسی طرح اخلاقیات اور روحانیات کے آئین بھی عالم گیر ہیں۔ اسلام کسی ایک قبیلے کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کا مذہب نہیں۔ ریاضیات کی طرح اس کی صداقتیں بھی کائنات کے ہر شعبے پر حاوی ہیں۔ قرآن کریم نے اسلام کے عالمگیر ہونے کو جا بجا بیان کیا ہے۔ جب وہ ’’ فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا‘‘ کہہ کر اس کو دین قیم قرار دیتا ہے تو وہ انسانوں کے کسی مخصوص گروہ کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ اسے تمام نوع انسان کا دین قرار دیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اسلام کائنات بھر کا دین ہے۔ ’’ یسبح للہ ما فی السموات وما فی الارض‘‘ کائنات میں ہر شے کی تسبیح خوانی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان سے باہر لامتناہی کائنات کا بھی ایک دین اور یہ دین بھی مشیت و آئین الٰہی کی پابندی ہے۔ از روئے قرآن اطاعت طوعاً بھی ہوتی ہے اور کرھاً بھی۔ عبادت اختیار سے بھی ہو سکتی ہے اور جبر سے بھی۔ اسلام سے قبل مختلف ادیان نے جنت اور نجات کو اپنے لیے مخصوص کر لیا تھا اور ہر گروہ میں یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا کہ وہ گروہ اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے خدا کی مخصوص اور منتخب قوم ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی وہی اجارہ داری ہے۔ ادیان کی تاریخ میں سب سے پہلے قرآن کریم نے اس اجادہ داری کو توڑا اور واضح الفاظ میں اس خیال باطل کا قلع قمع کیا کہ اجر و نجات کسی ایک ملت کا اجارہ ہیں خواہ اس کے اعمال کچھ ہی ہوں۔
قالت الیھود لیست النصاریٰ علی شیی وقالت النصاریٰ لیست الیھود علی شیی وھم یتلون الکتاب کذالک قال الذین لا یعلمون مثل قولھم (۲:۱۱۳)
’’ یہودی کہتے ہیں کہ نصاری کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں حالانکہ یہ دونوں ہی فریق کتاب الٰہی پڑھتے ہیں۔‘‘
ان الذین امنو والذین ھادوا والصابئون والنصاریٰ من آمن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحاً فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون (۵:۶۹)
جو مسلمان ہیں او رجو یہودی ہیں اور صابی اور نصاریٰ ان میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو ان پر نہ کوئی خوف ہے نہ یہ غمگیں ہوں گے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اگر اسلام کو اسی طرح کا ایک عالم گیر دین قرار دیتا ہے جو قانون فطرت کی طرح تمام انسانوں کی زندگی پر حاوی ہے تو ملت اسلامیہ میں کیا خصوصیت اور امتیازی شان ہے کہ وہی ہمیشہ تمام نوع انسان پر فائق رہے؟ اس کا جواب قرآن کریم سے بھی مل سکتا ہے اور اقبال کے کلام میں بھی کئی مواقع پر اس کا حل موجود ہے۔ قرآن کریم میں صاف طور پر تنبیہہ موجود ہے کہ اے ملت مومنین! تمہاری فوقیت اور تمہارا شہدا علی الناس ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ تم آئین الٰہی کی پابندی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لائحہ عمل بناؤ۔ جب تم میں یہ بات نہیں رہے گی تو اسلام کسی اور ملت کے حوالے کر دیا جائے گا جس کے عقائد و اعمال خدا کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوں۔
ملت اسلامیہ کی جو موجودہ حالت ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں۔ اس کے اندر مرور ایام سے جو عیوب پیدا ہو گئے ہیں، اس کے عقائد میں اب جو فساد ہے، اس کے اعمال میں اب جو اختلال و انتشار ہے اس کا درد ناک احساس اقبال کے اشعار میں جا بجا ملتا ہے۔ پہلے شکوہ اور جواب شکوہ پر نظر ڈالیے۔ شکوہ اسی ذہنیت کا آئینہ د ار ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں اور دوسری امتوں میں پائی جاتی تھی کہ ہم خدا کی منتخب قوم ہیں۔ ہم ہی خدا کے بیٹے ہیں لہٰذا دوسروں کے مقابلے میں ہمیں کسی حالت میں ذلیل اور بے بس نہیں ہونا چاہیے اعمال کا کوئی سوال نہیں ہمارے عقائد تو برقرار ہیں۔ ہم بھی اپنے خدا کو مانتے ہیں۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو برحق سمجھتے ہیں اور اس کی نازل کردہ کتاب کو سراپا صداقت یقین کرتے ہیں۔ خدا کو یہ تو نہیں چاہیے تھا کہ اپنوں کو ذلیل کر دے اور تمام نوازشوں کی بارش اغیار ہی پر کرے۔ اقبال کا شکوہ اس کے اپنے قلب کی گہرائیوں میں سے نکلتی ہوئی آواز نہیں ہے۔ اس شکایت میں اس نے فقط عامتہ المسلمین کی غیر شعوری کیفیت کو بیان کیا ہے کہ مسلمان یوں محسوس کرتے، یوں کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اس شکوے میں مسلمانوں نے اپنے اعمال کی کوتاہی کو نظر انداز کیا ہے یا اسے بہت مدھم انداز میں بیان کیا ہے۔ زیادہ تر شکایت کا انداز یہی ہے:
’’ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے‘‘
اپنوں کے ساتھ تو ایسی بدسلوکی نہیں ہونی چاہییـ:
’’با بندۂ خود ایں ہمہ سخنی نمی رسد‘‘
اس میں جن کارناموں کو زور شور سے بیان کر کے اپنا حق جتایا ہے وہ سب اسلاف کے کارنامے ہیں۔ تلک امتہ قد خلت اپنی موجودہ زندگی میں سے ایک خوبی کا بھی نشان نہیں دیا۔ برائیوں سے انکار تو نہیں کر سکتے تھے لیکن اپنا بچاؤ وہاں یہ پیدا کیا ہے کہ اگر یہ سب تذلیل گنہگاری کی پاداش ہے تو عصیاں کار صرف ہم ہی نہیں:
امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
شکوہ میں اخلاق و ایثار و جہاد فی سبیل اللہ کے جتنے دعوے ہیں وہ اسلاف کے متعلق تو درست ہیں لیکن اخلاف کے متعلق سر بسر بے بنیاد ہیں۔ ایسے دعوے اقبال کی طرف سے تو پیش نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ سب کوتاہ اندیش اور خود شناسی سے محروم مسلمانوں کے بے بنیاد دعوے ہیں۔ یہ کس قدر سفید جھوٹ ہے کہ سلمان، اویس قرنی اور بلال حبشی ہم ہی ہیں اور توحید کے امین ہم ہی چلے آ رہے ہیں، محض اس لیے کہ منہ سے لا الٰہ الااللہ کہتے ہیں:
تجھ کو چھوڑا کہ رسولؐ عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو عشق کی آشفتہ تری کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟
آگ تکبیر کے سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
مسلمانوں میں ایک جاہل اور ملائی طبقہ ایسا ہے جو یہ کہہ کر طبیعت کو خوش کر لیتا ہے کہ دنیا چند روزہ ہے۔ فرنگیوں اور کافروں کا یہ جاہ و جلال اور ان کی مساعی کی یہ خلد آفرینی اور مسلمانوں کے مصائب سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ’’ الدنیا سجن المومنین و جنت الکافر‘‘ دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ دوسری قوموں کا یہ عیش و اقتدار کیا ہے:
ہنگامہ گرم ہستی نا پائدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا
اس کے بعد ابد الا باد تک قائم رہنے والی جنات النعیم اس کا حصہ ہیں۔جو لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوا اس دنیا سے عبور کر گیا ہے، لیکن اقبال کے ہاں دین کا یہ تصور نہیں اور وہ اس ابلہ فریبی کے عقیدے کی لپیٹ میں نہیں آتا۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں مومن کا حق ہیں۔ جو سچے مومن تھے ان کو دنیا میں غلبہ بھی حاصل ہوا اور دنیا کی تمام جائز اور حلال نعمتیں بھی ان کو حاصل ہوئیں، وہ وارث ارض بھی بنے۔ دنیا کی دیگر اقوام جب جھونپڑوں میں رہتی تھیں تو یہ صاف ستھرے مکانوں میں رہتے تھے۔ دوسری قومیں چیتھڑے لٹکائے پھرتی تھیں یا ننگی تھیں تو مسلمان خوش پوش تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ پارچہ بافی کی صنعت کے موجد تھے۔ اسلام رہبانیت کا دین نہیں وہ بے نوائی اور بے سر و سامانی کو روحانیت کا لازمہ قرار نہیں دیتا۔ اسی لیے اقبال کو بجا طور پر اس کا رنج ہے اور وہ زندگی سے لطف اٹھانے والی قوموں پر رشک کرتا ہے:
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمہ کو کو بیٹھے
دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے
اپنے ویرانوں کو بھی ذوق خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
ایک اور شعر میں بھی اقبال مغرب کی متمدن اور مہذب زندگی پر رشک کرتے ہوئے خدا سے کہتا ہے:
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
مسلمانوں کے اعمال اور ان کی سیرت کا صحیح نقشہ وہی ہے جو جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ خدا نے مسلمانوں کے ایک ایک دعویٰ باطل کو توڑا ہے اور شکایت بے جا کا جواب دیا ہے۔ تم کہتے ہو کہ خدا اغیار پہ کرم کرتا ہے اور ہم پر نہیں کرتا۔ حصول کرم کے لیے کچھ لازمی شرائط ہیں۔ کوئی رستہ چلنے والا ہو تو اس کی منزل کی طرف رہنمائی بھی کی جائے۔ کوئی جوہر قابل ہو تو اس کی تربیت کا سامان بھی خدا کی طرف سے مہیا ہو جائے۔ جن میں قابلیت ہوتی ہے ان کو عظیم الشان سلطنتیں دی جاتی ہیں اور جویندی یابندہ کے اصول عالمگیر کے مطابق ڈھونڈنے والے نئی دنیا بھی تلاش کر لیتے ہیں، جیسے کہ کولمبس نے کیا:
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
تم اس کے مدعی ہو کہ توحید کی امانت کے تم امین ہو اور تکبیر کی آگ تمہارے سینے میں دبی ہوئی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ مجھے عملاً توحید نہیں بلکہ الحاد ہی نظر آتا ہے۔ منہ پر لا الٰہ الا اللہ اور دل میں صنم خانہ حرص و ہوا:
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں
تم کو شکایت ہے کہ اغیار اچھے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اچھے گھر تو علم و فن اور ہمت سے بنتے ہیں۔ تم علم و فنون سے بے بہرہ ہو گئے ہو اس لیے تمہارے پاس اچھے گھر بھی نہیں:
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
عقائد و اعمال کا مجموعی نام اسلام ہے۔ مسلمانوں کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ فطرت کی تعلیم تھی۔ یہ تعلیم وحی سے بھی حاصل ہوتی ہے اور از روئے قرآن مشاہدہ فطرت اور تحقیقی تفکر سے بھی۔ اگر وہ وسیع آزاد اور پاکیزہ ہو تو معرفت کا ذریعہ ہے۔ جس کی فطرت سلیم ہو اس میں سے اخلاق حسنہ خود بخود ابھرتے ہیں۔ علم و فنون سے زندگی میں بے شمار بھلائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ خوبیاں انہیں میں پائی جائیں جو محض حادثہ ولادت سے مسلمان کہلانے والے لوگوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں۔ اخلاقی خوبیاں اسلام کی تلقین سے پہلے تمام اقوام کے اچھے افراد میں موجود تھیں۔ چنانچہ رسول کریم ؐ نے فرمایا:
’’ اے گروہ مومنین تم میں اسلام لانے کے بعد بھی وہی لوگ اچھے ہیں جو از روے فطرت اس دین میں داخل ہونے سے قبل بھی اچھے تھے‘‘ خیار کم فی الجاھلیتہ خیار کم فی الاسلام
حضرت عمر فاروقؓ میں اگر عدل کا جوہر پہلے سے موجود نہ ہوتا تو اسلام میں داخل ہونے کے بعد یک بیک کہاں سے پیدا ہو جاتا؟ اسلام نے اس کو قوی اور منور کر دیا۔ اسی طرح اور صحابہ کرام کی سیرتیں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو پہلے دروغ گو ہو اور پھر راست گفتاری کا شیوہ بعد از قبول اسلام اختیار کیا ہو۔ اسلام نے لوگوں کی فطری صلاحیتوں کو اچھے اور وسیع اغراض و مقاصد میں لگا دیا۔ اسلام کامل تو کسی مرد کامل ہی میں ہو سکتا ہے لیکن اس کے بہت سے اجزاء میں سے وہ انسان بھی بہرہ اندوز ہو سکتے ہیں جو پیدائشی مسلمان نہیں ہیں، لیکن فطرت اور تجربہ حیات نے ان کو صحیح راستوں کی طرف راہنمائی کر دی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ پیدائشی مسلمانوں میں اسلام کا ایک چوتھائی حصہ پایا جائے جو زیادہ تر اقرار باللسان پر مشتمل یا بعض شعائر اسلام کی ظاہری پابندی میں محصور ہو اور تین چوتھائی حصہ کسی ایسے شخص کے اقوال و اعمال میں نمایاں ہو جو اتفاق سے اس امت میں پیدا نہیں ہوا جو اسلام کا نام لیوا ہے۔ صحیح بخاری میں دو تین احادیث ہیں جن میں رسول کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ اعمال صالحہ ایمان کا قریباً تین چوتھائی حصہ ہیں۔ اسی اصول کے مطابق جواب شکوہ میں شاکی مسلمانوں کو خدا نے ڈانٹ کر کہا ہے کہ تو کہتا ہے کہ غیر مسلمان کو اسی دنیا میں حور و قصور ملتے ہیں اور مسلمان کو فقط آخرت کے وعدوں پر ٹرخایا جاتا ہے۔ تیرا یہ خیال باطل ہے۔ خالی مسلمان کہلانے سے کیا ہوتا ہے۔ خدا کے قوانین حیات عادلانہ قوانین ہیں اور عدل اس کا نام ہے کہ یار و اغیار سب پر اس کا مساوی اطلاق ہو۔ جس کو تو کافر سمجھتا ہے وہ عملاً تجھ سے بہتر مسلمان ہے۔ اس لیے کہ تیرے مقابلے میں اس نے اسلام کا بیشتر حصہ اپنا لیا ہے۔ اس کے اجر میں اس کو یہیں حور و قصور مل گئے ہیں۔ خدا کے ہاں اعمال کا ذرہ ذرہ تلتا ہے۔ اب میزان عمل میں تیری خوبیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا ہے اور جسے تو کافر کہتا ہے اس کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔ خدا کے ہاں رعایت کا دخل نہیں۔ خدا یہ نہیں کر سکتا کہ محض تمہارے دعوؤں اور زبانی اقراروں کی وجہ سے تم کو نوازتا جائے اور جو منہ سے تو نہیں کہتے لیکن اچھے عمل کرتے ہیں ان کو نظر انداز کر دے:
کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں
یہ جو شور مچا ہوا ہے کہ آزاد و مہذب قوم کی حیثیت سے مسلمان نابود ہو گئے ہیں، اس لیے کہ مقتدر اور علم و فنون سے بہرہ ور اقوام میں ان کا شمار نہیں تو اس کا سیدھا جواب حضرت اقبال خدا کی زبان سے یہ دیتے ہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے کوئی ملت کیسے نابود ہو سکتی ہے؟ اسلام تو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے اور جو ملت اس پر عامل ہو اس کی بقا کا بھی خدا اور اس کی فطرت ضامن و کفیل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان موجود ہی نہ تھے جو نابود ہو جاتے۔ جو نابود ہوئے ہیں ان میں نام کے سوا اسلام کی کوئی بات نہ تھی۔ عقائد میں، معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں وہ دوسری اقوام کے بیہودہ نقال اور مقلد تھے۔عیسائی تو کئی انقلابات کے بعد زندگی کا تجربہ حاصل کر کے اپنی فکر کو آزادانہ تحقیق میں لگا کر، رہبانیت سے ہٹ کے زندگی میں ہمہ سمتی جدوجہد کو اپنا شعار بنا کر، مسلم آئین ہو گئے اور تم رجعت قہقری سے اسلام کو چھوڑ کر انہیں پرانے باطل عقائد پر آ گئے۔ نصاریٰ کی ظاہری وضع کی نقل کی اور تمدن میں ہندوؤں کے ذات پات کے امتیاز کو اختیار کر لیا اور دوسری طرف یہودیوں کی طرح اپنے آپ کو ابناء اللہ اور خدا کی منتخب قوم سمجھ کر نجات کے اجارہ دار بن گئے۔ خود یہودیوں نے اب یہ خیال بہت کچھ ترک کر دیا ہے، لیکن تم جنہیں جو اس ادعا سے منع کیا گیا تھا اس عقیدے پر اڑ گئے ہو۔ اب تو یہودی بھی تم سے زیادہ حکمت پسند ہو گئے ہیں۔ اپنی جدوجہد، حکمت عملی اور ایثار سے وہ تمہیں دھکیل کر فلسطین میں داخل ہو گئے ہیں:
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
مسلمان اور فرنگی نصاریٰ کا مقابلہ کرتے ہوئے مفتی محمد عبدہ مفکر و مصلح مصر نے کیا درست بات کہی ہے جو علامہ اقبال ہی کے خیال کے مطابق ہے کہ ’’ اعمالہم کد یننا، واعمالنا کدینھم‘‘ مغربیوں کے اعمال ہمارے دین کے بہت کچھ مطابق ہو گئے ہیں او رہمارے اعمال غلط روی میں بہت کچھ ان کے پورے دینی عقائد کے مماثل ہیں۔
ہاں تو سوال یہ تھا کہ ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت کی نسبت اگر اقبال کے خیالات یہ ہیں کہ دین، ایمان اور عمل سے محروم ہو گئی ہے اور دوسری قومیں اسلام کے زیادہ حصے پر عامل ہو کر دنیا میں معزز اور قوی ہو گئی ہیں، اس کے باوجود اس گری ہوئی حالت میں بھی ملت اسلامیہ سے اسے اس قدر وابستگی کیوں ہے؟ اب وہ کیوں ان قوموں سے رشتہ نہیں جوڑ لیتا جنہیں وہ زیادہ مطابق اسلام پاتا ہے؟ علاوہ ازیں ملت اسلامیہ کے بارے میں اس زبوں حالی کے باوجود اس پر مایوسی کیوں طاری نہیں ہوتی؟ وہ کیوں مستقبل میں اس سے یہ توقع رکھتا ہے کہ دوبارہ اس کا احیاء ہو گا اور پھر نوع انسان کی قیادت اس کے ہاتھ آ جائے گی؟ اس کا جواب دو تین پہلوؤں سے دیا جا سکتا ہے۔ پہلے تو سیدھی اور فطری بات یہ ہے کہ انسان جس ملت میں پیدا ہوا ہے اس کی نالائقی اور بے راہ روی کے باوجود نہ وہ اس سے اپنا رشتہ منقطع کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ بلند پایہ نفوس اپنی قوم کی حالت زبوں سے پریشان اور بے زار ہو کر اس کی طرف سے منہ نہیں موڑ لیتے۔ قوم کی حالت جس قدر گری ہوئی ہو اسی قدر ایک حولہ مند اور بلند ہمت مفکر اور مصلح یہ اپنا فرض محسوس کرتا ہے کہ گریز کی بجائے ستیز پر کمر ہمت باندھے۔ مساعد حالات میں تو ہر کہ و مہ عزت و آبرو کی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ انسان کا امتحان نامساعد حالات میں ہوتا ہے۔ مساعد حالات میں رہبری کوئی دشوار کام نہیں، لیکن ایسے حالات میں جب کہ قوم نہ صرف تباہ حال ہو بلکہ اس کے دل میں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہو، صحیح فکر و عمل کی تلقین ایک مجاہدانہ فطرت اورپیمبرانہ سیرت کا تقاضا کرتی ہے:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
مسلمانوں کی حالت اقبال کے زمانے میں ایسی ہی تھی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کی انتہا ۱۸۵۷ء میں ہوئی جب کہ ایک طرف فرنگی فاتحین اور دوسری طرف برادران وطن نے مسلمانوں کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیس ڈالنے کی کوشش کی۔ مولانا حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ میں لکھا ہے کہ اس زبوں حالی اور یاس انگیز کیفیت میں جب حالت یہ تھی کہ:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
سید احمد خاں جیسے مرد عاقل و مجاہد کے دل میں بھی یہ خیال گزرا کہ اس وطن سے ہجرت کر کے کسی اسلامی ملک میں چلے جائیں جہاں مسلمانوں کا کچھ اقتدار و وقار موجود ہو اور عزت و آبرو سے زندگی کے باقی ایام گزر جائیں۔ کچھ عرصے تک یہ خیال دل میں گردش کرتا رہا لیکن پھر ساداتی غیرت نے جوش مارا کہ ملت کو خراب حالت میں چھوڑ کر ذاتی آسائش اور عزت کے لیے ترک وطن کرنا ایک نہایت مذموم قسم کی ہجرت ہو گی۔ حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں حالات میں پستی اور جہالت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور جہاں تک ہو سکے اس قوم کو ذلت کے گڑھے میں سے نکالا جائے۔ اس کے لیے غیر معمولی علمی اور عملی کوشش اور غیر معمولی جان نثاری کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ جس قوم کو آپ ابھارنا چاہتے ہیں وہی آپ کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ جہالت اور غلامی میں خیر و شر کے معیار الٹ جاتے ہیں۔ بھلائی برائی معلوم ہوتی ہے اور برائی بھلائی۔ چنانچہ سید صاحب کی مخالفت نہ انگریزوں نے کی اور نہ ملک کی غیر مسلم ملتوں نے۔ زیادہ مخالفت علماء جامد کی طرف سے ہوئی جنہیں نہ زوال ملت کے اسباب سمجھ میں آتے تھے اور نہ ان کا کوئی صحیح علاج سوجھ سکتا تھا۔ وہ قدامت کو دین اور جدت کو بدعت سمجھتے تھے۔ وہ یہ نہ جان سکتے تھے کہ جو قوم غالب آ گئی ہے اس کے غلبے کے اسباب کیا ہیں۔ یہ بات ان کے وہم میں بھی نہ آ سکتی تھی کہ ان کے عقائد و اعمال اور ان کے نظریہ حیات میں کچھ خلل ہے۔ سید کی کوششوں سے اقبال کے زمانے تک کچھ نہ کچھ بیداری قوم میں پیدا ہو چکی تھی، لیکن ابھی امراض بہت کچھ باقی تھے۔ منزل کی طرف چند قدم اٹھتے تھے، لیکن ابھی منزل بہت دور تھی اور منزل مقصود کا کوئی معین تصور بھی نہ تھا۔ جو کوئی رہبری کا دم بھرتا تھا مسلمانوں کا ایک گروہ اس کے پیچھے ہو لیتا تھا۔ کثرت سے لوگ بے بصیرت اور بے عمل پیرو ں کے پیرو تھے کہ وہ ان کی دنیا اور آخرت کے ضامن ہو جائیں گے۔ بعض پیروں سے بڑھ کر امام حاضر الوقت اور مہدی و مسیح بن گئے تھے۔ بعضوں نے حصول اقتدار کی خاطر لیڈری شروع کر دی تھی۔ بعض حکمرانوں کے بے دام غلام تھے اور حکمران کے ذریعے سے عوام کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے تھے۔ ہر قسم کے جھوٹے رہبر کو پیر و مل جاتے تھے اور مسلمانوں کی کیفیت یہ تھی:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
قوم کو ابھارنے کے لیے مختلف علاج تجویز ہوتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ مغربی تعلیم حاصل کرو تو دین کے ساتھ دنیا بھی درست ہو جائے گی۔ کوئی روایتی دینی تعلیم کو جدید علوم و فنون کی تعلیم پر مرحج سمجھتا تھا اور اس کے نزدیک یہی راہ نجات تھی۔ اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب علاج غلط ہیں۔ ملت کا اصل مرض نفسی مرض ہے۔ وہ فقط قرآن کی بتائی ہوئی اس حکمت بالغہ کا قائل تھا کہ خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی نفسی حالت میں انقلاب پیدا نہ کرے۔ مغرب کے جید عالم نفسیات ولیم جیمز نے لکھا ہے کہ ’’ جدید نفسیات کا سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ زندگی کے متعلق زاویہ نگاہ بدلنے سے تمام زندگی بدل جاتی ہے۔‘‘ دیکھئے علم نفسیات کی ترقی نے انسان کو وہی راز بتایا جو ازروئے وحی مسلمانوں اور تمام انسانوں پر چودہ سو سال پیشتر منکشف کیا گیا تھا۔ اقبال نے جب یہ تہیہ کر لیا کہ اس قوم میں انقلاب پیدا کیا جائے تو نہ وہ سیاست کی طرف مائل ہوا اور نہ مسلمانوں کو نیا علم معیشت سکھانے لگا کہ اقتصادی حالت درست کرو اور اس کے لیے ہر طرح سے دولت کماؤ اور بچاؤ اور نہ اس نے سائنس یا فلسفے یا جدید علوم و فنون کو اس مرض کے لیے اکسیر سمجھا۔ اس نے دیکھا کہ قوم کی نفسیات میں شدید خرابی ہے، اسلامی زندگی کا صحیح تصور اس کے ذہن سے نکل چکا ہے اور اس کی جگہ غلط تصورات نے لے لی ہے ’’ جائے خالی را دیوی گیرد‘‘
کوتاہ اندیش لوگ اقبال کو بھی ایک شاعر اور فلسفی سمجھتے ہیں اور اس پر بے عمل ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک یا دن کے ظواہر کی پابندی عمل کہلاتی ہے یا سیاسی اور معاشی جدوجہد۔ مولویوں کو اقبال اپنے مقابلے میں نماز کا کم پابند نظر آیا اور نہ اس میں سیاسی لیڈروں کی ہیجان آفرینی دکھائی دی۔ ایسے لوگوں کے سامنے اس نے اپنے آپ کو بے عمل کہنا شروع کر دیا:
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
دل اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کہیں کتا ہے:
میں نے اقبال سے ازراہ نصیحت یہ کہا
عامل روزہ ہے تو او رنہ پابند نماز
اور کبھی اپنا کارنامہ یہ بیان کرتا ہے:
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا
لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسر نفسی ہے اور اقبال یہ سب کچھ اپنے متعلق کوتاہ اندیشوں کی مخاصمانہ تنقید کے مدنظر استہزاء سے بیان کر رہا ہے ورنہ اس کو یقین کامل اور قوی اعتماد ہے کہ خدا نے نفوس ملت میں انقلاب آفرینی کا کام اس کے سپرد کیا ہے جس میں پیغمبری کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ جس روز سے اس کو یہ احساس پیدا ہوا اس سے لے کر یوم وفات تک وہ اٹھتے، بیٹھتے، سوتے جاگتے اسی کام میں منہمک رہا۔ خدا نے اس کو ایسا باکمال شاعر بنایا تھا کہ خالی شاعری سے بھی وہ دنیا بھر کے شعرائے عظام کی صف اول میں کھڑا ہو سکتا تھا لیکن اس نے اس کمال کو محض پیام رسائی اور انقلاب نفوس ملت کے لیے وقف کر دیا۔ محض تفنن طبع کی شاعری کرنے والوں نے کہا کہ اب وہ شاعر نہیں رہا، واعظ اور مبلغ اور پیغمبری کا دعویدار ہو گیا ہے۔ آخر میں اس نے بھی ان کی تائید شروع کر دی کہ ہاں میں شاعر نہیں ہوں۔ اسی طرح جیسے صوفیائے کرام نے ظاہر پرستوں کے خلاف کہنا اور عمل کرنا شروع کیا اور یہ تلقین کی کہ دین فقط عشق الٰہی اور محبت خلق خدا کا نام ہے، محض حصول ثواب آخرت کی خاطر شریعت کی پابندی دین نہیں ہے تو ارباب ظاہر نے ان کو کافر قرار دیا۔ جب تکفیر کے فتوے سنتے سنتے تنگ آ گئے تو انہوں نے خود اپنے لیے کفر کی اصطلاح اختیار کر لی اور علی الاعلان کہنے لگے کہ بھائی اگر تم مسلمان ہو تو پھر ہم مسلمان نہیں ہم کافر ہیں۔ تمہیں تمہارا اسلام مبارک اور ہمیں ہمارا کفر مبارک:
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
(خسرو)
مذہب عشق از ہمہ دیں با جداست
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
اقبال نے دیکھا کہ دین اور دنیا دونوں کے متعلق مسلمانوں کا زاویہ نگاہ غلط ہو گیا ہے اور اسی لیے وہ خسران دنیا و آخرت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ حکمت کو سوز عشق سے گرما کر اور شعر کی اثر آفرینی سے کام لے کر ان کے نفوس میں انقلاب پیدا کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی آرزوئیں غلط ہو گئی ہیں ان کی آرزوؤں کو بدلنا چاہیے۔ اس قوم کا حقیقت میں کوئی نصب العین نہیں رہا، اسی لیے اس کی کوششیں بے نتیجہ ہوتی ہیں، اس کی خواہشیں پست ہو گئی ہیں۔ ایک روز علامہ نے میرے سامنے شمع و شاعر کے اس شعر کی شرح فرمائی:
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا تیرا
فرمانے لگے کہ ہماری قوم کے دیندار ہوں یا دنیا دار، ان کا میدان عمل نہایت تنگ ہوتا ہے اور محمل بے لیلیٰ وہ دل ہے جس میں مقصود زندگی اور غایت حیات کا کوئی ایسا تصور نہ ہو جو اپنی کشش سے انسان سے مجنونانہ جدوجہد کرا سکے۔ بڑے بڑے کام عشق یا جنون ہی سے ہوتے ہیں۔ جہاں میدان عمل تنگ ہے اور محمل میں لیلیٰ ہی نہیں وہاں قیس جیسے مجنوں کہاں پیدا ہوں گے؟ افسوس ہے کہ اس قوم کا کوئی نصب العین نہیں، ہر فرد اپنے ادنیٰ مفاد عاجلہ میں لگا ہوا ہے اور اپنی ذات سے باہر اس کے لیے کچھ نہیں۔ اس میں کوئی زندہ تمنا نہیں جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے، لیکن قوم کی ایسی حالت کے باوجود بھی اقبال مایوس نہیں تھا۔ مایوسی اس کے نزدیک کفر کے مرادف تھی۔ وہ اسی امید میں اپنے آنسوؤں سے اس مٹی کو تر کرتا رہا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اسلام اقبال کے نزدیک زندگی کے اساسی رحجانات کا حامل اور انسانی زندگی کے ارتقاء لا متناہی کا لائحہ عمل ہے، اس لیے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا۔ مرور ایام اس میں کہنگی پیدا نہیں کر سکتا۔ جس حد تک جس زمانے میں کوئی ملت اس پر کاربند ہو گی، اس حد تک وہ قوت اور بصیرت سے بہرہ اندوز ہو گی۔ ملت اسلامیہ صدیوں کے انحطاط سے جادۂ اسلام سے ہٹ گئی ہے لیکن اس اصول کے مطابق کہ ہر چیز اپنی اصلیت کی طرف عود کرتی ہے (کل شیی یرجع الیٰ اصلہ) یہ ملت دوبارہ اسلام کی طرف لوٹے گی۔ ایک صاحب نے دوران گفتگو میں ان سے سوال کیا کہ کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ ہر قوم کے عروج کا ایک دور ہوتا ہے، ایک نقطہ کمال تک پہنچ چکنے کے بعد اس کا زوال شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ قوم نابود ہو جاتی ہے۔ یونان و مصر و روما اور دیگر عظیم الشان قومیں جنہوں نے بڑی بڑی تہذیبیں او ربلند پایہ تمدن پیدا کیے، ان میں سے پھر کس کا اعادہ ہوا کہ ہم ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی امید رکھیں؟ علامہ نے فرمایا کہ یہ نظر بالکل غلط ہے اور مغرب کی غالب اقوام نے مغلوب اقوام کو مایوس کرنے کے لیے یہ خیال باطل ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے ۔ ایک ملت کا احیاء خدا کے لیے کیا دشوار ہے۔ اسلامی عقیدہ ہے کہ تمام دنیا مر کر پھر زندہ ہو گی۔ اقبال کا خیال کس قدر درست نکلا، ہمارے دیکھتے دیکھتے اقوام کس کس طرح زندہ ہوئی ہیں۔ ایک چین ہی کی مثال لے لیجئے۔ چین کا تمدن اور اس کی تہذیب بڑے عروج پر پہنچ کر ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے ساکن و جامد تھے اور مغرب والے کہہ رہے تھے کہ یہ افیون خوردہ قوم اب ہمیشہ اسی طرح اونگھتی رہے گی گذشتہ تیس سال کی جدوجہد نے اس کی ایسی کایا پلٹ دی ہے کہ مغربی اقوام اس سے لرزہ بر اندام ہیں۔ اس میں زندگی کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے کہ اس کے فکر و عمل کا ہر شعبہ دگرگوں ہو گیا ہے۔ یونان و روما کی تہذیب و تمدن اور زوال کے بعد طلوع عیسویئت سے لے کر از منہ متوسط کی انتہا تک تمام فرنگ کی یہ حالت تھی کہ فرنگ ہی کے مورخ اس دور کو از منہ مظلمہ یا تاریکی کے زمانے کہتے ہیں۔ گبن جیسے مورخ کا نظریہ ہے کہ اس زوال کی ذمہ دار عیسائیت تھی جس نے لوگوں کا نظریہ حیات بگاڑ دیا۔ ٹائن بی اور بعض دوسرے مقتدر مورخ اس سے متفق نہیں ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ سے قبل کا قریباً ہزار سال فرنگ ارتقائے حیات سے محروم، جامد اور ہر قسم کے دینی، ذہنی اور سیاسی استبداد کا شکار تھا۔ اس دور میں مسلمان تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں موجد و خلاق تھے اور وہ فرنگ کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے جس سے فرنگ نے سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ایشیا کو دیکھنا شروع کیا۔ ابن خلدون جیسا حکیمانہ نظر رکھنے والا مورخ بھی اس زمانے کے فرنگ کے متعلق یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ قومیں اس قدر غبی کیوں ہیں۔ جس طرح بعض علمائے فرنگ ایشیا اور افریقہ کی پس ماندگی کو گرم آب و ہوا پر محمول کرتے تھے جو ذہنوں میں جودت اور جدت اور بدن میں قوت اور ہمت پیدا نہیں ہونے دیتی، اسی طرح مغرب کے علوم و فنون سے بے بہرہ ہونے کو مسلمان فرنگ کی آب و ہوا پر محمول کرتے تھے کہ ان ملکوں میں سردی ایسی شدید ہوتی ہے کہ دماغ میں افکار بھی منجمد ہو جاتے ہیں۔ یہی فرنگ جس نے ایشیا والوں کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ قوموں کا احیاء نہیں ہوتا، اس سے یہ پوچھنا چاہیے کہ خود تمہارا احیاء کیوں کر ہوا؟ اور اپنے احیاء کو وہ خود نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں یعنی جمود اور موت کے بعد زندگی کااز سر نو ابھرنا۔ تمہاری نشاۃ ثانیہ ہو سکتی ہے تو دوسروں کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ تم نے اس نشاۃ ثانیہ کے بعد وہ زور باندھا کہ دنیا پر چھا گئے۔ علوم و فنون اور وسعت مملکت میں ملل ماضیہ میں سے کوئی بھی اہل فرنگ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کے بعض گروہ صدیوں کی مرگ نما نیند کے بعد دوبارہ زندگی پا سکتے ہیں۔ فرنگ کا عروج اس کی پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کے مقابلے میں بہت عظیم تھا اگر اقبال ملت اسلامیہ کے متعلق اس قسم کی امید رکھتا ہے تو اسے محض ایک سہانا خواب سمجھنا ہو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اقبال کی بعض شاندار نظمیں یاس و حرماں کے تاثر سے شروع ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ امید پر ختم ہوتی ہیں۔ شمع و شاعر کے شروع کے اشعار پڑھیے:
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا ترا
اے در تابندہ اے پروردہ آغوش موج
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم ترا
٭٭٭
آہ جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
٭٭٭
پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو
٭٭٭
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ایسے کئی اشعار کہہ کر یہ امید کا پیامبر یک بیک چونکتا ہے تو ظلمت شب کے بعد اس کو کچھ روشنی د کھائی دینے لگتی ہے:
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
اب زمانہ قریب آ گیا ہے کہ یہ ملت اپنی خود داری کے عوض بادۂ اغیار نہ خریدے گی، اب ملت کو اپنی خودی اور اپنے مقام کا احساس ہونے والا ہے۔ اقبال اس احساس کو تیز کرنا چاہتا ہے اور مقصود تک پہنچنے کے لیے جو کچھ ضروری ہے اس کی تلقین کرتا ہے۔ اب تن آسانی کو چھوڑو کیوں کہ ذوق تن آسانی ہمت کا رہزن ہے، جوئے گلشن ہونے کی بجائے قلزم متلاطم بن جاؤ، اپنی اصلیت پر قائم ہو جاؤ، قطرے سے اسرار حیات سیکھو کہ وہ شبنم اور آنسو ہونے کے علاوہ گوہر بھی بن سکتا ہے۔ افراد میں قوت تنہا روی سے نہیں بلکہ ربط ملت سے پیدا ہوتی ہے، افراد دریائے ملت کی موجیں ہیں، دریا کے باہر موج کا کوئی مستقل وجود نہیں ہو سکتا، دریا کی حقیقت کے مقابلے میں افراد کا وجود مجازی ہے شرق و غرب ہو یا جدید و قدیم، ان میں سے کسی کی تقلید نہ کرو، حیات تحقیق اور جدت کوشی کا نام ہے:
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم
شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر
زندگی اپنے انداز بدلتی رہتی ہے، صوفیہ کہتے ہیں کہ تجلی میں تکرار نہیں، زندگی جو مظہر ذات و صفات الٰہیہ ہے وہ بھی ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ ہے، اب اس نشاۃ ثانیہ میں جو قریب آ رہی ہے تم اپنی قدیم تہذیب و تمدن کے ڈھانچوں کو واپس نہ لا سکو گے۔ ہر نئی زندگی نئے قالب کی متقاضی ہوتی ہے:
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہی
ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر
یہ مضمون کسی قدر دوسرے انداز میں اس شعر میں بھی ملتا ہے جو پہلے درج ہو چکا ہے:
کبھی جو آوارۂ جنوں تجھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا
مسلمانوں کی تقدیر آخر کار وہی ہے جو اسلام کی تقدیر ہے، اگر اسلام کا چراغ حوادث کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا تو اسلام پر عمل کرنے والی امت کیوں آنی اور فانی ہو:
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
مسلمان کا مستقبل اقبال کو نہایت درخشندہ نظر آتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اقبال کے نزدیک اسلام نوع انسان کی تقدیر اور اس کے ارتقاء کا جادہ ہے اور منزل بھی۔
شمع و شاعر کے آخری بند میں پیش گوئیاں ہیں، ظالموں کا ظلم ختم ہو کر اس کے نتائج خود اس کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اب پرندے خوشی سے چہچہائیں گے اور صیاد نالہ و زاری کجریں گے، خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہونے والی ہے، قوت کے نشے میں سرمست قومیں آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی، دنیا کا پہلا نظام تہ و بالا ہونے والا ہے اور اس کی جگہ جو نیا عالم ظہور میں آنے والا ہے وہ چشم بصیرت کو نظر آ رہا ہے لیکن وہ اس قدر حیرت انگیز ہو گا کہ اس کے بیان کے لیے الفاظ نہیں مل سکتے۔ یہ انقلاب عالمگیر ہو گا، صرف ملت اسلامیہ ہی اس سے دگرگوں نہ ہو گی بلکہ تمام نوع انسان کا رنگ بدل جائے گا او ریہ انقلاب انسانوں کو اسی مقصود کی طرف لے جائے گا جو اسلام کا منشا تھا۔ لہٰذا سب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے باعث مسرت ہو گا، تمام جھوٹے معبودوں کی پرستش ختم ہو جائے گی، لا الٰہ کے بعد الا اللہ کا دور آئے گا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
اقبال کے ہاں اسلام اور مسلم اور آدم کے نصب العینی تصورات ملتے ہیں۔ اس کے نزدیک اسلام حیات و کائنات کی ازلی و ابدی صداقتوں کا نام ہے، جہاں تک موجودہ اسلام دور حاضر کے مسلم اور موجودہ انسان کا تعلق ہے یہ سب نصب العین سے بہت دور ہیں، اس وقت اسلام کو پیش کرنے والوں کے جو نظریات یا اعمال ہیں ان سے وہ بے حد بیزار ہے۔ اسلام اور مسلم دونوں کی صورتیں مسخ ہو چکی ہیں، اقبال کا آدم کا تصور قرآنی تصور ہے جس میں انسان کامل نائب الٰہی اور مسخر کائنات ہے۔ موجودہ انسانوں میں یہ صفات کہاں، وہ انسان کی احسن تقویم کا قائل ہے اور پھر یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس وقت تک وہ اسفل السافلین کی ذات سے نہیں نکل سکا۔ از روئے قرآں اکثر انسانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ نہ صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ درجہ حیات میں اسن سے بھی گرے ہوئے ہیں ’’ کالانعام بل ہم اضل‘‘ خدا سے پوچھتا ہے کہ کیا یہی آدم ہے جو سامنے نظر آتا ہے، خلیفتہ اللہ فی الارض ہے، جسے نہ اپنی سمجھ ہے، نہ خدا کی، نہ کائنات کی؟
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں نے خدا بیں نے جہاں بیں
یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟
پھر ایک اور جگہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کو نصب العینی آدم بننے کے لیے ابھی بے شمار مراحل طے کرنے پڑیں گے۔جادۂ ارتقاء پر سفر کرتے ہوئے ابھی اس کو بہت لمبی مسافت طے کرنی ہے:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر
مسلم، مومن یا آدم کے متعلق اقبال جو کچھ کہتا ہے اس میں وہ در حقیقت انسان اکمل کے خط و خالکو معین کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ اسلام ایسے انسان پیدا کر چکا ہے اور آئندہ بھی پیدا کرے گا، اگر ایسے لوگ اس وقت اور ملتوں میں پائے جاتے ہیں تو ان کو بھی مسلم ہی کہنا چاہیے اور مسلمان جو اس فکر و عمل سے عاری ہیں وہ اسلام سے خارج ہیں، محض اسلامی نام رکھنے سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا:
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
اسی زمین میں غالب کا بھی مطلع ہے، جس میں نصب العینی انسان بننے کی دشواری کو بیان کیا ہے:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اقبال کے نزدیک کسی قوم کا ملی شعور اس کی تاریخ سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں مردان خدا کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ معرفت کوش مسلمان ان نمونوں سے کسب فیض کر کے اپنے آپ کو بلند کر سکتا ہے۔ توحید کو جس خالص طریقے سے اسلام نے پیش کیا ہے اس کی مثال دوسرے ادیان میں نہیں ملتی۔ ملت اسلامیہ اپنی کوتاہیوں کے باوجود ایک روحانی و عرفانی بصیرت کی وارث ہے، یہ بصیرت توحید کو سمجھنے پر مشتمل ہے، اس صداقت پر عمل کرنا سب سے زیادہ مسلمان کا حق اور اس کا فرض ہے۔ جن مسلمانوں نے اس حق کو پہچانا اور اس صداقت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا وہ اسی ملت کے افراد تھے جس ملت کے افراد اس وقت خود فراموشی اور خدا فراموشی سے گہری ظلمتوں میں گھر گئے ہیں، لیکن ہر شب کی آخر سحر ہوتی ہے اور ملتوں کی زندگی میں بھی جزر و مد ہوتا ہے، حالی نے مسدس کے شعر میں ایک بڑی یاس انگیز رباعی لکھی ہے:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کوئی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
اقبال کی طبیعت میں بھی کبھی کبھی یاس کی ایک ہلکی سی لہر پیدا ہوتی ہے لیکن بہت جلد امید اس پر غالب آ جاتی ہے۔ اقبال ملت کے انحطاط سے خوب واقف ہے لیکن اس کا مرثیہ گو نہیں، جب کسی لمحہ یاس میں کوئی دوسرا اس سے کہتا ہے یا اس کے اندر سے مسرت و اندوہ کی اس قسم کی صدا نکلتی ہے:
ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے
سینہ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے
زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب دو شینہ ہو سکتی نہیں
تو فوراً اسلام او رمسلمان کا ابدی نصب العین اس کے جواب میں گویا ہو جاتا ہے کہ آخر کار کیا یہ صداقت نہیں کہ توحید ہی حقیقت حیات و کائنات ہے اور خدا نے مجھے اس کا شاہد بنایا ہے۔ اگر یہ تصور مٹ گیا تو نوع انسان رسوا ہو جائے گی، میری حالت عارضی طور پر خراب ہو گئی ہے لیکن تقدیر عالم و آدم کی تقدیر ہے، میں ماضی کی داستانیں جھوٹے تفاخر کی بناء پر نہیں دہراتا بلکہ اس کے آئینے میں اپنے مستقبل کی تصویر دیکھتا ہوں۔ جس زمانے میں اقبال نے اس مضمون کی نظمیں لکھی ہیں اس دور میں مسلمانوں پر حد درجے کی مایوسی طاری تھی۔ سیاسی بے بسی، افلاس ، علوم و فنون میں پس ماندگی، غالب اقوام کے مقابلے میں بے چارگی غرضیکہ ہر طر ف ہمت شکنی کا سامان تھا، لوگ نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ اسلام سے بھی مایود ہو رہے تھے کہ یہ دین بھی شاید اپنا کام ختم کر کے اب دفتر پارینہ ہو گیا ہے۔ اچھے اچھے ادیبوں، شاعروں اور مصلحین کی تحریروں اور تقریروں میں یہی فرومایگی نظر آتی تھی کہ سب اچھائیاں اور قوموں میں آئیں اور ہم کچھ نہیں۔ اس قسم کے احساس کمتری کی شدت سے قومیں فنا ہو جاتی ہیں۔ ہر ملت کی بقا اس کے اس شعور کی رہین منت ہوتی ہے کہ دنیا میں ہم کچھ مخصوص صفات عالیہ کی حامل ہیں، اگر یہ بات جاتی رہے تو قومیں یا فنا ہو جاتی ہیں یا دیگر اقوام میں ضم ہو کر گم ہو جاتی ہیں۔ اقبال نے مسلمانوں کے متعلق یہ شدید خطرہ محسوس کیا، اسی لیے اس کے احساس خودی کو ابھارنا اپنی شاعری کا وظیفہ بنا لیا اور مسلمانوں سے پکار پکار کر کہا کہ آؤ میرے ہم نوا ہو کر اس دعوے کا اعلان کرو:
ہم نشیں! مسلم ہوں میں توحید کا حامل ہوں میں
اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں
اور جس صداقت کو مجھے دنیا میں پھیلانا ہے وہ شخصی یا ملی چیز نہیں، وہ کسی قوم یا نسل کا تعصب نہیں، یہ صداقت وہ ہے جس کی بدولت کائنات کا وجود قائم ہے اور جو مقصود تکوین عالم ہے:
نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے
اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے
حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا
اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا
دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا
حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا
میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے
میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے
قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے
جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے
آشکارا ہیں مری آںکھوں پر اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نو مید پیکار حیات
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتح کامل کی خبر دیتا ہے ہوش کار زار
٭٭٭
ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رکھتا ہوں میں
اہل محفل سے پرائی داستاں کہتا ہوں میں
یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں