جنگ بدر کے تین سبق آموز واقعات

سید ابوالاعلی مودودیؒ 

 اس جنگ میں تین باتیں نہایت سبق آموز تھیں :

ایک یہ کہ مسلمان اور کفار جس شان سے ایک دوسرے کے بالمقابل آئے تھے، اس سے دونوں کا اخلاقی فرق صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ ایک طرف کافروں کے لشکر میں شرابوں کے دور چل رہے تھے، ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب داد عیش دی جارہی تھی۔ دوسری طرف مسلمانوں کے لشکر میں پرہیزگاری تھی، خدا ترسی تھی، انتہا درجہ کا اخلاقی انضباط تھا، نمازیں تھیں اور روزے تھے، بات بات پر خدا کا نام تھا اور خدا ہی کے آگے دعائیں اور التجائیں کی جارہی تھیں۔ دونوں لشکروں کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی معلوم کرسکتا تھا کہ دونوں میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہے۔

دوسرے یہ کہ مسلمان اپنی قلت تعداد اور بےسرو سامانی کے باوجود کفار کی کثیر التعداد اور بہتر اسلحہ رکھنے والی فوج کے مقابلے میں جس طرح کامیاب ہوئے، اس سے صاف معلوم ہوگیا تھا کہ ان کو اللہ کی تائید حاصل تھی۔

تیسرے یہ کہ اللہ کی غالب طاقت سے غافل ہو کر جو لوگ اپنے سروسامان اور اپنے حامیوں کی کثرت پر پھولے ہوئے تھے، ان کے لیے یہ واقعہ ایک تازیانہ تھا کہ اللہ کس طرح چند مفلس و قلانچ غریب الوطن مہاجروں اور مدینے کے کاشتکاروں کی ایک مٹھی بھر جماعت کے ذریعے سے قریش جیسے قبیلے کو شکست دلوا سکتا ہے، جو تمام عرب کا سرتاج تھا۔



(تفہیم القرآن  سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :10)