اردو ادب 1857ء سے 1914ء تک

محمد ریاض

اردو ادب پر مغربی اثرات انیسویں صدی کے آغاز سے ہی پڑنے لگے تھے۔ مگر ان کا فیصلہ کن اثر ۱۸۵۷ء کے بعد ہوا۔ فورٹ ولیم کالج کی سادہ نثر، دہلی کالج میں درسی کتابوں کے لیے مفید اور واضح انداز بیان، ماسٹر رام چندر کے مضامین اور مرزا غالب کے خطوط میں یہ اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ شاعری کا تعلق روایت سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ۱۸۵۷ء سے پہلے کی شاعری میں صرف غالب کے یہاں تشکیک، ارضیت اور انفرادیت کے نقوش ایک ایسے ذہن کے آئینہ دار ہیں جو روایت کے ساتھ نئے امکانات اور میلانات پر بھی نظر رکھتا ہے۔ ادب سیاسی تبدیلیوں کا یکسر تابع نہیں ہوتا، نہ ادبی ارتقا کی منزلیں سیاسی بنیاد پر متعین کی جا سکتی ہیں۔ مگر زمانے اور مزاج کی تبدیلیوں کا اثر ادب پر بہرحال پڑتا ہے۔ اسی لیے ۱۸۵۷ء سے جب انگریزوں کے الفاظ میں غدر ہوا اور برصغیر مورخوں کے الفاظ پہلی جنگ آزادی لڑی گئی، اردو ادب کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے ادب کو سہولت کے لیے کلاسیکی اور اس کے بعد کے ادب کو جدید کہا جا سکتا ہے۔ 

مگر اس کے معنی یہ نہیں لینا چاہئیں کہ ۱۸۵۷ء کے بعد کلاسیکی اثرات ختم ہو گئے۔ کلاسیکی یا روایتی ادب کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر جدید فکرو فن جو پہلے تجربے کے طور پر شروع ہوا، رفتہ رفتہ اپنی جگہ بناتا گیا یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آخر تک نئے میلانات حاوی ہو گئے۔ ہمارا کلاسیکی ادب مجموعی طور پر ازمنہ وسطیٰ کی قدروں کا نمائندہ ہے۔ اس کی بنیاد برصغیر کی سرزمین ہے مگر اس میں عجم کے حسنِ طبیعت کے بہت سے رنگ شامل ہیں۔ اس میں نمایاں فکر تصوف سے آئی ہے۔ اور اس کے نقش و نگار اس مشترک تہذیب سے لیے گئے ہیں جو تاریخی اسباب کی بنا پر پروان چڑھ رہی تھی۔ اس کی شاعری میں تخیل کی پرواز ملتی ہے اور فطرت، تہذیب اور سماج کی مصوری بھی۔ صوفیوں کے اثر سے اس میں ایک انسان دوستی آئی اور دربار نے اسے ایک رنگینی اور صنّاعی سکھائی۔ اس دور میں نثر پر توجہ کم ہوئی اور زیادہ تر یہ راہِ نجات یا داستان سرائی کے لیے ہی استعمال ہوئی اور شاعری سے آرائش کے لیے زیور لیتی رہی۔ فورٹ ولیم کی جدید نثر تفریحاً نہیں فرمائش پر لکھی گئی تھی۔ 

اس میں قصے کہانیوں کا سرمایہ زیادہ تھا۔ دہلی کالج میں درسی ضروریات کے لیے علمی نثر بھی وجود میں آئی، صحافت رفتہ رفتہ قدیم اسلوب سے آزاد ہوئی ا ور کار آمد اور عام فہم ہونے لگی۔ مغرب کے معلم، مشنری اور منتظم سب یورپ کے اٹھارویں صدی کے ادب سے متاثر تھے۔ اسی لیے مغربی اثرات شروع شروع میں وہاں کے نوکلاسیکی ادب کی قدروں کے مظہر تھے۔ انہیں کی رہنمائی میں ہمارے یہاں جدید ادب حقیقت نگاری کا علم بردار بن کر سامنے آیا۔ ناول کی تاریخ میں نذیر احمد کے بعد رتن ناتھ سرشار کی اہمیت ہے (۱۸۴۶ء۔ ۱۹۰۲ء ) سرشار کے یہاں رجب علی سرور کے فسانہ عجائب کا رنگ بھی ہے اور مکالمات میں لکھنؤ کی بیگماتی زبان کی بے تکلفی بھی۔ سرشار کا فسانہ آزاد سب سے پہلے قسط وار منشی نول کشور کے اودھ اخبار میں نکلا، بعد میں یہ کتابی صورت میں چھپا۔ فسانہ آزاد میں اصل قصہ گویا ایک کھونٹی ہے جس پر ہزاروں واقعات ٹنگے ہوئے ہیں۔ سرشار ہندوستانی نشاۃ الثانیہ سے متاثر تھے اور نئے خیالات کے حامی تھے۔ مگر لکھنؤ کی تہذیب کے عاشق۔ پہلی جلد کے آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میاں آزاد کا ہر شہرو دیار میں جانا اور وہاں کی بری رسموں پر جھلّانا‘‘ ناول کا عمدہ پلاٹ ہے۔ انہوں نے پرانے خیالات اور رسم و رواج پر اپنی شوخی و ظرافت سے خوب خوب وار کیے ہیں۔ ان کا ہیرو آزاد ایک مثالی کردار ہے جو مردانہ حسن کے ساتھ سپہ گری میں بھی طاق ہے اور علم و ادب کا رسیا بھی ’’فسانہ آزاد‘‘ چار ضخیم جلدوں میں ہے۔ مگر آج اس کی اپیل زیادہ تر بیگمات کے مکالموں یا خوجی کے کردار کی وجہ سے ہے۔

 ’’فسانہ آزاد‘‘ کے علاوہ سرشار کا ’’سیر کہسار‘‘ بھی لکھنؤ کی نوابی معاشرت پر گہرا طنز ہے۔ سرشار کے دوسرے ناول چنداں اہمیت نہیں رکھتے۔ سرشار کے یہاں ناہمواری ہے اور ضبط و نظم کی کمی ہے مگر ان کی خلاقی، ان کی مرقع نگاری، کرداروں اور کارٹونوں کی ایک دنیا ایک تندرست اور کہیں کہیں بے رحم ظرافت اور زبان پر قدرت کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اس دور میں اردو کی پہلی جامع لغت ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کے نام سے لکھی گئی۔ مولوی سید احمد دہلوی (۱۸۴۶ء۔ ۱۹۲۰ء ) نے چوبیس سال کی محنت کے بعد ۱۸۹۲ء میں چار جلدوں میں یہ لغت شائع کی۔ اس سے پہلے وہ ’’ارمغان دہلی‘‘ کے نام سے اس کا ایک حصہ شائع کر چکے تھے۔ اس لغت کی تیاری میں انہیں ڈاکٹر ایس ڈبلیو فیلن کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کی وجہ سے خاصی مدد ملی۔ ڈاکٹر فیلن کی ’’ہندوستانی انگریزی لغت‘‘ ۱۸۷۹ء میں شائع ہو گئی تھی۔ فرہنگ آصفیہ میں اگرچہ جا بجا مؤلف نے غیر ضروری باتیں بیان کی ہیں اور بعض غیر مصدقہ روایات پر تکیہ کیا ہے ، پھر بھی یہ لغت اور بعد کی مولوی نورالحسن نیّر کا کوروی کی ’’نور اللغات‘‘ اب تک اردو کی سب سے اچھی لغات میں سے سمجھی جاتی ہیں۔ گو لغت نویسی (Lexicography) کے جدید معیار کے لحاظ سے دونوں میں خامیاں ہیں۔ امیر مینائی کی ’’امیر اللغات‘‘ اگر چہ صرف الف مقصورہ تک ہی ہے مگر قابلِ قدر ہے۔ ۱۸۵۷۔ ۱۹۱۴ کا دور ہر لحاظ سے اردو ادب کا زرّیں دور ہے۔ کلاسیکی طرز کی شاعری کے علاوہ اس دور میں نظمِ جدید کا آغاز ہوا اور اس نے نمایاں ترقی کی اور موضوعات اور ہئیت دونوں کے لحاظ سے اردو شاعری کا دامن وسیع ہوا۔ مگر دراصل یہ دور نثر کی ترقی اور وسعت کا دور ہے۔

 سرسید احمد خان کی تحریک کے اثر سے نثر علمی مضامین کے اظہار پر قادر ہوئی۔ ۔۔ ۱۹۱۴ء میں جب حالی اور شبلی کا انتقال ہوا تو شاعری کی بساط پر حسرت موہانی کے ساتھ علامہ اقبالؒ کا نام لیا جانے لگا اور پریم چند نے اپنے افسانے لکھنے شروع کر دیئے تھے۔ ابوالکلام آزاد کا ’’الہلال‘‘ افقِ صحافت پر طلوع ہو چکا تھا۔ سجاد حیدر کے ساتھ لطیف الدین احمد اکبر آبادی اور نیاز فتح پوری، ادب لطیف کی بنیادیں مضبوط کر رہے تھے۔ اردو ادب اب اپنے پیرو پر کھڑا تھا اور اسے مذہبی یا سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت نہ رہی تھی۔ وہ مذہب اور سیاست سے کام لیتا تھا۔ مگر ان کا غلام نہ رہا تھا۔ اس دور کے ان شعرا میں جنہوں نے نئی شاعری کو وقعت اور بلندی عطا کی ان میں نادر کاکوروی اور درگاسہائے سرور جہاں آبادی کا نام لینا بھی ضروری ہے۔ نادر کاکوروی (۱۸۵۷ء۔ ۱۹۱۲ء ) اپنے ہم عصر ادیبوں میں انگریزی ادب سے زیادہ واقف تھے۔ انہوں نے آزاد اور حالی کی نیچرل شاعری کی لے کو آگے بڑھایا۔ سادگی اور واقعیت ان کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔ ان کا کلام ’’جذباتِ نادر‘‘ کے نام سے دو حصوں میں شائع ہوا۔ انہوں نے کئی انگریزی نظموں کے کامیاب ترجمے کیے اور ان کی طبع زاد نظموں میں بھی انگریزی شاعری کا اثر جھلکتا ہے۔ ان کا کارنامہ ٹامس مور کی نظم ’’لالہ رخ‘‘ کے ایک قصے کا ترجمہ ہے۔ ’’مخزن‘‘ میں ان کا کلام برابر چھپتا تھا اور اقبالؒ نے ان کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔ 


(بشکریہ روزنامہ دنیا ، 11فروری 2018)