اکرم طاہر
بچہ پیدائش کے وقت فطرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس کے اولین معلم، ساتھی اور ماحول اس کے والدین ہوتے ہیں۔ اس کے حواس خمسہ پر جو اولین سمعی،بصری اور دوسرے تاثرات، مشاہدات و کیفیات مرتب ہوتے ہیں، وہ براہ راست والدین اور ان کے گھریلو ماحول سے صادر ہوتے ہیں۔ والدہ خصوصی طور پر بچے پر اپنی شخصیت کی چھاپ لگاتی ہے کہ اس کی آغوش بچے کا گہوارہ اول ہوتی ہے۔ اس گھریلو ماحول کا کینوس بہت چھوٹا ہوتا ہے۔
لیکن بچے کی کل کائنات یہی ہوتی ہے۔ بچے کی تعلیم اور تربیت کے متعلق ہمارے یہاں جو نظریات مروج اور مقبول ہیں وہ حد درجہ سطحی ہیں۔ عام طورپر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر حصول تعلیم کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کو اساتذہ کے سپرد کر کے اپنی ذمے داری سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ بعض والدین تو یہاں تک غیر ذمہ داری کے مرتکب ہوتے ہیں کہ وہ بچے کو سکول میں داخل کروا کر برملا کہتے پھرتے ہیں کہ ’’چلو چھٹی ہوئی، کمبخت نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔‘‘ ان بدنصیبوں کو یہ کون بتائے کہ آپ نے بچے کو ابتدائی تربیت اورتیاری کے بغیر ہی سکول میں دھکیل دیا ہے۔ جس کا آغاز یہ ہے، اس کا انجام کیا ہوگا؟ کتنے ہی ایسے والدین ہوں گے جو اپنے ’’نالائق‘‘ اور ’’ناکام‘‘ بچوں کا رونا ہر کس و ناکس کے آگے روتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس کی نالائقی اور ناکامی کا سنگ بنیاد انہی کا رکھا ہوا ہے۔ بچے کی تعلیم و تربیت کا جو میکانکی نظریہ ہمارے معاشرے اور گھروں میں رائج ہے، اس نے بیشتر گھرانوں کی بنیادیں کھود ڈالی ہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے مغربی تعلیم و تربیت کی بھونڈی نقالی میں تو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن اس کے مضمرات و افادات کی تہہ تک نہیں پہنچ پائے۔ چنانچہ موجودہ طریق تعلیم اور انداز تربیت کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اول تو امتحانوں میں طلبا اور طالبات بڑی تعداد میںناکام ہوتے ہیں اور جو خوش نصیب کامیاب ہو جاتے ہیں، ان میں سے بھاری اکثریت نہ زبان پر قادر ہوتی ہے نہ قلم پر۔
بچے کی تعلیم و تربیت کی شروعات میں نہ انفرادی نفسیات کے عمیق مطالعے کی ضرورت ہے نہ بچوں کی نفسیات سے آگاہی کی۔ ہاں تعلیم یافتہ والدین کو ان علوم کی الف ب معلوم ہونی چاہیے کہ اس کے بغیر بچے کی منظم تربیت ممکن نہیں ہوتی۔ والدین کو بچے کی تربیت و تہذیب کے سلسلے میں یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے عمل میں ایسا کردار ادا کریں کہ اس سے بچے کی شخصیت پامال یا مغلوب ہونے کی بجائے آزادانہ پنپ سکے۔ اس ضمن میں والدین کا رویہ سختی اور بے جا لاڈ پیار کے بین بین ہوناچاہیے۔
بچے کی دیکھ بھال، تربیت، تہذیب، تادیب اور تعلیم میں درجہ اعتدال سے ادھر ادھر نہیں ہونا چاہیے کہ تشدد یا لاڈ پیار دونوں بچے کو بالآخر ’’بگڑا بچہ‘‘ بنا دیتے ہیں۔ بچے سے والدین کا رویہ متناقص یا متضاد نہیں ہونا چاہیے۔ یوں نہ ہو کہ والد تو بچے کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا ہے اور والدہ اس کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے، یا والد تو بچے کو پھوٹی کوڑی دینے کو تیار نہیں اور والدہ چوری چھپے اس کو جیب خرچ دیتی رہتی ہے۔ والدین کو ایک ایسا لائحہ عمل تیار کر لینا چاہیے جو بچے کی صحیح خطوط پر تربیت کر سکتا ہو۔ بچے کی نگرانی ہمہ وقتی توجہ کی محتاج ہوتی ہے لیکن نگرانی یوں نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تلوار بن کر بچے کے سر پر لٹکتی رہے۔
بس بچے کویہ احساس رہنا چاہیے کہ والدین مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس خوف کی بجائے والدین کی جانب سے اک گونہ دلچسپی اور توجہ کا احساس ہونا چاہیے۔ نیز اس کو قدم قدم پر ان کی مہربان رہنمائی حاصل ہونی چاہیے۔ پاکستان کی بیشتر خواتین ناخواندہ یا نیم تعلیم یافتہ ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہماری معاشرتی پابندیوں نے ان کو گھر کی چاردیواری میں پابند کررکھا ہے۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ تربیت کے جدید اصولوں سے واقف نہیں۔ دنیا کی عظیم شخصیتوں کی مائیں بھی عظیم ہوتی ہیں اور وہ اپنے بچوں کو دنیا میں دھکیلنے سے پہلے ان میں وہ تمام خواص اور صفات پیدا کر دیتی ہیں جو آگے چل کر ان کی عظمت کی ضمانت بنتے ہیں۔ ماؤں کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرکے بچے کی زندگی کا سنگ بنیاد اچھی طرح رکھا جا سکتا ہے۔
٭…٭…٭