اسلام کے نظم اجتماعی پر چند قدیم تصنیفات

سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 


اسلام کے نظام اجتماعی، سلطنت اور اس کے دائرہ عمل پر (مرتبہ اور کیفیت سے قطع نظر تعداد و کمیت کے لحاظ سے بھی) ہمیں قدیم ذخیرہ کتب میں بہت کم کتابیں ملتی ہیں، اس موضوع پر امام ابو یوسف رحمہ اللہ (۱۱۳ھ – ۱۸۲ھ) جو امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد رشید اور خلافت عباسیہ کے قاضی القضاۃ تھے، کی" کتاب الخراج" بنیادی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کا دائرہ بحث سلطنت اسلامیہ کے ذرائع آمدنی، مالیات اور نظام محاصل تک محدود ہے۔





اس سلسلہ میں سب سے پہلی قابل ذکر کتاب قاضی القضاۃ علامہ ابو الحسن علی ابن محمد بن حبیب المادردی (۳۶۴ھ – ۴۵۰ھ) کی تالیف "الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ" ہے، یہ متوسط سائز کے ۲۵۹ صفحات میں آئی ہے۔ اس کا مرکزی موضوع امامت اور اس کا حکم شرعی، شرائط، کیفیت انعقاد، اس کے تفویض کئے ہوئے مناصب اور امام کے فراض و واجبات، قضاۃ کے تقرر کے احکام، امامت، ولایت صدقات اور جزیہ و خراج وغیرہ کے احکام ہیں، اور حدود نیز احتساب وغیرہ کا بیان ہے، خلافت راشدہ کی صحت وثبوت اور خلفائے راشدین کے فضائل وناقب اور کارناموں سے کوئی بحث نہیں۔


 اس موضوع پر سب سے بڑی کتاب : الغیاثی : ہے اس کا پورا نام ؛ غیاث الامم فی التیاث الظلم ؛ ہے کتاب کے مصنف امام غزالی کے نامور استاد اور اپنے زمانہ کے استاد الاساتذہ امام الحرمین ابو المعالی عبدالملک الجوینی ( 419ھ، 427 ھ ؎)  (1) ہیں یہ کتاب اصلا دولت سلجوقیہ کے نامور وزیر باتدبیر نظام الملک طوسی ( 418ھ 485ھ ) ( بانی مدرسہ نظامیہ بغداد ونیشاپور ) کے مشورہ و ملاحظہ کے لئے تصنیف کی گئی ہے، جو ضابطہ سے ملک الپ ارسلان اور ملک شاہ سلجوقی کے وزیر اور مدار المہام سلطنت تھے، لیکن حقیقتا اس عظیم سلطنت بلکہ شہنشاہی کے کرتا دھرتا تھے (۲؎ )، کتاب درحقیقت امامت کے شرعی احکام، صفات اور فرائض پر ہے، قسم اول میں ائمہ، ولاۃ رعیت اور قضاۃ کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں، اس پر بھی بحث کی گئی ہے کہ اگر کسی زمانہ میں کوئی امام نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے، غیر مفتیوں ووالیوں کے اوصاف وفضائل بیان کئے گئے ہیں، ان کی غیر موجودگی میں امت کے فرائض کیا ہو جاتے ہیں، اگر منصب امامت پر کوئی نااہل بزور شمشیر مسلط ہو جائے تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟ اگر زمانہ مفتیوں سے خالی ہو تو امت کا کیا فرض ہے؟ خلع امام کے اسباب کیا ہیں؟ پھر تفصیل سے وہ فقہی احکام بیان کئے گئے ہیں جو مفتیوں کے نہ ہونے کی صورت میں امت کو جاننے چاہئیں، اور ان پر عمل کرنا چاہئے، یہاں پہونچکریہ کتاب فقہ( شافعی ) کی کتاب بن جاتی ہے، کتاب میں خلفائے راشدین کی خلافت کی صحت و اہمیت سے بحث نہیں، وہ درحقیقت امامت کے شرعی احکام، صفات وفرائض پر ہے، کتاب میں جا بجا ماوردی کی کتاب " الاحکام السلطانیہ " پر تعریض اور مؤلف پر اعتراضات بھی ہیں۔ 


تیسری قابل ذکر کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ ( سن۶۶۱ ھ سن ۷۲۸ھ ) کی کتاب السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی والرعیۃ " ہے مصنف علّام نے کتاب خطہ میں صراحت سے کہدیا ہے کہ یہ مختصر رسالہ ہے، جس میں سیاست الہٰیہ اور نیابت نبویہ کے وہ چند اصول واحکام بیان کئے جائیں گے جن سے راعی اور رعیت کوئی بھی مستغنی نہیں کتاب درحقیقت آیت قرآنی :-

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ 

( الی قولہ تعالیٰ ) ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ۞ ( سورۃ النساء ۔ ۵۸ ۔ ۵۹ )
خدا تک کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالہ کردیا کرو ، اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے۔
کی تفسیر و تفصیل ہے۔
قسم اول میں باب اول کا عنوان " الولایات " ہے ، باب دوم کا " الاموال " ہے ، اور قسم ثانی میں پہلے حدوداللہ اور حقوق اللہ سے بحث کی گئی ہے ، پھر حقوق العباد سے ، کتاب متوسط سائز کے ۱۶۸ صفحات پر آئی ہے (3 )

اس کتاب میں بھی خلافت راشدہ اور خلفائے راشدین کے سلسلہ کی اصولی، کلامی اور تاریخی بحثوں سے کوئی تعرُّض نہیں کیا گیا، جس کے بارہ میں کتاب کے جلیل القدر مصنف سند اور امام کا درجہ رکھتے تھے اور اگر وہ اس کی طرف توجہ فرماتے تو وہ اسلام کے تحقیقی ذخیرہ کتب اور مباحث میں گرانقدر اضافہ ہوتا، اس موضوع پر ان کے وسیع علم اور رواں قلم نے "منھاج السنۃ" کے صفحات پر اپنا اصلی جوہر دکھایا ہے، اور اس میں ان کے دریائے علم کی طغیانی اور رہوار قلم کی جولانی کا تماشا دیکھنے میں آتا ہے۔ (4)

(ماخوذ از  تاریخ دعوت وعزیمت ج 5 ص 255- 258)
............................................
(١؎ )یہ کتاب ڈاکٹر عبدالعظیم الدیب کی تحقیقی سے شیخ عبداللہ بن ابراہیم الانصاری کی توجہ اور اہتمام سے حکومت قطر کے ؛ الشؤن الدینیۃ ؛ کے مصارف پر 1400ھ میں طبع ہوئی ، کتاب کی ضخامت بڑی تختی پر 611 صفحات ہیں 

(۲؎) ابن خلکان ، طبقات الشافعیہ وغیرہ ، نظام الملک کے حالات وکمالات کے لئے ( اردو میں ) ملاحظہ ہو؛ نظام الملک طوسی؛ از مولوی عبدالرزاق صاحب کا نپوری مرحوم

(3؎) ہمارے سامنے اس کا چوتھا ایڈیشن ہے جو سن ۱۹۶۹ء میں دار الحکومت العربی مصر کی طرف شائع ہوا،
(4) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو "منہاج السنۃ" پر تبصرہ، تاریخ دعوت و عزیمت" حصہ دوم ص ٢٨٤- ٣١٢