فتنۂ باطنیت اور امام غزالی ؒ
سید ابوالحسن علی ندوی ؒ
چوتھی صدی ہجری کے آخر میں تمام عالمِ اسلام پر فلسفہ یونان کا اثر پڑ رہا تھا، ہر ذہین و متجسس نوجوان اس کو شوق و عظمت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، چوتھی صدی کے وسط ہی میں اخوان الصفا کے نام سے فری میسن کے طرز کی ایک خفیہ انجمن بغداد میں قائم ہوئی، جس میں فلسفہ یونان کو معیار قرار دے کر دینی مباحث اور عقائد پر گفتگو ہوتی تھی اور مسائل کو طے کیا جاتا تھا۔ اس انجمن کا منشور ان کے الفاظ میں یہ تھا :
انَّ الشَّریعۃ الاسلامیۃ قد تنجست بالجھالات و اختلطت بالضلالات ولا سبیل الی غسلھا و تطہیرھا الا بالفلسفۃ لانہا حاویۃ للحکمۃ الاعتقادیۃ والمصلحۃ الاجتھادیۃ وانہ متی انتظمت الفلسفۃ الیونانیۃ والشریعۃ المحمدیۃ فقد حصل الکمال۔ (تاریخ فلاسفۃ الاسلام فی المشرق و المغرب محمد لطفی جمعہ ص ۲۵۳۔)
اسلامی شریعت جہالتوں اور گمراہیوں کی آمیزش سے گندی ہو گئی ہے۔ اس کو صرف فلسفہ کے ذریعہ دھویا اور پاک کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ فلسفہ اعتقادی علوم و حکمت اور اجتہادی مصلحتوں پر حاوی ہے۔ اب صرف فلسفۂ یونان اور شریعت محمدی کے امتزاج سے کمال مطلوب حاصل ہو سکتا ہے۔
ان کی اپنے رفقاء کو خاص ہدایت تھی کہ وہ پختہ کار اور سن رسیدہ لوگوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے نوجوانوں اور کم عمروں کی طرف توجہ کریں، اور ان کو اپنے خیالات سے متاثر کرنے کی کوشش کریں، اس لئے کہ عمر رسیدہ لوگوں میں پختگی اور جمود ہوتا ہے، جو نئی چیز کو قبول کرنے سے مانع ہوتا ہے، نوجوان نئی چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ (ایضاً ص ۲۶۰، ۲۶۱۔)
انہوں نے اس بحث و نظر کے نتیجہ میں ۵۲ رسالے مرتب کئے، جو ان کے فلسفہ کی نمانیدگی کرتے ہیں، اور رسائل اخوان الصّفا کے نام سے تاریخ و ادب میں مشہور ہیں اور طبیعیات، ریاضیات، عقلیات کے مباحث پر مشتمل ہیں، معتزلہ اور ان کے ہم مذاق لوگوں نے ان رسائل کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ اپنی مجلسوں میں ان کر پڑھتے تھے اور جہاں جاتے تھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے، یہاں تک کہ ایک صدی کے اندر وہ اندلس پہنچ گئے۔ (ایضاً ص 254)
معتزلہ سے اگرچہ دانستہ یا نادانستہ شریعت کو نقصان پہنچا تھا، اور انہوں نے عقل کی طاقت کو غیر محدود سمجھ کر ذات و صفات کے نازک و ماوراء (نہ کہ مخالف عقل) مسائل کو بازیچۂ اطفال بنا دیا تھا، لیکن وہ اصلاً مذہبی ذہن کے لوگ تھے، وحی نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور عموماً تقشف معاصی سے مجتنب و محتاط تھے، عبادت اور دینی دعوت کا ذوق رکھتے تھے اور امر بالمعرف و نہی عن المنکر کے سختی کے ساتھ پابند تھے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ضحی الاسلام ص ۳ فصل اول۔)۔ اور یہ سب ان کے اصول و عقائد کا اقتضا تھا (ان کے نزدیک کبیرہ کے ارتکاب سے آدمی مخلد فی النار ہوتا ہے اور امر بالمعروف و نہی عن النکر فرض ہے۔) اس لئے اعتزال کے فروغ اور معتزلہ کے اقتدار سے عالمِ اسلام میں کفر و الحاد و انکار نبوت، انکار معاد اور بے عملی اور تعطل کا رحجان پیدا نہیں ہو سکا اور مسلمانوں کا مذہبی شعور مجروح یا کمزور نہیں ہونے پایا۔
لیکن فلاسفہ کا معاملہ اس سے بالکل مختلف تھا، فلسفہ نبوت کے بالکل متوازی چلتا ہے اور کہیں جا کر نہیں ملتا، وہ دین کے اصول و کلیات اور اس کے بنیادی عقائد و مسائل سے متصادم ہے اس لئے جس قدر فلسفہ کی مقبولیت اور عظمت بڑھتی گئی، قدرتی طور پر دین کی وقعت اور انبیاء علیہم السلام کی عظمت کم ہوتی گئی اور عقائد سے لے کر اخلاق و اعمال تک اس ذہنی تبدیلی سے متاثر ہوئے، مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا جو دین کی علانیہ تحقیر کرتا اور اسلام سے فخریہ اپنی بے تعلقی کا اظہار کرتا، جو لوگ اتنی اخلاقی جرأت نہیں رکھتے تھے، وہ ظاہری طور پر رسم و رواج کے پابند تھے لیکن اندر سے وہ کسی معنی میں مسلمان نہیں تھے۔
فلسفہ کے ساتھ ساتھ اور اس کے اثر سے ایک نیا فتنہ پیدا ہوا، جو اسلام کے حق میں نبوت کی تعلیمات کے لئے فلسفہ سے بھی زیادہ خطرناک تھا، یہ باطنیت کا فتنہ ہے، اس کے بانی اور داعی اکثر ان قوموں کے افراد تھے جو اسلام کے مقابلہ میں اپنی سلطنتیں اور اقتدار کھو چکے تھے اور ظاہری مقابلہ اور جنگ سے ان کی بازیافت کی کوئی امید نہ تھی، یا شہوت پرست اور لذت پرست لوگ تھے اور اسلام ان کی زندگی پر حدود و قیود عائد کرتا تھا ، یا شخصی اقتدار اور سرداری کے حریص تھے ۔ ان تمام مختلف مقاصد کے لوگ باطنیت کے نشان کے نیچے جمع ہو گئے ، انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اسلام کو جنگی طاقت سے شکست نہیں دے سکتے ، نہ مسلمانوں کو کفر و الحاد کی کھلی ہوئی دعوت دے سکتے ہیں ، اس لئے کہ اس سے ان کے مذہبی احساسات بیدار ہو جائیں گے ، اور مقابلہ کی قوت ابھر آئے گی ، انہوں نے اس کے لئے ایک نیا راستہ اختیار کیا ۔
انہوں نے دیکھا کہ شریعت کے اصول و عقائد اور احکام و مسائل کو الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، اور انسانوں کے سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ایسا ضروری تھا ۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ ﴿ابراہیم:٤﴾
اور ہم نے کوئی پیغمبر دنیا میں نہیں بھیجا مگر اپنی قوم ہی کی زبان میں تاکہ لوگوں پر مطلب واضح کر دے ۔
ان الفاظ کے معنی و مفہوم متعین ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان سے ان کی تشریح اور اپنے عمل سے ان کی تعیین کر دی ہے ۔ یہ معنی و مفہوم امت میں عملی و لفظی طور پر تواتر و تسلسل چلے آ رہے ہیں ، اور ساری امت ان کو جانتی اور مانتی ہے ۔ نبوت و رسالت ، ملائکہ ، معاد ، جنت ، دوزخ ، شریعت ، فرض و واجب ، حلال و حرام ، صلاۃ ، زکوٰۃ ، روزہ ، حج ، یہ سب وہ الفاظ ہیں جو خاص دینی حقائق کو بیان کرتے ہیں اور جس طرح یہ دینی حقائق محفوظ چلے آ رہے ہیں ، اسی طرح ان دینی حقائق کو ادا کرنے والے یہ الفاظ بھی محفوظ چلے آ رہے ہیں اور اب دونوں لازم و ملزوم بن گئے ہیں ۔
جب نبوت و رسالت ، یا نبی یا صلوٰۃ یا زکوٰۃ کا لفظ بولا جائے گا تو اس سے اس کی وہی حقیقت سمجھ میں آئے گی اور وہی عملی شکل سامنے آئے گی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ نے اس کو سمجھا اور اس پر عمل کیا اور اس کو دوسروں تک پہنچایا، اور اسی طرح نسلاً بعد نسل وہ چیز امت تک منتقل ہوتی رہی، انہوں نے اپنی ذہانت سے اس نکتہ کو سمجھا کہ الفاظ و معانی کا یہ رشتہ اُمت کی پوری زندگی اور اسلام کے فکری و عملی نظام کی بنیاد ہے اور اسی سے اس کی وحدت اور اپنے سرچشمہ اور اپنے ماضی سے اس کا ربط قائم ہے۔ اگر یہ رشتہ ٹوٹ جائے اور دینی الفاظ و اصطلاحات کے مفہوم و معانی متعین نہ رہیں، یا مشکوک ہو جائیں تو یہ امت ہر دعوت اور ہر فلسفہ کا شکار ہو سکتی ہے، اور اس کے سنگین قلعہ میں سینکڑوں چور دروازے اور اس کی مضبوط دیواروں میں ہزاروں شگاف پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس نکتہ کو پا جانے کے بعد انہوں نے اپنا سارا زور اس تبلیغ پر صرف کیا کہ ہر لفظ کے ایک ظاہری معنی ہوتے ہیں، اور ایک حقیقی اور باطنی، اسی طرح قرآن و حدیث کے کچھ ظاہر ہیں اور کچھ حقائق، ان حقائق سے ان ظواہر کو وہی نسبت ہے جو گودے اور مغز سے چھلکے اور پوست کو ہے۔ جہلاء صرف ان ظواہر کو جانتے ہیں، اور ان کے ہاتھ میں پوست ہی پوست ہے۔ عقلاء حقائق کے عالم ہیں اور ان کے حصہ میں مغز آیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ الفاظ دراصل حقائق کے رموز و اشارات ہیں، ان سے وہ مراد نہیں جو عوام سمجھتے اور عمل کرتے ہیں، ان سے مراد کچھ اور چیزیں ہیں، جن کا علم صرف اہل اسرار کو ہے، اور انہیں سے دوسروں کو حاصل ہو سکتا ہے جو ان حقائق تک نہیں پہنچا اور ظواہر میں گرفتار ہے۔ وہ ظاہری بیڑیوں اور شریعت کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے اور نہایت نیچی سطح پر ہے جو حقائق و رموز کی بلند سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی گردن سے یہ طوق و سلاسل اتر جاتے ہیں، اور وہ شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے
یہی اس آیت کا مفہوم ہے۔
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ (اعراف ۱۵۷) ﴿الاعراف:١٥٧﴾
(پیغمبر) اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوئے ہیں ، ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار تھے ۔
(تعطیل شریعت کا مستقل عقیدہ بھی پایا جاتا تھا۔ ایک باطنی امام و داعی "سیدنا" ادریس لکھتے ہیں : بَعَثَ اللہ محمد بن اسمٰعیل و ھو نبی ناطق نسخ شریعۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (محمد بن اسمٰعیل کو اللہ تعالٰی نے نبی ناطق کی حیثیت سے مبعوث فرمایا اور انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کر دیا۔ (عاصمۃ نفوس المھتدین و قاصمۃ ظہور المعتدین لسیدنا ادریس) معز لدین اللہ فاطمی سے بھی ایسے ہی اقوال منقول ہیں ۔)
جب یہ اصول تسلیم کر لیا گیا ، اور حقائق و ظواہر کے اس فلسفہ کو قبول کر لیا گیا تو انھوں نے نبی ، وحی و نبوت ، ملائکہ ، آخرت اور اصطلاحاتِ شرعیہ کی مَن مانی تشریح کرنی شروع کر دی ، جس کے بعض نادر نمونے یہ ہیں :
’’ نبی اس ذات کا نام ہے جس پر قوت قدسیہ صافیہ کا فیضان ہو ، جبریل کسی ہستی کا نام نہیں ، صرف فیضان کا نام ہے ، معاد سے مراد ہر چیز کا اپنی حقیقت کی طرف واپس آجانا ہے ، جنابت سے مراد افشائے راز ہے ، غسل سے مراد تجدید عہد ، زنا سے مراد علم باطن کے نطفہ کو کسی ایسی ہستی کی طرف منتقل کرنا جو عہد میں شریک نہ ہو ، طہارت سے مراد مذہب باطنیہ کے علاوہ ہر مذہب سے برأت ، تیمم سے مراد ماذون ( اجازت یافتہ ) سے علم کا حصول ، صلوٰۃ سے مراد امام وقت کی طرف دعوت ، زکوۃ سے مراد اہل استعداد و صفا میں اشاعتِ علم ، صیام (روزہ) سے مراد افشائے راز سے پرہیز و احتیاط ، حج سے مراد اس علم کی طلب جو عقل کا قبلہ اور منزل مقصود ہے ، جنت ، علم باطن ، جہنم علم ظاہر ، کعبہ خود نبی کی ذات ہے ، بابِ کعبہ سے مراد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات ، قرآن مجید میں طوفانِ نوح سے مراد علم کا طوفان ہے ، جس میں اہلِ شہادت غرق کر دیئے گئے ، آتشِ نمرود سے مراد نمرود کا غصّہ ہے نہ کہ حقیقی آگ ، ذبح سے مراد جس کا ابراہیم کو حکم دیا گیا تھا ، بیٹے سے عہد لینا ، یاجوج ماجوج سے مراد اہلِ ظاہر ہیں ، عصائے موسیٰ سے مراد ان کی دلیل اور حجّت ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔‘‘(قواعد عقائد آلِ محمد (باطنیہ) تالیف محمد بن حسن الدیلمی یمانی زمانۂ تالیف ۷۰۷ ھ ص ۸ ۔ ۱۶)
الفاظِ شرعی کے متواتر و متوارث معنیٰ و مفہوم کا انکار اور قرآن و حدیث کے ظاہر و باطن اور مغز و پوست کی تقسیم ، ایسا کامیاب حربہ تھا ، جس سے اسلام کے نظامِ اعتقاد و نظامِ فکر کے خلاف سازش کرنے والوں نے ہر زمانہ میں کام لیا۔ اسلام کی پوری عمارت کو اس طرح آسانی سے ڈائنامیٹ کیا جا سکتا تھا اور اسلام کے ظاہری خول کے اندر ریاست اندرونِ ریاست قائم کی جا سکتی تھی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی صدیوں میں جن فرقوں نے اور منافقین کی جس جماعت نے نبوتِ محمدی کے خلاف بغاوت کرنی چاہی، اس نے باطنیت کے اسی حربہ سے کام لیا اور اس معنوی تواتر و توارث کا انکار کر کے پورے نظامِ اسلامی کو مشکوک و مجروح بنا دیا۔ اور اپنے لئے دینی سیادت بلکہ نئی نبوت کا دروازہ کھول لیا۔ ایران کی بہائیت اور ہندوستان کی قادیانیت اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ (قادیانیوں نے بھی باطنیوں کی طرح الفاظ کو قائم رکھتے ہوئے ان کا نیا مفہوم بیان کیا ہے۔ اور معنوی توارث و تواتر کا عملاً انکار کیا ہے۔ ختم نبوت، مسیح و نزول مسیح، معجزات، دجال وغیرہ سب الفاظ وہی ہیں، مگر ان کی تشریح و تطبیق میں باطنیوں کی طرح اختراع و ایجاد سے کام لیا ہے۔ مرزا صاحب کی کتابیں اور مولوی محمد علی کی تفسیر اس کی مثالوں سے بھری ہوئی ہیں۔
بہائیوں نے بالکل نئی شریعت وضع کی ہے، جس کے بعض دفعات یہ ہیں : "روزہ سال میں ایک ہی مہینہ کا ہے، مگر مہینہ ۱۹ دن کا ہے۔ روزہ کی ابتداء صبح صادق کے بجائے طلوع آفتاب سے ہے۔ ۱۱ سال سے ۴۲ سال تک انسان احکامِ شرعی کا مکلف رہتا ہے، پھر پابندیاں اٹھ جاتی ہیں، وضو فرض نہیں ہے مستحب ہے۔ عورتوں پر نظر جائز ہے۔ کوئی پردہ نہیں۔ جس گھر میں بانی مذہب (باب) کی ولادت ہوئی ہے، اس کی زیارت واجب ہے۔ جماعت کی نماز صرف جنازہ میں مشروع ہے، ایمان کے بعد کوئی چیز نجس نہیں بلکہ محض مذہب بابی کی پیروی سے آدمی طاہر ہو جاتا ہے، پھر کبھی گندہ نہیں ہوتا۔ بلکہ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگ جاتا ہہے وہ بھی طاہر ہو جاتی ہے۔ پانی ہمیشہ طاہر و مطہر رہتا ہے۔ بہائیوں کا قانونِ میراث علیٰحدہ ہے (حاضر العالم الاسلامی بحوالہ فرنچ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام) موسیو ہوارٹ نے اپنے مقالہ "بابیت" میں صحیح لکھا ہے کہ باب نے اسلام میں اصلاح کے نام سے ایک نئے دین کی تشکیل کی ہے، جس کے عقائد و اصول علیٰحدہ ہیں اور اس کو نئی سوسائٹی اور ہئیت اجتماعیہ کے منشور کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی صورت حال قادیانیت کی ہے۔ دونوں جگہ ایک نئی نبوت اور ایک نئے نظام دینی کی تاسیس ہے۔
در حقیقت یہ سب باطنیت کی صدائے باز گشت ہے)
ظاہر ہے کہ ان "نکتہ آفرینیوں" کو (جن کی چند مثالیں اوپر پیش کی گئی ہیں) کوئی سلیم الطبع آدمی قبول نہیں کر سکتا تھا لیکن علم کلام کی معرکہ آرائیوں نے عالمِ اسلام میں ایسا ذہنی انتشار پیدا کر دیا تھا اور فلسفہ کے اثر سے لوگوں میں پیچیدہ اور غامض مضامین کا (خواہ اس کے اندر کوئی مغز نہ ہو) ایسا مذاق پیدا ہو گیا تھا کہ ایک طبقہ پر باطنیوں کا جادو چل گیا، جنہوں نے قدیم علم ہیئت علم طبیعات اور یونانی الہٰیات کے مسائل اور یونانی اصطلاحات عقل اول وغیرہ کو آزادی سے استعمال کیا تھا۔ اور مختلف اثرات اور مختلف اغراض سے لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے۔ کچھ جذبۂ انتقام میں کچھ اسرار و رموز کے شوق میں کچھ غلط قسم کی ظاہریت اور تقشف کے رد عمل میں کچھ بوالہوسی اور نفس پرستی کی آزادی کے لالچ میں کچھ اہلِ بیت کے نام سے اس طرح باطنیوں نے ایسی خفیہ تنظیم قائم کر لی جس سے طاقتور اسلامی حکومتیں عرصہ تک پریشاں رہیں۔ عالمِ اسلام کی بعض لائق ترین اور مفید ترین ہستیاں (نظام الملک طوسی و فخر الملک وغیرہ) ان کا شکار ہوئیں (باطنیوں کے ہاتھ شہید ہونے والوں کی مفصل فہرست کے لئے ملاحظہ ہو "نظام الملک طوسی" ص ۵۶۰ - ۵۶۳۔)۔ عرصہ تک کسی بڑے عالم اور مسلمان بادشاہ یا وزیر کو اس کا اطمینان نہیں تھا کہ صبح وہ صحیح سلامت اٹھے گا۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ اصفہان میں اگر کوئی شخص عصر تک اپنے گھر واپس نہ جاتا تو سمجھ لیا جاتا کہ وہ کسی باطنی کا شکار ہو گیا، اس بدامنی کے علاوہ انہوں نے ذہن و ادب اور علم کو بھی متاثر کرنا شروع کیا، اور دین کے اصول و نصوص اور قطعیات کی تاویل و تحریف اور عام الحاد کا دروازہ کھل گیا۔
فلسفہ اور باطنیت کے ان اسلام کش اثرات کے لئے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی، جس کو علومِ عقلیہ و نقلیہ دونوں میں پوری بصیرت اور دستگاہ حاصل ہو اور وہ تمام علوم میں مجتہدانہ نظر اور اپنا خود مقام رکھتا ہو جو اپنے ذہن خداداد جودت طبع اور دقتِ نظر میں فلاسفۂ یونان اور بہت سے قدیم ائمہ فکر سے کم نہ ہو، جو بہت سے علوم کو نئے طریقہ سے مدوّن کرنے کی قابلیت رکھتا ہو، جو وفورِ علم اور وسعت ِ نظر کے ساتھ دولتِ یقین سے بھی مالا مال ہو، اور اس نے اپنے ذاتی تفکر، تلاش و تحقیق، اور ریاضت و عبادت سے دین کے ان ابدی حقائق پر نیا ایمان حاصل کیا ہو، اور وہ نئے اعتماد ، تازہ یقین کے ساتھ علٰی وجہ البصیرۃ دین کی پیروی اور رسول ﷺ کے اقتداء کی طرف دعوت دیتا ہو، نیز عالم اسلامی اور علمی دنیا میں اپنے علم و یقین اور فکر و نظر سے ایک نئی روح اور زندگی کی ایک نئی لہر پیدا کر دے، پانچویں صدی کے عین وسط میں اسلام کو ایسی شخصیت عطا ہوئی جس کی عالمِ اسلام کو سخت ضرورت تھی، یہ شخصیت امام غزالی ؒ کی تھی۔
(ماخوذ از تاریخ دعوت وعزیمت ج 1 ص 119- 129، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )