روم کا زوال اور ایڈورڈ گبن

روم کا زوال اور ایڈورڈگبن

ستار طاہر

ایڈورڈ گبن کے عظیم کارنامے ’’انحطاط و زوال رومۃ الکبریٰ‘‘ (ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر) کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے دھیان اس کی خود نوشت کی طرف بھی مبذول ہو جاتا ہے۔ گبن نے اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھا ہے: ’’میں نے ایک سچے محبت کرنے والے کی طرح آہیں بھریں اور ایک مطیع اور فرمانبردار بیٹے کی طرح باپ کا حکم مان لیا‘‘۔ بہت کم لوگوں کو یہ علم اور دل چسپی ہے کہ گبن کی زندگی میں وہ کون سا ایسا دور آیا تھا کہ جب اسے سچی محبت کرنے والے کی طرح آہیں بھرنی پڑیں اور اسے اپنے باپ کے حکم کے سامنے سر جھکانا پڑا، البتہ آج کی دنیا کا ہر معقول لکھا پڑھا شخص گبن کے عظیم ترین تاریخی شاہکار ’’انحطاط و زوال رومۃ الکبریٰ‘‘ کے حوالے سے اسے جانتا ہے۔ اس کتاب میں سلطنت روم کے عروج و زوال کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گبن تاریخ کے شعبے میں ایک بے مثل مقام رکھتا ہے۔ اس کی عظیم اور ضخیم تصنیف دنیا کی معدودے چند بڑی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے اور مدتوں سے پوری انسانیت اس کی اس فقید المثال کتاب سے فیض یاب ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ گبن اپنی خودنوشت میں لکھتا ہے:15 اکتوبر 1764ء کا ذکر ہے، میں روم میں تھا اور قدیم دارالخلافہ کے کھنڈروں میں بیٹھا سوچ رہا تھا جب میں نے ننگے پیروں والے لوگوں کو پیڑ کے معبد میں مناجات گاتے دیکھا۔ یہ میرا تصور تھا جو مجھے اس دور میں لے گیا۔ تب میرے دل میں یہ کتاب لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ یہ عظیم الشان کتاب جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے، 1787ء میں اپنی تکمیل تک پہنچی۔ جب یہ مکمل ہوئی تو گبن نے عجیب طرح کا سکون محسوس کیا۔ آدھی رات کا وقت تھا جب اس نے اس کتاب کی آخری سطور لکھیں۔ کتاب کے آخری پیرے میں اس نے لکھا کہ اس کا یہ کام اب مکمل ہو چکا ہے۔ اب وہ اپنا یہ کام دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے۔ دنیا کا یہ عظیم مصنف، سکالر اور مؤرخ ایڈورڈ گبن 1737ء کو پٹنی (برطانیہ) میں پیدا ہوا۔ وہ اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا۔ اس کے چھ بھائی بہن تھے جو سب انتقال کر گئے۔ گبن نے اپنی زندگی کے حالات اپنی خود نوشت میں تحریر کیے ہیں۔ اس کی زندگی کی داستان ڈرامائی عناصر سے محروم ہے، لیکن وہ ایسا صاحب طرز لکھنے والا تھا ، اس لیے اپنی خاصی حد تک بے کیف زندگی کو بھی اس نے اس اندازہ میں لکھا ہے کہ اس کا مطالعہ بے حد دلچسپ بن جاتا ہے۔ اس کی سوانح عمری کا سب سے بڑا وصف اس کی حقیقت بیانی ہے۔ وہ کہیں مبالغے سے کام نہیں لیتا ۔ اپنی خود نوشت میں گبن ایک جگہ لکھتا ہے۔ ’’میرے بارے میں خواہ کچھ لکھا جاتا رہے لیکن ایک بڑی حقیقت سے میں پوری طرح واقف ہوں۔ وہ یہ شعور ہے کہ اپنے خیالات اور اعمال کو جس بہتر انداز میں میں بیان کر سکتا ہوں ایسا کرنا کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں۔‘‘ اس کا یہ دعویٰ مبالغہ نہیں۔ بلکہ کافی حد تک ایک حقیقت ہے اور اس کی گواہی اس کی خود نوشت سے ملتی ہے۔ بچپن میں گبن کی صحت زیادہ اچھی نہ رہی۔ ابتدائی تعلیم اس نے اپنی خالہ سے حاصل کی، جسے وہ ’’ذہنی والدہ‘‘ کا نام دیتا ہے۔ اپنی اس خالہ کی شفقت اور محبت کو وہ کبھی فراموش نہ کر سکا۔ بہر حال پندرہ برس کی عمر میں مگیڈلین کالج آکسفورڈ میں داخل ہوا۔ یہاں اس کا جی نہ لگا۔ بندھے ٹکے انداز کا نصاب اور طرز تعلیم اسے پسند نہ آیا۔ بہرحال یہاں اس نے دینیات میں خاصی دلچسپی لی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی عمر کے سولہویں برس میں اس نے اپنا عقیدہ تبدیل کر لیا۔ وہ پیدائشی اعتبار سے پروٹسٹنٹ تھا۔ اس نے کیتھولک عقیدے کو اپنا لیا۔ اس کے باپ کو خاصا صدمہ ہوا اور اس نے اسے سوئٹزرلینڈ بھجوا دیا۔ یہاں ایک بورڈنگ ہاؤس میں اسے رکھا گیا۔ ایک سال کے عرصے میں اس مذہبی بورڈنگ ہاؤس میں اس نے پھر اپنے اندر تبدیلی محسوس کی۔ ایڈورڈ گبن نے کیتھولک عقیدے کو خیرباد کہا اور پھر سے پروٹسٹنٹ بن گیا۔ اسی زمانے میں گبن نے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ بے تحاشا پڑھتا تھا۔ تاریخ سے اسے خاص شغف تھا۔ اس عرصے میں اس نے تاریخ کے بارے میں جو مواد جمع کیا وہ حیرت انگیز تھا۔ ای فارسٹر اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے: ’’اس نے اس دوران میں جو کتابیں پڑھیں، جو نوٹس تیار کیے، ان کی تعداد حیران کن ہے۔ تاہم اس زمانے میں اسے مطلق علم نہ تھا کہ وہ یہ سب کچھ کیوں پڑھ رہا ہے؟‘‘گبن نے جتنا مطالعہ کیا اور پھر جس انداز میں کتاب ’’انحطاط و زوال رومۃ کبریٰ‘‘ میں اسے برتا، یہ اس شخص کا اپنا ذاتی کارنامہ ہے، کیونکہ وہ کسی کی رہنمائی کا قائل تھا نہ کسی نے اس کی رہنمائی کی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب زندگی میں پہلی اور آخری بار گبن کے دل میں محبت نے اپنا جادو جگایا۔ وہ ایک جوان اور معزز خاتون تھی جس کا نام سوزان تھا۔ یہ خاتون ایک پادری کی بیٹی تھی۔ گبن نے اس سے ٹوٹ کر عشق کیا۔ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن یہاں پھر اس کے والد نے اس کی شادی کی شدید مخالفت کی۔ گبن نے والد کے سامنے سر جھکا دیا، اور پھر ساری عمر غیر شادی شدہ رہا۔ انگلستان آ کر گبن ہیمپ شائر ملیشیا میں کیپٹن بن گیا۔ جب ملیشیا فوج توڑ دی گئی تو گبن سیروسیاحت کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اٹلی میں اسے اپنی یہ شہرہ آفاق کتاب لکھنے کا خیال آیا اور پھر وہ اس کتاب کی تکمیل میں مصروف ہو گیا۔ سیروسیاحت کے بعد وہ انگلستان میں آ کر کئی برس تک پارلیمنٹ کا رکن بھی رہا۔ 1776ء میں اس کی زندگی بھر کے کام کا نتیجہ لوگوں کے سامنے آیا۔ یہ ’’انحطاط و زوال رومۃ الکبریٰ‘‘ کی پہلی جلد تھی۔ اس کتاب کی آمد تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ اسے نقادوں، مؤرخوں اور قارئین نے عظیم کارنامہ قرار دیا۔ پارلیمنٹ سے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد گبن نے لوزان کا رخ کیا۔ لوزان، جہاں اس نے اپنی نوجوانی کے دن گزارے تھے، جہاں اس نے عشق کیا تھا، اب اس نے اپنے آپ کو دنیا سے بالکل الگ تھلگ کر لیا اور اپنی کتاب کی تکمیل میں دن رات جٹ گیا۔ یہیں اس نے اپنی اس عظیم تصنیف کو مکمل کیا، اور یہ کتاب متعدد جلدوں میں مکمل ہوئی۔اس کا انتقال 1794ء میں ہوا۔