مسلمانوں کی علمی و فکری تاریخ کا تسلسل
اچھے اچھے سنجیدہ حلقوں میں یہ خیال قائم ہو چکا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں اصلاح و تجدید اور انقلاب حال کی کوشش مسلسل اور غیر منقطع طور پر نہیں پائی جاتی، بلکہ اس میں بڑے طویل طویل خلا ہیں، جو صدیوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ کئی کئی سو برس کے بعد کچھ شخصیتیں ابھرتی رہی ہیں جنہوں نے حالات سے کشمکش کی اور جو فکری اور عملی حیثیت سے کوئی ممتاز مقام رکھتی ہیں، ورنہ عام طور پر متوسط درجہ کے لوگ نظر آتے ہیں جو فکری اور عملی حیثیت سے عہد انحطاط کی عام سطح سے بلند نہیں تھے اور جن کے علمی و عملی کارناموں میں کوئی جدت اور ندرت نہیں پائی جاتی صرف چند گنی چنی شخصیتیں (جن کی تعداد ۷-۸ سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی) اس کلیہ سے مستثنیٰ ہیں۔
یہ بات دیکھنے میں بڑی معمولی معلوم ہوتی ہے، مگر اس کے نتائج بڑے اہم اور دور رس ہیں۔ یہ اسلام کی اندرونی طاقت و صلاحیت سے ایک طرح کی بدگمانی اور مایوسی ہے جو ہر زمانہ میں ضرورت کے آدمی اور اہلِ دعوت و عزیمت کو پیدا کرتی رہی ہے اور جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب اور قوم میں نہیں ملتی۔ یہ ایک احساس کمتری اور ذہنی شکست خوردگی ہے جس کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔
لیکن یہ نتیجہ بے سبب نہیں، بدقسمتی سے تاریخ اسلام کے وسیع ذخیرہ میں یاتو وہ کتابیں ملتی ہیں، جن کو واقعات کی "فہرست" کہنا صحیح ہے اور جن کی مرکزی شخصیت بادشاہوں کی ذات ہے۔ یا چند نمایاں شخصیتوں کی سوانح (تراجم و تذکرے) مگر اسلام اور مسلمانوں کی کوئی مسلسل فکری اور اصلاحی تاریخ نہیں، جن میں ان تمام شخصیتوں کی تحریکوں کا تعارف ہو، جنہوں نے عالمِ اسلام پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اسلام کی بروقت حفاظت یا تجدید و تقویت کی خدمت انجام دی ہے۔ غلط رحجانات کی اصلاح اور فتنوں کا سدِباب کیا ہے اور اسلام کی فکری اور عملی ذخیرہ میں کوئی قابل قدر اضافہ کیا ہے درحقیقت اسلام کے سلسلہ دعوت و اصلاح میں خلا نہیں۔ تاریخ اسلام کی ترتیب و تالیف میں خلا ہے۔ (تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 11-16 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے
اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، اور کامل و مکمل طور پر دنیا کے سامنے آچکا ہے، اور اعلان کیا جاچکا ہے کہ
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ (المائدہ-3)
ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور دین کی حیثیت سے اسلام کو تمہارے لیے پسند کرچکا۔
ایک طرف تو اللہ کا دین مکمل ہے، دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے، اور اس کا شباب ہر وقت قائم ہے۔
جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی
اس رواں دواں اور سداجواں زندگی کا ساتھ دینے اور اس کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰے نے آخری طور پر جس دین کو بھیجا ہے، اس کی بنیاد اگرچہ"ابدی عقائدوحقائق"پر ہے مگر وہ زندگی سے پُر ہے، اور حرکت اسکی رگ و پے میں بھری ہوئی ہے، اس میں اللہ تعالٰی نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر حال میں دنیا کی رہنمائی کرسکے، اور ہر منزل میں تغیر پذیر انسانیت کا ساتھ دے سکے، وہ کسی خاص عہد کی تہذیب یا کسی خاص دور کا فن تعمیر نہیں ہے جو اس دور کی یادگاروں کے اندر محفوظ ہو اور اپنی زندگی کھوچکا ہو، بلکہ ایک زندہ دین ہے جو علم و حکیم صانع کی صنعت کا بہترین نمونہ ہے۔
ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿الانعام:٩٦﴾
یہ ہے اندازہ غالب اور علم رکھنے والے کا۔
صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ ﴿النمل:٨٨﴾
کاریگری اللہ کی جس نے ہر چیز کو محکم کیا۔
یہ بات دیکھنے میں بڑی معمولی معلوم ہوتی ہے، مگر اس کے نتائج بڑے اہم اور دور رس ہیں۔ یہ اسلام کی اندرونی طاقت و صلاحیت سے ایک طرح کی بدگمانی اور مایوسی ہے جو ہر زمانہ میں ضرورت کے آدمی اور اہلِ دعوت و عزیمت کو پیدا کرتی رہی ہے اور جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب اور قوم میں نہیں ملتی۔ یہ ایک احساس کمتری اور ذہنی شکست خوردگی ہے جس کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔
لیکن یہ نتیجہ بے سبب نہیں، بدقسمتی سے تاریخ اسلام کے وسیع ذخیرہ میں یاتو وہ کتابیں ملتی ہیں، جن کو واقعات کی "فہرست" کہنا صحیح ہے اور جن کی مرکزی شخصیت بادشاہوں کی ذات ہے۔ یا چند نمایاں شخصیتوں کی سوانح (تراجم و تذکرے) مگر اسلام اور مسلمانوں کی کوئی مسلسل فکری اور اصلاحی تاریخ نہیں، جن میں ان تمام شخصیتوں کی تحریکوں کا تعارف ہو، جنہوں نے عالمِ اسلام پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اسلام کی بروقت حفاظت یا تجدید و تقویت کی خدمت انجام دی ہے۔ غلط رحجانات کی اصلاح اور فتنوں کا سدِباب کیا ہے اور اسلام کی فکری اور عملی ذخیرہ میں کوئی قابل قدر اضافہ کیا ہے درحقیقت اسلام کے سلسلہ دعوت و اصلاح میں خلا نہیں۔ تاریخ اسلام کی ترتیب و تالیف میں خلا ہے۔ (تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 11-16 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے
اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، اور کامل و مکمل طور پر دنیا کے سامنے آچکا ہے، اور اعلان کیا جاچکا ہے کہ
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ (المائدہ-3)
ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور دین کی حیثیت سے اسلام کو تمہارے لیے پسند کرچکا۔
ایک طرف تو اللہ کا دین مکمل ہے، دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے، اور اس کا شباب ہر وقت قائم ہے۔
جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی
اس رواں دواں اور سداجواں زندگی کا ساتھ دینے اور اس کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰے نے آخری طور پر جس دین کو بھیجا ہے، اس کی بنیاد اگرچہ"ابدی عقائدوحقائق"پر ہے مگر وہ زندگی سے پُر ہے، اور حرکت اسکی رگ و پے میں بھری ہوئی ہے، اس میں اللہ تعالٰی نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر حال میں دنیا کی رہنمائی کرسکے، اور ہر منزل میں تغیر پذیر انسانیت کا ساتھ دے سکے، وہ کسی خاص عہد کی تہذیب یا کسی خاص دور کا فن تعمیر نہیں ہے جو اس دور کی یادگاروں کے اندر محفوظ ہو اور اپنی زندگی کھوچکا ہو، بلکہ ایک زندہ دین ہے جو علم و حکیم صانع کی صنعت کا بہترین نمونہ ہے۔
ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿الانعام:٩٦﴾
یہ ہے اندازہ غالب اور علم رکھنے والے کا۔
صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ ﴿النمل:٨٨﴾
کاریگری اللہ کی جس نے ہر چیز کو محکم کیا۔
امت اسلامیہ کا زمانہ سب سے زیادہ پر از تغیرا ت ہے
یہ دین چونکہ آخری اور عالمگیر دین ہے اور یہ امت آخری اور عالمگیر اُمت ہے اس لئے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیا کے مختلف انسانوں اور مختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا اور ایسی کشمکش کا اس کو مقابلہ کرنا ہو گا، جو کسی دوسری امت کو دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں آئی۔ اس امت کو جو زمانہ دیا گیا ہے، وہ سب سے زیادہ پُر از تغیرات اور پُر از انقلابات ہے اور اس کے حالات میں جتنا تنوع ہے، وہ تاریخ کے کسی گذشتہ دور میں نظر نہیں آتا۔
اسلام کے بقا اور تسلسل کے لئے غیبی انتظامات
یہ دین چونکہ آخری اور عالمگیر دین ہے اور یہ امت آخری اور عالمگیر اُمت ہے اس لئے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیا کے مختلف انسانوں اور مختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا اور ایسی کشمکش کا اس کو مقابلہ کرنا ہو گا، جو کسی دوسری امت کو دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں آئی۔ اس امت کو جو زمانہ دیا گیا ہے، وہ سب سے زیادہ پُر از تغیرات اور پُر از انقلابات ہے اور اس کے حالات میں جتنا تنوع ہے، وہ تاریخ کے کسی گذشتہ دور میں نظر نہیں آتا۔
اسلام کے بقا اور تسلسل کے لئے غیبی انتظامات
ماحول کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور مکان و زمان کی تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے دو انتظامات فرمائے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان سے جناب رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو ایسی کامل و مکمل اور زندہ تعلیمات عطا فرمائی ہیں جو ہر کشمکش اور ہر تبدیلی کا باآسانی مقابلہ کر سکتی ہیں اور ان میں ہر زمانہ کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ دوسرے اس نے اس کا ذمہ لیا ہے (اور اس وقت کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے) کہ وہ اس دین کو ہر دور میں ایسے زندہ اشخاص عطا فرماتا رہے گا جو ان تعلیمات کو زندگی میں منتقل کرتے رہیں گے۔ اور مجموعاً یا انفراداً اس دین کو تازہ اور اس امت کو سرگرم عمل رکھیں گے۔ اس دین میں ایسے اشخاص کے پیدا کرنے کی جو صلاحیت و طاقت ہے اس کا اس سے پہلے کسی دین سے اظہار نہیں ہوا۔ اور یہ امت تاریخ عالم میں جیسی "مردم خیز" ثابت ہوئی ہے دنیا کی قوموں اور امتوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ محض اتفاقی بات نہیں ہے۔بلکہ انتظام خداوندی ہے کہ جس دور میں جس صلاحیت و قوت کے آدمی کی ضرورت تھی اور زہر کو جس "تریاق"کی حاجت تھی وہ اس امت کو عطا ہوا ۔
اسلام کے قلب اور جگر پر حملے
اسلام کے قلب اور جگر پر حملے
شروع ہی سے اسلام کے قلب و جگر اور اس کےاعصاب پر ایسے حملے ہوئے ہیں کہ دوسرا مذہب ان کی تاب نہیں لا سکتا دنیا کے دوسرے مذاہب جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں دنیا فتح کرلی تھی اس سے کم درجہ کے حملوں کو سہ نہیں سکے اور انہوں نے اپنی ہستی کو گم کر دیا ،لیکن اسلام نے اپنے ان سب حریوفوں کو شکست دی ،اور اپنی اصلی شکل میں قائم رہا ایک طرف باطنیت اور اس کی شاخیں ،اسلامی روح،اور اسکے نظام عقائد کے لئے سخت خطرہ تھیں ،دوسری طرف مسلمانوں کو زندگی سے بے دخل کرنے کے لئے ،صلیبیوں کی یورش اور تاتاریوں کا حملہ بلکل کافی تھا ،دنیا کا کوئی دوسرا مذہب ہوتا تو وہ اس موقع پر اپنے سارے امتیازات کھو دیتا ،اور ایک تاریخی داستان بن کر رہ جاتا لیکن اسلام ان سب داخلی وخارجی حملوں کو برداشت کر لے گیا،اور اس نے نہ صرف اپنی ہستی قائم رکھی بلکہ زندگی کے میدان میں نئی نئی فتوحات حاصل کیں تحریفات و تاویلات ،بدعات ،عجمی اثرات،مشرکانہ اعمال،و رسوم ،مادیت،نفس پرستی،تعیشات،الحاد و لادینیت،اور عقلیت پرستی کا اسلام پر بار ہا حملہ ہوا اور کبھی کبھی محسوس ہونے لگا کہ شائد اسلام ان حملوں کی تاب نہ لاسکے اور ان کے سامنے سپر ڈالدے،لیکن امت مسلمہ کے ضمیر نےصلح کرنے سے انکار کردیا ،اور اسلام کی روح نے شکست نہیں کھائی ،ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے تحریفات و تاویلات کا پردہ چاک کر دیا ،اور حقیقت اسلام اور دین خالص کو اجاگر کیا ،بدعات اور عجمی اثرات کے خلاف آواز بلند کی ،سنت کی پر زور حمایت کی عقائد باطلہ کی بے باکانہ تردید اور مشرکانہ اعمال و رسوم کے خلاف علانیہ جہاد کیا ، مادیت اور نفس پرستی پر کاری ضرب لگائی ،تعیشات اور اپنے زمانے کے "مترفین"کی سخت مذمت کی ،اور جابرانہ سلاطین کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ، عقلیت پرستی کا بت توڑا اور اسلام میں نئی قوت وحرکت اور مسلمانوں میں نیا ایمان اور نئی زندگی پیدا کردی ، یہ افراد دماغی علمی ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اپنے زمانہ کے ممتاز ترین افراد تھے اور طاقتور اور دلآویز شخصیتوں کے مالک تھے ، جاہلیت اور ضلالت کی ہر نئی ظلمت کے لئے ان کے پاس کوئی نہ کوئی ید بیضاء تھا جس سے انہوں نے تاریکی کا پردہ چاک کردیا ، اور حق روشن ہو گیا،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو اس دین کی حفاظت اور بقاءمنظور ہے ، اور دنیا کی راہنمائی کا کام اسی دین اور اسی امت سے لینا ہے ، اور جو کام وہ پہلے تازہ نبوت اور انبیاء سے لیتا تھا اب رسول اللہ ﷺ کے نائبین اور امت کے مجددین ومصلحین سے لے گا۔
دوسرے مذاہب کی تاریخ میں تجدیدی شخصیتوں کی کمی
اس کی سب سے بڑی مثال مسیحیت ہے ، وہ اپنے عہد کے آغاز یعنی پہلی صدی مسیحی کے نصف ہی میں ایسی تحریف کا شکار ہوئی ، جس کی نظیر اس دور کی تاریخ مذاہب میں کہیں نہیں ملتی وہ ایک صاف اور سادہ توحیدی مذہب سے ایک ایسے مشرکانہ مذہب میں تبدیل ہو گئی جس کو یونانی اور بودھ افکار وخیالات کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس کے سب سے بڑے داعی اور پیرو سینٹ پال (10/65ء ) کے ہاتھوں ہوا ۔ یہ تبدیلی دراصل ایک روح سے دوسری ، ایک شکل سے دوسری شکل اور ایک نظام سے دوسرے نظام کی طرف ایک ایسی جست یا چھلانگ کے مترادف تھی جس میں پہلی شکل سے صرف نام اور بعض رسوم کا اشتراک باقی رہ گیا تھا ۔(2)
یہی قصہ مشرق کے مذاہب کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ہندو مذہب بھی اپنی اصل راہ سے بالکل ہٹ گیا۔ اس نے اپنی سادگی اور خالقِ کائنات سے براہِ راست روحانی نسبت بالکل کھو دی، اخلاقی قوت بھی مفقود ہو گئی اور اپنی پیچیدگی کی وجہ سے وہ محض ایک دقیق اور غیر عملی فلسفہ بن کر رہ گیا۔ اور رفتہ رفتہ عقائد میں توحید خالص اور معاملات میں مساوات دونوں اہم چیزوں کا سررشتہ اس کے ہاتھ سے بالکل چھوٹ گیا۔ اور یہی وہ دو اہم بنیادیں تھیں، جن پر کوئی ایسا مذہب قائم ہو سکتا ہے، جس کی جڑیں باطن میں مضبوط ہوں، اور شاخیں ظاہر میں پھیلی ہوئی ہوں۔
اپنیشد کے مصنفین نے بہت کوشش کی کہ اس فساد کا تدارک کریں، چنانچہ انہوں نے ان رسوم کو جو ہندو مذہب اور ہندو سماج پر پوری طرح چھا گئی تھیں، مسترد کر دیا اور اس کی جگہ ایک ایسے فلسفیانہ اور تصوراتی نظام کو پیش کیا، جو کثرت میں وحدت کے نظریہ پر قائم تھا۔ یہ نئی تصویر ہندو مذہب کے علمی حلقوں میں تو ضرور پسند کی گئی، اس لئے کہ ان کا رحجان شروع ہی سے وحدت الوجود ہمہ اوست کی طرف تھا، لیکن عوام نے جن کی فکری سطح پست تھی، اور جو عملی نظام اور عملی تعلیمات کے خواہشمند تھے، اس بات کو قبول نہ کیا اور اس طرح ہندو مذہب رفتہ رفتہ اپنی قوت و تاثیر کھوتا رہا۔ اس کی طرف سے بے اعتمادی اور بے اطمینانی روز بروز بڑھنے لگی، ہندو سماج کی یہی بے اطمینانی اور بے چینی تھی جس نے آگے چل کر بودھ کی شخصیت میں جنم لیا۔ یہ مرحلہ چھٹی صدی قبل مسیح میں سامنے آیا۔
بودھ نے ایک نیا فکر یا ایک نیا مذہب (اگر اس موقع پر لفظ مذہب کا استعمال درست ہو) پیش کیا جو ترک دنیا، تہذیب نفس، خواہشات سے مقابلہ، رحم دلی و ہمدردی، خدمت و عمل اور رسوم و عادات اور طبقاتی کشمکش کی تردید و مخالفت پر قائم تھا، جو ہندو سماج میں آخر زمانہ میں بهت نمایاں ہو گئی تھی، یہ فکر یا یہ مذہب (1) بہت سرعت کے ساتھ پهیلا، اور ایشیا کے جنوبی اور مشرقی حصہ پر جو بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان واقع ہے، اس کا تسلط قائم ہوگیا _
لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد یہ زبردست مذہبی تحریک بھی اپنے راستہ سے ہٹ گئی، اور تحریف کا شکار ہو گئی، مورتیاں اور رسوم وغیرہ جن کے خلاف اس مذہب نے علم بغاوت بلند کیا تها، اس پر پھر سے حملہ آور ہوئے، یہاں تک کہ اس کے آخر دور میں وہ بھی شرک اور مورتی پوجا کا مذہب بن کر رہ گیا، جو اپنے پیشرو ہندو مذہب سے مورتیوں کی اقسام اور انکی تعداد کے سوا کسی اور چیز میں مختلف اور بہتر نہ تھا، اسکی اخلاقیات کو بھی زوال ہوا، افکار و خیالات میں پیچیدگی اور بڑه گئی، نئے نئے فرقے اور مذہبی گروہ قائم ہو گئے۔ (تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 23-24)
مذہب کو زندہ اشخاص کی ضرورت
دراصل کوئی مذہب اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتا ، ان خصوصیات کو زیادہ دنوں تک برقرار نہرکھ سکتا اور بدلتی ہوئی زندگی پر اثر نہیں ڈال سکتا ۔ جب تک وقتاً فوقتاً اس میں ایسے اشخاص نہ پیدا ہوتے رہیں، جو اپنے غیر معمولی یقین، روحانیت، بے غرضی و ایثار اور اپنی اعلٰی دماغی اور قلبی صلاحیتوں سے اس کے تن مردہ میں زندگی کی نئی روح پھونک دیں، اور اس کے ماننے والوں میں نیا اعتماد اور جوش اور قوتِ عمل پیدا کر دیں، زندگی کے تقاضے ہر وقت جواں ہیں، مادّیت کا درخت سدا بہار ہے، نفس پرستی کی تحریک اور اس کے مذہب کو حقیقۃً کسی تجدید کی ضرورت نہیں کہ اس کی ترغیبات اور اس کے محرکات قدم قدم پر موجود ہیں، پھر بھی اس کی تاریخ اس کے پُرجوش داعیوں اور کامیاب مجدّدوں سے کبھی خالی نہیں رہی، جنہوں نے اس کی جوانی کو قائم اور اس کی دعوت کو اس وقت تک زندہ رکھا ہے : ع
اگرچہ پیر ہے مومن جواں ہیں لاتؔ و مناؔت
اس کا مقابل جب ایک نئی زندگی اور نئی طاقت کے ساتھ میدان میں نہیں آئے گا، اور وقتاً فوقتاً اس کی تجدید نہیں ہوتی رہے گی، تازہ دم مادّیت کے مقابلہ میں اس کا زندہ رہنا مشکل ہے۔
ہر نئے فتنہ اور نئے خطرے کے لئے نئی شخصیت و طاقت
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام کے اس طویل اور پُرآشوب تاریخ میں کوئی قلیل سے قلیل مدت ایسی نہیں پائی جاتی، جب اسلام کی حقیقی دعوت بالکل بند ہو گئی ، حقیقتِ اسلام بالکل پردہ میں چھپ گئی ہو۔ امّت اسلامیہ کا ضمیر بالکل بے حس ہو گیا ہو اور تمام عالم اسلام پر اندھیرا چھا گیا ہو۔ یہ تاریخی واقعہ ہے کہ جب کبھی اسلام کے لئے کوئی فتنہ نمودار ہوا، اس کی تحریف اور اس کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، یا اس کو غلط طریقہ پر پیش کیا گیا، مادیت کا کوئی سخت حملہ ہوا، کوئی طاقتور شخصیت ایسی ضرور میدان میں آ گئی، جس نے اس فتنہ کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا، اور اس کو میدان سے ہٹا دیا، بہت سی دعوتیں اور تحریکیں ایس ہیں جو اپنے وقت میں بڑی طاقتور تھیں، لیکن آج ان کا وجود صرف کتابوں میں رہ گیا ہے۔ ان کی حقیقیت کا سمجھنا بھی آج مشکل ہے۔ کتنے آدمی ہیں جو قدریت ، جہمیت ، اعتزال ، خلقِ قرآنوحدۃ الوجود اور اکبر کے دین الہی کی حقیقت اور تفصیلات سے واقف ہیں، حالانکہ یہ اپنے اپنے وقت کے بڑے اہم عقائد ومذاہب تھے، ان میں سے بعض کی پشت پر بڑی بڑی سلطنتیں تھیں، اور اپنے زمانہ کے بعض بڑے ذہین اور لائق اشخاص ان کے داعی اور علمبردار تھے، لیکن بالآخر حقیقت اسلام نے ان پر فتح پائی، اور کچھ عرصہ کے بعد یہ زندہ تحریکیں اور سرکاری مذاہب علمی مباحث بن کر رہ گئے، جو صرف علم کلام اور تاریخ عقائد کی کتابوں میں محفوظ ہیں، دین کی حفاظت کی یہ جدوجہد ، تجدید وانقلاب کی کوشش اور دعوت واصلاح کا یہ سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے ، جتنی اسلام کی تاریخ اور ایسا ہی مسلسل ہے جیسی مسلمانوں کی زندگی۔
اسلام کی میراث
یہ میراث جو ہمارے ہاتھ میں پہنچی ( اور جس کو ہم میراث ) کے معنی میں نہیں بول رہے ہیں جو اہل مغرب کا مفہوم ہے اس لیے کہ اسلام ایک زندہ جاوید دین ہے، ہم میراث سے وہ دولت اور ثروت مراد لیتے ہیں جو ہمارے اسلاف سے ہماری طرف منتقل ہوئی ہے، علم راسخ، محفوظ ومضبوط عقائد، طاقتور ایمان، سنت سنیہ، اخلاق عالیہ، فقہ وشریعت اور شاندار اسلامی ادب کی ثروت، اس میراث میں ہر اس فرد کا پورا حصہ ہے، جس نے اسلام کے کسی دور میں بھی منہاج خلافت پر حکومت قائم کی، جاہلیت اور مادیت کا مقابلہ کیا، اللہ تعالی کی طرف دعوت دی، اسلام کے خصائص مٹ گئے تھے، ان کو اجاگر کیا، امت میں ایمانی روح پیدا کی، اس لازوال ثروت میں ہر اس شخص کا اضافہ تسلیم کیا جائے گا جس نے اس دین پر اس کے مآخذ اور اس کی تعبیرات پر اعتماد کو از سر نو استوار کیا، نووارد فلسفوں کا ابطال کیا، اسلام کی حقیقی فکر کی حفاظت کی، اور اس امت کو کسی نئے فتنہ میں پڑنے سے باز رکھا، جس نے اس امت کے لیے اس کے دین اور مصادر دین کی حفاظت کی، حدیث وفقہ کی تدوین جدید کا کام انجام دیا، اجتہاد کا دروازہ کھولا، اور امت کو تشریح کا خزانہ عامرہ اور زندگی ومعاشرہ کا منظم قانون عطا کیا، جس نے معاشرہ میں احتساب کا فرض ادا، اور اس کے انحراف اور کج روی پر کھل کر تنقید کی، اور صحیح وحقیقی اسلام کی برملا وآشکارا دعوت دی، جس نے شکوک وشبہات کے دور اور اضطراب عقائد کے زمانہ میں علمی طرز استدلال اختیار کرکے دماغوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی،اور ایک نئے علم کلام کی بنیاد ڈالی ، جس نے دعوت وتذکیر اور انداز تبشیر میں انیباء علیہم السلام کی نیابت کی، اور ایمان کی دبی ہوئی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ کی حرارت وحرکت بخشی، جس نے مادہ پرستی کے تندوتیز دھارے کے سامنے کھڑے ہوکر اس کی تیزی وبلاخیزی کم کی، اور خدا کی مخلوق کو اس دھارے میں بہہ جانے یا اس میں دب جانسے محفوظ رکھا، جس نے اس امت کی سیاسی قوت کی حفاظت کی اور اس کو پے درپے خارجی حملوں کو سہار لینے کی قوت عطا کی، جس نے اپنی حکیمانہ دعوت اور اپنے دامِ محبت سے اس دشمن کو شکار کیا جو زورِ شمشیر اور نوک خنجر سے بھی زیر نہ ہو سکا تھا، اور جس نے عالم اسلام کو اس سرے سے اس سرے تک زیروزبر کر کے رکھ دیا تھا جس نے اپنے طاقتور ایمان اور اپنی روحانی قوت سے ایسے دشمنوں کو خطیرہ اسلام میں داخل کیا اور محمد عربی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی غلامی کا شرف بخشا، جس نے اپنے طاقتور ادب اور دل گداز و بلیغ اشعار سے ان ذہنوں کو اسیرِ دام کیا جو علمی مباحث اور مذہبی فلسفوں سے مطمئن ہونے والے نہیں تھے۔ یہ پورا ایک سلسلہ ہے، اور اس میں ہر شخصیت کا ایک خاص حصّہ اور مرتبہ ہے، تاریخ دراصل امانت کی ادائیگی اور حق شناسی اور اعترافِ حقیقت کا نام ہے ان میں ہر شخص اسلام کی کسی نہ کسی سرحد کا محافظ اور اسلام کے ترکش کا ایک قیمتی تیر تھا، اگر ان لوگوں کی مخلصانہ کوششیں نہ ہوتیں، جن کو آج ہم تاریخ کی دوربین سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو ہم تک یہ مجموعہ نہ پہونچ پاتا جس میں ہمارے لئے عزت، عبرت اور موعظت کا وافر سامان موجود ہے، اور جس کی موجودگی میں ہم اقوام عالم کے سامنے بجا طور پر اپنا سر بلند رکھ سکتے ہیں۔
(تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 26-30)
مسلمانوں کی علمی وفکری تاریخ، اور ان کی تصنیفی وتحقیقی سرگرمیوں کی طویل روداد کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی علمی وفکری زندگی ونشاط، اور ان کی تصنیفی وتحقیقی سرگرمیاں، سیاسی عروج اور سلطنتوں کی ترقی وفتوحات سے مربوط ووابستہ نہیں رہی ہیں، جیسا کہ اکثر غیر مسلم اقوام وملل کی تاریخ میں نظر آتا ہے کہ ان کے سیاسی زوال، انقلاب سلطنت، اور بدنظمی وانتشار کے ساتھ ان کو علمی زوال اور قحط الرجال سے بھی واسطہ پڑتا ہے، سلطنتوں کی ہمت افزائی وسرپرستی، اور قوموں میں خود اعتمادی واحساس برتری کے فقدان کے ساتھ ان کے ذہن وفکر کے سوتے خشک، مسابقت کا جذبہ سرو، اور محرّکاتِ عمل کمزور پڑجاتے ہیں۔
مسلمانوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے، بارہا ان کے سیاسی زوال اور اندورنی انتشار کے زمانہ میں ایسے ممتاز اہل کمال پیدا ہوئے، جو دور زوال وانحطاط کی پیداوار نہیں معلوم ہوتے، ساتویں صدی کے آخر میں سقوط بغداد اور تاتاریوں کے ان حملوں کے بعد جنھوں نے مشرقی دنیائے اسلام کو زیر وزبر کردیا تھا، اور ان ممالک میں خاک اڑ گئی تھی جو صدیوں سے علم کا مرکز چلے آرہے تھے، آٹھویں صدی کے اوائل ہی میں شیخ الاسلام تقی الدین ابن دقیق العید م702ھ جیسے محدث علامہ علاء الدین الباجی (م714ھ) جیسے اصولی ومتکلم، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م728ھ) جیسے امام ومجتہد، علامہ شمس الدین الذہبی (م748ھ) جیسے محدّث ومورّخ، اور علّامہ ابو حیّان نحوی (م745ھ) جیسے ماہر فن علماء نظر آتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ علوم دینیہ میں کمال پیدا کرنے اور ان کی خدمت واشاعت کے محرّکات اس امت کے اندرون اور باطن میں پائے جاتے ہیں، نہ کہ بیرون (حکومتوں کی سرپرستی وقدر دانی) میں، اور وہ محرّکات ہیں رضائے الٰہی کا حصول، نیابتِ انبیاء کے فرض کی ادائیگی، اور دین کی حفاظت کی ذمہ داری کا احساس۔۔۔ (3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2- (تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 17-20 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
3- (تاریخ دعوت و عزیمت ج 5 ص 31-31 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )