امام شاہ ولی اللہ کا پڑھا ہوا نصاب

امام شاہ ولی اللہ ؒ کا پڑھا ہوا نصاب


ساتویں صدی ہجری سے ہندوستان میں جو نصاب  تعلیم  رائج تھا، اور جس میں نویں صدی ہجری کے آخر میں شیخ عبد اللہ اور شیخ عزیز اللہ کے ملتان سے دہلی آنے پر علم کلام و بلاغت و معقولات کی بعض کتابوں کا اضافہ ہوا، پھر دسویں صدی میں امیر فتح اللہ شیرازی کی آمد ہندوستان پر ایران کے علمائے متاخرین، محقق دوانی، میر صدر الدین شیرازی اور میر غیاث الدین منصور، اور مرزا جان کی تصنیفات داخل نصاب ہوئیں، غالباً شاہ عبد الرحیم صاحب کی حقیقت پسندی، اور اپنے ہونہار فرزند کی ذکاوت پر اعتماد کر کے ان میں سے کئی کتابوں کو (جن میں اکثر مکرر مضامین تھے) حذف کر دیا گیا، مثلاً نحو میں مصباح، لب الالباب (مصنفہ قاضی ناصر الدین بیضاوی) ارشاد (مصنفہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی) کے بجائے صرف کافیہ، اور شرح جامی پڑھائی گئی، اصول فقہ میں منار اور اس کے شروح، اور اصول بزدوی کے بجائے حسامی، اور توضیح و تلویح کا کچھ حصہ، تفسیر میں کشاف ترک کر دی گئی،
حدیث میں ’’مشارق الانوار‘‘ شامل نہیں ہے۔ ادب ميں مقاماتِ حريری كا عام رواج تھا اور بعض بزرگوں کے حفظ کرنے کا بھی ذکر آتا ہے، لیکن شاہ صاحب کے نصابِ درس میں وہ نظر نہیں آتی۔ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے بہت سی کتابیں بارہویں صدی کے اوئل تک بہت سے حلقہائے درس میں متروک ہوگئی ہوں۔
واضح رہے کہ بارہویں صدی ہجری ہی میں استادالعلماء ملا نظام الدین سہالوی فرنگی محلی نے جو حضرت صاحب کے کبیر السّن معاصر تھے اور جنھوں نے شاہ صاحب کی وفات سے پندرہ سال پہلے ۱۱۶۱؁ھ میں رحلت کی، اس نصاب درس میں بہت عظیم اضافہ کیا، خاص طور پر صَرف و نحو، منطق و فلسفہ، ریاضی و بلاغت اور علمِ کلام میں کثیر التعدادکتابوں کا اضافہ کیا جن میں مزید اضافہ کے بعد ( جو ان کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ کے دور میں بغیر کسی منصوبہ کے ہوا) اس نصاب نے درسِ نظامی کی وہ آخری شکل اختیار کی جو ابھی تک قدیم مدارس میں رائج ہے۔
شاہ صاحب کے بیان کیے ہوئے نصاب درس میں ادبِ عربی کی کوئی کتاب نظر نہیں آتی، حالانکہ شاہ صاحب کی عربی تالیفات بالخصوص ’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘ شہادت دیتی ہے کہ ان کو عربی زبان اور اس میں تحریر و انشاء پر نہ صرف قدرت تھی بلکہ ( جہاں تک حجۃ اللہ البالغہ کا تعلق ہے) وہ اس میں ایک ایسے طرزو اسلوب کے بانی ہیں جو علمی مضامین و مقاصد کے شرح و بیان کے لیے موزوں ترین اسلوب ہے اور جس میں علامہ ابنِ خلدون کے بعد ان کا کوئی ہم پایہ اور ہمسر نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب ؒ نے بطور خود عربی ادب اور نثر ونظم کی ان قدیم معیاری کتابوں کا مطالعہ کیا، جو سلاست و حلاوت کا نمونہ تھیں اور جو عجمی عربی کے اثرات سے بہت کچھ محفوظ تھیں۔ اور حجاز کے قیام میں خاص طور پر عربی میں اس عظیم تصنیفی کام کی تیاری کی جس کو تدبیرِ الٰہی نے شاہ صاحب کے لیے مخصوص کر رکھا تھا ۔ اگر مقاماتِ حریری کا ذکر سہواً نہیں چھوٹ گیا ہے تو اس کے شاہ صاحب کے نصاب میں شامل نہ ہونے سے بجائے نقصان کے فائدہ ہوا ہوگا کہ متاخرین عام طور پر اس کے زخم خوردہ ہیں اور اس کی وجہ سے سجع و قوافی کے ایسے پابند کہ بے تکلفی اور روانی کے ساتھ مطالبِ عالیہ کے ادا کرنے اور اظہارِ ما فی الضمیر سے عام طور پر قاصر نظر آتے ہیں۔ حریری کے بعد جس نے بھی کسی مضمون پر قلم اٹھایا حریری ہی کے قلم سے لکھا، جس کا قط پرانا ہوگیا تھا۔ رسائل و خطوط اور کتابوں کی تقریظیں حتیٰ کہ فتاوے کی طویل عبارتیں بھی حریری کے اس اثر سے آزاد نہیں۔



شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ طالب علمی ہی کے زمانے میں مضامین عالیہ ذہن میں آتے تھے، جن میں برابر ترقی محسوس ہوتی تھی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد بارہ سال تک دینی کتب اور عقلی علوم کی کتابیں پڑھانے کی پابندی کی اور ہر علم میں غور و خوص اور اشتغال کا موقعہ ملا۔

شاہ صاحب نے الجزء اللطیف میں اپنے پڑھے ہوئے نصاب کا تفصیل سے ذکر کیا ہے:
1-  فقہ میں :شرح وقایہ اور ہدایہ ( کچھ حصہ چھوڑ کر ) 2-  اصول فقہ میں:  حسامی اور توضیح و تلویح کا بڑا حصہ، 3- منطق میں :شرح شمسیہ مکمل اور ایک حصہ شرح مطالع کا، 4-  علم کلام میں:  شرح عقائد مکمل، خیالی کے حاشیہ کے ایک حصہ کے ساتھ، کچھ حصہ شرح  مواقف کا پڑھا،  5- سلوک میں:  ایک حصہ عوارف اور رسائل نقشبندیہ وغیرہ کا، 6- حقائق میں:  شرح رباعیات مولانا جامی اور لوائح، مقدمہ شرح اللمعات، مقدمہ نقد النصوص، 7- خواص اسماء و آیات میں: وہ مجموعہ جو خاص اس موضوع پر ہے، اور الفوائد الماۃ وغیرہ ۔
8- طب میں:  موجز، 9- فلسفہ میں: شرح ہدایۃ الحکمۃ وغیرہ، 10-معانی میں :مطول کا بڑا حصہ، مختصر المعانی کا اتنا حصہ جس میں ملا زادہ کا حاشیہ ہے، 11- ہندسہ اور حساب میں : بعض مختصر رسائل۔ شاہ صاحب کے اس نصاب میں ان کے والد ماجد اور استاد حقیقی شاہ عبد الرحیم صاحب کے اجتہاد و انتخاب کو بھی کچھ دخل تھا۔




 (بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت ج 5 ، مفکر اسلام  سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )