مناجات (جاوید نامہ ، علامہ اقبال )

مناجات
(جاوید نامہ ، علامہ اقبال )
آدمی اندر جہاں ہفت رنگ
ہر زمان گرم فغان مانند چنگ

 تشریح  : عبید اللہ قدسی

آدمی : اشرف المخلوقات ہے۔ مسجود ملائک ہے۔ خدا نے اسے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔اور یہی صرف خدا تک پہنچ سکتا ہے۔آفرینش کے نقطہ آغاز سے لے کر انتہا تک اس کی تگ وتاز کا میدان ہے۔ اس کی ترقی کا راز خیر وشر کی راہوں میں تمیز پر منحصر ہے۔اگر انسان خیر کا انتخاب کر سکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس کی ضد یعنی شر کا انتخاب کر لے۔اس طرح ہر راستے کی اپنی اپنی قدر وقیمت کا ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
’’ لیکن انسان کی مخفی قوتوں کی تربیت کچھ یو ں ممکن تھی۔کہ اس طرح کا خطرہ برداشت کر لیا جاتا۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:۔
کہ ونبلونکم بالشر والخیر فتنہ (۲۱۔ ۳۶)
لہذا اسے ترقی کرنے کائنات تسخیر کرنے اور خطرات پر حاوی آنے کے لئے علم کی طلب ہوتی ہے۔
’’ عقلی اساست کی جستجو کا آغاز آنحضرت صلعم کی ذات مبارک ہی سے ہو گیا تھا۔ آپ ہمیشہ دعا فرماتے تھے کہ ’’ اے اللہ مجھ کو اشیاء کی اصل حقیقت سے آگاہ کر ۔‘‘
 اسلام سے پہلے علم انسانی کی نوعیت تصور ہی تھی چنانچہ الہام اور وحی بھی رمزیت اور اشاریت پر محمول تھی۔ جیسا کہ تخلیق آدم کے سلسلے میں تمام مذاہب میں ذکر ہے۔
۱۔ (اقبال۔ تشکیل جدید، الہیات اسلامیہ) ص۱۲۹، ۲۔ ایضا ص۴
صرف اسلام نے آدمی کا یہ مرتبہ قائم کیا ہے کہ اب انسان کی زندگی کا دار مدار اس بات پر ہے۔کہ خود اپنے تجربات کی بدولت اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے۔مگر پھر بھی نفس متناہیہ (آدمی) کے ان تجربات میں جس کے سامنے ایک نہیں ،کئی امکانات ہوں،وسعت پیدا ہو گی تو امتحان وآزمائش،غلطی اور خطا کے ذریعے ،لہذا غلطی یا خطا بھی باوجود کہ ہمیں اس کو ایک قسم کی ذہنی شر سے تعبیر کرنا پڑے گا،حصول تجربات میں ضروری ہے۔
بہر کیف قرآن مجید نے انسان کے ان عزائم کوواضح کردیا ہے۔اور یہ مقصد کھول کر بیان کردیا ہے۔کہ آدمی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ صرف تصورات پر قناعت کرے۔اسے اپنے مقصود ومطلوب کا زیادہ گہرا علم ہونا چاہیئے۔اور اس سے قریب تر ہونا چاہیئے۔
اوراس قرب کی کوشش اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں آدمی ہر وقت بے چین رہتا ہے۔چنانچہ علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک تو انسان ہونا نام ہی اس بات کا ہے کہ ہر قسم کی سختیاں برداشت کی جائیں۔
ہفت رنگ: اول سیاہ رنگ،جس کاتعلق زحل سا ہے۔ غباری جو خاک رنگ کا ہے ۔اور مشتری سے متعلق ہے۔ سرخ رنگ مریخ کا ہے۔ زرد رنگ جو آفتاب کا ہے۔ سفید زہرہ کا ہے۔ نیلا عطارد کا، اور زنگاری قمر کا ہے۔(برہان قاطع)
۱۔اقبال۔تشکیل جدید الہیات اسلامیہ،ص۱۳۱،۱۳۲۔ ۲۔ بحوالہ تشکیل ،ص ۱۳۳،قرآن مجید والصابرین فی الباسا ء والضرا وحین الباس (۲،۱۷۷)
کتاب میں ان ہی سیاروں کی سیر کی گئی ہے۔اس لئے ہفت رنگ پوری کتاب پر حاوی ہے۔ کل کائنات کے لئے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کائنات کی بوقلمونی اور رنگا رنگی بھی اس سے ظاہر ہے۔ اصل رنگ صرف سات ہیں اور باقی ان کا مرکب ہے۔
کل کائنات کے لئے سات کا لفظ مختلف طریقہ سے مذاہب میں استعمال ہوا ہے۔ اس میں تقدس بھی ہے اور ساحرانہ اثر بھی، سات کا عدد بائیبل میں دوسرے اعداد سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔ بائیبل میں یہ عدد طاقت، حسن اور رو حانی طاقت کی علامت ہے۔ حضرت عیسیٰ سے پوچھا گیا ’’ کیا آدمی کو اپنے دشمن کو سات دفعہ معاف کرنا چاہیئے؟۔ آپ نے جواب دیا ۷۰دفعہ معاف کرنا چاہیئے۔
قدیم بادشاہوں کی سات شاخیں ہیں،یا یوں کہیئے یہودیوں کی ۷ شمعیں ہیں۔
قرآن شریف میں متعدد بار یہ عدد استعمال ہوا ہے۔(سبعہ سموات) ’’ سات آسمان،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمانہ کا شمار سات دن سے ہوتا ہے۔اصحاب کہف کی تعداد سات تھی۔ حضرت یوسف نے جو خواب دیکھا تھا اس میں سات گائیں تھیں موٹی اور سات دبلی۔‘‘
غرض کل کائنات اس کے تنوع اور اس کے نظام پر ایسا حاوی اور جامع دوسرا لفظ کسی زبان میں موجود نہیں ہے۔
البتہ سنسکرت جو فارسی کی بہن ہے۔ یہی لفظ ’’سپتہ رنگ‘‘ بمعنی انجمن ہفت موجود ہے۔ لیکن ان کے وہاں یہ بنات النعش کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔
بر زمان گرم فغان:
یہ خارج کی دنیا اور داخل کی دنیا ہے۔آدمی جس کی تسخیر کے لئے اور جس میں تدبر وفکر کرکے رد وبدل کرنے میں کبھی دنیا کے اندر اس سے تصادم کرکے ،اور کبھی اس کی موافقت کرکے فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اور اس آسمان وزمین کی تسخیر اور ظاہر وباطن کی نعمتوں پر اقتدار حاصل کرنے کی تگ ودو میں وہ ہر لمحہ بے چین رہتا ہے۔ اس بے چینی کا اظہار علامہ اقبال نے ہر زمان گرم فغان مانند چنگ سے کیا ہے۔
یہ بے چینی انسان کی تقدیر ہے۔ اور اس بے چینی کی انتہا کا نام عشق ہے۔علامہ اقبال کہتے ہیں:
’’ انسان ہی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ اس عالم کی گہری آرزوؤں میں شریک ہو۔ جو اس کے گرد وپیش میں موجود ہے۔ اور اپنی دنیا کی تفسیر خود بن جائے۔
ع      اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
کبھی اس کی قوتوں پر موافقت پیدا کرتے ہوئے،اور کبھی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے اپنی غرض وغایت کے مطابق ڈھال کر،اس لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتے ہوئے اور انقلاب آفرین عمل میں خدا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پہل انسان کی طرف سے ہو۔‘‘
 ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرواما بانفسھم
۱۔اقبال، تشکیل ،ص۱۸ ۲۔ قرآن مجید
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 جو آدمی ہر وقت بے چین نہیں،ترقی کی لگن نہیں، وہ مردہ ہے۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
 مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال
علامہ اقبال کہتے ہیں ’’ اگر انسان قدم آگے نہیں بڑھاتا اور پہل نہیں کرتا ،اپنی ذات کی وسعتوں اور گونا گوں صلاحیتوں کو ترقی نہیں دیتا۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی رو کا کوئی تقاضا اپنے اندرون ذات میں محسوس نہیں کرتا،تو اس کی روح پتھر کی طرح سکت ہو جاتی ہے۔اور وہ گر کر بے جان مادے کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔اس کی زندگی کا ،اور اس طرح پے بہ پے ترقی روح کا سفر کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ اس حقیقت سے رابطہ پیدا کرے۔ جس نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ (لیکن یہ بات اچھی طرح دل نشین کر لی جائے،جسے مسلماندانش وروں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ کہ) یہ رابطے علم کی بدولت قائم ہوتے ہیں۔
 اور علم عبارت ہے ادراک بالحس سے،(جس کا انحصار سائنس کی ترقی پر بھی ہے) جس میں ہم اپنی عقل وفہم (یعنی فکر واستدلالاور تفصیلات وجزئیات میںنظم وترتیب) کی مدد سے اور زیادہ وسعت پیدا کر لیتے ہیں۔
چنانچہ اس نکتے کی وضاحت علامہ اقبال نے دوسری جگہ اس سے بھی زیادہ صاف الفاظ میں کی ہے،وہ لکھتے ہیں۔
۱۔ اقبال ،تشکیل ،ص۱۹۔
اسلام کا ظہور استقرائی عمل کا ظہور ہے۔اسلام میں نبوت اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی،لہذا ان کا خاتمہ ضروری ہو گیا۔اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی نہیں گزار سکتا۔اس کے شعور ذات کی تکمیل ہو گی تو بس یہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اسلام نے دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا،یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا۔یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا ،یا عالم فطرت ،اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا ،تو اس لئے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔(کہ انسان اپنی عقل سے کام لے،اس کے قوائے فکر وعمل بیدار ہوں،اور وہ اپنے اعمال وافعال کا آپ جواب دہ ٹھہرے۔)
چنگ: طشت کی طرح کھلا ہوا ساز،جس کی آواز میں جھنجھناہٹ ہوتی ہے۔
ترجمہ: آدمی سات رنگ کی دنیا کے اندر ہر وقت چنگ کی طرح فریاد میں مشغول ہے۔
مطلب: پہلے ہی شعر میں علامہ اقبال نے انسان کی تخلیق اس کی سرشت اور اس کی پوری زندگی کا فلسفہ قلم بند کر دیا ہے۔
علامہ اقبال نے مناجات کے پیرائے میں تمام ماحصل بیان کر دیا،آدمی اس رنگا رنگ وسیع وعریض کائنات میں جس میں نظام شمسی کی طرح کئی نظام ہیں،جس کی وسعتوں کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے،انسان نے ابھی اس کا کچھ حصہ حاصل کیا ہے۔لہذا اس کے سامنے تسخیر کے لئے ہزاروں جہان ہیں۔جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔اور چونکہ کچھ حاصل نہیں کر سکا، اس لئے شدید اضطراب اور فریاد وفغاں میں ہے۔ہر لمحہ تڑپ اور بے چینی ہے۔
جس طرح قرآن شریف کی سب سے پہلی نازل ہونے والی سورۃ کی پہلی آیتلفظ اقراء (پڑھ) ہے کہ انسان بننے کی ابتدا ء پڑھنے سے شروع ہوتی ہے۔انسان کی برتری کا راز صرف اور صرف علم ہے۔جس کے بغیر انسان ،انسان نہیں کہلا سکتا۔ جیسا کہ فارابی نے لکھا ہے ۔’’جو فرد نور علم سے خالی ہے وہ حیوانی حالت میں ہے۔‘‘ بالکل علامہ اقبال نے اپنی کتاب کے پہلے شعر کا پہلا لفظ ’’آدمی رکھا ہے۔‘‘ کہ یہی ان کا موضوع بحث ہے۔
علامہ اقبال کی اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ آدمی کیا ہے؟۔ یہ کائنات کیا ہے؟۔ اور اس سے آدمی کا کیا رشتہ ہے؟۔ یوں سمجھیئے کہ کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے؟۔اور یہ کہ خدا سے آدمی اور کائنات کا کیا رشتہ ہے؟۔ان تینوں کے تعلقات اور ان سے بحث فلسفہ میں بھی ہوتی ہے۔اور مذہب میں بھی،علامہ اقبال نے پہلے ہی شعر میں اس مسلہ کو حمد کے پیرائے میں پیش کر دیا ہے۔
غالب نے بھی اپنے دیوان کا پہلا شعرحمد میں اس موضوع پر کہا ہے ۔لیکن وہاں عبد ومعبود کے ساتھ ایک قسم کی مجبوری کا اظہار ہے۔ جس میں کائنات کا کوئی ذکر نہیں، وہ لکھتے ہیں:۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
غالب
علامہ اقبال کے مرشد رومی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی مثنوی کے پہلے شعر میں یہی موضوع لیا ہے۔ لیکن وہاں صرف عشق الہیٰ بیان کیا گیا ہے۔
۱۔فارابی،مدینۃ الفاضلہ۔
اور قرآن شریف کی اس تفسیر سے ان الی ربک المنتھیٰ،تیری انتہا خدا کی طرف سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
بشنو از نے چوں حکایت می کنند
وز جدائی ھا شکایت می کنند
اس میں صرف ولایت ہے نیابت نہیں، انسان اپنے معبود حقیقی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ وہی اس کا مقصود اور محبوب ہے۔اصل سے جبتک وصل نہ ہو،اضطراب رہتا ہے۔خدا کی طرف توجہ اور اس کی طرف انتہا ولایت ہے۔ اور خدا کی طرف سے مخلوق کی طرف آنا اور اس کی ہدایت یہ نبوت کاکام ہے۔اور یہی خدا کی خلافت اور نیابت ہے۔ لہذا صحیح انسان وہ ہے کہ جس اپنے مرتبے کا احساس ہے۔اور ج وآدمی شرف انسانیت سے واقف ہے۔ وہ ہر لمحہ اس دنیا میں بے چین اور فریاد وفغان میں رہتا ہے۔
آرزوئے ہم نفس می سوزدش
نالہائے دل نواز آموزدش
انسان کو ہم نفس کی آرزو بے چین رکھتی ہے۔ وہ دل نواز نالے کرنا سیکھ جاتا ہے۔
(ازروئے ہم نفس) =  ہم دم، ہم خیال، اللہ تعالیٰ نے انسان کو تنہا پیدا نہیں کیا۔
انسان کا مادہ انس ہے ،اور انس کے بغیر انسان نہیں بنتا۔ دو آدمیوں میں جس قدر اتحاد ہوگا۔اسی قدر کامیابی ہوگی،دنیا کی کامیابی ہوگی۔دنیا کی کام یابی اور ترقی کا راز دوسروں کے اتحاد میں ہے۔
ع۔ دو دل یک شوند بشکند کوہ را
 دو مل کر سوسائٹی میں تنہا انسان کچھ نہیں،اس راز اور اس فلسفہ کو بڑی تفصیل سے ابن طفیل نے حی ابن یقظان میں سمجھایا ہے۔
یہاں ہم نفس سے ذہنی سطح پر برابر کا ہم خیال اور ہم دم شخص مراد ہے۔ جو اس کے منصوبے میں مدد دے سکے۔ اس کی تلاش دنیا میں تمام منصوبہ سازوں اور رہنماؤں کو رہی ہے۔ جنہوں نے نظام عالم کو سجھنے کے بعد سمجھا نے کی کوشش کی ہے۔چنانچہ اسرار ورموز میں دیباچہ کے طور پر علامہ اقبال نے مولانا روم کے اس معنی کے اشعار کو استعمال کیا۔
دی شیخ پا چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام ودد ملونم وانسانم آرزوست
زیںہمر ہان ست عناصر دلم گرفت
شیر خدا ورستم دستانم آرازوست
(مولانا جلال الدین رومی)
شروع سے ہرپیغمبر، ہر مصلح اور ہر مرشد کو یہی تلاش رہی ہے۔ جو بات اس کی سمجھ لے اور ہم نفس بن جائے۔حضرت موسیٰ نے دعا کی اور خدا نے حضرت ہارون کو ان کے ساتھ کر دیا۔رسول اللہ صلعم نے اپنے اصحاب کو چاہا اور علامہ اقبال کی شاعری کا مقصد بھی پیغمبری کی ترجمانی ہے۔
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارث پیغمبری است
اس کی تکمیل کسی ہم نفس ،کسی ہمراز اور ہم خیال کے بغیر ناممکن ہے۔اس لئے مناجات میں سب سے پہلی یہی دعا کی ہے ،اسی دعا کے لئے انہوں نے آرزو کا لفظ استعمال کیا ہے۔جیسا کہ جدید تشکیل، جدید الہیات اسلامیہ میں دعا کے فلسفہ میں انہوں نے لکھا ہے ۔’’ دعا خواہ انفرادی ہو، خواہ اجتماعی،ضمیر انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے۔کہ کائنات کے ہولناک سکوت میں وہ اپنی پکار کاکوئی جواب سنے۔’’یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ بحالت اجتماع میں ایک عام انسان کی قوت ادراک کہیں زیادہ بڑھ جاتی اور اس کے جذبات میں کچھ ایسی شدت اور ارادوں میں وہ حرکت پیدا ہوتی جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ہر گز ممکن نہیں لہذا بہ لحاظ ایک جسمانی مظہر دعا ایک راز ہے۔‘‘
نالہائے دل نواز: نالہ اور فریاد انتہائی اضطراب ،بے چینی اور عشق کی علامت ہے ،غالب نے لکھا تھا۔
نلہ پابند نے نہیں ہے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
لیکن اقبال کا نالہ انتشار بے حالی اور دیوانگی کی علامت نہیں،بلکہ اس میں دل نوازی موجود ہے۔ہم نفس کی آرزو میں جب شدت ہوتی ہے ۔اور نالہ نکلتا ہے۔ تو وہ شدت آرزو دل کشی کا باعث ہوتی ہے۔ اس میں تنوع ہے۔ نئے نئے انداز اور طرح طرح کے پیرایہء بیان پیدا ہوتے ہیں۔
علامہ اقبال نے یہ ایک بڑی نفسیاتی چیز بیان کی ہے۔ جو سبق آموز بھی ہے۔ اہل حق اور ایمان کی تبلیغ کرنے والوں کے بیان میں اکثر تلخیآجاتی ہے۔ شعلہ بیان مقرر بھی واعظ میں شدت حال میں تلخ ہو جاتے ہیں۔ لیکن خلق عظیم کے حامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اور آرزوئے دعا میں کبھی نرمی،محبت اور دل نوازی کے علاوہ کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کیا۔علامہ اقبال بھی حکیم الامت ہیں۔اخلاق کے مبلغ ہیں۔ اس لئے ازروئے ہم نفس میںان کے نالوں میں دل نوازی اور کشش ہے۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک نالہ ہم نفس کی بیداری اور اس میں تحریک پیدا کرنے کا سبب ہے۔ نہ کہ آشفتگی ،پریشانی اور اپنے اضطراب کے اظہار کا ذریعہ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے۔
نالہ تو بیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ
عشق کاریست کہ بے آہ وفغاں تیز کنند
ترجمہ:۔ہم نفس کی آرزو اسے تڑپاتی ہے۔ یہ آرزو اس میں دل نواز نالے پیدا کرتی ہے۔

مطلب: اقبال کا مدعا یہ ہے کہ تمام تعلیم،تکلم، تخاطب دوسرے ہم دم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور کتاب کا مقصد ہی زندگی کے نئے راز بیان کرنا ہے۔جو اس قوم کے لئے دوسرے جہان کی گفتگو ہے۔ لہذا یہ تمام تعلیمات اور تمام آرزوئیں کام یاب نہیں ہو سکتیں۔ جب تک دوسرا ہم نفس اور ہم خیال نہ ہو۔ اس لئے سب سے پہلی آرزو جس نے انسان کو تڑپا دیا ،جس نے شاعر کو بے چین کردیا وہ ہم نفس اور ہم خیال کی آرزو ہے۔ اور یہ آرزو شاعر کو نئے نئے پیرایہء بیان اور دل نواز طریقے سکھاتی ہے۔