سلسلۂ چشتیہ میں زوال : سلوک سے رسوم میں تبدیل
سید ابوالحسن علی ندوی ؒ
اسلامی دنیا کے لئے ہندوستان کی دریافت اور یافت "نئی دنیا" کی دریافت سے کم انقلاب انگیز اور عہد آفریں واقعہ نہ تھا، اگرچہ پہلی صدی ہجری ہی میں یہاں اسلام کے حوصلہ مند دستے آنے شروع ہو گئے تھے اور ۹۳ھ میں محمد بن قاسم ثقفی نے سندھ سے ملتان تک کے علاقہ کو اپنی شمشیر و اخلاق سے تسخیر کر لیا تھا، اور اس برصغیر (ہند) میں جابجا داعیان اسلام کے مرکز و خانقاہیں چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح قائم ہو چکی تھیں۔ جیسے : ع
لیکن حقیقتا هندوستان کی فتح کا سہرا سکندر اسلام سلطان محمود غزنوی (م421ھ) سر اور مستحکم و مستقل اسلامی سلطنت کے قیام کی سعادت سلطان شهاب الدین محمد غوری (م206ھ) کے حصے میں تھی اور آخری طور پر اس کی روحانی تسخیر اور اخلاقی و ایمانی فتح حضرت خواجه بزرگ شیخ الاسلام معین الدین چشتی (م627ھ) کیلۓ مقدر هوچکی ہے۔
ہندوستان کی فتح سے پہلے اسلام کے چاروں مشہور روحانی سلسلے قادریہ, چشتیہ, نقشبندیہ اور سهروردیہ وجود میں آچکے تھے اور عرصہ سے پھل پھول رهے تھے اپنے اپنے وقت پر ان میں سے هر ایک کا فیض هندوستان کو پهنچا اور هندوستان کی اسلامی تعمیر و تشکیل میں سب کا حصه هے شکرا لله مساعیهم. لیکن هندوستان کی روحانی فتح اور اس سرزمین پر اسلام کا پودا نصب کرنے کیلیۓ ( جس کے سایه اور پھل سے ایک عالم مستفید هونے والا تھا) حکمت الهی نے چشتی سلسلے کو انتخاب فرمایا. (و ربک یخلق ما یشاء و یختار)
ان اسرار الهی سے قطع نظر جن کو هماری کوتاه نظر نهیں پاسکتی, چشتیوں پر اس ملک کا حق همسائیگی بھی تھا ان کا سلسلہ اس ملک کے همسایہ ملک ایران میں فروغ پارها تھا اپنے درد مند مزاج اورنسبت عشقیہ کے بناء پر بھی جو سلسلہ چشتیہ کا سرمایہ ہے اس سلسلہ کو هندوستان کا دل جیت لینا اور اس کو اپنی محبت کا اسیر اور عشق الهی کا نخچیر بنالینا آسان تھا کہ زمانہ قدیم سے محبت و درد اس سرزمین کے خمیر میں ہے ۔
غرض ان معلوم و نامعلوم حکمتوں کی بناء پر قدرت الهی نے هندوستان میں اسلام کے تعارف و اشاعت کیلیۓ اس سلسلے کو منتخب فرمایا اور چشتیوں کو هندوستان کی طرف رخ کرنے کا اشاره غیبی هوا سب سے پهلے جس چشتی شیخ نے هندوستان کی طرف عنان عزیمت
موڑی وہ خواجہ اب محمد چشتی۱؎ تھے، جن کی دعائیں اور بابرکت ذات سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کی پشت پناہ تھی، مولانا جامی ("نفخات الانس" ص 223) میں لکھتے ہیں:-
"وقتے کہ سلطان محمود بہ غزو سامنات رفتہ بعد خواجہ رادر واقعہ نمود ند کہ بمدد گاری دے باید رفت درسن ہفتاو سالگی باد رویشے چند متوجہ شد چوں آں جار سید، بہ نفس مبارک خود بامشرکان و عبدہ اصنام جہاد کرد۔"
جس وقت سلطان محمود سومنات کی طرف گیا ہوا تھا خواجہ ابو محمد کو اشارہ غیبی ہوا وہ اس کی مدد کیلئے جائیں،وہ ستر۷۰ برس کی عمر میں چند درویشوں کیساتھ روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر بنفس نفیس جہاد میں شرکت فرمائی۔
لیکن جس طرح محمود کی سیاسی فتح کی تکمیل اور اسلامی سلطنت کے استحکام و استقلال کی سعادت سلطان شہاب الدین غوری کیلئے مقدر تھی،خواجہ ابو محمد چشتی ؒ کے کام کی تکمیل اور اسلام کی عمومی اشاعت اور اسلامی مرکزِ رشد وہدایت کا قیام اسی سلسلہ کے ایک شیخ،شیخ الشیوخ خواجہ معین الدین (چشتی) سجزی ۱؎کے لئے مقدر ہو چکا تھا۔
(ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 3 ص 21-23، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
ایک تلخ حقیقت کی طرح اس کا اظہار ضروری ہے کہ زمانہ کے مرور و انقلاب کے ساتھ، اس سلسلہ اور اسکے بانیانِ کرام اور اسلاف عظام کی خصوصیتوں میں انحطاط و زوال رونما ہوا۔ تصوّف و روحانیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر سلسلہ کا آغاز جذب قوی سے ہوا، پھر اس نے سلوک اور آخر میں رسوم کی شکل اختیار کر لی، یہاں بھی جس سلسلہ کا آغاز عشق، درد و محبّت، زہد و ایثار، فقر و استغناء ریاضات و مجاہدات اور دعوت و تبلیغ سے ہوا تھا اس میں بتدریج ایسی تبدیلی ہوئی کہ آخر میں اس کے نظام کے تین۳ نمایاں عناصر ترکیبی رہ گئے۔
بیاناں کی شب تاریک قندیل رہبانی
لیکن حقیقتا هندوستان کی فتح کا سہرا سکندر اسلام سلطان محمود غزنوی (م421ھ) سر اور مستحکم و مستقل اسلامی سلطنت کے قیام کی سعادت سلطان شهاب الدین محمد غوری (م206ھ) کے حصے میں تھی اور آخری طور پر اس کی روحانی تسخیر اور اخلاقی و ایمانی فتح حضرت خواجه بزرگ شیخ الاسلام معین الدین چشتی (م627ھ) کیلۓ مقدر هوچکی ہے۔
ہندوستان کی فتح سے پہلے اسلام کے چاروں مشہور روحانی سلسلے قادریہ, چشتیہ, نقشبندیہ اور سهروردیہ وجود میں آچکے تھے اور عرصہ سے پھل پھول رهے تھے اپنے اپنے وقت پر ان میں سے هر ایک کا فیض هندوستان کو پهنچا اور هندوستان کی اسلامی تعمیر و تشکیل میں سب کا حصه هے شکرا لله مساعیهم. لیکن هندوستان کی روحانی فتح اور اس سرزمین پر اسلام کا پودا نصب کرنے کیلیۓ ( جس کے سایه اور پھل سے ایک عالم مستفید هونے والا تھا) حکمت الهی نے چشتی سلسلے کو انتخاب فرمایا. (و ربک یخلق ما یشاء و یختار)
ان اسرار الهی سے قطع نظر جن کو هماری کوتاه نظر نهیں پاسکتی, چشتیوں پر اس ملک کا حق همسائیگی بھی تھا ان کا سلسلہ اس ملک کے همسایہ ملک ایران میں فروغ پارها تھا اپنے درد مند مزاج اورنسبت عشقیہ کے بناء پر بھی جو سلسلہ چشتیہ کا سرمایہ ہے اس سلسلہ کو هندوستان کا دل جیت لینا اور اس کو اپنی محبت کا اسیر اور عشق الهی کا نخچیر بنالینا آسان تھا کہ زمانہ قدیم سے محبت و درد اس سرزمین کے خمیر میں ہے ۔
غرض ان معلوم و نامعلوم حکمتوں کی بناء پر قدرت الهی نے هندوستان میں اسلام کے تعارف و اشاعت کیلیۓ اس سلسلے کو منتخب فرمایا اور چشتیوں کو هندوستان کی طرف رخ کرنے کا اشاره غیبی هوا سب سے پهلے جس چشتی شیخ نے هندوستان کی طرف عنان عزیمت
موڑی وہ خواجہ اب محمد چشتی۱؎ تھے، جن کی دعائیں اور بابرکت ذات سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کی پشت پناہ تھی، مولانا جامی ("نفخات الانس" ص 223) میں لکھتے ہیں:-
"وقتے کہ سلطان محمود بہ غزو سامنات رفتہ بعد خواجہ رادر واقعہ نمود ند کہ بمدد گاری دے باید رفت درسن ہفتاو سالگی باد رویشے چند متوجہ شد چوں آں جار سید، بہ نفس مبارک خود بامشرکان و عبدہ اصنام جہاد کرد۔"
جس وقت سلطان محمود سومنات کی طرف گیا ہوا تھا خواجہ ابو محمد کو اشارہ غیبی ہوا وہ اس کی مدد کیلئے جائیں،وہ ستر۷۰ برس کی عمر میں چند درویشوں کیساتھ روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر بنفس نفیس جہاد میں شرکت فرمائی۔
لیکن جس طرح محمود کی سیاسی فتح کی تکمیل اور اسلامی سلطنت کے استحکام و استقلال کی سعادت سلطان شہاب الدین غوری کیلئے مقدر تھی،خواجہ ابو محمد چشتی ؒ کے کام کی تکمیل اور اسلام کی عمومی اشاعت اور اسلامی مرکزِ رشد وہدایت کا قیام اسی سلسلہ کے ایک شیخ،شیخ الشیوخ خواجہ معین الدین (چشتی) سجزی ۱؎کے لئے مقدر ہو چکا تھا۔
(ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 3 ص 21-23، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
ایک تلخ حقیقت کی طرح اس کا اظہار ضروری ہے کہ زمانہ کے مرور و انقلاب کے ساتھ، اس سلسلہ اور اسکے بانیانِ کرام اور اسلاف عظام کی خصوصیتوں میں انحطاط و زوال رونما ہوا۔ تصوّف و روحانیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر سلسلہ کا آغاز جذب قوی سے ہوا، پھر اس نے سلوک اور آخر میں رسوم کی شکل اختیار کر لی، یہاں بھی جس سلسلہ کا آغاز عشق، درد و محبّت، زہد و ایثار، فقر و استغناء ریاضات و مجاہدات اور دعوت و تبلیغ سے ہوا تھا اس میں بتدریج ایسی تبدیلی ہوئی کہ آخر میں اس کے نظام کے تین۳ نمایاں عناصر ترکیبی رہ گئے۔
(۱) وحدت الوجود کے عقیدہ میں غلو اس کی اشاعت کا انہماک اور اس کے باریک و دقیق مضامین
کا اعلان و تذکرہ۔
(۲) محافلِ سماع کی کثرت، وجد و رقص کا زور
(۳) اعراس کا اہتمام اور ان کی رونق و گرم بازاری جو شرعی حدود و قیود سے بے نیاز ہے۔
وہ اعمال و رسوم اور عقائد جن کی اصلاح کیلئے دین خالص کے یہ اولو العزم داعی ایران و ترکستان کے دوردراز مقامات سے آئے تھے، خانقاہوں کو ایسا دستور العمل بن گئے کہ غیر مسلم آبادی کے لئے یہ ایک معمہ اور سوال بن گیا کہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں ( جن کی اصلاح کے لئے یہ مبلغین اسلام بحروبر طت کر کے تسریف لائےتھے)عملاً کیا فرق ہے؟ توحید کے الفاظ کا استعمال اور دعوت، توحید و جودی کے معنی ہیں محدود ہو کر رہ گئی، سنّت اور اتباع شریعت جس پر ان مشائخ نے اتنا زور دیا تھا، اہلِ ظاہر کا شعار اور حقیقت ناشناسوں کی علامت بن کر رہ گیا، شریعت و طریقت دو۲ الگ الگ کوچے تسلیم کئے گئے جن میں نہ صرف مغائرت تھی، بلکہ تضاد۔ مزامیر و آلاتِ سماع جن کی مشائخ متقدمین نے اتنی شدّت سے ممانعت کی تھی، داخل طریق بن گئے، دردو عشق کی جنس جو طریقہ چشتیہ کا سرمایہ تھا اس بازارمیں ایسی نایاب ہوئی کہ طالبِ صادق کو حسرت سے کہتے ہوئے سناگیا کہ۔ع
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے
فقر جو اس طریق کا فخر تھا، شانِ امیری اور شکوہِ خسروی سے تبدیل ہو گیا۔
اس سے بڑھ کر انقلاب اور تاریخ کا سانحہ یہ ہے کہ جن بندگان خدا کا مقصدِ حیات ہی خدا کے سب بندوں کو سر دُنیا کے تمام آستانوں __________________ سے اُٹھا کر خدائے واحد کے آستانہ پر جھکانا اور "ماسوی میں اٹکے ہوئے اور پھنسے ہوئے دلوں کو نکال کر ایک خدا سے الکانا تھا اور جن کی دعوت اور زندگی انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی تصویر اور ان آیات کی تفسیر تھی:-
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ (79)وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ (80) (سورہ آل عمران )
کسی بشر سے یہ بات نہیں ہو سکتی کہ اللہ تو اس کو کتاب اوردین کی فہم اورنبوت عطافرمائےاور پھروہ لوگوں سے کہنے لگے کہ میرے بندے بن جاو خدا تعالی کی توحید کو چھوڑ کر لیکن وہ یہ کہے گا کہ تم اللہ والے بن جاو بوجہ اس کےکہ تم کتاب الہی اوروں کو بھی سِکھاتے ہو اور بوجہ اسکے کہ خود بھی اسکو پڑھتے ہو اور نہ وہ یہ بات بتلاوے گا کہ تم فرشتوں کو اور نبیوں کو رب قرار دے لو۔ بھلا وہ تم کو کفر کی بات بتلا دے گا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہو۔
انقلابِ زمانہ سےخود اُن کی ذات مطلوب و مقصود اور خود اُن کا آستانہ مسجود و معبود بن گیا۔
(ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 3 ص 172-174، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی اصل نسبت سجزی ہے، جو کاتبوں کی غلطی اور پولنے والوں کی غلط سے "سنجری" بن گیا۔ قدیم مسودات و اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدا میں سَجَزی ہی لکھا اور بولا جاتا تھا۔سَجَزی نسبت سجستان کی طرف ہے۔ قدیم جغرافیہ نویس عام طور پر اسکو خراسان کا ایک حصِّہ ماتنے ہیں، موجودہ زمانے میں اس کا اکثر حِصّہ ایران میں شامل ہے اور باقی افغانستان۔
اس علاقہ کا پایہ تخت زرنج تھا جس کے کھنڈر اب زاہدان کے قریب پائے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ میں سجستان کے حدود غزنین تک تھے۔ (احسن التقاسیم)
بعض جغرافیہ دانوں کے نزدیک سَجَز، سحبستان کے ایک خاص مقام کا نام ہے، جس کی طرف نسبت سَجَزی آتی ہے۔ کبھی کبھی پورے سحبستان کی طرف بھی سجزی کہہ کر نسبت کرتے ہیں۔
جغرافیہ خلافت مشرقی کے مصنّف جی بی اسٹرینج نے ۳۰ صفحوں میں سحبستان کا جغرافیہ بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیستان فارسی لفظ سنگستان سے ماخوذ ہے، عرب اسے سجستان کہتے ہیں۔ اس ملک کی زمین نشیب میں ہے اور جھیل زرہ کے گرد اور اسکے مشرق میں واقع ہے، دریائے ہلمند اور جس قدر دریا اس جھیل میں گرتے ہیں، ان سب کے ڈیلٹا اسی زمین پر پڑتے ہیں۔
فارسی میں سیستان کو نیمروز (جنوبی مُلک) بھی کہتے ہیں اور جنوبی ملک کہنے کہ وجہ یوں بیان ہوئی ہے کہ سیستان خراسان کے جنوب میں واقع ہے ص۵۰۳وص۵۰۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی اصل نسبت سجزی ہے، جو کاتبوں کی غلطی اور پولنے والوں کی غلط سے "سنجری" بن گیا۔ قدیم مسودات و اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدا میں سَجَزی ہی لکھا اور بولا جاتا تھا۔سَجَزی نسبت سجستان کی طرف ہے۔ قدیم جغرافیہ نویس عام طور پر اسکو خراسان کا ایک حصِّہ ماتنے ہیں، موجودہ زمانے میں اس کا اکثر حِصّہ ایران میں شامل ہے اور باقی افغانستان۔
اس علاقہ کا پایہ تخت زرنج تھا جس کے کھنڈر اب زاہدان کے قریب پائے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ میں سجستان کے حدود غزنین تک تھے۔ (احسن التقاسیم)
بعض جغرافیہ دانوں کے نزدیک سَجَز، سحبستان کے ایک خاص مقام کا نام ہے، جس کی طرف نسبت سَجَزی آتی ہے۔ کبھی کبھی پورے سحبستان کی طرف بھی سجزی کہہ کر نسبت کرتے ہیں۔
جغرافیہ خلافت مشرقی کے مصنّف جی بی اسٹرینج نے ۳۰ صفحوں میں سحبستان کا جغرافیہ بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیستان فارسی لفظ سنگستان سے ماخوذ ہے، عرب اسے سجستان کہتے ہیں۔ اس ملک کی زمین نشیب میں ہے اور جھیل زرہ کے گرد اور اسکے مشرق میں واقع ہے، دریائے ہلمند اور جس قدر دریا اس جھیل میں گرتے ہیں، ان سب کے ڈیلٹا اسی زمین پر پڑتے ہیں۔
فارسی میں سیستان کو نیمروز (جنوبی مُلک) بھی کہتے ہیں اور جنوبی ملک کہنے کہ وجہ یوں بیان ہوئی ہے کہ سیستان خراسان کے جنوب میں واقع ہے ص۵۰۳وص۵۰۴