فتنۂ اعتزال اور امام ابوالحسن اشعِری ؒ

فتنۂ اعتزال اور امام ابوالحسن اشعِری ؒ 

سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

(عباسی خلیفہ )معتصم(218ھ-227ھ بمطابق 823ء -841ء)  اور واثق(227ھ - 232ھ بمطابق 841ء - 846ء)  کے انتقال پر ( جو مذہب اعتزال اور معتزلہ کے سرپرست تھے ) معتزلہ کا زورٹوٹ گیا، واثق کا جانشین خلیفہ متوکل مذہب اعتزال سے بیزار اور معتزلہ کا دشمن تھا، اس نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر معتزلہ کی عظمت و اقتدار کے نشانات مٹائے اور ان کو حکومت سے بالکل بے دخل کر دیا، لیکن علمی حلقوں میں ابھی معتزلہ کا اثر باقی تھا، خلق قرآن کا عقیدہ تو اپنی طاقت کھو چکا تھا، لیکن ان کے دوسرے مباحث اور مسائل ابھی تازہ اور زندہ تھے، معتزلہ نے اپنی ذہانت، علمی قابلیت اور اپنی بعض نمایاں شخصیتوں کی وجہ سے اپنا علمی وقار قائم کر لیا تھا، اور قضاء و افتاء و حکومت کے اندر بعض اونچے عہدوں پر فائز تھے، تیسری صدی کے وسط میں ان کا خاصا دور دورہ ہوگیا، عام طور پر تسلیم کر کیا جانے لگا کہ معتزلہ دقیق النظر وسیع الفکر اور محقق ہوتے ہیں، اور ان کی آراء و تحقیقات عقل سے زیادہ قریب ہوتی ہے، بہت سے نوجوان طالب علم اور شہرت پسند اعتزال کو فیشن کو طور پر اختیار کرتے، امام احمد کے بعد حنابلہ میں کوئی طاقت ور علمی اور دینی شخصیت نہیں پیدا ہوئی، محدثین اور ان کے ہم مسلک علماء نے علوم عقلیہ اور نئے طریقہ بحث و نظر کی طرف (جس کا معتزلہ اور فلاسفہ کے اثر سے رواج پڑ چلا تھا) توجہ نہیں کی، نتیجہ یہ تھا کہ مباحثہ کی مجلسوںاور درس کے حلقوں میں محدثین کی یہ علمی کمزوری اور فلسفہ کے مبادی سے بے خبری محسوس کی جاتی تھی ، اس کے مقابلہ میں علمی مباحثوں میں معتزلہ کا پلڑا بھاری رہتا، اور جو لوگ دین کا گہرا علم نہیں رکھتے تھے، اور اس حقیقت سے واقف نہیں تھے اور سطحی ذہانت معتزلہ کی تائید کرتی ہے، اور پختہ اور گہری ذہانت بالآخر محدثین ہی کے مسلک اور محکمات شریعت کو قبول کرتی ہے، وہ معتزلہ کی حسن تقریر، حاضر جوابی اور علمی موشگافی سے متاثر ہوتے تھے، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ظاہر شریعت اور مسلک سلف کی علمی بے توقیری، اور اس کی طرف سے بے اعتمادی پیدا ہو رہی تھی، خود محدثین اور ان کے تلامذہ کے گروہ میں بہت سے لوگ احساس کمتری کا شکار تھے، اور معتزلہ کی عقلیت اور تفلسف سے مرعوب ہو رہے تھے، یہ صورتِ حال دینی وقار اور سنت کے اقتدار کےلئے سخت خطرناک تھی،قرآن مجید کی تفسیر اور عقائد اسلام، ان فلسفی نما مناظرین کےلئے بازیچہ اطفال بنے جا رہے تھے مسلمانوں میں ایک خام عقلیت اور سطحی فلسفیت مقبول ہو رہی تھی، یہ محض ایک ذہنی ورزش تھی، اور اصطلاحات کی معرکہ آرائی اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کےلئے اور اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لئے نہ محدثین و حنابلہ کی دینی غیرت اور جوش کافی تھا، نہ عابدوں و زاہدوں کا زہد و عبادت، اور نہ فقہاء کے فتاویٰ اور جزئیات و مسائل پر ان کا عبور و استحضار۔

اس کےلئے ایک ایسی شخصیت درکار تھی جس کی دماغی صلاحیتیں معتزلہ سے کہیں بلند ہوں، جو عقلیت کے کوچہ سے نہ صرف واقف بلکہ عرصہ تک اس کا رہ نورد رہ چکا ہو جس کی بلند شخصیت اور مجتہدانہ دماغ کے سامنے اس زمانہ کی عقلیت و فلفسہ کے علمبرادر مبتدی طالب علم معلوم ہوتے ہوں، اور ایسے پست و حقیر نظر آتے ہوں جیسے کسی دیو قامت انسان کے سامنے پست قد انسان اور نو عمر بچے، اسلام کو فوری طور پر ایک ایسے امام سنت کی ضرورت تھی، اور شیخ ابوالحسن اشعری کی ذات میں اس کو وہ شخصیت مل گئی۔

ابوالحسن علی نام، والد کا نام اسمٰعیل تھا، مشہور صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری کی اولاد میں تھے، 260ھ میں بصرہ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ نے ان کے والد اسمٰعیل کے انتقال کے بعد ابو علی الجبائی سے نکاح کر لیا تھا، جو اپنے وقت میں معتزلہ کے امام اور مذہب اعتزال کے علمبردار تھے، شیخ ابوالحسن نے ان کی آغوش میں تربیت پائی اور بہت جلد ان کے معتمد اور دست راست بن گئے، ابو علی الجبائی اچھے مدرس اور مصنف تھے، مباحثہ پر زیادہ قدرت نہیں رکھتے تھے، ابو الحسن اشعری شروع سے زبان آور ، حاضر جواب تھے ابوعلی بحث و مناظرہ کے مواقع پر انھی کو آگے کر دیتے تھے، بہت جلد وہ سرحلقہ اور مجالس بحث کے صدر نشین بن گئے ۔ (حوالہ : تبیین کذب المفتری ازابن عساکر دمشقی ص117 )   تمام ظاہری قیاسات و قرائن بتلاتے تھے،کہ وہ اپنے مربی اور استاد کے جانشین ہوں گے اور مذہب اعتزال کی حمایت اور اشاعت میں شاید ان سے بھی آگے بڑھ جائیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے انتظامات عجیب ہیں، اس نے سنت کی حفاظت و نصرت کےلئے اس شخص کو انتخاب کیا، جس نےساری زندگی مذہب اعتزال کی حمایت و اثبات میں گزاری تھی، اور جس کےلئے اعتزال کی سند امامت تیار تھی،شیخ ابوالحسن کی طبیعت میں اعتزال کا رد عمل پیدا ہوا، ان کی طبیعت معتزلہ کی تاویلوں اور قیاس آرائیوں سے متنفر ہونے لگی، اور ان کو محسوس ہونے لگا، کہ یہ سب ذہانت کی باتیں ہیں، اور اپنے مذہب کی پچ ہے، حقیقت کچھ اور ہے، اور وہی ہے، جو صحابہ کرام اور سلف کا مسلک ہے، بالآخر عقل کو اسی آستانہ پر جھکنا پڑتا ہے،چالیس برس تک معتزلہ کے مذہب اور اعتقادات کی حمایت اور ان کو ثابت کرنے کے بعد ان کی طبیعت اس سے بالکل پھر گئی اور ان کے ذہن میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی، پندرہ دن وہ گھر سے نہیں نکلے سولہویں دن وہ گھر سے سیدھے جامع مسجد پہونچے، جمعہ کا دن تھا، اور جامع مسجدبھرئی ہوئی تھی، انھوں نے منبر پر چڑھ کو بلند آواز سے اعلان کیا" جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا ہے اس کو بتلاتا ہوں کہ میں ابوالحسن اشعری ہوں ، میں معتزلی تھا، فلاں فلاں عقیدوں کا قائل تھا،اب توبہ کرتا ہوں، اپنے سابق خیالات سے باز آتا ہوں، آج سے میرا کام معتزلہ کی تردید اور ان کی کمزوریوں اور غلطیوں کا اظہار ہے 1؎ وہ دن اور ان کی زندگی کا اخیر دن ان کی ذہانت، علمی تجربہ و قوتِ گویائی اور استدلال تحریر اعتزال کی تردید اور سلف کے مسلک اور اہل سنت کے عقائد کی تائید اور اثبات میں صرف ہوئی، جو کل تک معتزلہ کی زبان اور ان کا سب بڑا وکیل تھا، وہ اہل سنت کا ترجمان اور ان کا سب سے بڑا حامی بن گیا ۔ 

امام ابو الحسن اشعری نے معتزلہ اور محدثین کے درمیان ایک معتدل و متوسط مسلک اختیار کیا وہ نہ تو معتزلہ کی طرح عقل کی غیر محدود طاقت اور فرمانروائی کے قائل تھے کہ وہ الٰہیات کے بارے میں اور مابعد الطبعیات میں بھی بے تکلف اپنا عمل کر سکے اور اس کےجزئیات وتفصیلات اورذات باری تعالی کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کر سکے اور اس کو معیار قرار دیا جا سکے نہ وہ بعض پر جوش محدثین وحنابلہ کی طرح دین کی نصرت اور عقائدِ اسلامیہ کی حفاظت کے لئے عقل کا انکار اور اس کی تحقیر ضروری سمجھتے تھے اور ان کلامی واعتقادی مباحث سے جو زمانہ کے اثرات سے شروع ہو گئے تھے ، احتیاط و سکوت واجب سمجھتے تھے وہ معتزلہ اور فلسفہ زدہ علماء سے ان کی اصطلاحات اور علمی زبان میں گفتگو کرتے تھے جس سے مذہب وعقائد اہل سنت کا وقار اور وزن بڑھتا تھا ان کا اس پر عمل تھا کہ ؛کلمواالناس علی قدر عقولھم الخ اس میں  جس طرح عوام کی عقلی سطح کی رعایت ضروری ہے، اسی طرح اہل علم و عقلاء کی عقلی سطح کی رعایت بھی ضروری ہے ۔
ابو الحسن اشعری نے پوری قوت اور وضاحت کے ساتھ معتزلہ پر تنقید کی کہ انہوں نے دین کے اخذ و فہم میں اپنی خواہشات کی پیروی اور اپنے فرقہ کے پیشواؤں کی تقلید کی اور کتاب و سنت کو اس کا ماخذ نہیں بنایا، بلکہ جہاں قرآن کی آیات اور اپنے عقائد میں تعارض دیکھا، بے تکلف اس کی تاویل اور توجیہہ کر لی ۔ " کتاب الا بانہ من اصول الدیانہ " میں جو اعتزال سے علٰیحدگی کے بعد کی اولین تصنیفات میں سے ہے ۔ تحریر فرماتے ہیں :
اَمّا بعد افانَّ من الزائغین عن الحق من المعتزلۃ و اھل القدر مالت بھم اھوائھم الی تقلید رؤسائھم وَمن مضی من اسلافھم فتاولو القرآن علی آرائھم تاویلا لم ینزل اللہ بہ سلطاناً ولا اوضح بہ برھاناً ولا نقلوہ عن رسول اللہ رب العالمین ولا عن السلف المتقدین ۔  ( حوالہ : کتاب الابانۃ عن اصول الدیانتہ ص ۵ ، طبع دائرۃ المعارف حیدر آباد ۔)

حمد و صلوٰۃ کے بعد معلوم ہو کہ معتزلہ اور قدریہ فرقوں نے جو حق سے منحرف ہیں ، اپنی خواہشات کی پیروی میں اپنے پیشواؤں اور اپنے فرقہ کے پیش رؤں کی تقلید کی اور اپنی آراء کے مطابق کرنے کے لئے قرآن مجید کی ایسی تاویلات کیں جن کی خدا نے کوئی سند نہیں اتاری، نہ ان کی کوئی واضح دلیل ہے ، اور نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف (صحابہ و تابعین) سے منقول ہیں ۔
پھر اپنے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے صاف لکھتے ہیں۔
قولنا الذی نقول بہ ودیانتنا التی ندین بھا التمسک بکتاب ربنا عز و جل و بسنۃ نبینا علیہ السلام وما روی عن الصحابۃ والتابعین و ائمۃ الحدیث و نحن بذلک معتصمون وبما کان یقول بہ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل نضر اللہ وجھہ و رفع درجتہ و اجزل مثوبتہ قائلون و لما خالف قولہ مخالفون لانّہ الامام الفاضل والرئیس الکامل الذی ابان اللہ بالحق ورفع بہ الضلال و اوضح بہ المنھاج وقمع بہ بدع المبتدعین و زیغ الزائغین و شک الشاکین فرحمۃ اللہ علیہ من امام مقدم و خلیل معظم مفخم۔ (کتاب الابانۃ عن اصول الدیانۃ، ص ۸)
ہمارا عقیدہ جس کے ہم قائل ہیں اور ہمارا مسلک جس پر ہم قائم ہیں یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوط پکڑا جائے اور صحابہ و تابعین  اور ائمہ حدیث سے جو منقول ہے اس کو اختیار کیا جائے ہم اسی مسلک پر مضبوطی سے قائم ہیں اور امام احمد بن حنبل کے عقائد و مسلک کے (اللہ ان کے چہرہ کو تر و تازہ رکھے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اجر جزیل عطا فرمائے) قائل و معتقد ہیں، اور جو ان کے مسلک سے علٰیحدہ ہے ہم اس سے علٰیحدہ ہیں، اس لئے کہ وہ ایسے امام فاضل اور پیشوائے کامل تھے کہ اللہ تعالٰی نے ان کے ہاتھوں حق کو واضح اور گمراہی کو زائل فرمایا اور صراط مستقیم کو روشن کیا اور مبتدعین کی بدعات، اہل زیغ کی کجروی، اور اہل شک کے شکوک کا ازالہ کیا۔ اللہ تعالٰی ایسے بلند پایہ امام اور ایسے مستحقِ محبت و احترام پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔

لیکن ان کا اصلی کارنامہ اس مسلکِ سنت اور عقیدۂ سلف کے ساتھ موافقت اور اس کی اجمالی تائید نہیں ہے۔ یہ تو محدثین اور عام حنابلہ کر ہی رہے تھے۔ ان کا اصل کارنامہ ہے کہ انہوں نے کتاب و سنت کے ان حقائق اور اہل سنت کے ان عقائد کو عقلی دلائل سے ثابت کیا اور معتزلہ اور دوسرے فرقوں سے ان کے ایک ایک مسئلہ اور ایک ایک عقیدہ میں انہی کی زبان اور اصطلاحات میں بحث کر کے عقائد اہل سنت کی صداقت اور ان کا منقول و معقول کے مطابق ہونا واضح کیا۔

( ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 103- 106، 108-110،  سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )