ضیاالدین
مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے یونانی فلسفے سے مستفید ہونے کے باوجود اس کے گرداب میں پھنسے علم ہیئت و فلکیات کو سائنسی بنیادیں فراہم کیں اور ترقی دی۔ اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابن رشد نے سورج کی سطح کے دھبوں (Sunspots) کو پہچانا جو کہ ٹیکنالوجی کی غیر موجودگی میں ایک بڑا کارنامہ تھا۔ عمر خیام نے شمسی کیلنڈر مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانے میں زمین کے محیط کی پیمائش عمل میں آئی جن کے نتائج کی درستگی آج کے ماہرین کے لیے حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردش، سورج گرہن، علم المیقات (ٹائم کیپنگ) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات بھی البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدان نے فراہم کیں اور انہیں تحریری شکل دی۔ علم ہئیت اور فلکیات اور ستارہ شناسی کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ علی بن خلاق اندلسی اور مظفرالدین طوسی کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، مگر ان سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ کے عظیم سائنسدان ’’عباس بن فرناس‘‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا۔ یہ دور جدید کی سیارہ گارہ (پلینٹیریم) کی بنیاد بنا۔ اس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ عباس بن فرناس وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دنیا کا سب سے پہلا ’’ہوائی جہاز‘‘ بناکر اڑایا۔ بعد ازاں البیرونی اور ازرقیل وغیرہ نے قطبین کے آلات کو وضع کیا اور ترقی دی۔ قبلہ کے تعین اور چاند اور سورج گرہن کو قبل از وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی ابن یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جدول مرتب کیے۔ حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں الخوارزمی نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ حساب میں Algorithm کا لفظ الخوارزمی کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ ان کی کتاب (الجبر و المقابلہ) سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اسی سے مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ الخوارزمی نے بہت ساری اہم تصانیف چھوڑیں جن میں ایک ’’السند ہند‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کتاب الجبرو المقابلہ میں انہوں نے لوگوں کی روزمرہ ضروریات اور معاملات کے حل کے لیے تصنیف کیاجیسے میراث، وصیت، تقسیم، تجارت، خریدو فروخت، کرنسی کا تبادلہ، کرایہ، عملی طور پر زمین کا قیاس (ناپ)، دائرہ اور دائرہ کے قطر کا قیاس، بعض دیگر اجسام کا حساب جیسے ثلاثہ اور مخروط وغیرہ۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے علمِ حساب اور علمِ جبر کو الگ الگ کیا اور جبر کو علمی اور منطقی انداز میں پیش کیا۔ ابوالوفاء ، الکندی، ثابت بن القراء ، الفارابی، عمر خیام، نصیرالدین طوسی، ابن البناء المراکشی، ابن حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور ابراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات الجبرا، جیومیٹری، ارتھمیٹک وغیرہ میں غیر معمولی ہیں۔ حتیٰ کہ ان مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اصولوں کے ذریعے Optics اور مکینکس کو بھی خوب ترقی دی۔ طبعیات اور حرکیات ابن سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی طبعیات کی خدمات ابتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد ازاں محمد بن زکریا، البیرونی اور ابوالبرکات البغدادی نے اسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے کوسمالوجی کو خاصا فروغ دیا۔ ابن الہیثم نے زمان و مکاں، کشش ثقل، وزن، پیمائش وغیرہ کے شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ اس نے ان موضوعات کو بنیادی مواد فراہم کرکے طبعیات کے دامن کو علم سے بھردیا۔ وہ طبعیات ، ریاضی ، ہندسیات ،فلکیات اور علم الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔ ان کی وجۂ شہرت آنکھوں اور روشنی کے متعلق تحقیقات ہیں۔
(روزنامہ دنیا ،تاریخ اشاعت : 23فروری 2018)