حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بات پر آپ ﷺ ہنس پڑے
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہونے کے لئے اجازت مانگی تو صحابہ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے پایا ان میں سے کسی کو اجازت نہ دی گئی ابوبکر کو اجازت دی گئی تو وہ داخل ہوگئے پھر عمر (رض) آئے اجازت مانگی تو انہیں بھی اجازت دے دی گئی تو انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹھے ہوئے پایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج غمگین اور خاموش بیٹھی تھیں عمر (رض) نے کہا میں ضرور کسی بات کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنساؤں گا تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خارجہ کی بیٹی کو دیکھتے جو کہ ان کی بیوی ہیں اس نے مجھ سے نفقہ مانگا تو میں اس کا گلا دبانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے فرمایا یہ میرے ارد گرد ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو یہ مجھ سے نفقہ مانگتی ہیں پس ابوبکر (رض) عائشہ (رض) کا گلا دبانے کے لئے کھڑے ہوگئے اور عمر حفصہ (رض) کا گلا دبانے کے لئے اٹھے اور یہ دونوں ان سے کہہ رہے تھے کہ تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسا سوال کرتی ہو جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں انہوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم کبھی بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی ایسی چیز نہیں مانگیں گی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ ہو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ایک ماہ یا انیتس دن علیحدہ رہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی (يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا) 33۔ الاحزاب : 28) پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عائشہ (رض) سے شروع فرمایا اور فرمایا اے عائشہ میں ارادہ رکھتا ہوں کہ تیرے سامنے ایک معاملہ پیش کروں یہاں تک کہا اپنے والدین سے مشورہ کرلے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ کیا معاملہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی سیدہ عائشہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ کروں بلکہ میں اللہ اور اللہ کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دوسری ازواج سے اس کا ذکر نہ فرمائیں جو میں نے کہا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو ان میں سے مجھ سے پوچھے گی تو میں اسے خبر دے دوں گا کیونکہ اللہ نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے معلم اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1197 )
اے اللہ مجھے وہ دوست عطا فرما جو مجھے میری جان سے زیادہ پیارا ہو!
حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر آئے اور ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے اور ہمارے پاس پچاس بکریاں تھیں وہ سیراب نہیں ہو رہی تھیں راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے یا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی اور یا اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا لعاب دہن ڈالا راوی کہتے ہیں کہ پھر اس کنوئیں میں جوش آ گیا پھر ہم نے اپنے جانوروں کو بھی سیراب کیا اور خود ہم بھی سیراب ہوگئے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں درخت کی جڑ میں بیٹھ کر بیعت کے لئے بلایا راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے میں نے بیعت کی پھر اور لوگوں نے بیعت کی یہاں تک کہ جب آدھے لوگوں نے بیعت کرلی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوسلمہ بیعت کرو میں نے عرض کیا اللہ کے رسول میں تو سب سے پہلے بیعت کرچکا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر دوبارہ کرلو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دیکھا کہ میرے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک ڈھال عطا فرمائی (اس کے بعد) پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہوگیا جب سب لوگوں نے بیعت کرلی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے سلمہ کیا تو نے بیعت نہیں کی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سب سے پہلے تو میں نے بیعت کی اور لوگوں کے درمیان میں بھی میں نے بیعت کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر کرلو حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے تیسری مرتبہ بیعت کی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا! اے سلمہ (رض) وہ ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے چچا عامر کے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں تھا وہ ڈھال میں نے ان کو دے دی حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرا پڑے اور فرمایا کہ تو بھی اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے سب سے پہلے دعا کی تھی اے اللہ مجھے وہ دوست عطا فرما جو مجھے میری جان سے زیادہ پیارا ہو۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 181 )
ام سلیم رضی اللہ تعالی عنھا کی بات پر آپ ﷺ ہنس پڑے
حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے غزوہ حنین کے دن ان کے پاس جو خنجر تھا وہ لیا۔ حضرت ابوطلحہ (ام سلیم کے ہاتھ میں خنجر) دیکھا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ام سلیم ہیں جن کے پاس ایک خنجر ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلیم (رض) سے فرمایا یہ خنجر کیسا ہے حضرت ام سلیم (رض) نے عرض کیا اگر مشرکوں میں سے کوئی مشرک میرے پاس آئے گا تو میں اس کے ذریعہ سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے ام سلیم (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے طلقاء میں سے وہ لوگ کہ جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکست کھائی ہے کیا میں ان کو قتل کردوں یعنی جو فتح مکہ کے موقع پر مکہ والوں میں سے مسلمان ہوئے ان کے شکست کھا جانے کے وجہ سے ام سلیم نے ان کو منافق سمجھا اس لئے ان کو قتل کرنے کا عرض کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ام سلیم بےشک اللہ کافی ہے اور اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 183 )