جنت میں کاشت کاری
حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں، کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن باتیں کر رہے تھے، ایک دیہاتی آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنتیوں میں سے ایک اپنے پروردگار سے کاشتکاری کی اجازت مانگے گا، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا کیا تو اپنی موجودہ حالت پر راضی نہیں وہ کہے گا کیوں نہیں ! لیکن میں کاشتکاری پسند کرتا ہوں، چنانچہ وہ بیج ڈالے گا اور فورا اگ آئے گااور سیدھا ہوجائے گا اور کاٹنے کے لائق ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ کہے گا کہ اے ابن آدم! اس کو لے لے، تجھ کو کوئی چیز آسودہ نہیں کرسکتی، پھر اس دیہاتی نے کہا اللہ کی قسم ! وہ شخص ضرور کوئی قریشی یا انصاری ہوگا، اس لئے کہ یہی لوگ کھیتی کرنے والے ہیں، ہم تو کھیتی نہیں کرتے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یہ سن کر) ہنس پڑے۔
(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2247 )
مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں تو ہلاک ہوگیا کہ رمضان میں اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک غلام آزاد کر، صحابی نے کہا میرے پاس غلام نہیں، فرمایا پھر دو مہینے متواتر روزے رکھ اس نے کہا اس کی بھی مجھ میں صلاحیت نہیں پھر آپ ﷺفرمایا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ، اس نے کہا میرے پاس یہ بھی نہیں ایک عرق لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں (ابراہیم نے کہا کہ عرق ایک پیمانہ ہے) آپ نے پوچھا وہ سائل کہاں ہے؟ اس کو لے جا اور صدقہ کر دے اس نے پوچھا کیا اپنے سے زیادہ محتاج کو دوں! اللہ کی قسم مدینہ کے ان ریگستانوں کے درمیان کوئی گھر ایسا نہیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں کھل گئیں (اور فرمایا کہ) پھر تم ہی سہی۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1041 )
ایک حصہ میرا بھی
ابوسعیدخدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے چند لوگ عرب کے کسی قبیلہ کے پاس پہنچے، اس قبیلہ کے لوگوں نے ان کی ضیافت نہیں کی، وہ لوگ وہیں تھے کہ اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، تو انہوں نے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی دوا یا کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے، تو ان لوگوں نے کہا کہ تم نے ہماری مہمان داری نہیں کی اس لئے ہم کچھ نہیں کریں گے، جب تک کہ تم لوگ ہمارے لئے کوئی چیز متعین نہ کروگے، اس پر ان لوگوں نے چند بکریوں کا دینا منظور کیا، انہوں نے سورت فاتحہ پڑھنا شروع کی اور تھوک جمع کرکے اس پر ڈال دیا، تو وہ آدمی تندرست ہوگیا، وہ آدمی بکریاں لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں لیتے جب تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت نہ کرلیں، چنانچہ ان لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ ہنس پڑے، فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ منتر ہے، تم اس کو لے لو اور ایک حصہ میرا بھی اس میں لگا دینا۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 706)
ایک یہودی کی بات پر آپ ﷺ ہنس پڑے
حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا کہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر اور زمینوں کو ایک انگلی پر اور پہاڑوں کو ایک انگلی پر اٹھائے گا، تو فرمائے گا کہ میں بادشاہ ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک ظاہرہو گئے پھر آپ نے آیت: ومَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِه 22۔ الحج : 74 اللہ کا قدر اسطرح نہ کیا جیسے اس کا حق ہے)، تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2311 )
سب سے آخری جنتی
حضرت ابوسعیدخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا وہ گرتا پڑتا اور گھسٹتا ہوا دوزخ سے اس حال میں نکلے گا کہ دوزخ کی آگ اسے جلا رہی ہوگی پھر جب دوزخ سے نکل جائے گا تو پھر دوزخ کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور دوزخ سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ نعمت عطا فرمائی ہے کہ اولین وآخرین میں سے کسی کو بھی وہ نعمت عطا نہیں فرمائی پھر اس کے لئے ایک درخت بلند کیا جائے گا وہ آدمی کہے گا کہ اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب کر دیجئے تاکہ میں اس کے سایہ کو حاصل کرسکوں اور اس کے پھلوں سے پانی پیوں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے ابن آدم اگر میں تجھے یہ دے دوں تو پھر اس کے علاوہ اور کچھ تو نہیں مانگے گا وہ عرض کرے گا کہ نہیں اے میرے پروردگار، اللہ تعالیٰ اس سے اس کے علاوہ اور نہ مانگنے کا معاہدہ فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرمائیں گے کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھ چکا ہوگا کہ جس پر اسے صبر نہ ہوگا اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردیں گے وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور اس کے پھلوں کے پانی سے پیاس بجھائے گا پھر اس کے لئے ایک اور درخت ظاہر کیا جائے گا جو پہلے درخت سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوگا وہ آدمی عرض کرے گا اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کا پانی پیوں اور اس کے بعد میں اور کوئی سوال نہیں کروں گا اللہ فرمائیں گے اے ابن آدم کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے اور کوئی سوال نہیں کرے گا اور اب اگر تجھے اس درخت کے قریب پہنچا دیا تو پھر تو اور سوال کرے گا اللہ تعالیٰ پھر اس سے اس بات کا وعدہ لیں گے کہ وہ اور کوئی سوال نہیں کرے گا تاہم اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ معذور ہوگا کیونکہ وہ ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہ کرسکے گا پھر اللہ تعالیٰ اس کو درخت کے قریب کردیں گے وہ اس کے سایہ میں آرام کرے گا اور اس کا پانی پئے گا پھر اسے جنت کے دروزاے پر ایک درخت دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا وہ آدمی کہے گا اے میرے رب مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کے سایہ میں آرام کروں اور پھر اس کا پانی پیؤں اور اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا پھر اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائیں گے اے ابن آدم کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے بعد اور کوئی سوال نہیں کرے گا وہ عرض کرے گا ہاں اے میرے پروردگار اب میں اس کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کروں گا اللہ اسے معذور سمجھیں گے۔ کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہیں کرسکے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردیں گے جب وہ اس درخت کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا تو وہ پھر عرض کرے گا اے میرے رب مجھے اس میں داخل کر دے تو اللہ فرمائیں گے اے ابن آدم تیرے سوال کو کون سی چیز روک سکتی ہے کیا تو اس پر راضی ہے کہ تجھے دنیا اور دنیا کے برابر دے دیا جائے وہ کہے گا اے رب! اے رب العالمین تو مجھ سے مذاق کرتا ہے یہ حدیث بیان کر کے حضرت عبداللہ (رض) ہنس پڑے اور لوگوں سے فرمایا کہ تم مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کیوں ہنسا لوگوں نے کہا کہ آپ کس وجہ سے ہنسے؟ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح ہنسے تھے فرمایا اللہ رب العالمین کے ہنسنے کی وجہ سے جب وہ آدمی کہے گا کہ آپ رب العالمین ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق فرما رہے ہیں تو اللہ فرمائیں گے کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا مگر جو چاہوں کرنے پر قادر ہوں۔