رھنما کا طرز عمل

رھنما کا طرز عمل 

طرزِعمل سے مراد آپ کی عمومی ظاہری وضع قطع، چال ڈھال اور انداز و اطوار ہیں۔ کسی بے چین گروہ کی بے چینی ختم کرنے میں ایک ایسے لیڈر سے زیادہ کامیاب اور کوئی نہیں ہو سکتا جو اپنے چہرے یا اپنے اطوار سے کسی طرح کی پریشانی کا اظہار نہ ہونے دے۔ طرزِ عمل کا مظاہرہ مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ٭: دوسروں کے سامنے کبھی اپنے کارکنوں کو ڈانٹئے ڈپٹئے مت۔ ٭: اپنی آواز اور حرکات و سکنات کو قابو میں رکھئے تاکہ ان سے کسی طرح کے شدید جذبات کا اظہار نہ ہونے پائے۔ بعض اوقات تھوڑا سا غصہ ظاہر کر دینا مناسب ہوتا ہے لیکن بالکل ہی بے قابو ہو جانا کبھی مناسب نہیں ہوتا۔ ٭: بیہودہ الفاظ اور ناشائستہ گفتگو سے ہمیشہ پرہیز کریں۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’کسی لیڈر کی حیثیت کا تعین کرنے میں اس کے شخصی رویوں کے متعلق کلیدی سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس کے رویئے پسندیدہ ہیںیا غیرپسندیدہ، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مفید ہیں یا غیرمفید۔ زمانہ سازی، خودپرستی، ظاہرداری جیسے رویئے بعض حالات میں ناپسندیدہ قرار دیئے جا سکتے ہیں لیکن ایک لیڈر کے لئے یہ بنیادی اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ مختلف مفادات کے حامل اور باہم مخالف گروہوں کے تغیر پذیر اتحادات کو مجتمع رکھنے کے لئے اسے زمانہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کے سامنے اپنے متعلق درست شخصی تاثر بنانے کے لئے اسے کسی حد تک خود پرستی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ بعض اوقات اہم معاملات پر اثرانداز ہونے کے لئے اسے ظاہرداری سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔‘‘ ڈیگال کا کہنا ہے کہ ایک لیڈر کو ’’معلوم ہونا چاہئے کہ کب اسے ظاہرداری سے کام لینا ہے اور کب بے تکلفی سے۔‘‘ اور یہ کہ ’’ہر متحرک اور سرگرم آدمی میں انانیت، فخر، سخت گیری اور مکاری کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے لیکن ان سب عیوب کے لئے اسے معاف کر دینا چاہئے بلکہ انہیں اس کی خوبیاں سمجھا جانا چاہئے، اگر وہ ان کے ساتھ کار ہائے نمایاں انجام دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو۔‘‘ تمام عظیم لیڈر جو مروجہ معیارات پر پورا اترے ان خصوصیات کے حامل تھے۔ اگر ہم ان تمام لیڈروں کے متعلق سوچیں جو ناکام ہوئے یا جو عوام کو ناامید کرنے کا سبب بنے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی ناکامیوں کی وجہ انہی خصوصیات کی کمی تھی۔ لہٰذا ایک لیڈر کو باوقار، خوش اطوار اور خصوصاً صابر و متحمل ہونا چاہئے۔ اسے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’کامیاب لیڈر کبھی لوگوں سے حقارت آمیز سرپرستانہ انداز میں گفتگو نہیں کرتا۔ وہ انہیں اوپر اٹھاتا ہے۔ اسے ’’احمقوں کو برداشت کرنے کے لئے‘‘ آمادہ اور تیار ہونا چاہئے۔ اسے دکھانا چاہئے کہ جن عوام کی تائید و حمایت کی اسے ضرورت ہے وہ ان کا احترام کرتا ہے۔ لیکن اسے باہمی فرق کی وہ خصوصیت بھی برقرار رکھنی چاہئے جو اسے اس قابل بناتی ہے کہ لوگ اس کی طرف دیکھیں… لیڈر کو نہ صرف یہ سیکھنا چاہئے کہ بولنا کیسے چاہئے بلکہ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے، اور یہ بہت زیادہ اہم ہے، کہ کب بولنا بند کر دینا چاہئے۔‘‘ ڈیگال نے اس نکتے کی نشاندہی بڑی عمدگی سے ان الفاظ میں کی ہے کہ خاموشی ایک لیڈر کے لئے طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ جب ہم بولنے کے بجائے سنتے ہیں، تب ہی ہمیں کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ صبر و برداشت، مستقل اور مستحکم رہنے اور نامساعد حالات کو خود پر غالب نہ آنے دینے کی ایک خصوصی اہلیت ہے۔ صبر و برداشت کمزوری کی علامت نہیں بلکہ استقلال و استحکام سے حاصل ہونے والی قوت کی نشانیاں ہیں۔ صبر و برداشت حاصل کرنے اور بڑھانے کے لئے ایک نہایت زبردست قسم کے جوش و خروش کی ضرورت ہوتی ہے۔ تلاش کرنے کا جوش و جذبہ ہونا چاہئے، اور جس کا جوش جتنا بڑھا ہوا ہوگا، وہ حالات کی سختیوں کو یقینا اتنی ہی آسانی سے برداشت کر سکے گا۔ ٭…٭…٭

محمد عظیم ، روز نامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 3مئی 2018)