قیادت کی جانچ اور پرکھ

محمد اعظم

روزنامہ دنیا ،  تاریخ اشاعت : 27 جولائی 2018ء 

جانچ اور پرکھ سے مراد ہے حقائق کو منطق کے ترازو میں تولنے، ہر ممکنہ حل پر غور و فکر اوردرست فیصلے کرنے کی اہلیت۔ اس میں عقل سلیم یعنی کامن سنس اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس خصوصیت کو اجاگر کرنے کے لئے آپ مندرجہ ذیل نکات پر عمل کر سکتے ہیں۔ 

٭ کسی بات پر شک و شبہ کا شکار ہونے کی صورت میں کسی اچھے مشیر سے مشورہ طلب کریں۔

 ٭ صورتِ حال کو دوسرے فریق کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ 

٭ وقتی اضطراری کیفیت کے تحت کبھی فیصلہ نہ کریں۔ جو کچھ بھی کریں، اس کے ممکنہ اثرات کے متعلق پہلے اچھی طرح سوچ لیں۔

 رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’جو خصوصیات ایک بڑے لیڈر کو چھوٹے لیڈروں سے ممتاز بناتی ہیں، وہ یہ ہیں۔ بڑا لیڈر زیادہ پُراثر ہوتا ہے، زیادہ مؤثر انداز میں کام کر سکتا ہے اور اس کے پاس معاملات کو جانچنے اور پرکھنے کی وہ اہلیت ہوتی ہے جو اسے مہلک غلطیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور اسے آنے والے مواقع کو پہچاننے کے قابل بناتی ہے۔‘‘ 

جب مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے برصغیر پر حملہ کیا اور اس وقت کے سلطانِ ہند ابراہیم لودھی کے مدمقابل ہوا تو اس وقت بابر کی افواج، ابراہیم لودھی کی افواج کے مقابلے میں بہت کم تھیں لیکن بابر بذاتِ خود فنونِ حرب میں ماہر تھا۔ میدانِ جنگ میں اس نے اپنی کمی کو پورا کرتے ہوئے اپنی جانچنے اور پرکھنے کی اہلیت کو صورتِ حال کا تجزیہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس نے اپنی فوج کو اس انداز میں پھیلایا کہ وہ اپنی حقیقی تعداد سے کہیں زیادہ نظر آنے لگی اور انہیں اطراف سے محفوظ آڑ بھی میسر رہی۔ جنگی حکمت عملی کے طور پر بابر نے لودھی کے ہاتھیوں کو نشانہ بنایا جو کہ زنجیروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور بابر کی فوج کے گھوڑوں کو خوفزدہ کر رہے تھے۔ بابر نے اپنی قوت کا زیادہ تر حصہ ہاتھیوں کو ہراساں کرنے پر استعمال کیا اور نتیجے میں ہاتھیوں نے بے قابو ہو کر اپنی ہی فوجوں کو کچل دیا۔ انجام کار بابر فتح یاب ٹھہرا اور ہند کا شہنشاہ بنا۔ سیاست میں بھی صورتِ حال کا درست تجزیہ کرنا اور اسے سمجھنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

 میرا ذاتی تجربہ ہے کہ احتجاج، جلوس اور عوامی اجلاس کے انعقاد کے لئے صورتِ حال کا درست تجزیہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اپریل 1986ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آرہی تھیں تو چند بزرگ دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ عوامی اجلاس کا انعقاد چوبرجی میں ہیلی کالج آف کامرس کے بالمقابل پنجاب یونیورسٹی کی گرائونڈ میں کروں۔ لیکن عوامی اجلاس کے لئے مینار پاکستان کی گراؤنڈ کا انتخاب کیا گیا۔ اجلاس کے انعقاد کے بعد، یہ تجزیہ درست ثابت ہوا کیونکہ اگر مینار پاکستان کے علاوہ کسی اور جگہ اس اجلاس کو منعقد کیا جاتا تو لوگ کبھی اتنی بڑی تعداد میں اس میں شریک نہ ہوتے۔

 جن افراد سے آپ ملتے ہیں، جن معاملات کو آپ ہینڈل کرتے ہیں اور جن صورتِ حالات سے آپ کا سابقہ پڑتا ہے، ان کا درست تجزیہ کرنا، انہیں جانچنا، ان کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ درست اندازہ لگانا اور فیصلہ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ لیکن مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد بتدریج ایسے اندازے لگانے کی اہلیت حاصل کی جا سکتی ہے۔

 رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں چرچل کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’اپنے مقاصد اور اہداف کے درست ہونے کے متعلق اس کے اندازے اکثر درست ہوا کرتے تھے، اور یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ وہ اس وقت تک زندہ رہا جب اس کے ملک کو اس تجربے اور قیادت کی ضرورت پڑی جو اس وقت ( 1940ء میں) صرف وہی فراہم کر سکتا تھا۔‘