بعثت محمد ﷺ سے پہلے ایران کے سیاسی اور معاشرتی حالات

مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

ایران اور وہاں کی تخریبی تحریکات

متمدن دنیا کی تولیت و انتظام میں ایران، روم کا شریک تھا۔ لیکن بد قسمتی سے وہ دشمنِ انسانیت افراد کی سرگرمیوں کا پرانا مرکز تھا، وہاں کی اخلاقی بنیادیں زمانۂ دراز سے متزلزل چلی آ رہی تھیں، جن رشتوں سے ازدواجی تعلقات دنیا کے متمدن و معتدل علاقوں کے باشندوں ہمیشہ ناجائز اور غیر قانونی سمجھتے رہے ہیں، اور فطری طور پر اس سے نفرت کرتے ہیں، ایرانیوں کو ان کی حُرمت و کراہت تسلیم نہیں تھی، یزدگرد دوم جس نے پانچویں صدی کے وسط میں حکومت کی ہے، اس نے اپنی لڑکی کو زوجیت میں رکھا پھر قتل کر دیا ( HISTORIAN`S HISTORY OF THE WORLD, VOL. VIII P. 24) ، بہرام جوبیں جو چھٹی صدی عیسویمیں حکمراں تھا، اس نے اپنی بہن سے اپنا ازدواجی تعلق رکھا، (تاریخ طبری ج2ص138) پروفیسر آرتھر کرسٹن سین کے بیان کے مطابق اس قسم کا رشتہ ایران میں کوئی ناجائز فعل تصور نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ ایک عبادت اور کار ثواب سمجھا جاتا تھا، مشہور چینی سیاح (ہوتن سیانگ) کابیان ہے کہ ایرانی قانون و معاشرت میں ازدواجی تعلقات کے لئے کسی رشتہ کا بھی استثناء نہ تھا۔(ایران بعہد ساسانیاں ص430)


تیسری صدی عیسوی میں مانیؔ دنیا کے سامنے آیا اس کی تحریک دراصل ملک کے بڑھتے ہوئے شدید شہوانی رجحان کا ایک غیر فطری اور سخت ردّ عمل اور نور وظلمت کی مفروضہ کش مکش کا (جوایران کا قدیمی فلسفہ ہے) نتیجہ تھا، چنانچہ اس نے تجرد کی زندگی اختیار کرنے کی دعوت دی تاکہ دنیا سے شروفساد کے جراثیم ناپید ہوجائیں، اس نے اعلان کیا کہ نور وظلمت کا امتزاج ہی شر کا باعث ہے، اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے، اس بنا پر اس نے نکاح کو حرام قرار دیا کہ انسان جلد سے جلد فنا ہوجائے اور نسل انسانی منقطع ہوکر نور کو ظلمت پر دائمی فتح حاصل ہو، بہرامؔ نے 274ء میں مانی کو یہ کہتے ہوئے قتل کرڈالا کہ یہ شخص دنیا کی تباہی کی دعوت دیتاہے، اس لئے قبل اس کے کہ دنیا ختم ہو اور اس کا مقصد پورا ہو اس کو خود ہلاک ہونا چاہئے، لیکن بانی مذہب کے قتل کے باوجود اس کی تعلیمات عرصہ تک زندہ رہیں، اور اسلامی فتح کے بعد تک ان کے اثرات باقی رہے۔

ایران کی افتاد طبع نے پھر ایک مرتبہ مانیؔ کی دشمن فطرت تعلیمات کے خلاف بغاوت کی، یہ بغاوت مزدکؔ (پیدائش ۴۸۷؁ کی دعوت کی شکل میں سامنے آئی اس نے اعلان کیا کہ تمام انسان یکساں طور پر پیدا ہوئے ہیں، ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے، لہٰذا ہر ایک کو دوسرے کی ملکیت میں مساوی حقوق حاصل ہیں، اور چونکہ مال اور عورت ہی دو ایسے عنصر ہیں، جن کی حفاظت ونگرانی کا انسان اہتمام کرتاہے، لہٰذا انھیں میں مساوات واشتراک کی سب سے


زیادہ ضرورت ہے، شہرستانی کا بیان ہے "مزدک نے تمام عورتوں کو سب کے لئے حلال قرار دے دیا اور مال و زن کو مثل آگ، پانی اور چارہ کے مشترک اور عام کر دیا (۔"الملل والنحل" للشھرستانی، ص 84۔)" نوجوانوں اور عیش پسندوں کی مراد بر آئی اور انہوں نے اس تحریک کا پُر جوش خیر مقدم کیا۔ طُرفہ تماشہ یہ ہوا کہ شاہ ایران قباذؔ نے اس کی سرپرستی قبول کر لی اور اس کی اشاعت و تبلیغ میں بڑی سرگرمی دکھائی، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک آگ کی طرح ملک میں پھیل گئی، پورے کا پورا ایران جنسی انارکی اور شہوانی بحران میں ڈوب گیا۔ طبرانی کا بیا ہے کہ :

" اوباش اور آوارہ مزاج لوگوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مُزدک اور مُزدکیوں کے پرجوش ساتھ اور دست و بازو بن گئے، عام شہری اس بلائے ناگہانی کا شکار تھے۔ اس تحریک کا اتنا زور ہوا کہ جو چاہتا جس کے گھر میں چاہتا گھس آتا اور مال و زن پر قبضہ کر لیتا اور صاحب مکان کچھ بھی نہ کر سکتا۔ ان مزدکیوں نے قباذؔ کو ابھارا اور اس کو معزولی کی دھمکی دے کر تیار کر لیا کہ وہ بھی اس دعوت کو اپنا لے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ عالم ہو گیا کہ نہ باپ اپنے لڑکوں کو پہچان سکتا تھا اور نہ لڑکا اپنے باپ کو۔ کسی کا بھی اپنی کسی ملکیت پر اختیار اور قبضہ نہیں تھا۔" ( تاریخ طبری۔ج 2ص 88)

طبری کا بیان ہے کہ "اس تحریک سے پہلے قباذؔ ایران کے اچھے فرمانرواؤں میں تھا، لیکن مزدک کی پیروی کی وجہ سے حدود مملکت اور سرحدوں میں پراگندگی اور ابتری پھیل گئی۔" (ایضا)

ایران کی شاہ پرستی


ایران کے سلاطین جن کا لقب کسریٰ (خسرو) ہوا کرتا تھا، اس بات کے مدعی تھے کہ ان کی رگوں میں خدائی خون ہے ، اہلِ ایران بھی انھیں اسی نظر سے دیکھتے تھے کہ گویا وہ خدا ہیں ، ان کا اعتقاد تھا کہ ان سلاطین کی فطرت میں ایک مقّدس آسمانی چیز ہے ، چناچہ یہ لوگ ان کے آگے سر بسجود ہوتے ، ان کی الُوہیت کے ترانے گاتے اور انھیں قانون سے ، تنقید سے ، بلکہ بشریت سے بالا تر تصور کرتے تھے ، فرطِ ادب سے ان سلاطین کے نام بھی اپنی زبان پر نہ لاتے اور نہ کوئی شخص ان کی مجلس میں بیٹھنے کی ہمت کر سکتا تھا ، اہلِ ایران کا عقیدہ تھا کہ ان سلاطین کا ہر انسان پر پیدائشی حق ہے ، اور کسی انسان کا ان سلاطین پر حق نہیں ، شاہ ایران اپنی دولت میں سے جو تھوڑا بہت کسی کو دےدے یا اپنے دسترخوان سے کوئی ٹکڑا اٹھا کر کسی کو عطا کردے وہ اس کا احسان و صدقہ ہے ، کسی کا استحقاق نہیں، لوگوں کو سواۓ احکام کی بجا آوری کے کسی امر میں دخل نہ دینا چاہیئے ، ملک و قوم پر حکومت کرنے کے لیے ایک خاص گھرانہ (کیانی خاندان) متعّین تھا ، اہلِ ایران سمجھتے تھے کہ صرف اسی گھرانے کے افراد تخت و تاج کے وارث اور ملک و سلطنت کےمالک ہو سکتے ہیں ، اور یہ حق بیٹے کو باپ سے نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہیگا ، اس حق میں کسی کو دست درازی کی مجال نہیں ، چناچہ یہ لوگ بادشاہ وقت پر ایمان رکھتے تھے ، اور حکومت کو شاہی خاندان کا موروثی حق سمجھتے تھے ،کہ جس میں کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی ، اگر اس خاندان میں کوئ سن رسیدہ نہ ملتا تو بچہ ہی کو اپنا شہناہ تسلیم کر لیتے اور اگر کوئی مرد باقی نہ رہتا تو عورت ہی کو تاجِ شہنشاہی پہناتے ، چناچہ شیرویہؔ کے بعد اس کے ہفت سالہ بچہ اؔروشیر کو شہنشاہ تسلیم کیا گیا اور خسرو پرویز کے بیٹے فرخ زاد خسرو کو طفلی کی حالت میں لوگوں نے بادشاہ بنایا اور کسریٰ کی لڑکی بوؔران بھی تخت نشین ہوئی اور دوسری بیٹی جس کا نام آزؔرمی دخت تھا ، وہ بھی حکومت کر چکی ہے (تاریخ طبری ج 2 اور  و تاریخ ایران از مکاریوس ایرانی۔ )، کسی کو اس کا تصور بھی نہیں آیا کہ کسی سپہ سالار یا بڑے سردار یا کسی دوسرے لائق اور آزمودہ کار شخص کو (جیسے رستم و جابان تھے) انتظامِ سلطنت سپرد کر دیں چونکہ شاہی گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے ، اس لئے ان کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

مذہبی گھرانوں اور سرداروں کے بارہ میں ان کا عقیدہ یہی تھا کہ یہ لوگ عام انسانی سطح سے بلند ہیں، اور ان کی شخصیتیں اور ان کے دل و دماغ دوسرے انسانوں سے الگ ہیں ، ان اشخاص کو اہل ایران نے غیر محدود اختیارات دے رکھے تھے ، اونچ نیچ کا فرق، طبقوں کا تفاوت اور پیشوں کی تقسیم ایرانی سوسائٹی اور نظامِ زندگی کا اٹل قانون تھا ، جس میں ردّ و بدل ممکن نہ تھا ، پروفیسر آرتھر کرسٹن سین کا بیان ہے:۔

’’سوسائٹی کے مختلف طبقوں کے درمیان ناقابل عبور فاصلہ تھا (ایران بعہد ساسانیاں ؃ 590) ، حکومت کی طرف سے عوام النّاس کو ممانعت تھی کہ وہ طبقہ امرا میں سے کسی کی جائداد کو خرید سکیں ( ایضاً ؃ 420) ، سیاست ساسانی کا یہ مُحکم اصول تھا کہ ہر گز کوئی شخص اپنے اس رتبہ سےت بلند تر رتبہ کا خواہاں نہ ہو جو اس کو پیدائشی طور پر یعنی از روئے نسب حاصل ہے ( ایضا  ص 412 ، کوئی شخص مجاز نہ تھا کہ سوائے اس پیشہ کے جس کے لئے خدا نے اسے پیدا کیا ہے ، کودوسرا پیشہ اختیار کر سکتے (ایضا ص 418)  ، شاہانِ ایران حکومت کا کوئی کام کسی نیچ ذات کے آدمی کے سپرد نہیں کرتے تھے (ایضا ص 422) ، عوام الناس کی مختلف جماعتوں میں نہایت صریح امتیاز تھا، سوسائٹی میں ہر شخص کی ایک معین جگہ تھی (ایضا ص 421)‘‘

ایران کی قوم پرستی

اہل ایران اپنی قومیت کو عظمت و تقدس کی نگاہ سے دیکھتے تھے، وہ اپنے تئیں یہ سمجھے تھے کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل پر اس قومیت و نسل کو فضیلت و برتری حاصل ہے، اور اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ خصوصی صلاحیتیں اور فطری قابلیتیں بخشی ہیں جن میں ان کا کوئی شریک و ہمسر نہیں ، یہ لوگ اپنے گرد و پیش کو قوموں کو بڑی حقارت و ذلت آمیز نگاہوں سے دیکھتے تھے ، اور ان کے لئے ایسے نام تجویز کرتے تھے ، جن میں توہین و تمسخر پایا جاتا۔

آتش پرستی اور زندگی پر اس کے اثرات

چونکہ آگ اپنے پجاریوں کو ہدایت دینے اور اپنا پیغام پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنے پجاریوں کے مسائلِ زندگی کو حل کر سکے، ان میں دخل دے اور مُجرموں، گنہگاروں اور مفسدوں کا ہاتھ پکڑ سکے اس لئے اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مجوسیوں کا مذہب چند مراسم و روایات کا نام رہ گیا تھا، جنھیں مخصوص اوقات اور خاص خاص مقامات پر ادا کر لیا کرتے تھے، رہا عبادت گاہوں سے باہر اپنے گھروں اور بازاروں، دائرۂ اثر اور سیاسی و اجتماعی امور میں تو اس میں یہ بالکل آزاد تھے، اپنی من مانی کرتے، ان کے خیالات جس رُخ پر چاہتے انھیں موڑتے رہتے یا پھر جو مصلحت اور وقت کا تقاضا ہوتا اس پر کاربند ہوتے، جیسا کہ ہر زمانہ اور ہر ملک میں عام طور پر مشرکوں کا حال رہا ہے۔
غرض اہلِ ایران ایسے مکمل اور جامع دین سے یکسر محروم تھے، جو ان کے باطن کی اصلاح کرتا، ان کے اخلاق سنوارتا، نفسیاتی خواہشات کو دبانے اور نیک خواہشات کو ابھارنے کی اس میں طاقت ہوتی، وہ خاندان کا نظامِ زندگی ملک کا دستورِ حکومت ہوتا، جو سلاطین کی چیرہ دستیوں اور حکام کی زیادتیوں کی روک تھام کر سکتا، ظالم کا ہاتھ پکڑ سکتا اور مظلوم کے حق میں انصاف کرا سکتا، لیکن جیسا کہ اوپر گزر چکا آتش پرست ایرانیوں کو ایسا دین نصیب نہ تھا،  اور اس طرح ایران کے مجوسیوں اور دنیا کے دوسرے لا مذہب ولاقانون افراد میں اخلاق واعمال کے لحاظ سے کوئی فرق نہ تھا۔ (1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر " ص 40-46 ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ