بعثت محمد ﷺ سے پہلے بدھ مت کے اثرات اور تغیرات

مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بدھ مت اور اس کے تغیرات

بودھ مت اپنی سادگی اور اپنی انفرادیت عرصہ ہوا کھو چکا تھا، بودھ مذہب نے ہندوستان کے برہمنی مذہب کو اپنے میں شامل کرکے اور اس کے اوتاروں اور دیوتاؤں کو اختیار کرکے (جیسا کہ ڈاکٹر گستاولی بان مصنّف ”تمدّنِ ہند“ کا رجحان معلوم ہوتا ہے) اپنی ہستی کو کم کردیا تھا، برہمنیت نے (جو عرصہ سے خار کھائے بیٹھی تھی) اس کو ہضم اور اپنے میں ضم کرلیا تھا، بہر حال یہ دونوں مذاہب جو عرصہ سے ایک دوسرے کے حریف چلے آرہے تھے باہم شیر وشکر ہوچکے تھے اور بدھ مت اب عرصہ سے بُت پرستی کا ایک مذہب تھا، جن ممالک میں بھی اس مذہب کے پیرو گئے، بُت ان کے ساتھ رہے، یہ لوگ جہاں جاتے اور جس ملک میں پہنچتے گوتم کے مجسّمے نصب کرتے اور اس کی شبیہیں تیار کرتے، ان کی مذہبی اور تمدّنی زندگی ان مجسّموں سے ڈھکی ہوئی نظر آتی ہے۔( ٹکسلا (قدیم بدھ دار السلطنت) کے عجائب خانہ کی سیر کرنے والا ان مجسّموں اور مورتوں کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے، جو بدھ مذہب کے مٹے ہوئے شہروں کی کھدائی کے بعد نکلے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب اور اس کا تمدّن خالص بُت پرستانہ مذہب وتمدّن بن گیا تھا۔ ڈاکٹر گستا ولی بان نے بھی ہندوستان میں بدھ عمارتوں اور یادگاروں کو دیکھ کر یہی نتیجہ نکالا ہے، وہ ”تمدنِ ہند“ میں لکھتا ہے:”اصلی بدھ مذہب کو سمجھنے اور جاننے کے لیے اس مذہب کی یادگاروں کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ کہ کتابوں کا، جو سبق ہمیں ان یادگاروں سے ملتا وہ ان کتابی مسائل سے جن کی تعلیم یورپی مصنفین کرتے ہیں بالکل علیحدہ ہے۔ یہ یادگاریں ثابت کرتی ہیں کہ جس مذہب کو یورپی علماء الحادی مذہب بتاتے ہیں وہ فی الواقع بُت پرست اور کثیر الالٰہ مذاہب کا سرتاج ہے“۔ (تمدّنِ ہند ص 365)،  یہ مجسّمے زیادہ تر بودھ مت کے دورِ ترقی میں تیار ہوئے تھے، پروفیسر ایشور اٹوپا  اپنی کتاب ’’ہندوستانی تمدن‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ بدھ مت کے سایہ میں ایسی حکومت قائم ہوئی جس میں اوتاروں کی بھر مار اور مورت پرستی کا دور دورہ دکھلائی دینے لگا، سنگھوں کی فضا بدل رہی تھی، اس میں بدعتیں اور جدتیں یکے بعد دیگرے نظر آرہی تھیں۔  (ہندوستانی تمدن (اردو) ایشورا ٹوپا۔) 


پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب ’’تلاش ہند‘‘ The Discovery Of India میں بدھ مت کے بگاڑ اور تدریجی زوال کے متعلق لکھتے ہیں :

’’ برہمنیت نے بودھ کو اوتار بنا دیا، بودھ مت نے بھی یہی کیا، سنگھ بہت دولت مند ہوگئے اور ایک خاص جماعت کے مفاد کے مرکز بن کر رہ گئے، اور ان میں ضبط وقاعدہ بالکل نہیں رہا، عبادت کے طریقوں میں سحر اور اوہام داخل ہوگئے، اور ہندوستان میں ایک ہزار سال تک باقاعدہ رائج رہنے کے بعد بودھ مت کا تنزل شروع ہو گیا ‘‘۔

اس عہد میں اس کی جو مریضانہ کیفیت تھی مسرز رائس ڈیوڈس (M R.S. RHYS DAVIDS) نے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے :

’’ ان مریضانہ تخیلات کے گہرے سائے میں آکر گوتم کی اخلاقی تعلیم نظر سے اوجھل ہو گئی، ایک نظریہ پیدا ہوا اور اس نے فروغ پایا، اس کی جگہ دوسرے نے لے لی، اور ہر ایک قدم پر ایک نیا نظریہ پیدا ہونے لگا، یہاں تک کہ ساری فضا میں ذہن کی ان پر فریب تخلیقوں سے گھٹاٹوپ اندھیرا چھا گیا، اور بانیٔ مذہب کے سادہ اور بلند اخلاقی درس ان الہیاتی موشگافیوں کے انبار کے نیچے دب کر رہ گئے (تلاش ہند (ص: ۲۰۱ ، ۲۰۳) ، مجموعی حیثیت سے بودھ مت اور برہمنیت دونوں ہی میں گراوٹ پیدا ہوگئی ، اور ان میں اکثر مبتذل رسوم داخل ہو گئیں ، دونوں میں امتیاز کرنا مشکل ہوگیا ، بودھ مت برہمنیت میں گھل مل گیا (تلاش ہند (ص: ۲۰۱ ، ۲۰۳)‘‘۔

خلاصہ یہ کہ چین اور ان تمام ممالک کے پاس (جو بودھ مت کے پیرو تھے ) دنیا کے لئے کوئی پیغام نہیں تھا جس کی روشنی میں دنیا اپنے مسائل کا حل تلاش کرسکتی اور خدا کا سیدھا راستہ پاتی، اہل چین متمدن دنیا کے بالکل آخری مشرقی کنارہ پر اپنی علمی و مذہبی میراث کو سینہ سے لگائے بیٹھے تھے، جس میں نہ خود وہ کسی اضافہ کے خواہشمند تھے اور نہ دوسروں کے ذخیرہ میں اضافہ کرنے کے اہل تھے ۔ وسط ایشاء کی قومیں

مشرق اور وسط ایشاء کی دوسری قومیں ( مغل ، ترک ، جاپانی ) وغیرہ بگڑے ہوئے بودھ مت اور وحشیانہ بت پرستی کے درمیان تھیں، نہ کوئی علمی دولت ان کے پاس تھی اور نہ سیاست کا کوئی ترقی یافتہ نظام ان کے یہاں تھا، در اصل یہ قومیں اپنے عبوری دور میں تھیں، جاہلانہ و بت پرستی سے نکل کر تمدن کی طرف آرہی تھیں، اور چند قومیں ایسی بھی تھیں جو اس وقت تک شہریت اور زندگی کی ابتدائی منزل میں تھیں، اور عقلی و تمدنی حیثیت سے ان کا دور طفولیت تھا ۔