جواں مرگی سے بچیں!

ترکی الدخیل

کالم نگار معروف عرب صحافی ہیں۔

 العربیہ اور الحدث نیوز چینلز کے جنرل منیجر ہیں۔

تاریخ اشاعت : بدھ 12 ذیعقدہ 1439هـ - 25 جولائی 2018م

گزرے وقتوں میں ایک نوجوان شخص اپنے والدین کو ایسی حالت میں الوداع کہتا تھا جب وہ اس کے لیے کافی جمع پونجی بچا چھوڑتے تھے۔ وہ اس کو اس کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے زادِ راہ دیتے ،اس کو پیار کرتے اور پھر اس انداز میں الوداع کہتے تھے کہ شاید وہ دوبارہ اس سے نہ مل سکیں ۔

قدیم دور میں تعلیم کا حصول بہت مشکل اورایک تھکا دینے والا سفر ہوتا تھا ۔اس کے لیے رقم ،زاد راہ اور توانائی کی ضرورت ہوتی تھی لیکن اس سے بھی پہلے ایک حوصلہ مند ماں اور ایک ایسے باپ کا ہونا ضروری تھا جو یہ بات بخوبی جانتے ہوں کہ اچھی تعلیم ہمیشہ دور دراز کے سفر ،ان تھک محنت اور بھاری اخراجات سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن ایک اچھی عورت کی طرح یہ مرد حضرات ہی ہوتے تھے جو مصائب جھیلتے اور مشکلات برداشت کرتے تھے ۔


گزرے زمانے میں لوگ تعلیم حاصل کرنے کے شیدائی ہوتے تھے۔ چند عشرے قبل تک تو ایسا ہی ہوتا تھا،اب ایسا معاملہ نہیں رہا ہے۔اب مختلف اقسام کے اسکول اور جامعات ہیں جہاں ہر طرح کے مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا زبان کا استاد آپ کے لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فون سے صرف ایک کلک کے فاصلے پر ہو۔آپ ایک ستار حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے اسمارٹ فون پر موسیقی کے نوٹس کی مدد سے اس کو بجا سکتے ہیں۔

قارئین کرام !اس مضمون کے لیے اسمارٹ ڈیوائسز بنانے والی کمپنیوں نے لکھاری کو کوئی رقم ادا نہیں کی ہے بلکہ یہ تعلیم کے خاتمے کے سینڈروم کا ایک نوحہ ہے۔

پڑھنا اور سیکھنا

یہ بات درست ہے کہ پڑھنے اور سیکھنے میں فرق ہے لیکن ان دونوں کی تعریفوں میں فرق معروضی ہے۔مذکورہ بالا سینڈروم کی تعریف کرنے سے قبل ایک معروضی اور فوری سوال یہ ہے : کیا سیکھنے اور پڑھنے کے عمل کو روکنا حقیقی معنوں میں ممکن ہے؟ کب ؟ کہاں ؟ اور کیسے؟

جہاں تک مطالعے کے سینڈروم کے خاتمے کا تعلق ہے تو ہم سب ہی اس کے تجربے سے گزر رہے ہیں۔مختلف تفویض کار یا امتحانات کے نزدیک آنے پر ہم اکتاہٹ اور خود کو تھکا تھکا محسوس کرتے ہیں۔ذہنی تھکاوٹ تمام جسم میں سرایت کر جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم میں کچھ کرنے کی امنگ ہی نہیں ہے۔پھر ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ یہ پڑھائی کب ختم ہوگی ؟ میں کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہوں لیکن ہر کوئی اس تجربے سے ضرورگزرتا ہے۔

مثال کے طور پر ہائی اسکول کے طلبہ جامعہ میں داخلے کو اپنی زندگی کا ایک بڑا مقصد سمجھتے ہیں لیکن جب ان کے آخری سمیسٹر کے دوران میں مطالعے کا سینڈروم دوبارہ ظہور پذیر ہوتا ہے تو انھیں حیرت ہوتی ہے ۔ پھر اگر کوئی روزگار کی کمی یا کم اجرتوں کا ذکر کردیتا ہے تو وہ امید کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔

پڑھائی کے خاتمے کے سینڈروم سے متاثرین کی جامعہ کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد شادی ہوجاتی ہے۔ وہ پھر تعلیم کی ایک نئی بینچ پر بیٹھے ہوتے ہیں مگر اس مرتبہ ایک اور مقصد کے لیے اور وہ مخالف جنس کے عادات وخصائل کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہے۔یہ ایک نئی طرح کی تعلیم ہے۔

پھر اس جوڑے کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔اس کی پیدائش پر انھیں ویسی ہی خوشی ہوتی ہے جیسی تعلیم کی تکمیل پر ہوتی ہے مگر یہ نئے والدین متردد انداز میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے نومولود کی کیسے پرورش اور دیکھ بھال کریں گے۔وہ یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کے بچپن ، لڑکپن اور پھر نوجوانی میں اس کی کیسے تربیت کی جائے گی اور اس کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جائے گا ۔ زندگی کے دن گزرتے جاتے ہیں ،اس اکتا دینے والے احساس کا اعادہ ہوتا ہے کہ اس تھکے ماندہ شخص کے سیکھنے کا عمل کب رکے گا؟

ہم سب ایک بوڑھے شخص کی تعریف جانتے ہیں:’’ کوئی بھی شخص بوڑھا ہے جو سیکھنا چھوڑ دیتا ہے ، خواہ اس کی عمر بیس سال ہو یا اسّی سال‘‘۔

سیکھنا خالصتاً رضا کارانہ اور مسلسل عمل نہیں بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک شخص اس وقت بوڑھا ہوتا ہے جب وہ نئی چیزیں اور مہارتیں سیکھنے کا عمل چھوڑ دیتا ہے ۔مثال کے طور پر اگر کوئی بیس ،تیس سال کا جوان رعنا ہے مگر وہ سیکھنا چھوڑ دیتا ہے تو اب وہ بوڑھا ہے اور اس کی جوانی کی یہ عمر منفی شمار کی جائے گی۔

مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہماری بعض ضرب الامثال بھی سیکھنے کے عمل میں دخل انداز ہوتی او ر رکاوٹ ڈالتی ہیں ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ بڑھاپے میں علم کا حصول ایسے ہی ہے جیسے پانی میں تصاویر بنانا‘‘۔یہ اور اس طرح کی دوسری کہاوتیں علم کے حصول،نئی نئی چیزیں سیکھنے اور نئی ایجادات دریافت کرنے سے روکتی ہیں کیونکہ وہ یہ احساس پیدا کرتی ہیں کہ آپ بوڑھے ہوچکے ہیں اور آپ کو اب سیکھنے کی ضرورت نہیں۔

بڑھاپے کے باوجود تعلیم
ہمارا کوئی بھی دن حافظے کی بازیافت ، کسی شعر کے پڑھےی یا اپنے دوستوں اور پیاروں کے ساتھ نیا گیت شیئر کیے بغیر نہیں گزرنا چاہیے۔اپنی آنکھوں کو اچھے طریقے سے کھولیں تو آپ یقیناً کوئی نہ کوئی نئی چیز دکھائی دے گی۔ آپ جب ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھیں تو اس کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں ۔آپ کو کوئی نیا آئیڈیا ملے گا ۔آپ نے اس کو پہلے بھی دیکھا ہوگا لیکن تب آپ نے اس میں پنہاں پیغام کا نوٹس نہیں لیا ہوگا۔آپ اکیلے ہی مسکرانا شروع کردیں گے۔یہ مسکراہٹ اس بات کی علامت ہے کہ آپ نے کوئی چیز سیکھی ہے۔خواہ آپ کسی اور شخص کو اس کے بارے میں نہ بھی بتائیں تو آپ کو یہ نئی چیز محسوس ہوگی۔

میں اپنے ایک دوست اور شاعر کا ممنون ہوں ۔وہ میری میزبانی میں نشر ہونے والے ٹاک شو اضاءت میں مہمان تھے۔انھوں نے بتایا کہ کیسے انھیں بحر مشکل لگتی ہے اور انھوں نے یہ قسم کھائی کہ وہ کبھی اس کو نہیں سیکھیں گے۔انھوں نے جب اس کو سمجھنے اور اس کے مطابق شاعری لکھنے کی کوشش کی تو وہ ایسا نہ کرسکے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے ایسے ہی تھی جیسے نظروں کے سامنے لہروں کو دیکھنا اور وہ بحر میں مہارت نہ حاصل کرسکے اور انھوں نے جانتے بوجھتے ہوئے اس کو سیکھنا چھوڑ دیا۔

اس پر میں مسکرایا اور بولا : ’’شاعری ہر چیز کی طرح وجدانی کیفیت کا بیان ہے اور یہ وقار وعظمت کی علامت ہے جو ان لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے روکتی ہے جو اس کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔

ایک یونیورسٹی طالب علم اور ایک ایسا نوجوان جو ہائی اسکول کے امتحانات سے قبل معلومات کے طومار سے مشوّش ہے، وہ نصاب کی مختصر تفصیل سے خوش ہوسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی تعلیم کی کچھ ذمے داری والدین اور اساتذہ پر بھی عاید ہوتی ہے۔

ہر لمحے سے خوش ہونے کے فن اور بچکانہ خوشی کے جذبات کو برقرار رکھنے کے رویے سے ہم اسی وقت لطف اندوز ہوسکتے ہیں ، جب ہم سالہا سال کچھ نا کچھ سیکھتے رہے ہوں ۔اگر ایک پچاس سال کی عمر کا شخص صبح پانچ بجے جاگ اٹھے ،وہ دو گھنٹے تک بھاگے دوڑے ، چہل قدمی کرے اور بیس اور تیس سال کی عمر کے لوگوں سے قبل اپنے کام پر چلا جائے تو وہ ان سے کہیں زیادہ خوش وخرم زندگی گزار رہا ہو گا۔ ساٹھ سال کی عمر کے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود سے کہیں کم عمر کے لوگوں کو اپنے کام سے پچھاڑ دیتے ہیں۔

خواتین شادی کی عمر کو پہنچنے والی اپنی بیٹیوں کو یہ نصیحت کرتی ہیں:’’ مرد کی بدترین بیماری اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ ریٹائر ہوجاتا ہے۔مرد اس وقت عدم اطمینانی اور شدید ناراضی کا شکار ہوتے ہیں جب وہ آپ کے نئے خصائص کو سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ہمیشہ نئی اور بن سنور کررہو ، تاکہ وہ ہشا ش بشاش رہے اور اس بشاشت کو برقرار رکھے۔ہمیشہ قبل از وقت کی ریٹائرمنٹ سے بچو۔زندگی اس وقت سست رفتار ہوجاتی ہے جب ایک شخص گھر کے درمیان میں رکھی چارپائی پر جاپڑتا ہے اور پھر دنیا کو پردے کے پیچھے سے یا اخبارات کے ذریعے دیکھنے لگ جاتا ہے‘‘۔

میرے دوست ! گھر سے باہر نکلیے اور اپنے بھورے بالوں کو اس خیال بد (اسٹریو ٹائپ) کو توڑنے سے سے نہ روکیے کہ بڑھاپے میں سیکھنا اور نئی نئی چیزیں دریافت کرنا مشکل ہے۔ہاتھ پاؤں ماریں اور دیکھیں کہ تیرنا کیسے سیکھا جاتا ہے۔

ایک نوجوان کی حیثیت سے زندگی سے حظ اٹھائیے ۔زندگی کے مراحل کو ایک بوڑھے گھوڑے کی طرح نہ دیکھیے جس کو نزدیک پڑی رکاوٹ بھی بہت دور نظر آتی ہے۔نئے مواقع تلاش کیجیے۔خود کو اور اپنے ارد گرد موجود دوسروں کو حیران کیجیے اور اپنے ذہن میں المتنبی کے اس لافانی قول کو دہرائیے :’’ میں نے لوگوں کے نقائص میں اس سے بُری اور کوئی چیز نہیں دیکھی کہ کو ئی اہل شخص کی کام کے کرنے پر آمادہ ہی نہ ہو‘‘۔

ہر چیز کو اس کی مکمل صلاحیت کے ساتھ بروئے کار لانا ہی کامیابی کی ضمانت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ہر چیز سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوں ،حتیٰ کہ ٹریفک کی روشنیوں سے بھی ۔

---------------------------

کالم نگار کی رائے سےبلاگر کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے