ترکی کا قضیہ

 محمد رضی الاسلام ندوی 

پندرہ روزہ معارف ، کراچی 
 اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی  
تاریخ اشاعت : 1 جولائی 2018   

ترکی کے صدارتی انتخابات میں رجب طیّب ایردوان کو کامیابی حاصل ہوگئی۔ اس خبر نے مجھے خوشی سے سرشار کردیا اور میری طرح دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں انسان بھی اپنی مسرّت کو چھپا نہیں سکے۔ ٹھیک اسی طرح بہت سوں کی طرف سے منفی تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وہ انہیں بدترین آمر ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور بطور ثبوت ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی کمزوریاں اور غلطیاں نمایاں کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جنھیں اس سے بھی تسلّی نہیں ہو رہی ہے، چنانچہ وہ زہر میں بجھے ہوئے طنز و تشنیع کے تیر برسا رہے ہیں اور ان کی جانب ’امیرالمومنین‘ اور ’سلطان الامہ‘ جیسے القاب منسوب کر رہے ہیں۔


ہاں، ہمیں ترکی میں ایردوان کی کامیابی سے خوشی ہوئی ہے۔

اس لیے نہیں کہ ترکی میں اسلام کا بول بالا ہو گیا ہے، ’’حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا ہے‘‘۔

اس لیے نہیں کہ ترکی میں ایردوان کے ذریعے خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگئی ہے۔

اس لیے بھی نہیں کہ ترکی میں سیاسی اسلام کو فتح حاصل ہوگئی ہے اور اس کے بدخواہوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔

ہمیں خوشی اس لیے ہوئی ہے کہ ترکی میں اسلام کو جو دیس نکالا دیا گیا تھا اور مسلمانوں پر جو بدترین ظلم ڈھایا گیا تھا، اس کے خاتمے میں ایردوان کا بھی کچھ حصہ ہے۔

سب جانتے ہیں کہ ۱۹۲۴ء میں خلافتِ عثمانی کے الغاء کے بعد کمال اتاترک کے ذریعے اسلام کا نام لینا جرم قرار پایا تھا، شعائرِ اسلام پر پابندی عائد کردی گئی تھی، مساجد کو اصطبل اور شراب خانوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا، اذان دینا اور قرآن پڑھنا ممنوع ٹھہرا تھا۔ یوں تو سیکولرازم یعنی لامذہبیت کو ریاست کا مسلک قرار دیا گیا تھا، لیکن حقیقت میں اس کے پردے میں اسلام کو کھرچ کھرچ کر پھینک دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ ظلم اتاترک کے بعد بھی دہائیوں تک جاری رہا۔ جن افراد نے اسلام سے اپنی وابستگی ظاہر کی انھیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا اور موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ قابل صد مبارکباد ہیں وہ لوگ جنھوں نے ان حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا اور جبر کے بدترین ماحول میں نئی نسل کے دل میں اسلام کی شمع جلائے رکھی۔ ہمیں ایردوان کی کامیابی پر اس لیے خوشی ہے کہ ہم انہیں اس سلسلہ الذھب کی ایک کڑی سمجھتے ہیں۔

ایردوان اور ان کے پیش رَو پروفیسر نجم الدین اربکان دونوں کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف جبر کا یہ ماحول ختم ہونا چاہیے جب انسانوں کے لیے بنیادی آزادی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اس کے تحت انھیں کھلی چھوٹ ہے کہ جو غلط کام کرنا چاہیں کریں، جس بے حیائی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہیں کریں تو مسلمانوں کو آزادی کیوں نہ دی جائے کہ وہ اپنے دین کے تقاضوں پر عمل کر سکیں۔

اربکان اور ایردوان کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ اربکان نے اپنی سیاست اسلام کے نام پر کی، چنانچہ حسبِ توقّع ان کی پارٹی کو بار بار پابندی کا سامنا کرنا پڑا، ان کی حکومت کی برخاستگی کی نوبت آئی، حتیٰ کہ سیاسی عمل میں ان کی شرکت پر بھی روک لگائی گئی، جب کہ ایردوان نے شعوری طور پر اسلام کا نام لینے سے احتراز کیا، اگرچہ اقدامات برابر ایسے کرتے رہے جن سے مسلمانوں کو آزادیاں نصیب ہوں اور وہ اپنی مرضی سے ارکانِ اسلام پر عمل کر سکیں اور شعائرِ اسلام سے اپنے تعلّق کا اظہار کرسکیں۔ ایردوان کے کام کا خلاصہ محبّ مکرّم پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے ایک موقع پر ایک جملے میں یوں بیان کیا تھا: ’’ایردوان نے ترکی کو جبری کفر سے اختیاری کفر تک پہنچا دیا‘‘۔

ہمیں ایردوان کی کامیابی پر اس لیے خوشی ہے کہ اس نے دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی، شامی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کو اپنے یہاں پناہ دی، فلسطینی کاز کی حمایت کی، غزّہ کے محصور مسلمانوں کے لیے امدادی سامان بھجوایا، مصر کی جائز منتخب حکومت کے سربراہ مرسی کی اخلاقی حمایت کی اور اخوان المسلمون پر سیسی حکومت کے مجرمانہ مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور بنگلادیش میں برما کے بے یار و مددگار مسلمانوں کے لیے امدادی سامان بھجوائے۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب ایردوان کی لفّاظیاں اور زبانی جمع خرچ ہے، لیکن سوچنا چاہیے کہ دوسرے مسلم حکمرانوں سے تو یہ بھی نہ ہوسکا، بلکہ ان کی نہ صرف ہمدردیاں، بلکہ ان کا دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح کا تعاون ظالموں کو حاصل رہا۔

ہم نہیں کہتے کہ ایردوان نے ترکی میں اسلامی خلافت قائم کردی ہے۔ اس کا دعویٰ خود ایردوان کو بھی نہیں ہے، ان کی پارٹی کے دستور کی بنیاد اسلام پر نہیں ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایردوان کے اقدامات سے مسلمان دینی اعتبار سے ان آزادیوں سے بہرہ ور ہوئے ہیں جن سے وہ محروم تھے۔ ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا جب کھلّم کھلّا اسلام کا نام لیا جا سکے گا اور ترکی کے حکمرانوں کے لیے کتاب و سنّت کے مطابق نظمِ مملکت کو چلانے کے عوامی مطالبے کو ٹالنا ممکن نہ ہوسکے گا۔

ہمیں افسوس ہے کہ ایردوان کا مذاق اڑانے اور انھیں ’امیر المومنین‘ کا طعنہ دینے والے وہ لوگ ہیں جو خود کو کتاب و سنت کا علمبردار کہتے ہیں۔ یہ انہی کا ذہنی فساد ہے جو ان کی زبان پر آجاتا ہے۔ ہم نے یا ہماری طرح ایردوان کی کامیابی پر خوشی منانے والوں نے ایردوان کو اصطلاحی معنی میں کبھی ’امیرالمومنین‘ نہیں قرار دیا۔

ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا؟ ہم تو ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں کہیں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہونے کی خبر ملتی ہے تو غمگین ہوجاتے ہیں اور کہیں مسلمانوں کو راحت اور آسانی پہنچنے کی اطلاع پہنچتی ہے تو خوش ہولیتے ہیں۔