( مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی سب سے مشہور و مقبول عام کتاب " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" (1) ہے۔ کتاب کے دیباچہ میں مصنف نے اپنے ابتدائی خیالات اور احساسات کا ذکر کیا ، اس کو قاری کے لیے ہم یہاں نقل کرتے ہیں، یہ ایک طرف تو کتاب کا تعارف ہے ساتھ ہی اس تحریر سے قارئین یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مصنف کا امت مسلمہ اورعالم اسلام کے مستقبل کے بارے میں کیا نکتہ نظر ہے ؟ )
"پیش نظر کتاب کا ابتدائی تخیل ایک مضمون سے زیادہ نہ تھا، ابتدا میں خیال تھا کہ اجمالی طور پر ان نقصانات کی نشان دہی کی جائے جو مسلمانوں کی تنزل و زوال اور دنیا کی قیادت و رہنمائی سے کنارہ کش ہو جانے سے انسانیت کو پہونچے، اور دکھایا جائے کہ زندگی کے نقشہ میں ان کی جگہ اور قوموں کی صف میں ان کا مقام کیا ہے؟ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ مسلمانوں کو اس مجرمانہ کوتاہی کا احساس ہو جو انہوں نے انسانیت کے حق میں کی اور اس کی تلافی اور اصلاحِ حال کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہو، اسی کے سات دنیا کو اپنی اس بدقسمتی کا بھی علم ہو جس سے اس کو مسلمانوں کی قیادت سے محروم ہوجانے کی بنا پر دوچار ہونا پڑا۔ اس کو محسوس ہو کہ حالات میں کوئی بڑی تبدیلی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ دنیا کی قیادت مادہ پرست اور ناخدا ترس انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر ان خدا شناس اور خدا ترس انسانوں کے ہاتھ نہ پہونچ جائے جو پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں، اور انہیں کی ہدایات اور تعلیمات سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اور ان کے پاس آخری پیغمبر کی شریعت اور دین و دنیا کی رہنمائی کا مکمل دستور موجود ہے۔"
آگے لکھتے ہیں "اس مقصد کے لئے عام انسانی تاریخ، نیز اسلامی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیا گیا اور دکھایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ و سلم کی بعثت کس جاہلی ماحول میں ہوئی، انسانیت کس پستی کو پہونچ چکی تھی، آپ کی دعوت اور تربیت نے کس طرح امت تیار کی اس امت کے عقائد و اخلاق اور سیرت و تربیت کیا تھی، اس نے کس طرح دنیا کی زمام قیادت اپنے ہاتھ میں لی اس کے اقتدار اور امامت کا دنیا کی تہذیب اور زندگی اور لوگوں کے رجحانات اور کردار پر کیا اثر پڑا، کس طرح دنیا کا رخ ہمہ گیر خدا فراموشی اور مجموعی جاہلیت سے ہمہ گیر خدا پرستی اور اسلام کی طرف تبدیل ہوا، پھر کس طرح اس امت میں انحطاط اور زوال کا آغاز ہوا اور اس کو دنیا کی امامت اور قیادت سے علیحدہ ہونا پڑا، اور کس طرح یہ قیادت کمزور و غافل خدا شناسوں کے ہاتھ سے نکل کر طاقتور ناخدا شناس اور مادہ پرست یورپ کی طرف منتقل ہوئی، خود یورپ میں اس مادہ پرستی اور مذہب بیزاری کا کس طرح ظہور اور ارتقاء ہوا، مغربی تہذیب کا اصلی مزاج کیا ہے اور اس کا خمیر کن عناصر و اجزا سے تیار ہوا ہے، یورپ کے اقتدار اور اس کی قیادت نے دنیا پر کیا اثر ڈالا اور زندگی کو کس طرح متاثر کیا، دنیا کا رخ کیا ہے، اور مسلمانوں کی کیا ذمہ داری ہے، اور وہ اس ذمہ داری سے کس طرح عہدہ بر آ ہو سکتے ہیں۔ "
"تحریر کے دوران ہی میں مصنف کو محسوس ہو گیا کہ یہ مضمون ایک مقالہ نہیں بلکہ مبسوط کتاب کا ہے، اور اس کتاب کی تالیف وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، خود مسلمانوں کا ذہن اس بارہ میں صاف نہیں ہے، وہ اپنا زندگی سے کوئی تعلق اور ربط محسوس نہیں کرتے اور اس دنیا کی اپنے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتے، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مسلمانوں کے زوال کو ایک قومی حادثہ اور مقامی واقعہ سمجھتے ہیں اور ان کو مطلقاً اس کا احساس نہیں کہ یہ کتنا بڑا عالمگیر سانحہ اور انسانیت کی کیسی بڑی بدقسمتی تھی، واقعہ یہ ہے کہ اس حقیقت کو نظر اندازکرکے ہم نہ اسلامی تاریخ کو سمجھ سکتے ہیں، نہ انسانی تاریخ کو، نہ اس دور کی صحیح تشخیص کر سکتے ہیں، جو ابھی دنیا میں قائم ہے، نہ اس عالمگیر انقلاب کے صحیح اسباب معیّن کر سکتے ہیں جو دنیا کی تاریخ میں رونما ہوا، اور وہ اسلامی انقلاب کے بعد سب سے بڑا انقلاب ہے، فرق یہ ہے کہ پہلا انقلاب شر سے خیر کی طرف تھا، یہ خیر سے شر کی طرف ہے، پہلا انقلاب بعثتِ محمدی اور دعوتِ اسلامی کے عروج کا نتیجہ تھا، دوسرا انقلاب امتِ محمدی کے انحطاط اور دعوتِ اسلامی سے تغافل کا نتیجہ ہے، مسلمانوں میں خود اعتمادی کی روح اسلام کی طرف بازگشت کا جذبہ اور جوشِ عمل پیدا کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو اپنا مقام یاد دلایا جائے اور بتلایا جائے کہ وہ دنیا کی تعمیر و تشکیل کے اہم اور مقدس کام میں ایک موثر و فعال عنصر (FACTOR) ہیں، کسی چلتی ہوئی مشین کا پرزہ اور کسی اسٹیج کے بازی گر اور نقّال (ACTOR) نہیں ہیں۔"
مصنف نے کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"جس ملک و ماحول سے مصنف کا تعلق تھا، اور جہاں اس کتاب کی تصنیف کا خیال پیدا ہوا تھا، اس کا اقتضا تھا کہ یہ کتاب اس ملک کی زبان (اردو) میں تصنیف کی جائے لیکن ایک خاص خیال کے ماتحت اس کتاب کی تصنیف کے لئے اردو کے مقابلہ میں عربی کو ترجیح دی گئی۔
عربی زبان کی ترجیح و انتخاب کا محرک و باعث یہ احساس تھا کہ عرب ممالک اس احساس کمتری اور مرضِ خود فراموشی کا سب سے زیادہ شکار ہیں، دنیا نے اگرچہ انھیں سے نئی زندگی اور نیا ایمان پایا ہے، لیکن آج انھیں کی فضا سب سے زیادہ خاموش اور انھیں کا سمندر سب سے زیادہ پُرسکون ہے۔
اقبال نے آج سے چند برس پہلے ان ملکوں کو دیکھ کر بیجا نہیں کہا تھا کہ ؎
سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشۂ سیماب
وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
یورپ کے قرب، مخصوص سیاسی حالات، اور ان دیوانوں کی کمی سے جو خوش قسمتی سے ہندوستان کیسرزمین میں برابر پیدا ہوتے رہے، اور عرب کی مقدّس سرزمین عرصہ سے ان کے وجود سے محروم تھی، عرب کو یورپ کی شیشہ گری اور فرزانگی کا آسانی سے شکار بن جانے دیا، شیخ حسن البنّاء مرحوم اور ان کی تحریک اور جماعت الاخوان المسلمون سے پہلے پورے مشرقِ اوسط میں کوئی طاقتور اسلامی تحریک اور جدّوجہد نہیں تھی، اور کہیں بےچینی اور اولوالعزمی کے آثار نظر نہیں آتے تھے، لوگوں نے یا تو زمانہ سے صلح کرلی تھی یا مایوس ہوکر بیٹھ گئے تھے، یا بہاؤ پر اپنی کشتی ڈال دی تھی، ان ممالک کے حالات پر نظر رکھنے والا اور ان کے ماضی و حال کا موازنہ کرنے والا بڑے دردوحسرت سے کہہ رہا تھا ؎
قافلہء حجاز میں ایک حُسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
اس تکلیف دہ احساس نے قلم کا رُخ اردو سے عربی کی طرف موڑ دیا، عرب اپنی تاریخ اور اپنے جغرافیہ کے اعتبار سے اس کے اہل ہیں کہ بین الاقوامی سیادت سنبھالیں اور پوری متمدّن دنیا پر اثر ڈالیں، ان کے ممالک بحراحمر اور بحرمتوسّط کے کنارے واقع ہیں، وہ مغرب اور مشرقِ بعید کے درمیان ہیں، نئے عالمگیر انقلاب اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے عرب ممالک اور مشرقِ اوسط سےزیادہ موزوں سرزمین کوئی اور نہیں ہوسکتی، یہ سب اسباب و محرکات تھے، جن کی بنا پر ہندی نژاد مصنف نے عربی زبان کو اس اہم موضوع کے لئے منتخب کیا اور یہ کتاب سب سے پہلے عربی میں لکھی گئی جس کا نام "ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین" تھا۔
اسی عرصہ میں (سنہ47ء میں) حجاز کا پہلا سفر پیش آیا وہاں پہلی بار مصنفِ کتاب کو اس ملک اور اہلِ ملک کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جن کے لئے یہ کتاب تصنیف کی گئی تھی، حجاز کے قیام اور عالم عربی کے لوگوں سے تعارف نے اس خیال کو اور تقویت پہونچائی اور اس کتاب کے جلد سے جلد شائع ہونے کی ضرورت کا احساس بشدّت پیدا ہوا مکہ معظمہ کے دوران قیام میں مصنف کو محسوس ہوا کہ کتاب کا پہلا باب بہت تشنہ ہے ضرورت ہے کہ جاہلیت کے خدوخال کو پوری وضاحت سے پیش کیا جائے، اور پوری تفصیل سے دکھایا جائے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت دنيا كی حالت کیا تھی، اور وہ کیا دینی و اخلاقی، اجتماعی، سیاسی و معاشی ماحول تھا، جس میں اسلام کی دعوت نمودار ہوئی، اسلامی انقلاب کی عظمت اور اس کا محیرّ العقل کارنامہ اس وقت تک ذہن میں نہیں آسکتا جب تک کہ جاہلیت کا پورا ماحول اور اس کا نقشہ سامنے نہ ہو، اس لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ جاہلیت کا پورا مرقع پیش کیا جائے اور اس موقع پر یہ معلوم ہو کہ جاہلیت کے متعلق بہت کم مواد یکجا ملتا ہے کچھ منتشر معلومات ہیں، جو ہزاروں صفحات اور بیسوں کتابوں میں متفرق ہیں، اس کو جمع کرنا اور ان منتشر و متفرق اجزأ سے جاہلیت کا پورا مرقع تیار کرنا، جس سے اس دور کی پوری زندگی سامنے آجائے سیرت نبوی کی بہت بڑی خدمت ہے، مکہ معظمہ میں مصنف کو قدیم و جدید عربی مطبوعات کا ایسا ذخیرہ ملا جس سے اس مرقع کی تیاری میں بڑی مدد ملی، ہندوستان میں بھی مطالعہ و تحقیق کا سلسلہ جاری رہا اور یہ باب تکمیل کو پہنچ کر کتاب میں شامل ہوا اور اس کتاب میں معتد بہ اضافہ ہوا۔
اسی عرصہ میں (سنہ47ء میں) حجاز کا پہلا سفر پیش آیا وہاں پہلی بار مصنفِ کتاب کو اس ملک اور اہلِ ملک کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جن کے لئے یہ کتاب تصنیف کی گئی تھی، حجاز کے قیام اور عالم عربی کے لوگوں سے تعارف نے اس خیال کو اور تقویت پہونچائی اور اس کتاب کے جلد سے جلد شائع ہونے کی ضرورت کا احساس بشدّت پیدا ہوا مکہ معظمہ کے دوران قیام میں مصنف کو محسوس ہوا کہ کتاب کا پہلا باب بہت تشنہ ہے ضرورت ہے کہ جاہلیت کے خدوخال کو پوری وضاحت سے پیش کیا جائے، اور پوری تفصیل سے دکھایا جائے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت دنيا كی حالت کیا تھی، اور وہ کیا دینی و اخلاقی، اجتماعی، سیاسی و معاشی ماحول تھا، جس میں اسلام کی دعوت نمودار ہوئی، اسلامی انقلاب کی عظمت اور اس کا محیرّ العقل کارنامہ اس وقت تک ذہن میں نہیں آسکتا جب تک کہ جاہلیت کا پورا ماحول اور اس کا نقشہ سامنے نہ ہو، اس لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ جاہلیت کا پورا مرقع پیش کیا جائے اور اس موقع پر یہ معلوم ہو کہ جاہلیت کے متعلق بہت کم مواد یکجا ملتا ہے کچھ منتشر معلومات ہیں، جو ہزاروں صفحات اور بیسوں کتابوں میں متفرق ہیں، اس کو جمع کرنا اور ان منتشر و متفرق اجزأ سے جاہلیت کا پورا مرقع تیار کرنا، جس سے اس دور کی پوری زندگی سامنے آجائے سیرت نبوی کی بہت بڑی خدمت ہے، مکہ معظمہ میں مصنف کو قدیم و جدید عربی مطبوعات کا ایسا ذخیرہ ملا جس سے اس مرقع کی تیاری میں بڑی مدد ملی، ہندوستان میں بھی مطالعہ و تحقیق کا سلسلہ جاری رہا اور یہ باب تکمیل کو پہنچ کر کتاب میں شامل ہوا اور اس کتاب میں معتد بہ اضافہ ہوا۔
اسی کے ساتھ اس کا بھی خیال پیدا ہوا کہ بعثتِ محمدی کے اثرات اور دعوتِ اسلام کے امتیازات و خصوصیات کو بھی تفصیل سے بیان کیا جائے اور اس دعوت کا مزاج اور اس کا طریق کار کیا ہے، انبیاءعلیہم السلام اپنے زمانہ کی بگڑی ہوئی دنیا کی کس طرح اصلاح کرتے ہیں، ان کی دعوت اور جدّ و جہد کا انداز دوسرے مصلحین و قائدین سے کس قدر مختلف ہے، ان کی دعوت کا ردِّ عمل اور استقبال کس طرح ہوتا ہے، جاہلیت کس طرح ان کے مقابلے میں آتی ہے، اور کیا حربے استعمال کرتی ہے، وہ کس طرح اپنے متّبعین کی تربیت کرتے ہیں، پھر ان کی دعوت کس طرح فتح حاصل کرتی ہے اور کس طرح کے اثرات و نتائج ظہور میں آتے ہیں، یہ کتاب کا ایک ضروری باب ہے، جس کے بغیر یہ کتاب نا مکمل رہتی۔" (2)
------------------------------
(1) اصل کتاب " ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین " کے نام سے عربی میں لکھی گئی تھی، وہ عرب دنیا میں جتنی مقبول ہوئی، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے مصنف کی حیات میں ہی اس کے چودہ سے زائد قانونی ایڈیشن نکل چکے تھے، ایک اندازے کے مطابق اسی عرصہ میں غیرقانونی ایڈیشن جو مصنف کی اجازت اور علم کے بغیر شائع ہوئے وہ بیس سے زیادہ ہوں گے، بعض (قانونی) ایڈیشن ایک لاکھ کی تعداد میں شائع ہوئے اور جلد نکل گئے۔ اس کے علاوہ انگریزی ، فارسی ، ترکی، فرنچ کے علاوہ کئی دیگر اہم زبانوں میں اس کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے اور مختلف غیر مسلم دانشوروں نے بھی کتاب کی اہمیت اور مصنف کی فکر انگیزدلائل کا تذکرہ کیا ۔
2- "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر " ص 13-17، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ
2- "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر " ص 13-17، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ