مغرب سے استفادہ کا حقیقی میدان

مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 


یہاں پر محمد اسد صاحب کی کتاب (ROAD TO MECCA) کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے، جس میں خیالات کا توازن اور فکر و نظر کی پختگی بہت نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے اور جس میں انھوں نے بہت خوبی کے ساتھ اس شاہراہ کی نشاں دہی کی ہےجس پر عالمِ اسلام کو مغرب سے استفادہ اور جدید وسائل سے کام لینے کے میدان میں چلنا چاہئے، وہ کہتے ہیں:-

"عالم اسلام اور یورپ کبھی ایک دوسرے سے اتنےقریب نہیں ہوئے تھے جتنے آج ہیں، اور یہی قرب اس ظاہری اور پوشیدہ کشمکش کا باعث ہے جو آج ان دونوں میں پائی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد (مردوں، عورتوں) کی روحیں مغربی ثقافت کے اثر سے آہستہ اہستہ سکڑتی اور سمٹتی جا رہی ہیں، اپنے اس گذشتہ احساس سے وہ دور ہوتے جا رہے ہیں کہ معیار معیشت کی درستی اور اصلاح، صرف انسانوں کے روحانی احساسات کی اصلاح و ترقی کا ایک ذریعہ ہے، وہ اسی ترقی کے بت کی پرستش کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے یورپ تباہ ہو رہا ہے،ان لوگوں نے دین کو واقعات و حوادث کے پیچھے کی ایک فرسودہ آواز سمجھنا شروع کر دیا ہے اس لئے وہ بجائے بلند ہونے کے اور پست ہوتے جا رہے ہیں۔

میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان مغرب سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے، بالخصوص صنعتی علوم و فنون کے میدانوں میں، اس لئے کہ علمی افکار و اسالیب کا اختیار کرنا درحقیقت تقلید نہیں، خصوصاً اس امت کے لئے جس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ہر ممکن ذریعہ سے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہو، علم نہ مغربی ہے، نہ مشرقی، علمی انکشافات و تحقیقات ایک ایسے سلسلہ کی کڑی ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں، اور جس میں تمام بنی نوع انسان برابر کے شریک ہیں، ہر عالم اور سائنٹسٹ ان ہی بنیادوں پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھتا ہے، جو اس کے پیشروؤں نے قائم کی تھیں، خواہ وہ اس کی قوم سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی اور قوم سے، اسی طرح ایک انسان سے دوسرے انسان، ایک نسل سے دوسری نسل، ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک، تعمیر و اصلاح و ترقی کا کام برابر جاری رہتا ہے، اس لئے اگر کسی خاص زمانہ یا خاص تمدن میں کام انجام پائیں تو یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس زمانہ یا اس تہذیب کے ساتھ مخصوص ہیں، ہو سکتا ہے کہ کسی اور زمانہ میں کوئی دوسری قوم جو زیادہ باہمت اور حوصلہ مند ہو میدان علم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، لیکن بہرحال سب اس کام میں برابر کے حصہ دار ہیں۔

ایک دور ایسا بھی آیا تھا، جب مسلمانوں کی تہذیب و تمدن یورپ کے تہذیب و تمدن سے زیادہ شاندار تھی، اس نے یورپ کو بہت سی انقلابی قسم کی صنعتی و فنی ایجادات عطا کیں، اس سے بڑھ کر یہ کہ اس یورپ کو اس عملی طریقہ کے اصول و مبادی دیئے جس پر علم جدید اور تہذیب جدید کی بنیاد ہے، لیکن اس کے باوجود جابر بن حیان کا کیمسٹری کا علم عربی نہیں کہلایا، اسی طرح الجبرا اور علم مثلثات کو اسلامی علوم نہیں کہا گیا حالانکہ اول الذکر کا موجد خوارزمی ہے، اور موخر الذکر کا بتّانی، اور یہ دونوں ہی مسلمان تھے، ٹھیک اسی طرح نظریہ کشش کو کوئی انگریزی علم نہیں کہہ سکتا، اگرچہ اس کا موجد انگریز تھا یہ بڑے بڑے علمی کام نوع انسانی کی مشترک میراث ہیں۔

اسی طرح اگر مسلمان (جیسا کہ ان کےاوپر واجب ہے)صنعتی علوم و فنون کے نئے ذرائع اپناتے ہیں تو صرف ارتقاء و ترقی کی فطری خواہش اور جذبہ سے کرتے ہیں، دوسروں کے تجربات اور معلومات سے فائدہ اٹھانے کی فطری خواہش اور جذبہ، لیکن اگر وہ ( اور ان کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے) مغربی زندگی کی اشکال (FORMS) آداب و عادات (MANNERS)  اور مغرب کے اجتماعی تصورات کو اپناتے ہیں تواس سےان کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہ ہوگا، اس لئےکہ یورپ ان کو اس میدان میں جو دے سکے گا وہ اس سے بہتر نہیں ہوگا جو خود ان کی ثقافت اور ان کے دین نے ان کو عطا کیا ہے۔

اگر مسلمان ذرا ہمت بلندکریں اور حوصلہ سےکام لیں اور ترقی کو ایک ذریعہ اور وسیلہ کی حیثیت سے اپنائیں تو وہ اس طرح نہ صرف اپنی باطنی حریت کی حفاظت کرسکیں گے بلکہ شاید یورپ کے انسان کو زندگی کے گم شدہ لطف کا راز بھی بتاسکیں گے۔"۱؎

( ماخوز از " مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش"  ص 292-294 ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ROAD TO MECCA P.347,343 ترجمہ ماخوذاز "طوفان سے ساحل تک"ص ۱۸۷-۱۸۹