عَالم اسلام کا سب سے بڑا خلا

مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

عالم اسلام کا اس وقت سب سے بڑا خلا اس قائد اور حوصلہ مند انسان کا فقدان ہےجو مغربی تہذیب کاجرات، اعتماد اور یقین کے ساتھ سامنا کرے اور اس تہذیب جدید کےمختلف سانچوں، مختلف مکاتب فکر اور راستوں کے درمیان ایک نیا راستہ پیداکرے، ایسا راستہ جس میں وہ تقلید، نقل، غلو اور انتہا پسندی سے بالاتر نظر آئے اور ظاہری اشکال، مظاہر اور سطحی نقطئہ نظر سے بلند ہو، حقائق اور وسائل، قوت اور مغز کی طرف متوجہ ہو اور اس کے ظاہری خول میں نہ الجھے۔

عالِم اسلام کا مردِکامل

ایسا مرد کامِل اور عبقری(GENIUS) جو اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے ایک ایسی نئی شاہراہ کھولے جس میں ایک طرف وہ ایمان ہو جو محض نبوت کا فیض ہے، وہ دین ہو جو اللہ تعالٰے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ اس امت کو عطا کیا،


دوسری طرف وہ علم ہو جو کسی خاص ملک یا قوم یا زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں، وہ دین سے نیک خواہشات اور جذبات اخذ کرے جو انسانیت کی خدمت اور تہذیب کی تشکیل و تعمیر کے لئے سب سے بڑا ذخیرہ اور سب سے بڑی دولت ہے، وہ صحیح اور صالح مقاصد حاصل کرے جو صرف آسمانی مذہب اور صحیح دینی تربیت سے حاصل ہو سکتے ہیں، اس کے ساتھ مغربی تہذیب کے وہ پیدا کردہ وسائل اور آلات حاصل کرے جو اس کو طویل علمی سفر اور مسلسل اور سخت جد و جہد کے بعد حاصل ہوئے ہیں، لیکن ایمان اور ان نیک مقاصد کے فقدان کی وجہ سے ان سے صحیح فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا بلکہ اس کو انسانیت کشی اور تہذیب دشمنی یا بہت حقیر مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

وہ عالی دماغ، حوصلہ مند انسان جو مغربی تہذیب اور اس کے تمام نظریات انکشافات اور قوتوں کے ساتھ خام مال (RAW MATERIAL) کا سا معاملہ کرے اور اس سے ایک نئی اور طاقت ور تہذیب کی عمارت تعمیر کرے جو ایک طرف ایمان، اخلاق، تقوی، رحم دلی اور انصاف پر قائم ہو، دوسری طرف اس میں اس کی مخصوص ذہانت، قوت ایجاد اور جدت فکر جلوہ گر ہو، وہ مغربی تہذیب کو اس نظر سے نہ دیکھے کہ وہ تکمیل و ترقی کے آخری مراحل سے گزر چکی ہے اور اس پر آخری مہر لگ چکی ہے، اور اب اس میں کسی ترمیم و اضافہ کی گنجائش نہیں ہے اور اس کو جوں کا توں اور اس کے سارے عیوب کے ساتھ قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے، بلکہ وہ اس پر علیٰحدہ علیٰحدہ اجزاء کی حیثیت سے نظر ڈالے، جس چیز کو چاہے رد کرے اور جس چیز کو چاہے اختیار کرے، اور پھر اس سے زندگی کا ایک ایسا ڈھانچہ تیار کرے جو اس کے مقاصد، اس کے عقیدہ، اس کے مبادی اور اصول 

اخلاق کےساتھ ہم آہنگ ہو، اسلام نے اس کوزندگی کا جو ضابطہ، دنیا کا جو مخصوص نقطئہ نظر، بنی نوع انسان کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے جو خاص احکام، اور آخرت کے لئے مسلسل جدوجہد اور جہاد کا جو جذبہ عطا کیا ہے، اس پر مبنی ہو اور اس سے وہ زندگی وجود میں آئے جس کے متعلق قرآن نے شہادت دی ہے:-

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَO (النحل-۹۷)

جو شخص نیک عمل کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ہم دنیا میں بھی اس کی زندگی اچھی طرح بسر کرائیں گے اور ان کو آخرت میں بھی ان کےبہترین اعمال کاصلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔

ایسا طریق حیات جو رسول اللہ صلےعلیہ وسلم پر ایمان اور اس عقیدہ پر مبنی ہو کہ وہ انسانیت کے لئے اسوہ کامل، اس کے ابدی رہنما اور قائد، اور قیامت تک کے لئے قابلِ تقلید نمونہ اور محبوب آقا ہیں، ان کی لائی ہوئی شریعت زندگی کا دستور، قانون سازی کی بنیاد، اور وہ تنہاطریق زندگی ہے جس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے، اور اس کے علاوہ اللہ کو کوئی اور طریقہ زندگی قبول نہیں۔

وہ عالی دماغ اور حوصلہ مند انسان جو مغرب سے وہ علوم حاصل کرے جو اس قوم اور ملک کے لئے ضروری ہیں، جن کے اندر کوئی عملی افادیت اور جس پر مغرب و مشرق کسی کی چھاپ نہیں، وہ محض تجربی اور عملی علوم (SCIENCES) کہے جاسکتے ہیں، قرونِ مظلمہ اور دین سے بغاوت کے دور میں (جب یورپ اپنا دماغی توازن کھو چکا تھا، اور دینی حقائق پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے قابل نہیں تھا) ان علوم و نظریات پر جو گردچڑھ گئی تھی، اس کو وہ جھاڑ دے اور اس طرح ان کو صاف کر کے لے جس طرح خاک کے ڈھیر یا کیچڑ کے اندر سے کوئی ہیرا یا آبدار موتی حاصل کیا جاتا ہے، وہ مفید علوم کو الحاد، مذہب بیزاری اور ان غلط نتائج سے پاک اور آزاد کر کے حاصل کرے جو زبردستی ان کے ساتھ لگا دیئے گئے ہیں، وہ مغرب سے جن علوم و نظریات کو اخذ کرے ان میں ایمان کی روح پھونک دے اور ان کو دین کے گہرے رنگ میں غوطہ دے کر اپنا بنا لے اور ان سے عِظیم اور انقلاب انگیز نتائج پیدا کرے جو انسانیت کے لئے زیادہ مفید اور بہتر ہوں اور ان نتائج سے کہیں زیادہ قیمتی ہوں جہاں اس کے مغربی استاد پہونچے تھے اور جس کے آگے ان کے فکر و تخیل کی رسائی نہیں۔

وہ شخص، جو مغرب کو اپنا امام اور رہنما اور خود کو اس کا مقلد اور شاگرد اور خوشہ چیں تسلیم نہ کرتا ہو، بلکہ یہ سمجھے کہ وہ اس کا ایک فریق سفر اور معاصر ہے، جو مخصوص حالات کی وجہ سے بعض مادی اور اقتصادی علوم میں اس سے سبقت لے گیا ہے، وہ اس کے ان تجربوں سے سبق لے، لیکن نبوت نے جو روشنی اس کو عطا کی ہے اس کا اس میں اضافہ کرے اور یہ سمجھے کہ اگر اس کو مغرب سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے تو مغرب کو بھی اس سے بہت کچھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ مغرب کو وہ جو دے سکتا ہے وہ اس سے کہیں افضل اور بہتر ہے جو وہ خود مغرب سے لے سکتا ہے، وہ کوشش کرے کہ اپنی ذہانت اور مشرق و مغرب اور مادی و روحانی قوتوں کے اس حسین امتزاج سے ایک ایسی شاہراہ اور ایک ایسا مسلک زندگی پیدا کرے جس کا احترام اور اس کی تقلید کرنے پر مغرب بھی مجبور ہو اور مکاتب فکر اور تہذیبی دبستانوں میں ایک ایسے دبستان کا اضافہ کرے جو دنیا کے عظیم ترین مفکرین کو دعوت فکر و مطالعہ اور عظیم ترین قوموں کو دعوت عمل دے۔یہ عالمِ اسلام یاکسی اسلامی ملک کے وہ عالی دماغ اور حوصلہ مند رہنما کا نمونہ ہے جو عالمِ اسلام میں (جہاں ہر طرح کے زعماء و قائدین کثرت کے ساتھ موجود ہیں) ابھی تک ناپید ہے، اور ایک حسین و دل کش خواب اور تخیل کی حیثیت رکھتا ہے، یہ وہ بلند قامت دیوپیکر ہستی ہے، جس کے پہلو میں اگر عالم اسلام کے فروما یہ نقّال و مقلّد و غاشیہ بردار رہنما کھڑے کردیئے جائیں تو نہایت حقیر انسان معلوم ہوں اور فکرو نظر، عزم و حوصلہ اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے بُونے اور بالشتئے (PYGMIES) نظر آئیں، مشرق کے وہ زعماء و قائدین جو اس نصف صدی کے عرصہ میں سامنے آئے ہیں کوئی اس بلند معیار پر پورا نہیں اترتا اور کوئی اس ضرورت کو پورا نہیں کرتا جو عصرِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے، اقبال نے صحیح کہا ہےکہ؎ (1)

نہ مصطفٰے، نہ رضا شاہ میں ہے اس کی نمود

کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- ( مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش ص 298-302)