منزلِ مقصود

انتھونی رابنز

ہم سب کچھ نہ کچھ پانا چاہتے ہیں۔ ہماری کوئی نہ کوئی منزل مقصود ہوتی ہے، خواہ ہم اس کے متعلق کچھ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ منزلوں کا ہماری زندگیوں سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے اور یہ ہماری زندگیوں پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔ 

ہماری کچھ منزلیں یا کچھ اہداف ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے پس پردہ کوئی تحریک پیدا کرنے والا احساس یا جذبہ کار فرما نہیں ہوتا۔ آپ کو اپنی منزل یا ہدف کا تعین کرنے کے لیے اپنے اندر پائے جانے والے تخلیق اور تحریک کے جذبے سے قوت ملتی ہے، جس کی تپش اور ترغیب اس منزل یا ہدف کی طرف لیے چلتی ہے۔ آپ اپنے ہدف کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر اور دھیان سے کریں۔ 

اس کے ہر پہلو پر اپنا دماغ لڑائیں، غور و فکر کریں۔ پھر اس مقصد، منزل یا ہدف کو چنیں، جو آپ کے لیے انتہائی اہم ہے۔ وہ منزل مقصود جس کا خیال آپ کو صبح سویرے جگا دیتا ہو اور جس کی تڑپ آپ کو رات دیر تک سونے نہ دیتی ہو۔ اس ہدف کا تعین کرتے ہوئے اس کے حصول کا وقت اور دن بھی مقرر کر لیں۔ 

اب اس کے متعلق ایک پیراگراف لکھیں کہ آپ کیوں اس ہدف کو اس مقررہ دن اور وقت تک حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ آپ کے لیے چیلنج نہیں ہو گایا آپ کو آپ کے خول سے باہر نکالنے اور آپ کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ نے جب کوئی نیا لباس یا نئی کار خریدی ہو اور پھر اس پر داغ دھبے پڑ گئے ہوں لیکن آپ نے کبھی ان داغ دھبوں پر دھیان ہی نہ دیا ہو، حالانکہ وہ آپ کے سامنے ہی ہوتے ہیں؟ 

انسان بعض اوقات ہدف سے بھی اسی طرح لاتعلق ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ آپ کے دماغ کا ایک حصہ ان تمام باتوں اور معلومات کو آپ کے ذہن سے محو کیے رکھتا ہے جو آپ کی کامیابی اور بقا کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے خوابوں اور خواہشوں کے حصول کے لیے متوجہ نہیں ہوتے، کیونکہ آپ نے کبھی اپنے ذہن کو اس کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار ہی نہیں کیا تھا، نہ ہی اپنی منزل مقصود کی کبھی وضاحت کی۔ اگر صرف ایک بار آپ نے اس طرف توجہ دی، اس پر عمل پیرا ہو گئے تو پھر آپ اپنے دماغ کے اس نظام کو تحریک دینے میں کامیاب ہو جائیں گے جو کہ انسان کو کسی بھی کام کو کرنے کے لیے احکامات جاری کرتا ہے۔ پھر آپ کے دماغ کا یہ حصہ کسی مقناطیس کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔ 

آپ کی دماغی اور جسمانی قوت آپس کے باہمی ربط سے ایک ہم آہنگی کے تحت بڑی تیزی سے آپ کو آپ کی منزلِ مقصود یا ہدف پانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ آپ اس طاقت ور اعصابی نظام کے بٹن کو آن کر کے اپنی زندگی دنوں یا ہفتوں کے اندر بدل کر رکھ سکتے ہیں پھر ’’آپ کے اندر کا جن جاگ اٹھے گا۔‘‘ منزلِ مقصود یا ہدف پانے کے رہنما اصول یہ ہیں۔ 

۱۔ آپ اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ آپ اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس کے متعلق سوچنے پر آئندہ چار دنوں تک روزانہ کم از کم 10 منٹ ضرور لگائیں۔ ایک ڈائری میں اس کا حساب رکھیں۔

 ۲۔ جب آپ اپنا ہدف پانے کی مشق کر رہے ہوں تو آپ متواتر خود سے پوچھیں کہ آپ اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ مثلاً ’’اگر مجھے اپنی زندگی میں کچھ حاصل کرنا ہے تو میں کسی بھی صورت میں اسے حاصل کر سکتا ہوں۔‘‘ یا اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ میں جو چاہتا ہوں اسے حاصل کرنے میں ناکام نہیں ہو سکتا تو پھر میں کیا کرتا؟ 

اس مشق کے ذریعے آپ کے اعصابی اور دماغی نظام کو جو پیغامات موصول ہوتے ہیں وہ سوچ اور عمل میں ربط اور قوت پیدا کر کے آپ کے لیے ایک مؤثر محرک بنتے ہیں، جس کے تحت آپ کے اندر قوت فیصلہ اور قوت عمل کار فرما ہو جاتی ہے۔ 

آپ یہ سوچیں کہ ہر شے آپ کی پہنچ میں ہو سکتی ہے، جیسا کہ ایک بچہ اس احساس کی وجہ سے اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہے کہ وہ اپنی پہنچ میں آنے والی ہر شے کو حاصل کر سکتا ہے۔ زندگی بچے کے لیے ڈپارٹمنٹ سٹور جیسی ہے، جہاں کی ہر شے اور ہر کھلونا حاصل کرنے کے لیے وہ خوش اور آزاد ہوتا ہے۔

 آپ سوچیں کہ آپ پھر سے بچہ بن گئے ہیں۔ یہ ایسی کیفیت ہے کہ ایسی حالت میں زندگی سے کچھ بھی مانگنا اور حاصل کرنا کوئی زیادہ مہنگا یا ناقابل رسائی نہیں۔

-----------------------
روز نامہ دنیا ، 30 اگست 2018ء