ڈیجیٹل انقلاب آرہا ہے!

پندرہ روزہ معارف ، 1 ستمبر 2018ء 

اسلامک ریسرچ اکیڈمی ، کراچی 

مستقبل کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے کہنا بہت دشوار ثابت ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم ماضی کی توضیح سے آغاز کریں۔ انیسویں صدی کے حوالے سے تاریخ کو بیان اور واضح کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ آیے، لبرل ڈیموکریسی کے ذریعے ابتدا کرتے ہیں۔ فرانسیسیوں نے اپنے بادشاہ کو پھانسی دے دی ہے اور جان لاک کے مٹھی بھر جاں نثاروں اور معتقدین نے بحرِ اوقیانوس کے اُس پار ایک سادہ لوح جمہوریہ قائم کی ہے۔ برطانوی سرزمین پر جان اسٹیوارٹ مل عمدگی سے لبرل ڈیموکریسی اور انسانی وقار کا دفاع کر رہا ہے۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے جیسے بادشاہت کے دن گنے جاچکے ہیں۔ اس کے بعد آزاد منڈی کی معیشت کا انقلاب برپا ہو رہا ہے، جس کے بڑے ستاروں میں ٹامس مالتھس اور ڈیوڈ رکارڈو شامل ہیں۔

انیسویں صدی مغربی سلطنت اور نو آبادیات کے حوالے سے نقطۂ عروج کا زمانہ ہے۔ اب مکمل جنگ کا دور شروع ہو رہا ہے۔ سیاسی قوت کی حیثیت سے مذہب کے زوال کا زمانہ شروع ہو رہا ہے اور اُس کی جگہ لینے کے لیے قومیت کا رجحان پوری طرح تیار ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہی دور صنفی بنیاد پر مساوات کا اصول اپنانے کا بھی ہے۔ خواتین اپنے لیے برابری کا درجہ چاہتی ہیں، اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دیا جائے۔ نیوزی لینڈ خواتین کو ووٹ کا حق دینے والا پہلا ملک بن جاتا ہے۔ برطانیہ میں غلامی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے اور امریکا کے علاوہ روس میں بھی غلاموں کو آزاد کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

انیسویں صدی بنیادی طور پر جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے عروج، قوم پرستی کے طلوع ہونے، صنفی مساوات کے قائم ہونے، نوآبادیات کے قیام اور مکمل و ہمہ گیر جنگ کے چِِھڑنے سے عبارت ہے۔ ان میں سے ہر معاملہ اپنی جگہ مکمل اور انوکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہزاروں کتابوں کو جنم دینے کا وسیلہ بھی بنتا ہے۔

آج جائزہ لیجیے تو یہ سب کچھ پس منظر میں دکھائی دیتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی معاملہ انیسویں صدی کی نمایاں ترین خصوصیت کا درجہ نہیں رکھتا تھا۔ تو پھر؟ انیسویں صدی اگر حقیقی مفہوم میں یاد رکھی جائے گی تو اصلاً صنعتی انقلاب کے حوالے سے۔ اگر صنعتی انقلاب رونما نہ ہوتا تو متوسط طبقے کا وجود ممکن نہ ہوا ہوتا اور اگر متوسط طبقہ نہ ہوتا تو جمہوریت کی راہ ہموار نہ ہوئی ہوتی!

سرمایہ دارانہ نظام کوئی انقلاب برپا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا کیونکہ بیشتر زرعی معیشتیں اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتیں۔ غیر معمولی سطح کی نو آبادیات کی ضرورت بھی نہیں پڑتی کیونکہ صنعتی ڈھانچا اِتنا وسیع ہو ہی نہیں سکا ہے کہ خام مال کی بڑے پیمانے پر ضرورت محسوس کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنعتی ڈھانچا اِتنا پروان چڑھایا ہی نہیں جاسکا ہے کہ ہمہ گیر نوعیت کی جنگ کی راہ ہموار ہو۔ معیشت کو نئے خطوط پر استوار کرنا ممکن ہی نہیں بنایا جاسکا کیونکہ بیشتر معیشتیں اب تک زرعی ماڈل پر کام کر رہی ہیں۔ غلامی کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جاسکا ہے نہ خواتین کے حقوق سے متعلق کوئی بڑی تحریک سر اٹھانے کے قابل ہوسکی ہے۔

اس دور کے بنیادی اور وسیع پیمانے کے اثرات کے حامل عوامل میں بھاپ کا انجن، ریلوے، بجلی اور جراثیم کا نظریہ نمایاں ہیں۔ ان چاروں کی مدد سے جو غیر معمولی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان کے بغیر بہت کچھ زیادہ اہمیت کا حامل نہ ہو پاتا اور ایسا لگتا کہ معاملات ازمنۂ وسطٰی کے مانند ہیں۔ ۱۸۰۰ عیسوی میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ نئی صدی کی تقدیر کا فیصلہ ٹامس نیو کامین نے ۹ دہائیوں پہلے بھاپ انجن ایجاد کرکے کردیا تھا۔ تاریخ دان اور خارجہ پالیسی کے ماہرین شاید یہ بات سننا پسند نہ کریں۔ مگر خیر، جو کچھ بھی وہ انیسویں صدی کے حوالے سے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، وہ سب صنعتی انقلاب کے حاشیے سے زیادہ کچھ نہیں۔ شاید یہی سب کچھ آج کے دور کے بارے میں سچ ہو۔ تاریخ دان اور ہمارے جانشین کے طور پر کام کرنے والے روبوٹس اکیسویں صدی میں جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی تاریخ لکھیں گے۔

صنعتی انقلاب نے پیداوار کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ کم افراد کی مدد سے بہت بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار کو کئی گنا بڑھانا ممکن ہوگیا۔ آج کی دنیا میں اگر ٹیکنالوجی کی پیش رفت اور وسعت ممکن بنائی جاسکے تو عالمی معیشت کو غیر معمولی حد تک مہمیز دینے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔

جس اعتماد کے ساتھ انیسویں صدی کا تجزیہ کیا جاسکا ہے بالکل اُسی اعتماد کے ساتھ اکیسویں صدی کا تجزیہ ممکن نہیں۔ چین کا ابھرنا، دنیا بھر میں قبائلی بنیاد پر سیاست کو تیزی سے ملنے والا فروغ اور لبرل ڈیموکریسی کی شکست و ریخت بالکل سامنے کی باتیں ہیں۔ اگر اور باریکی سے جائزہ لیجیے تو اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے دہشت گردی کی گرم بازاری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں یہ سوچنا حیرت انگیز نہیں کہ دنیا بھر میں اشتراکِ عمل کا کلچر تیزی سے دم توڑ رہا ہے اور بڑی طاقتوں کے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ایک ایسا کھیل شروع ہوچکا ہے جو مزید خرابیاں پیدا کر رہا ہے اور دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

دنیا بھر میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کے حوالے سے بہت کچھ کہا جارہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا دوسرے صنعتی انقلاب کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ یہ دوسرا صنعتی انقلاب در حقیقت ڈجیٹل نوعیت کا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا دائرہ پہلے صنعتی انقلاب کے دائرے سے زیادہ وسیع ہوگا۔ ڈجیٹل انقلاب اب تک وارد نہیں ہوا۔ یہ بس وارد ہوا ہی چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ارد گرد بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ بچوں کے لیے تیار کیے جانے والے کھلونوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ جو کچھ ہونا چاہیے وہ اب تک نہیں ہو رہا مگر خیر، بہت جلد یہ سب کچھ رونما ہونے لگے گا۔ پیداواری صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں عالمی معیشت کے پنپنے کی رفتار حیرت انگیز حد تک بڑھ جائے گی۔ ۱۹۷۰ء کے بعد عالمی معیشت میں سستی آگئی تھی اور پیداواری صلاحیت گھٹ گئی تھی۔ پھر مزدوروں کی استعداد بڑھانے میں تھوڑی بہت کامیابی ملی، جس کے نتیجے میں معاملات درست ہوئے اور معیشتوں کو فروغ دینے میں اطمینان بخش حد تک کامیابی ملی۔ کمپیوٹرائزڈ لاجسٹکس کی مدد سے ۲۰۰۷ء کے بعد معاشی ترقی کی رفتار بڑھائی جاسکی۔ اب پھر رفتار کم ہوچکی ہے۔ ڈیجیٹل انقلاب کے برپا ہونے کی صورت میں عالمی معیشت کو ایک بار پھر فروغ دیا جاسکے گا۔

ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت کے باوجود گزشتہ دہائی کے دوران دنیا بھر میں پیداوار کا شعبہ کمزور رہا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مشینیں توقعات کے مطابق پیداوار دینے میں ناکام رہی ہیں۔ مگر خیر، اب بہت کچھ یا سب کچھ تبدیل ہونے والا ہے۔ جب سے کمپیوٹر ہماری زندگی میں آئے ہیں تب سے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بہت کچھ سوچا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں عملی سطح پر بھی بہت کچھ کیا گیا ہے۔ ابتدا میں مصنوعی ذہانت کو پروان چڑھانے کی رفتار کم تھی اور اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ابتدائی دور کے کمپیوٹر انسانی ذہن کی سی تیزی سے کام کرنے کے قابل نہ تھے۔ ’’مورز لاء‘‘ کے مطابق کمپیوٹر کی ذہانت میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور آج ہمارے سامنے ایسے کمپیوٹر ہیں جو برق رفتاری سے کام کرتے ہیں اور دیا ہوا کام مطلوبہ نفاست اور جامعیت کے ساتھ مکمل کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے انسان اب بھی اپنی منزل سے دور ہے، مگر اب امیدیں زیادہ توانا ہیں۔ کمپیوٹر کو مطلوبہ تیزی اور نفاست کے ساتھ استعمال کرنا اب بہت حد تک ممکن ہوچکا ہے۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ بہت جلد یعنی ایک آدھ عشرے کے دوران ایسے کمپیوٹر تیار کیے جاسکیں گے، جو بالکل انسانی ذہن کی تیزی اور جامعیت کے ساتھ کام کرسکیں۔ بہت سے کام مصنوعی ذہانت پر چھوڑ کر انسان اپنے لیے بہتر کام تلاش کرسکتا ہے یعنی ایسے کام جن کے کرنے سے انسان کا معیار بلند ہو، اُس کے ذہن میں وسعت پیدا ہو اور وہ اِس دنیا کو زیادہ سے زیادہ ’’قابلِ رہائش‘‘ بنانے میں کامیاب ہو۔

انسانی ذہن جس رفتار سے کام کرسکتا ہے اُسی رفتار سے کام کرنے والے کمپیوٹر اب روئے ارض پر موجود ہیں۔ چند عشروں کے دوران ہارڈ ویئر کے شعبے میں غیر معمولی ترقی نے انتہائی تیزی سے کام کرنے والے کمپیوٹر تیار کرنا ممکن بنادیا۔ کمپیوٹر کی مدد سے لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق انسانی ذہن ایک سیکنڈ میں کروڑوں آپریشنز کر ڈالتا ہے۔ یہ رفتار انتہائی حیرت انگیز ہے مگر انسان نے ایسے کمپیوٹر تیار کرلیے ہیں جو فی سیکنڈ ۱۰ تا ۱۰۰ پیٹافلاپ کی رفتار سے کام کرتے ہیں، یعنی انسانی ذہن کی طرح کمپیوٹر بھی ایک سیکنڈ میں کروڑہا آپریشنز کر گزرتے ہیں اور وہ بھی جامعیت کے ساتھ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایسے انتہائی جاندار کمپیوٹر بہت بڑے حجم کے ہیں، ان کی لاگت بھی بہت زیادہ ہے اور انہیں چلانے پر بجلی بھی بہت خرچ ہوتی ہے۔ انسان کے لیے اس وقت بنیادی مسئلہ سپر کمپیوٹر کے حجم کو چھوٹا کرنا ہے تاکہ وہ بہتر انداز سے کام کریں اور انہیں چلانا معاشی اعتبار سے مشکلات پیدا کرنے کا باعث نہ بنتا ہو۔ محققین کا اندازا ہے کہ ۲۰۴۵ء تا ۲۰۶۰ء تمام انسانی کام کمپیوٹر کی مدد سے کیے جانے لگیں گے۔ ایک عشرے کے دوران مصنوعی ذہانت کے شعبے میں غیر معمولی رفتار سے پیش رفت ہوئی ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو مصنوعی ذہانت کے بل پر کیا جانے لگا ہے۔ ایک ڈیڑھ عشرے میں صورتِ حال مزید واضح ہو جائے گی اور انسان اس قابل ہوجائے گا کہ زیادہ سے زیادہ کام کمپیوٹر کے حوالے کرکے خود سکون کا سانس لیتا رہے۔ دل کا آپریشن بھی کمپیوٹر کی مدد سے کیا جانے لگے گا۔ مصنوعی ذہانت کو سوچنے کے حوالے سے بھی تیار کیا جارہا ہے۔ پندرہ بیس برس میں کمپیوٹر خود ہی ناول بھی لکھنے لگیں گے۔ یہ سب کچھ انسان کے خوابوں کا معاملہ تھا جو اب حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔

آج بھی دنیا بھر میں بہت سے صنعتی اور تجارتی کام روبوٹس کی مدد سے کیے جارہے ہیں۔ روبوٹس ریستوران میں گاہکوں کو کھانا بھی پیش کر رہے ہیں۔ روبوٹس ہی فیکٹریوں میں گاڑیاں بھی تیار کر رہے ہیں۔ معترضین کا کہنا ہے کہ روبوٹس اور سپر کمپیوٹر کی آمد سے بے روزگاری کا مسئلہ انتہائی خطرناک شکل اختیار کرلے گا، کیونکہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی نوکری کا نہ ہونا یا یکسر بے روزگار بیٹھے رہنا بہت حد تک سُستی یا کاہلی کا معاملہ ہے۔

اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے رونما ہونے والا انقلاب سب سے بڑا جیو پولیٹیکل انقلاب ہوگا، یعنی سبھی کچھ بدل جائے گا۔ یورپ کے صنعتی انقلاب نے انسان کی جسمانی قوت پر مدار کم کردیا تھا تاہم ذہن کو ہٹانے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ ٹیکنالوجیکل انقلاب یہ مسئلہ بھی حل کر دے گا یعنی انسانی ذہن کو زیادہ بروئے کار لانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ یہ ہوگا حقیقی انقلاب۔ جب مشینیں خود ہی سوچنے لگیں گی تب انسان کے لیے اپنے وجود کی معنویت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگا۔ کیا سب کچھ مشینوں کے حوالے کرکے انسان گوشہ نشینی اختیار کرلے گا؟

آج بھی یہ سوال کروڑوں افراد کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا واقعی مشینیں یعنی کمپیوٹر انسانی ذہن کی طرح سوچنے کے قابل ہوسکیں گی۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ممکن نہ ہو پائے یعنی انسانی ذہن کی سی سوچنے کی صلاحیت مشینوں میں پیدا نہ ہوسکے، یعنی اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ زمانہ بہت دور نہیں جب مشینیں سب کچھ کرنے لگیں گی اور انسان کے لیے اپنے وجود کو اور اس کی معنویت کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔

آنے والے دور میں کسی بھی ملک کے لیے بقا کی ایک ہی صورت ہوگی … مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ہوش رُبا نوعیت کی پیش رفت۔ آج چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا غلغلہ ہے۔ یومیہ لاکھوں الفاظ چین کے بارے میں لکھے جارہے ہیں۔ ایک ڈیڑھ عشرے کے بعد سب کچھ سمٹ کر ایک سوال میں سما جائے گا … کیا چین مصنوعی ذہانت کے شعبے میں دوسروں کو پچھاڑ سکتا ہے؟ زندگی کا ہر معاملہ مصنوعی ذہانت کے مدار کے گرد گھومنے لگے گا۔ اس کا سیدھا اور سادہ مفہوم یہ ہے کہ آنے والے دور میں صرف وہی اقوام زندہ رہ سکیں گی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی اہلیت ثابت کرسکیں گی۔ جس قوم میں سوچنے کی جتنی صلاحیت ہوگی، وہ بھرپور ترقی کرنے کی اُسی قدر اہل ہوگی۔ اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیش رفت ہی اُس کی بقا کی ضمانت فراہم کرے گی۔

ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا غلغلہ ہو جانے سے مشکلات بڑھیں گی۔ جنگ ہی کو لیجیے۔ سب کچھ مشینوں کے ہاتھ میں ہوگا تو اسلحہ انتہائی خطرناک حد تک جدید ہوجائے گا۔ مگر تب جنگ کا خطرہ شاید باقی نہ رہے؟ سیدھی سی بات ہے، اگر انسانی ذہن بروئے کار لانے کی ضرورت ہی نہ رہے گی تو جنگ کیوں لڑی جائے گی؟ جنگ تو ہوتی ہی اِس لیے ہے کہ انسان اپنے ذہن کی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے۔ یہی حال دیگر معاملات کا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حامل نمایاں ممالک بہت کچھ پالیں گے۔ جن میں اس حوالے سے پیش رفت کی طاقت نہ ہوگی وہ بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ معاملہ دوسرے یا تیسرے درجے کی نہیں بلکہ دسویں، گیارہویں درجے کی زندگی بسر کرنے کا ہوگا۔

ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت نے لبرل ڈیموکریسی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے اپنائے جانے والے رویے نے لبرل ڈیموکریسی کے مستقبل پر پہلے ہی بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بے روزگاری کا مسئلہ بھی بہت بڑے خطرے کی شکل میں سروں پر منڈلا رہا ہے۔ امریکا میں کم و بیش ۲۰ لاکھ ٹرک ڈرائیور ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسے ٹرک بھی تیار کرلیے گئے ہیں جو ڈرائیور کے بغیر چلائے جاسکتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ بہت بڑے پیمانے پر ممکن بنایا جاسکا تو بے روزگاری کس حد تک بڑھے گی اس کا اندازہ لگاتے ہوئے انسان کانپنے لگتا ہے۔ اگر بے روزگاری کے عفریت کو قابو میں رکھنا ممکن نہ ہوسکا تو لبرل ڈیموکریسی کہاں کھڑی ہوگی؟ دنیا بھر میں لبرل ڈیموکریسی کو ایک ایسے سیاسی ماڈل کے روپ میں پیش کیا جاتا رہا ہے جو وسیع النظری اور معاشی استحکام کی ضامن ہے۔ تارکین وطن کو قبول کرنے سے واضح گریز اور بے روزگاری کے گھوڑے کو لگام ڈالنے میں ناکامی لبرل ڈیموکریسی کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرکے دم لیں گے۔

ماہرین یہ اندازے بھی قائم کرتے رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے غیر معمولی فروغ سے بے روزگاری کس حد تک بڑھے گی۔ ماہرین کا ایک اندازہ یہ ہے کہ ۲۰۳۰ء کے عشرے کی ابتدا میں امریکا میں ۳۸ فیصد ملازمتیں ختم ہوجائیں گی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۲۰۴۰ء کے عشرے کے دوران کمپیوٹرز ناول بھی لکھنے لگیں گے۔ اِسی طور فطری علوم و فنون کے شعبے میں غیرمعمولی نوعیت کی تحقیق کمپیوٹر کے ہاتھوں انجام کو پہنچے گی۔ یہ صورتِ حال کتنی خطرناک ہے اِس کا اندازہ کم ہی اقوام کو ہے۔ تبدیلی اِتنے بڑے پیمانے پر آنے والی ہے کہ اُس کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کیا جارہا ہے، کیونکہ تصور کرنے ہی سے کپکپی طاری ہونے لگتی ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر کم و بیش ۱۰ فیصد بے روزگاری ہے۔ اس کے نتیجے میں جرائم کی شرح بلند ہو رہی ہے۔ اگر بے روزگاری ۲۰ فیصد تک ہو تو عالمی سطح پر ہنگامی حالت نافذ کرنا ہوگی۔ اب ذرا سوچیے کہ دنیا کے تمام کاموں کا ۴۰ فیصد تک کمپیوٹرز کرنے لگیں تو کیا ہوگا؟ یہ تو خونی انقلابات کا معاملہ ہے۔ ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے بڑے کاروباری ادارے غیر معمولی منافع ضرور کمائیں گی مگر بے روزگاری کے ہاتھوں معاشروں میں شدید عدم استحکام بھی تو پیدا ہوگا۔

ٹیکنالوجی کی پیش رفت سیاست کو بھی مکمل طور پر تبدیل کردے گی۔ فی زمانہ کوئی بھی سیاسی نظام روزگار فراہم کرنے سے کہیں بڑھ کر معاشی استحکام برقرار رکھنے یعنی معیشت کو نظم و ضبط سے ہم کنار رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ جب بہت کچھ کمپیوٹر کے ہاتھ میں ہوگا اور بہتر نظم و نسق کے تحت کام کر رہا ہوگا تب سیاست کے کرنے کے لیے کیا رہ جائے گا؟

مصنوعی ذہانت کے دور میں معیشت کو مستحکم رکھنے اور معاشروں کو کنٹرول میں رکھنے کا ایک اچھا طریقہ تو وہ ہوسکتا ہے جو اشتراکیت نے سُجھایا ہے یعنی جو کچھ بھی حاصل ہو وہ لوگوں میں اُن کی ضرورت کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔ مگر یہ قابلِ عمل اس لیے ہیں کہ پیداوار کے ذرائع پر اشتراکیوں کی اجارہ داری نہیں۔ لبرل ڈیموکریسی کے لیے یہ وقت بحران کا ہے۔ اُسے ابھی سے طے کرنا ہے کہ جب معاشرہ مکمل طور پر مصنوعی ذہانت کے ہاتھ میں ہوگا تب اس کا کردار کیا ہوگا اور وہ عوام کو زیادہ سے زیادہ مطمئن رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکے گی۔

ایک بات تو طے ہے کہ آنے والے دور میں سرمایہ دارانہ نظام زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل جانے والے اداروں کو اب سوچنا ہوگا کہ جب معاشرے میں بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جائے گی تب اپنے وجود کو کس طور برقرار رکھا جاسکے گا۔

اب دنیا کو طے کرنا ہے کہ اُسے کس طرف جانا ہے اور کس طرح جانا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے زندگی کا معیار قابلِ رشک حد تک بلند ہوگا۔ ماحول کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک رکھنا اس حد تک ممکن ہوجائے گا کہ انسان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا۔ مایوس ہونا لازم نہیں۔ مصنوعی ذہانت ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت میں ہمارے سامنے آنے والی ہے۔ ہمیں اس چیلنج کا سامنا کرنا ہے اور یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ یہ چیلنج ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ رائٹ برادران نے طیارہ تیار کیا تب سے خلائی شٹل تک بہت کچھ ہوا۔ مصنوعی ذہانت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے۔ ابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔ تحقیق کا بازار گرم ہے۔ مصنوعی ذہانت کو ہر معاملے میں اپنی اہمیت منوانی ہے مگر اس سے بہت پہلے انسان کو اُس آنے والے دور کے لیے تیار ہونا ہے۔ مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ جانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بہت کچھ ہے جو پس منظر کی نذر ہو جائے گا۔ ثقافت، زبان، اقدار، نسل اور دوسری بہت سی حقیقتیں گم ہوکر رہ جائیں گی۔ جب سارے کام مشینوں کی مدد سے ہونے لگیں گے، تب اس بات کی پروا کون کرے گا کہ کس کا تعلق کس ثقافت یا نسل یا زبان سے ہے۔ اس حوالے سے انسان کو ابھی سے تیار ہونا ہے۔ سارے کام مشینوں پر چھوڑ دینے کی صورت میں زندگی میں خلاء بھی تو پیدا ہوگا۔ ایک بڑا بحران مذہب کے لیے بھی اٹھ کھڑا ہوگا۔ جب بہت کچھ بہت آسانی سے ہونے لگے گا تو کسی برتر ہستی پر یقین رکھنے کی ضرورت کم ہی لوگوں کو محسوس ہوگی۔ جو کچھ ہونے والا ہے اُسے روکنا ممکن نہیں تاہم اُس کا بہتر انداز سے سامنا کرنے کے لیے تیار ہونا بہت حد تک ممکن ہے۔ انسان کو ایک بہت بڑے بحران کے لیے تیار رہنا ہے۔ اگر ابھی سے سوچا جائے گا تو ٹیکنالوجی کی بھرپور پیش رفت کے دور میں بیشتر معاملات کو کنٹرول میں رکھنا کسی حد تک ضرور ممکن ہوگا۔

-------------------------------------
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“Tech World : Welcome to the Digital Revolution”.  by Kevin Drum    Foreign Affairs”. July/August 2018