میں کاہل نہیں، بس دماغ ہی سستی کرتا ہے ۔


"’میں کاہل نہیں بس دماغ ہی سستی کرتا ہے‘".

جریدے ’سائیکلوجیکل سائنس‘ میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق دماغ کے دو ایسے حصے دریافت ہوئے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ہم ’کام کرنے والے ہیں‘ یا ’اسے ٹالنے والے‘۔

دیکھیئے کہ کچھ سائنسدان کیوں کہتے ہیں کہ سستی یا چیزوں کو ٹالنا سب کچھ دماغ میں ہوتا ہے۔


توجہ آسانی سے بٹ جاتی ہے ؟ پراجیکٹ ختم نہیں ہوتا ؟ سست کہا جاتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ یہ آپ کی غلطی ہو ہی نہ ۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہ اب جانتے ہیں کہ لوگ آج کا کام کل پر کیوں ڈالتے ہیں۔

دیکھیئے ۔ اسے ایمگدلا کہتے ہیں ۔ یہ جذبات کو پراسس اور تحریک کو کنٹرول کر تا ہے ۔

اور تاخیر کرنے والوں میں یہ بڑا ہو تا ہے لیکن ایکشن سینٹر کے ساتھ اتنا جڑا ہوا نہیں ہوتا ۔

اس لے انہیں توجہ ہٹانے والی چیزوں کو فلٹر کرنے کیلے جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔

اور وہ منفی رجحانات کے متعلق زیادہ پریشان ہوتے ہیں ۔

اس لے وہ ہچکچاتے ہیں اور چیزوں کو ٹالتے ہیں ۔ لیکن اسے سستی نہیں کہا جاسکتا ۔

سستی کچھ نہ کرنا ہے ۔ جبکہ ٹالتے رہنے کا مطلب ہے کچھ کرتے رہنا ۔

لیکن سائنسدانوں کے مطابق اپنے دماغ کو دوبارہ تربیت دینے کے طریقے موجود ہیں ۔

مداخلت کو کم کرنا اور کام کو چھوٹے حصون میں تقسیم کرنا ایک اچھا آغاز ہے ۔

غوروفکر اور اپنے خیالات اور احساسات پر غور کرنے سے بھی انہیں کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔

اور اگر اس سے کام نہ چلے تو کم از کم آپ کے پاس ایک سائنسی غذر موجود ہے ۔ 
میں سست نہیں ہوں ، میرا ایمگدلا ذرا بڑھ گیا ہے ۔

-----------------------------
(بی بی سی اردو کی رپورٹ )