علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۱)

سید منظور الحسن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارآحاد کو ’’حدیث‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ روایات ہیں جو خبر واحد کے ذریعے سے اور روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر  ہم تک پہنچی ہیں، یعنی لوگوں نے اِنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سماعت کی حد تک سنا ہے ، اپنی یادداشت کی حد تک یاد رکھا ہے ، اپنے فہم کے مطابق سمجھا ہے ، اپنے الفاظ میں ترتیب دیا ہے اوراپنی صواب دید سے منتقل کیا ہے۔اِس طریقے سے حاصل ہونے والے علم کے بارے میں مسلم ہے کہ یہ درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا۔ اِس سے ظن غالب یا قوی گمان حاصل ہوتا ہے، جسے یقینیات کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ۔ درجۂ یقین کو وہی علم پہنچتا ہے جو اجماع و تواتر سے منتقل ہوا ہو۔ قرآن مجید اور سنت کا یہی معاملہ ہے۔ یہ  دونوں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے ملے ہیں اور ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتے ہیں۔ اِن کے مقابل میں احادیث کی روایات اخبار آحاد میں محصور ہیں، یعنی  نہ وہ صحابۂ کرام کے اجماع اور قولی تواتر سے ملی ہیں اور نہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہیں، لہٰذا اِن سے حاصل ہونے والے علم کو  اصل اور ضروری  قرار دینے کے بجاے بالعموم شرح و فرع تک محدود سمجھا جاتا ہے، یعنی اس کی نوعیت دین کی تفہیم و تبیین کی ہے۔ ۱؎

یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایات کی صورت میں موجود ہے۔انھیں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے متعدد صحابۂ کرام نے اپنی انفرادی حیثیت میں روایت کیا ہے اور علما اور محدثین کی ایک جماعت نے اسے مرتب کر کے آگے منتقل کیا ہے۔

احادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم

احادیث کے بارے میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ زمانۂ نزول قرآن میں احادیث کو لکھنے اور جمع کرنے پر پابندی عائد رہی ہے۔ اِس کا مقصد کلام الہٰی کو بالکل متعین اور ممیز رکھنا تھا۔تاہم بعد ازاں یہ پابندی اٹھا لی گئی اور لوگ اپنی خواہش سے احادیث لکھنے اور جمع کرنےلگے۔ ۲؎

قرآن و سنت ۳؎ کی اگلی نسلوں تک بہ حفاظت منتقلی صحابۂ کرام کی اولین ذمہ داری تھی، اس لیے انھوں نے بہ حیثیت جماعت اس ذمہ داری کو نبھایا اور ۴؎ اپنے اجماع و تواتر سے پورے اہتمام کے ساتھ اِنھیں امت کو منتقل کیا۔ اِس معاملے میں کسی غلطی یا انحراف سے محفوظ رہنے کے لیے حکومت وریاست کے وسائل کو بھی بروے کار لایا گیا۔ 

احادیث کے حوالے سے اس سطح کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ اُسے افراد کی انفرادی کاوش اور صواب دید پر چھوڑ دیا گیا۔ ۵؎

چنانچہ بعض صحابۂ کرام نے کثیر تعداد میں احادیث روایت کیں، بعض نے بہ قدر ضرورت اس کا اہتمام کیا اور بعض نے اس سے اجتناب کیا۔

جن صحابہ نے انھیں ذہن نشین کیا اور اپنے رفقا و تلامذہ تک منتقل کیا، اُن کا موقف یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو ہر ممکن حد تک جمع کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ آپ کی ہر بات محفوظ ہو جائے اور لوگوں کو قرآن و سنت کے احکام کو سمجھنے اور اُن کا اطلاق کرنے میں آسانی ہو جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ۵۳۷۴ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ۲۶۳۰، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ۲۲۸۶ ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ۲۲۱۰، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ۱۶۶۰، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ۱۵۴۰اور  حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ۱۱۷۰ احادیث مروی ہیں۔ ان صحابہ کو ’مکثرین الحدیث‘ کہا جاتا ہے۔  ۶؎

جن صحابہ نے اس معاملے میں احتیاط اور توقف کا رویہ اختیار کیا ، اُن کا ترددیہ تھا کہ کہیں اس معاملے میں حک و اضافے کی کوئی غلطی صادر نہ ہو جائے اور اُنھیں قیامت میں اللہ کے حضور جواب دہ ہونا پڑے۔جن صحابہ نے یہ رویہ اختیار کیا، اُن میں سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ۱۴۳، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ۵۳۷، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ۱۴۶، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ۵۸۶، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ۳۷۸، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ۸۴۸ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ۱۴۶روایات منقول ہیں۔ ۷؎

دین کی توسیع و اشاعت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اولین ذمہ داری تھی۔ چنانچہ خلافت راشدہ کے زمانے میں انھوں نے قرآن مجید اور سننن ثابتہ کی ترویج و اشاعت اور تعلیم و تدریس کا بھر پور اہتمام کیا، مگر احادیث کی جمع و تدوین اور تعلیم و تدریس کے حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں معلوم ہے کہ اُنھوں نے احادیث پر مشتمل اپنے اپنے صحائف لکھ رکھے تھے، مگر اُنھوں نے ان کا اجرا کرنے کے بجاے انھیں تلف کرنا مناسب خیال کیا۔۸؎ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی ایک صحیفے کا ذکر ملتا ہے، مگر اُس میں صرف زکوٰۃ و دیت سے متعلق احادیث تھیں۔۹؎  اُن کا یہ طرز عمل واضح کرتا ہے کہ وہ احادیث کو اصل دین کے مقام میں نہیں، بلکہ تفہیم و تبیین کے محل میں رکھتے تھے۔ اگر وہ انھیں اصل دین کی جگہ دیتے اور اُن کی صحت کے بارے میں قرآن و سنت ہی کی طرح مطمئن ہوتے تو وہ اس معاملے میں کسی تردد کا مظاہرہ ہرگز نہ کرتے۔

تاہم، جہاں تک بیش تر صحابہ کے انفرادی عمل کا تعلق ہے تو اِس سطح پر اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو اپنے فکر و عمل میں بہ طور دلیل بھی پیش کیا، شریعت کی تعبیر و تشریح میں بھی اُس سے استشہاد کیا ، اُسے اپنے اعزہ و احباب اور رفقا و تلامذہ کو منتقل بھی کیا۔

بعض صحابہ نے انھیں تحریری طور پر مرتب بھی کیا یا اپنے تلامذہ سے مرتب کرایا۔ ان میں سے جن مجموعوں کا ذکر عام طور پر ملتا ہے، وہ یہ ہیں : صحیفۂ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، صحیفۂحضرت علی رضی اللہ عنہ، الصحیفۃ الصادقہ از حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، الصحیفۃ الصحیحہ از حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (مرتبہ : ھمام بن منبہ)، صحیفۂ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ۔ ان کے علاوہ حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم اور چند دیگر صحابہ کے حوالے سے احادیث لکھ کر جمع کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔

بدقسمتی سے حدیث کے ان مجموعوں میں سے  کوئی مجموعہ بھی امت کو آگے منتقل نہیں ہو سکا۔اِس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے احتیاط کی غرض سے انھیں آگے منتقل کرنا مناسب نہ سمجھا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے اعزہ و احباب اور تلامذہ کے ذریعے سے آگے منتقل تو کیا ہو ،مگر تابعین اور تبع تابعین کے دور اور اُن کے بعد کے ادوار میں ان کی مرویات کو جامع کتب میں شامل کر لیا ہو اور اُنھیں منفرد حیثیت میں قائم رکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔

ان میں سے دوسرا امکان زیادہ قرین قیاس ہے اور اس کی ایک دلیل بیسویں صدی عیسوی میں ’’ صحیفۂہمام بن منبہ‘‘ کی دریافت ہے۔ یہ جب دریافت ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی تمام روایات اسی ترتیب سے ’’مسند احمد بن حنبل‘‘ میں نقل ہوئی ہیں۔ ’’صحیح بخاری‘‘ میں بھی مختلف عنوات کے تحت اس کی ۹۱ احادیث شامل ہیں۔  ۱۰؎

یہ بھی پڑھیں !

حدیث و سنت کی حجیت: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ ’تفہیم و تبیین ‘ سے مراد قرآن و سنت کی شرح و وضاحت کا وہ علم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین  کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم کی حیثیت سے لوگوں تک پہنچایا ۔ اِس میں شرح و فرع بھی ہے، فقہ و تفسیر بھی ہے، اجتہاد و قیاس بھی ہے اور اطلاق و انطباق بھی ہے۔ اس کے علاوہ دین پر آپ کے بہترین عمل کی تفصیل بھی ہے۔

۲؎ امام ذہبی لکھتے ہیں : 

”کتابت حدیث کی ممانعت کا مقصد قرآن مجید پر توجہ مرکوز کرانا تھا تاکہ قرآن تحریر ہو کر اور حفظ ہو کر احادیث سے ممتاز ہو جائے اورکسی التباس کا احتمال نہ رہے۔ جب یہ مقصد حاصل ہو گیا اور معلوم ہو گیا کہ قرآن کریم کے کسی اور کلام سے التباس کا شبہ باقی نہیں رہا تو احادیث لکھنے کی اجازت دے دی گئی۔“ (سیر اعلام النبلاء ۳/ ۸۱)

امام خطابی ’’معالم السنن‘‘ میں لکھتے ہیں:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی صحیفہ پر قرآن اور حدیث کو اکٹھا لکھنے سے منع فرمایا تھا ۔ مقصد یہ تھا کہ قرآن کی آیات اور احادیث باہم اس طرح نہ مل جائیں کہ بعد میں کسی قاری کو شبہ پیدا ہو جائے ۔“ (۴/ ۱۸۴)

امام محمد بن قتیبہ کہتے ہیں کہ حدیث کے لکھنے کی ممانعت اولین دور میں ہوئی، لیکن جب احادیث کی کثرت کی بنا پر ان کا حفظ دشوار ہوا تو احادیث لکھنے کی اجازت دے دی گئی (التراتیب الاداریہ ۲/ ۲۴۸)۔

ابن الجوزی فرماتے ہیں:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً یہ ارادہ فرمایا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم قرآن حفظ کرنے پر اکتفا کریں، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ احادیث کی کثرت ہو گئی ہے اور تمام احادیث کا یاد کرنا دشوار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے کی اجازت دے دی۔“ (التراتیب الاداریہ ۲/ ۲۴۸)

۳؎   اِس مضمون میں جہاں جہاں ’سنت‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، اُس سے مراد وہ دینی اعمال ہیں جو عملی تواتر سے امت کو منتقل ہوئے ہیں۔ احادیث ان میں شامل نہیں ہیں۔

۴؎ صحابۂ کرام کی اس ذمہ داری کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:’كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ‘،’’(ایمان والو، اِس وقت تو اللہ کی عنایت سے) تم ایک بہترین جماعت ہو جو لوگوں پر حق کی شہادت کے لیے برپا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتےہو‘‘(آل عمران ۳ : ۱۱۰) ۔

۵؎  حضرت رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

”ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ہم آپ سے احادیث سنتے ہیں، کیا ہم انھیں لکھ لیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، لکھ لیا کرو۔“(مسند احمد ۲/۲۱۵۔ مجمع الزوائد ۱۰۱۔ تقیید العلم ۷۲)

۶؎ صحیح مسلم بحوالہ الکفایۃ فی علم الروایۃ ۲۰۵۔

۷؎ صحیح بخاری ۴/ ۱۱۶۔ فتح الباری ۱/۲۰۴۔ عمدۃ القاری ۱/ ۱۶۰۔

۸؎ ’’ تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں حافظ ذہبی نے حاکم کے حوالے سے قاسم بن محمد کی یہ روایت  نقل کی ہے:

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: میرے والد نے ایک مجموعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ سو احادیث جمع کی تھیں۔ ایک رات میں نے دیکھا کہ آپ بار بار کروٹیں بدل رہے ہیں۔ میں نے پریشان ہو کر دریافت کیا کہ کیا آپ کو کوئی تکلیف یا پریشانی ہے۔ بہرحال صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ بیٹی ذرا احادیث کا وہ مجموعہ لاؤ جو تمھارے پاس ہے۔ آپ نے اسے آگ میں جلا دیا۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ نے اسے جلا کیوں دیا؟ فرمایا: مجھے یہ ڈر ہوا کہ کہیں میری موت آ جائے اور اس مجموعہ میں بعض ایسی احادیث بھی ہوں جو میں نے ایسے شخص سے سنی ہوں جس پر میں نے اعتماد کر لیا ہو، مگر فی الحقیقت ایسا نہ ہو اور میں اللہ کے ہاں اس روایت کا ذمہ دار ہو جاؤں۔“ (۱/ ۱۰)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے دور میں احادیث کے ضبط تحریر میں لانے کے بارے میں دیگر صحابۂ کرام سے مشورہ کیا ۔اُنھوں نے انھیں لکھ کر محفوظ کرنے کا مشورہ دیا ۔پھر وہ ایک ماہ تک اس معاملے میں استخارہ کرتے رہے، بالآخر ایک صبح صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:

”آپ سب کو معلوم ہے کہ میں نے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضبط تحریر میں لانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن میں نے پچھلی قوموں کے حالات پر نظر ڈالی تو میں نے یہ دیکھا کہ اُنھوں نے بھی کتابیں تحریر کیں۔ پھر اللہ کی کتاب کو چھوڑ کر ان کتابوں پر ٹوٹ پڑے۔ بخدا، میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کبھی کوئی آمیزش نہیں ہونے دوں گا۔“(جامع بیان العلم وفضلہ ۱/ ۷۶)

۹؎ اعمش، ابراہیم التیمی سے اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:

”اللہ کی کتاب کے سوا ہمارے پاس کوئی اور کتاب نہیں ہے، البتہ یہ صحیفہ ہے، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ صحیفہ کھول کر دکھایا۔ اس میں دیتوں سے متعلق اور اونٹ کی زکوٰۃ سے متعلق احادیث مذکور تھیں۔“ (صحیح بخاری ۴/ ۱۱۶۔ فتح الباری ۱/ ۲۰۴۔ عمدۃ القاری ۱/ ۱۶۰)

ایک مرتبہ ابو جحیفہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا:

”کیا آپ کے پاس کوئی تحریرہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، صرف اللہ کی کتاب ہے اور وہ فہم ہے جو کتاب اللہ کو سمجھنے کا ہر مسلمان کو عطا ہوا ہے اور یہ صحیفہ ہے۔ پوچھا کہ اس صحیفہ میں کیا ہے؟ فرمایا: دیت اور قیدی کو آزاد کرنے کے بارے میں احادیث ہیں اور یہ حدیث ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔“

۱۰؎ کتابت و تدوین حدیث صحابۂ کرام کے قلم سے، ڈاکٹر ساجد الرحمٰن صدیقی ۹۵۔