عید میلاد النبی، ایک غلطی کی نشاندہی۔۔۔۔۔!!

مولانا ظفر  احمد 

ربیع الاول آتے ہی خوشی کا ایک بے جا سماں بنا دیا جاتا ہے۔ہر طرف بجلی کا ضیاع کرتے ہوئے بل کہ بجلی کی چوری کرتے ہوئے اور اس سے بھی بڑھ کر بجلی کا یہ ناحق استعمال ایسے وقت میں کیا جارہا ہوتاہےجب کہ بجلی کی لوڈ شیڈںگ بھی عوام کے لئے تکلیف دہ مسئلہ ہوتی ہے۔گلیاں محلے اور چوک و چوراہے سجائے جاتے ہیں۔جھنڈیوں پر نبی کریم صلی الله عليه وسلم کا نام مبارک لکھا جاتا ہے اور یہی جھنڈیاں بعد میں گندے نالوں وغیرہ میں گرتی ہیں۔مریضوں کو تکیلف دیتے ہوئے اونچے اونچے اسپیکرز چلائے جاتے ہیں۔یہ تمام خرا بیاں اپنی جگہ، اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ ربیع الاول قمرى دورِ نبوی میں کبھی بھی کسی خوشى كا مہینہ نہیں رہا۔

"ربيع الاول اور اس كے متعلقات "کے عنوان پر میرا کوئی ایک سو سے زائد صفحات پر مقالہ ششماہی مجلہ "السیره عالمی" شماره نمبر 32 میں اور اس کے مزید متعلقہ امور مع مکمل حسابى قواعد شماره نمبر 33 میں شائع ہو چکے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کسی بھی بڑے تجارتى دينى مكتبے سے آپ کو مل جائیں گے۔


مختصراََ عرض کرتا چلوں کہ دور نبوی میں حجۃ الوداع تک قمری کی بجائے یہودی طرز پر "قمریہ شمسی" تقویم چل رهی تهی۔جسے عربوں نے کوئی دوسو سال قبل ہجرت سے اختيار كر ركها تها۔اسى كو "نسى" والى تقويم كہا جاتا تها۔ اس میں انيس قمرى سالوں ميں سال نمبر 19,17,14,11,8,6,3 تیره تيره ماه كے لیے جاتے تھے؛ تاکہ مہینے شمسی سال کے مہینوں کی طرح موسموں کے مطابق رہیں۔ خالص قمرى تقويم كے مہینے تو 32 شمسی اور 33 قمری سالوں میں تمام موسموں (گرما، سرما، بہار اور خزاں) سے گزرتے ہیں۔اس سے عربوں کی ذي القعده كے مہینے میں عکاظ اور ذوالمجاز كے میلوں کی تجارت سخت خلل پذير ہونے لگی تو انہوں نے یہودیوں سے "کبیسه" یعنی "نسی" کا تیرہواں مہینہ بعض قمرى سالوں ميں بڑھانے کا طریقه سیکها۔ان کا حج ہميشہ "قمريہ شمسى" نہ كہ قمرى ذي الحج ميں ہوا كرتا تها۔ عمرے کو وه "حج اصغر" كہتے تهے، جو ہمیشہ رجب "قمریہ شمسی" میں ہوا کرتا تها، جو مارچ کے مقابل اور ذي الحج اگست کے مقابل ہوا کرتا تها۔
محرم "قمريہ شمسى" كا بڑا حصہ ستمبر كے مقابل ھوا کرتا تھا۔رسول الله صلی الله علیه وسلم نے اس "قمریہ شمسی" تقویم کو حجة الوداع کے موقع پر منسوخ فرما كر آئنده کے لیے قمری تقویم کو رائج فرمایا۔

آپ کی ولادتِ مبارکہ کا قمری مہینہ رمضان المبارک ہے جو تیسری صدی ہجری کے "ماہر انساب و ایام" زبیر بن بکار نے بجا طور پر بیان فرمایا تھا.۔دیگر کئی متقدمین نے بھی یہی مہینہ بیان فرمایا تھا، لیکن دو تقویمی پیچیده نظام كو سمجھ نہ پانے کی بنا پر اسے نا حق "قول شاذ" قرار دے کر نظر انداز كر ديا گیا۔

اس غلطى كا آپ اسی سے اندازه لگا سکتے ہیں کہ تمام اہل سیر نے "حج ابي بكر" كو زمنی اعتبار سے مؤخر اور غزوه تبوک کو مقدم کیا ہے۔

9 ہجری کے ذي الحجہ كے مقابل عیسوی مہینہ مارچ 631ء کا ہوتا ہے۔غزوه تبوک کے مہینے اہل سیر نے رجب تا رمضان ٩ ہجرى كے بیان کیے ہیں۔اس حساب سے یہ اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے مقابل ہوئے؛ حالاں كہ بالاتفاق يہ غزوه موسم گرما کا ہے۔کھجور کی فصل پکنے کے مراحل سے گزر رہی تھی۔منافقین مسلمانون کو غزوے سے گرمی کا حوالہ دے کر روکتے تھے۔سوره توبہ میں ہے:"قالوا لا تنفروا فی الحر قل نار جهنم اشد حرا".

پس "غزوه تبوک" یقیناً مؤخر اور "حج ابى بكر" یقیناً مقدم ہے۔ اہل سیر نے غزوه تبوک کی توقیت قمريہ شمسى ميں اور حج ابى بكر كى قمرى ميں كردى۔جس سے یہ مغالطہ لگا۔

ولادتِ مبارکہ کی بالکل صحيح تاريخ 8رمضان المبارک 55 قبل "ہجرت قمری"، بہ مطابق 8 ربیع الاول 53 قبل "ہجرت قمریہ شمسی" بہ مطابق 4 نومبر 569 عیسوی جیولین بہ روز پیر کی ہے۔ 

اگر ولادت مبارکہ کا مہینہ ناحق ربيع الاول قمرى ہى قرار ديا جائے تو بھی پیر کا دن 9 ربیع الاول 53 قبل "ہجرت قمری" کو ہوتا ہے۔12 ربیع الاول کو ہر گز ہرگز نہیں ہوتا۔

آج کل تو بچے بچے کے ہاتھ میں "کیلکولیٹر" ہے۔اس سے حساب كيا جا سكتا ہے۔کسی بھی معتبر رصد گاه مثلا گرین وچ آبزر ویٹری سے قران شمس و قمر کے اوقات لئے جا سکتے ہیں اور انہیں اوقات اور حسابى قواعد كے مطابق 12 ربیع الاوّل 11 "ہجری قمری" بہ مطابق 8 جون 632 عیسوی جیولین بہ مطابق "مدنی رؤیت ھلال" آپ کی وفات کا دن ہے۔جو اہل بيت اور اصحاب کے لیے شدید ترین پهر دهرائیے شدید ترین صدمے کا دن تھا۔

اگر ہمیں واقعی الله کے رسول سے سچی محبت ہے تو بتائیے کہ 12 ربیع الاول کو خوشى منانا كيا آپ کی اور آپ کے اصحاب كى توہین اور دل آزاری نہیں ہے۔۔۔۔؟!!

الله ھم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور شیطان کے فریب سے بچائے۔آمین یا رب العالمین غیر مسلم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں اسکے تدارک کی موثر تدابیر اختیار کرنا ہمارا اولیں فریضہ ہیں تاہم ہمیں خود اپنی اصلاح بھی تو کرنی چا ہئے --ربیع الاول کے متعلق جس مقالے کا ذکر کیا گیا یے جس بھائی کی بھی مطلوب ہو اسے میسنجر اور واٹس ایپ پر مھیا کیا جا سکتا ہے --یہاں یہ یاد رہے کہ ہم یہ بحث نہیں کر رہے کہ ولادت با سعادت کا دن منانا شرعا جائز ہے یا نہیں،اگر اس کا کوئی شرعی جواز موجود ہے تو یہ سب کچھ 8رمضان المبارک کو ہونا چاہئے --اسلئے ہماری معروضات کو ہرگز فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے۔ 

---------------------------------------