اسلام کے قلب اور جگر پر حملے ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ

شروع ہی سے اسلام کے قلب و جگر اور اس کےاعصاب پر ایسے حملے ہوئے ہیں کہ دوسرا مذہب ان کی تاب نہیں لا سکتا دنیا کے دوسرے مذاہب جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں دنیا فتح کرلی تھی اس سے کم درجہ کے حملوں کو سہ نہیں سکے اور انہوں نے اپنی ہستی کو گم کر دیا۔ 

لیکن اسلام نے اپنے ان سب حریوفوں کو شکست دی ،اور اپنی اصلی شکل میں قائم رہا ایک طرف باطنیت اور اس کی شاخیں ،اسلامی روح،اور اسکے نظام عقائد کے لئے سخت خطرہ تھیں ،دوسری طرف مسلمانوں کو زندگی سے بے دخل کرنے کے لئے ،صلیبیوں کی یورش اور تاتاریوں کا حملہ بلکل کافی تھا، دنیا کا کوئی دوسرا مذہب ہوتا تو وہ اس موقع پر اپنے سارے امتیازات کھو دیتا ،اور ایک تاریخی داستان بن کر رہ جاتا ۔ 

لیکن اسلام ان سب داخلی وخارجی حملوں کو برداشت کر لے گیا،اور اس نے نہ صرف اپنی ہستی قائم رکھی بلکہ زندگی کے میدان میں نئی نئی فتوحات حاصل کیں تحریفات و تاویلات ،بدعات ،عجمی اثرات،مشرکانہ اعمال،و رسوم ،مادیت،نفس پرستی،تعیشات،الحاد و لادینیت،اور عقلیت پرستی کا اسلام پر بار ہا حملہ ہوا اور کبھی کبھی محسوس ہونے لگا کہ شائد اسلام ان حملوں کی تاب نہ لاسکے اور ان کے سامنے سپر ڈالدے،

لیکن امت مسلمہ کے ضمیر نےصلح کرنے سے انکار کردیا ،اور اسلام کی روح نے شکست نہیں کھائی ،ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے تحریفات و تاویلات کا پردہ چاک کر دیا ،اور حقیقت اسلام اور دین خالص کو اجاگر کیا ،بدعات اور عجمی اثرات کے خلاف آواز بلند کی ،سنت کی پر زور حمایت کی عقائد باطلہ کی بے باکانہ تردید اور مشرکانہ اعمال و رسوم کے خلاف علانیہ جہاد کیا ، مادیت اور نفس پرستی پر کاری ضرب لگائی ،تعیشات اور اپنے زمانے کے "مترفین"کی سخت مذمت کی ،اور جابرانہ سلاطین کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ، عقلیت پرستی کا بت توڑا اور اسلام میں نئی قوت وحرکت اور مسلمانوں میں نیا ایمان اور نئی زندگی پیدا کردی ، 

یہ افراد دماغی علمی ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اپنے زمانہ کے ممتاز ترین افراد تھے اور طاقتور اور دلآویز شخصیتوں کے مالک تھے ، جاہلیت اور ضلالت کی ہر نئی ظلمت کے لئے ان کے پاس کوئی نہ کوئی ید بیضاء تھا جس سے انہوں نے تاریکی کا پردہ چاک کردیا ، اور حق روشن ہو گیا،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو اس دین کی حفاظت اور بقاءمنظور ہے ، اور دنیا کی راہنمائی کا کام اسی دین اور اسی امت سے لینا ہے ، اور جو کام وہ پہلے تازہ نبوت اور انبیاء سے لیتا تھا اب رسول اللہ ﷺ کے نائبین اور امت کے مجددین ومصلحین سے لے گا۔ (1)

----------------
1- تاریخ دعوت و عزیمت جلد اول ص 19