"جدید " مسلم

طالب محسن 

ماہنامہ اشراق ،  نومبر 2018

( نوٹ:  بلاگر کا مضمون نگار کی رائی سے متفق ہونا لازمی نہیں )

کیا پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امتی کے لیے ’جدید‘ ہونا جرم ہے؟

اگر کسی ایسے آدمی سے یہ سوال پوچھا جائے جو اپنے پرکھوں سے پائی دینی روایت پر عامل ہے اور اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ روایت سمجھتا ہے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اِس کا جواب اثبات میں دے۔ 

دین اسلام کے ساتھ وابستگی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اِس کے علم وعمل کو اُس کی اصل صورت پر قائم رکھا جائے۔

اسلام کی اصل صورت کیا ہے؟

 عملاً اِس سے مراد وہ عقائد ، اوامرو نواہی اور مناسک ہیں جو کسی شخص یا گروہ نے اپنے آبا سے پائے ہیں اور وہ اِنھیں صحیح بھی سمجھتا ہے۔ چنانچہ بریلوی کے لیے اصل دین بریلویت ہے، دیوبندی کے لیے اصل دین دیوبندیت ہے، اہل حدیث کے لیے اصل دین اہل حدیثیت ہے اور اِسی طرح شیعہ کے لیے اصل دین شیعیت ہے۔ 

لہٰذا جب کوئی شخص کسی شخص کو متجدد کہتا یا کسی نئی فکر کو تجدد قرار دیتا ہے تو اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ ’’اپنی روایت‘‘ کو اصل کہہ رہا ہے۔ اِس نئی بات کو جدید قرار دے کر، ایک طرف وہ اپنے ضمیر کو اِس کی تردید کا جواز فراہم کرتا اور دوسری طرف اپنے ہم خیالوں سے داد وصول کرتا ہے، حالاں کہ جس نقطۂ نظر پر وہ خود کھڑا ہے، چندصدیاں پہلے وہ بھی ’’جدید‘‘ تھا۔ ’طرزجدید‘ اور ’انداز کہن‘ جیسے القاب کسی فرد کی نوک زبان اور نوک قلم پر اُس کے موقف کے اعتبار سے آتے ہیں۔ ہر فرد اپنے نقطۂ نظر کو صحیح اسلام قرار دیتا ہے اور اس کا یہ قول اُس کے اِس اعتماد کا مظہرہے کہ وہ حق پر ہے، ورنہ حقیقت اِس کے سوا کچھ نہیں کہ اُس کی راے آرا میں سے ایک راے ہے اور یہ راے درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔

یہ بات واضح رہے کہ اِس تحریر کا تعلق کارتجدید سے ہے، یعنی یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ تجدید کی ضرورت کیوں ہے؟ تجدد کا عنوان صرف اس فکر پر صادق آتا ہے جو غیر اسلام کو اسلام بنانے کی سعی کا نتیجہ ہو۔ کوئی ’’غیر اسلام‘‘ سے متاثر ہو اور اسلام کی قطع وبرید کرکے اُسے اُس کے مطابق بنادے یا غیر اسلام کو لفاظی یا استدلال کے زور پر اسلام ثابت کر دے۔ اِس شخص کا کام کارتجدد ہے۔ لیکن اسلام کے اپنے نظام استدلال میں رہتے ہوئے نئی آرا قائم کرنا تجدد نہیں ہے، یہ تجدید ہے۔ تجدید کا یہ سلسلہ اسلام کے دور اول میں جاری ہوا اور قیاس یہی ہے کہ قیامت تک جاری رہے گا۔

کسی دینی موقف کے اصل ہونے کی دلیل کیا ہے؟

اِس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ جو دینی موقف قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، وہ اصل دین ہے، لیکن روایتی مکاتب فکر اپنے جواب کو کلام الٰہی اور سنت پیغمبر تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ اِس میں فقہا کے اجماع کا اضافہ کرتے ہیں۔ اور اِس اضافے کا نتیجہ یہ ہے کہ بالفعل اجماع دین کا ماخذ بن جاتا ہے اور قرآن و سنت محض اِس کے دینی استناد کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

 اگر یہ سوال کیا جائے کہ اِس اضافے کی ضرورت کیا ہے؟ 

تو اِس کا جواب علما یہ دیتے ہیں کہ فکر وعمل کی صحت کے لیے قرآن وسنت کے اُس فہم کا التزام بھی ضروری ہے جس کی یہ امت وارث ہے۔ جس فہم کو قبول عام حاصل ہے اور امت کے اعلیٰ اذہان جس کے قائل ہیں، اُس کی صحت کے انکار کی ہر دلیل باطل ہے۔

مذکورہ نکتے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ’جدید‘ اور’اصل‘ کی کش مکش حقیقت میں متوارث فہم اور نئے فہم کی کش مکش ہے۔ اگر اِس پر یہ سوال اٹھایا جائے کہ اِس متوارث فہم کو یہ تقدس کس دلیل پر حاصل ہے کہ وہی قرآن و سنت کا حقیقی، صحیح یا اصل مفہوم ہے اور نیافہم اِس لیے مردود ہے کہ یہ متوارث فہم کے خلاف ہے اور اِس کے غلط ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ بزرگ اِس کے قائل نہیں تھے؟ تو اِس کے جواب میں بالعموم یہی کہا جاتا ہے کہ ہمارے اسلاف علم وتقویٰ کے جس اعلیٰ مقام کے حامل تھے، اُن کے کام کے بعد اب اصلاً کسی نئی فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ نئے فتاویٰ اِن کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چل کر بہ آسانی دیے جا سکتے ہیں۔

متوارث یا روایتی فہم کی حفاظت کا داعیہ پہلے پہل دور اول میں پیدا ہوا اور اِس کا ابتدائی ظہور احناف کی بعض آرا اور اندازفکر پر تنقید سے ہوا۔ یہ نقد اور رد نقد بجا طور پر اہل روایت اور اہل راے کی کش مکش کے نام سے موسوم ہے۔ احناف کی غیر معمولی فکری کامیابی کی وجہ سے ان کو امت مسلمہ میں ایک مسلمہ مقام حاصل ہے، لیکن اہل روایت کا حملہ موثر ثابت ہوا اور دور اول ہی میں احناف کو اپنی جگہ چھوڑنی پڑی اور وہ اگرچہ ایک مخصوص تفہیم پر قائم تو رہے، لیکن روایات کے باب میں اُسی بات کے علم بردار بن گئے جو اِن کے مخالفین کہہ رہے تھے، اِس فرق کے ساتھ کہ روایات کے ساتھ فقہا کے اجماع کو بھی تقدس حاصل ہے ۔ اور اِسے ’’سبیل المؤمنین ‘‘ قرار دے کر نصوص کی تائید بھی فراہم کر دی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ لڑائی بے اصل نہیں تھی۔ نصوص کے فہم کی آزادی پر کوئی قدغن نہ ہوتو نئی اور من مانی تاویلات کی راہ کھل جاتی ہے اور امت اِس شدید احساس میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اب دین کا وجود خطرے میں ہے۔ اِس کا پہلا حل یہ تھا کہ اُس روایت کو پکڑا جائے جو روایات اور آثار صحابہ وتابعین کی صورت میں محفوظ کی جارہی تھی اور اسے صحت استنباط کا معیار قرار دیا جائے۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابتدائی چار صدیاں جن میں یہ ریکارڈ مدون ہوا، فقہا کا کام اپنا لوہا منوا چکا تھا۔ لہٰذا فقہا کی اُن آرا کو ماننے پر مجبور ہونا پڑا جن کی صحت اور افادیت مسلم تھی اور اِسے ’اجماع‘ جیسے لفظ کی چھتری فراہم کی گئی اور اِس طرح محض روایت کے بجاے قیاس و اجتہاد پر مبنی آرا بھی دین کی سند سے سرفراز ہوگئیں۔

قیاس و اجتہاد جن کی بنا پر نئی آرا قائم ہوتی ہیں، اِن کا خاتمہ کیوں ممکن نہیں؟ 

اِس کے متعدد وجوہ ہیں۔ جب کسی متن یا واقعے کی کوئی تشریح یا تعبیر ہو جاتی ہے تو اِس پر سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا نئی آرا وجود میں آتی ہیں۔ اِس سلسلے کو روکنا ممکن نہیں۔ نہ کسی متن کے فہم کے عمل کو اور نہ کسی واقعے کی تعبیرنو کے عمل کو۔ 

پھر نئے حالات ہیں۔ نئے حالات نئے فتاویٰ کا تقاضا کرتے ہیں۔ نئے مسائل متن اور واقعات کی نئی تفہیم کی ضرورت پیدا کر دیتے ہیں۔ انسانی ذہن کے لیے جب نئے افق وا ہوتے ہیں تو وہ اُسی متن اور اُسی واقعے کو نئے تناظر میں رکھ کر دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کے بارے میں وہ ایک مسلمہ راے کا حامل رہ چکا ہے۔ 

جب بھی کوئی نئی راے پیدا ہوتی ہے تو اِس کا سبب خارج میں آنے والی تبدیلیاں ہی نہیں ہوتیں، بلکہ اِس کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر فکر کو تنقید کی نگاہ سے دیکھنے والے اس کے اندر اور باہر پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ تنقیدی نگاہ اس غلطی یا خلا یا کمی کو پکڑ لیتی ہے جو اِس فکر میں ہوتی ہے اور اس طرح نئی راے قائم کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح ہر فکر جب عمل کی دنیا سے متعلق ہوتی ہے تو تجربہ اُس کی کمی یا غلطی کو نمایاں کر دیتا ہے۔ چنانچہ اصلاح فکر کا تقاضا نئی راے کے وجود میں آنے کا جواز بن جاتا ہے۔ 

پھر کوئی فکر بھی مقابل افکار کے ٹکراؤ سے محفوظ نہیں۔ یہ ٹکراؤ ہر فکر کے ماننے والوں کو ایسے سوالات سے دوچار کردیتا ہے کہ نظرثانی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ اِس ٹکراؤ کے باوجود ہر مکتب فکر تبدیلی کی راہ میں بند باندھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے، لیکن اِس طرح کی کوئی کوشش کبھی بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی، البتہ ایک کش مکش ضرور برپا ہوتی ہے، لیکن پرانی راے پر اصرار کرنے والے بالآخر نئی راے کو بشرط صحت اُس کی جگہ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

کوئی مکتب فکر بھی تبدیلی کے اِس عمل سے محفوظ نہیں رہا۔ احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ، اِسی طرح اہل کلام اور اہل تصوف اور اِسی طرح دین کو ایک کل کے طور پر دیکھنے والے ابن تیمیہ ، غزالی اور شاہ ولی اللہ جیسے مفکرین کے متبعین بھی ہمارے زمانے تک آتے آتے کئی تبدیلیوں سے گزر چکے ہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ قرآن کی ایسی تفسیر کر دی جائے کہ جس سے اختلاف کا کوئی امکان باقی نہ رہے اورفقہ کے احکام اِس طرح متعین کر دیے جائیں کہ اختلاف کرنا محض حماقت قرار پائے؟  

امت کی فکری تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔

 کیا یہ ممکن تھا کہ امت دور صحابہ یا دور اول ہی کے فکر وعمل کو بے کم وکاست اپنائے رکھتی اور فکر و عمل میں کسی تبدیلی کو راہ نہ دیتی؟

 تبدیلی کے عمل کے مطالعے ہی سے بادنیٰ تعمل یہ واضح ہے کہ ہر تبدیلی اپنا کوئی نہ کوئی جواز رکھتی ہے۔

ہماری ہر گز یہ مراد نہیں ہے کہ انحرافات اور بدعات کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ یا ہر نئی تفسیر اور ہر نیا تفقہ صحت کا حامل ہوتا ہے۔

 مشکل یہ ہے کہ صحت فکر کا معیار کیا ہے؟ 

اِسے طے کیے بغیر کوئی فتویٰ کارگر نہیں ہو سکتا۔ کسی فکر کوتجدد کی گالی دے کر اس کی راہ روکنا ممکن نہیں ہے جب تک اس فکر میں اگر کوئی انحراف ہے تو اس کو نمایاں اور ثابت نہ کر دیا جائے۔

نکتہ وہی ہے کہ وہ کیا حدود وشرائط ہوں جو صحیح فہم کی ضمانت ہوں؟ 

کیا جو بات روایات میں ہے، وہ معیار ہے؟ 

کیا دور اول میں پیدا ہو جانے والا عمومی اتفاق پیمانہ ہے یا قرآن مجید کا لغت و نحو اور سیاق و سباق جیسے وسائل سے سمجھنے کا طریقہ کفایت کرتا ہے؟

اِ س کا طریق کار یہ ہے کہ عقل و نقل کے دلائل سے پہلے یہ متعین کیا جائے کہ دین کے ماخذ کیا ہیں؟ 

پھر یہ طے کیا جائے کہ یہ ماخذ کس طرح باہم مربوط ہیں؟ 

پھریہ واضح کیا جائے کہ اِن کے فہم اور ان سے استنباط کا طریق کیا ہوگا؟ 

اور پھر عقل ونقل کے دلائل سے یہ ثابت کیا جائے کہ یہی طریق درست ہے۔ اِسی طرح انسان جس کے لیے یہ دین ودیعت ہوا ہے، جب تک اُس کی ذاتی اور سماجی ضروریات متعین نہ ہوں اور پھر دین کا اُن سے تعلق واضح نہ کیا جائے، فہم دین کا کوئی منصوبہ مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امت کا کوئی ایک فرد یہ تمام کام نہیں کر سکتا ۔ امت کے تمام افرادکار مل کرہی یہ ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔

دور جدید کیا ہے؟ 

یہ سماج اور فرد کی سطح پر بڑی تبدیلیوں کا نام ہے۔

جدید ریاست: 

اِس کی بنیاد اور اہداف اُس ریاست سے بالکل مختلف ہیں جن پر خلافت راشدہ قائم ہوئی تھی۔ یہ ریاست ان اہداف اور مبادی سے بھی مختلف ہے جوبنو امیہ،بنو عباس اور سلاطین کی ریاستوں کے رہے ہیں۔ شہریوں کے حقوق کا تصور ہی نیا ہے، اس وجہ سے ریاست اور فرد کے تعلق کی نوعیت ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ جدید قانون کی اخلاقیات اور وجود پذیری کا عمل اس قانون سے مختلف ہے جو ہمارے ہاں صدیوں تک رائج رہا۔

سماج کی تعمیر جن اصولوں پر ہو گئی ہے، اس کا تعلق اب مذہب سے کسی بھی معاشرے میں عنقا ہے۔ فرد کا اپنی ذات اور اپنے خاندان سے تعلق بھی نیا ہے اور پرانی تمام نسبتیں اپنی بقا کی جنگ ہارتی جارہی ہیں۔ مرد کی برتری کے اسباب ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ بیوی کی ذمہ داریاں سکڑتی جا رہی ہیں۔ باپ کا رول محض ایک مددگار کے روپ میں ڈھلتا جا رہا ہے۔

امت مسلمہ صدیوں تک روحانی اہداف کو آئیڈیل بنائے ہوئے تھی۔ یہ سب کچھ اب اپنی تاثیر کھو چکا ہے۔ اہل مذہب جب دین کی ایمانیات، دین کے اہداف ، دین کے مطلوب فرد اور دین کی مطلوب ریاست کو بیان کرتے ہیں تو وہ زمین ہی موجود نہیں ہے جو اِس تخم کے قرار ونمو کے لیے اپنی گود پیش کرے۔ 

’جدید‘ مسلم اِس دنیا میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ اُس کے اختیار میں نہیں کہ وہ اپنے گرد کی دنیا کو بدل کر پرکھوں کا معاشرہ واپس لے آئے۔اسے ان سوالات کے جواب چاہییں:

1- پہلا یہ کہ اس کا دین صرف فقہ کے احکام اور عبادت کے طریقوں تک محدود ہے یا اس کے مطالبے اس سے زیادہ ہیں؟

2- دوسرا یہ کہ عورت کے لیے جو امکانات پیدا کر دیے گئے ہیں، کیا یہ دین کے خلاف ہوا ہے یا دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے؟

3- تیسرا یہ کہ دنیا فرد کی راے اور عمل کی جس آزادی کی علم بردار ہے، کیا یہ درست ہے یا ’’حق‘‘ کا نفاذ ہرحال اور ہر طریقے سے کرنا ضروری ہے؟

4- چوتھا یہ کہ ریاست کے نظریاتی اہداف کا باب بند ہو چکا۔ دینی ریاست کا قیام صرف مذہبی جبر کے لیے اختیار حاصل کرنے کی کاوش ہے۔ کیا اسلامی ریاست موجود ریاست کے دروبست کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتی ہے؟

5- پانچواں یہ کہ معیشت کی اصل سرگرمیاں اب فرد سے مختلف اداروں یا کاروباری کمپنیوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہیں؟ زراعت، تجارت اور صنعت و حرفت کے تمام طریقے نئے ہیں۔ روپے کی گردش کی صورتیں بدل گئی ہیں۔ معیشت ہی اب سماج کی بیخ و بن اور برگ وثمر کا تعین کر رہی ہے۔ کیا فقہ کے ابواب بیع وشرا کفایت کریں گے؟  کیا ہمارا دینی ذہن معیشت کے نئے وا ہونے والے افقوں کا ادراک رکھتا اور اِس میں قانون سازی کے لیے صحیح مہارت کا حامل ہے؟

6- تعلیم نے جو صورت اختیار کر لی ہے۔ علم جس رنگ وروپ میں معاشروں کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے، کیا اہل اسلام کو اِس کا ادراک ہے اور کیا اُن کے روایتی نظام تعلیم کا فلسفہ اور اہداف اتنی جان رکھتے ہیں کہ نئی تعلیمی اور علمی باد مخالف کا مقابلہ کر سکے؟ کیا وہ خود اِک سیل ہے جو اِس سیل کو تھام لے؟

ہمارا روایتی علم بہت سی چیزوں کو جواز فراہم کرنے کا کام کر رہا ہے۔ اِس کے لیے اُس کے پاس فن افتا کا ہتھیار ہے۔ وہ اس پورے کینوس کو دیکھے بغیر فتاویٰ دے رہا ہے۔

 جدید اہل علم کا ایک طبقہ جدید دور کی کامیابیوں کو عین اسلام کے مقاصد سے ہم آہنگ سمجھتا ہے اور فقہ اور حدیث میں پائی جانے والی عدم مناسبتوں کو دور کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔ 

دوسرا طبقہ مذہب کو فرد کا معاملہ قرار دیتا ہے اور دنیا کے امور کو انسانی عقل سے حل کرنے کا قائل ہے۔ذرا تامل سے دیکھیں تو تینوں طبقات عملاً ایک ہی موقف پر کھڑے ہیں۔ 

اِس فضا میں جدید اور روایتی کا فرق محض لباس کا فرق ہے۔ کار تجدید یہ ہوگا کہ اسلام کے یہ تمام خادم اُن سوالوں کے جواب دیں جو اِس وقت اہل اسلام کو درپیش ہیں ۔ ہم دین سازی اور غیر اسلام کو اسلامیانے کی ہر کاوش کو مردود قرار دیتے ہیں، لیکن دور حاضر کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے جن مجددین کی ضرورت ہے، اس کا شعور تو ہمیں ہونا چاہیے۔

____________