محمد اسلم
کیلنڈر کے استعمال سے آج کون واقف نہیں۔ غالباً زندگی کے ہر شعبے اور معاملے سے کیلنڈر کا گہرا تعلق ہے۔ اگرچہ ابھرتے ڈھلتے سورج اور گھٹتے بڑھتے چاند کی شکل میں قدرت نے وقت کی پیمائش کا ذریعہ انسان کو عطا کیا ہے لیکن ان قدرتی گردشوں کا وقفہ کافی چھوٹا ہوتا ہے اور لمبے عرصوں کو ناپنے کے لیے یہ پیمانہ ناکافی ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قدیم تہذیب کی ان قوموں میں کیلنڈر کا ذکر زیادہ ملتا ہے جنہوں نے علم نجوم میں مہارت حاصل کی تھی۔ زمین اور سیاروں کی گردش اور اس کے اثرات کو قدیم انسان نے محسوس کیا تھا اوراسی مشاہدے کے بنا پر کیلنڈر کی بنیاد رکھی گئی۔
کیلنڈر کو دن، ماہ اور سال میں تقسیم کیا گیا۔ دن کو زمین کے محور کی گردش سے ناپا جاتا ہے۔ اسی گردش کی بدولت کائنات میں رات اور دن کے چکر چلتے ہیں۔ زمین کا جو رخ سورج کے سامنے ہوتا ہے، ان حصوں میں دن ہوتا ہے اور بقیہ حصوں میں رات۔ اسی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں رات اور دن کے مختلف اوقات ہوتے ہیں۔ جب انسان نے رات اور دن کی گردش کو محسوس کیا تو اس کے سامنے دو راستے تھے۔ یا تو دن کو پیمانۂ وقت بناتا یا رات کو۔ لیکن کیلنڈر کا سب سے چھوٹا پیمانہ دن کو ہی بنایا گیا اور آج تک یہی پیمانہ رائج ہے۔
ہم ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ سال میں 365 دن ہوتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ 365 راتیں ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف اقوام میں دن کے شروع ہونے کے اوقات مختلف تھے۔ مثلاً بابل کے قدیم باشندے سورج کے طلوع کے وقت سے نیا دن مانتے تھے جبکہ یونانی اور مصری شہریوں کا نیا دن سورج غروب ہونے سے مانا جاتا تھا۔ مصر اور روم کے ممالک میں آج کے دور کی مانند، درمیان رات کے بعد سے نیا دن مانا جاتا تھا۔
دن کے طے ہونے کے بعد اس کو مزید بڑے پیمانے میں تبدیل کرنے کی غرض سے دنوں کے گروپ بنائے گئے جن کو ہفتہ یا ویک کا نام دیا گیا۔ مگر یہ ہفتہ آج کی طرح شروعات میں سات دن کا نہیں ہوتا تھا۔ کچھ افریقی قبائل میں ہفتہ چار دن کا ہوتا تھا۔ مرکزی ایشیائی ممالک میں پانچ دن کا ہوتا تھا تو مصری علاقوں میں دس دن کا۔ غرض اس طرح مختلف اقوام نے ہفتے کو تو رائج کر لیا تھا لیکن اس کی مدت یکساں نہیں تھی۔ سات دن کے ہفتے کا وجود بھی علم نجوم سے وابستہ ہے اور اس کی بنیاد کچھ تو سات سیاروں پر ہے اور کچھ چاند کے سات دن کے چکر پر۔ بابل میں سیاروں کی تعداد سات ہونے کی وجہ سے سات کے ہندسے کو بڑا تقدس حاصل تھا۔ اسی لیے وہاں سے سات دن کا ہفتہ رائج ہوا۔
درحقیقت انگریزی میں دنوں کے نام بھی سیاروں کے ناموں کی مناسبت ہی سے پائے جاتے ہیں۔ اتوار یعنی سَن ڈے کا تعلق سَن یعنی سورج سے ہے۔ پیر یعنی من ڈے کا متعلق چاند یعنی مون سے، منگل کا مریخ یا مارس سے، بدھ کا عطارد یا مرکری سے، جمعرات کا مشتری، جمعہ کا زہرہ اور ہفتہ کا زحل سے ہے۔ ہفتے میں سات دن رکھنے کا یہ سلسلہ پہلی صدی قبل مسیح تک پوری طرح رائج ہو چکا تھا۔
چونکہ انسان نے یہ محسوس کیا تھا کہ چاند اور سورج کی گردش اور اشکال سے وقت کی پیمائش ہو سکتی ہے اس لیے شروع ہی سے دو قسم کے کیلنڈروں کی بنیاد پڑی، قمری اور شمسی کیلنڈر۔ شمسی کیلنڈر کی بنیادی موسموں کے دور پر رکھی گئی تھی جو شمسی سال کی عکاسی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک موسم سرما سے دوسرے موسم سرما تک۔ اس طرح کی پیمائشوں سے شمسی طوالت 365 اور چوتھائی دن نکلی۔ یعنی اس مدت میں زمین سورج کا ایک چکر مکمل کرتی ہے۔ قدیم مصری اور مایا کیلنڈر اور آج کا جدید کیلنڈر شمسی سال ہی پر منحصر ہے اور اس میں سال کے12 ماہ بنائے گئے جو شمسی دوروں پر طے کیے گئے تھے۔
--------------------------------
روز نامہ دنیا ، 1 دسمبر 2018ء