امام داؤد ظاہریؒ

داود بن علی بن خلف ظاہری (201ھ – 270ھ — 815ء – 883/4ء) تاریخ اسلام کے سنہری دور کے ایک  مفسر، محدث اور مورخ تھے۔ داود ظاہری کا شمار اہل سنت کے علمائے مجتہدین میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرت کی اصل وجہ فقہی مذاہب میں ایک نئے منہج یا مسلک یعنی فقہ ظاہری کی تشکیل ہے۔

 ان کو  ظاہری کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ قرآن و سنت کے ظاہر ہی کو قابل اعتبار خیال کرتے اور ان میں کسی قسم کی تاویل، یا قیاس آرائی کوغلط سمجھتے تھے۔

 تاریخ اسلام میں داود ظاہری پہلے عالم ہیں جنہوں نے سب سے پہلے علانیہ اس مسلک کو اختیار کیا۔ فقہ ظاہری کو اہل سنت کا پانچواں فقہی مکتب فکر بھی سمجھا جاتا ہے تاہم انہوں نے کبھی خود کو اس حیثیت سے پیش کیا اور نہ ان کے پیروکاروں نے اپنے مکتب فکر کے بانی کو اس نظر سے دیکھا۔ گوکہ انہیں متنازع شخصیت سمجھا جاتا ہے لیکن مورخین لکھتے ہیں کہ داؤد ظاہری کو ان کے عہد میں خاصی مقبولیت حاصل تھی، حتیٰ کہ بعض مورخین نے انہیں "محقق دوراں" کے لقب سے بھی یاد کیا ہے۔ ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں: وہ اصفہانی کے لقب سے معروف تھے کیونکہ ان کی والدہ کا وطن اصفہان تھا نیز ان کے والد حنفی تھے۔


حالات زندگی

داؤد ظاہری کی اصل جائے پیدائش پر مورخین کا اتفاق نہیں ہے۔ عموما انہیں ایرانی شہر اصفہان سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسی لیے متعدد کتابوں میں انہیں "داود اصفہانی" بھی لکھا گیا ہے۔ ابن حزم اندلسی اور شمس الدین ذہبی وغیرہ نے اس انتساب کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درحقیقت ان کی والدہ کا تعلق اصفہان سے تھا جبکہ داود ظاہری عراقی نژاد تھے اور عراقی شہر کوفہ میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ ایگناز گولڈزیہر نے بھی اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ وہ کوفہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا کہ ان کے والد عباسی خلیفہ مامون الرشید کی جانب سے کاشان میں دیوانی ملازمت پر مامور تھے۔ کاشان اصفہان کے قریب واقع ایک چھوٹا ایرانی شہر ہے۔


تعلیم

ابتدائی عمر ہی میں داود ظاہری کوفہ سے بغداد آگئے تھے۔ یہاں اس دور کے معروف علما ابو ثور، یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل وغیرہ سے تفسیر قرآن اور علوم حدیث کی تعلیم حاصل کی۔  ان معروف شخصیتوں سے جو علم انہوں نے حاصل کیا تھا وہ ان کے والد (جو فقہ حنفی کے پیروکار تھے) کے افکار و نظریات سے یکسر متصادم تھا۔ معروف ہندوستانی مصلح اور محقق چراغ علی لکھتے ہیں کہ درحقیقت فقہ ظاہری فقہ حنبلی کی طرح حنفی مکتب فکر کا رد عمل تھا۔

بغداد میں اپنی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد داود ظاہری مزید تعلیم کے لیے خراسان کے شہر نیشاپور روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر اسحاق بن راہویہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے۔ اسحاق بن راہویہ اس دور میں اہل سنت کے بڑے امام اور سنی علوم کے امین سمجھے جاتے تھے۔ ابو الفرج ابن جوزی لکھتے ہیں کہ تاریخ اسلام کے عالم اجل اسحاق بن راہویہ سے حصول علم کے دوران میں ظاہری نے مذہبی موضوعات پر ان سے مباحثہ کیا تھا جس کی ہمت کبھی کسی نے نہیں کی۔ اثنائے درس راہویہ نے شافعی پر تنقید کی تو ظاہری نے جواباً عرض کیا کہ اس موضوع پر آپ شافعی کے موقف کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔ تاہم احمد بن حنبل نے جو خود بنفس نفیس اس مباحثے کے وقت وہاں حاضر تھے، اسحاق بن راہویہ کو درست قرار دیا۔

ابتدا میں داؤد ظاہری فقہ اور اصول میں شافعی کے پیروکار تھے چنانچہ انہوں نے فقہ شافعی کے اصولوں میں توسیع بھی کی۔ اس تاثر کی وجہ غالباً ابن راہویہ ہی تھے۔ فقہ شافعی اور بعد ازاں خود اپنی فقہ کے تئیں ان کی "جنونی" حمایت یا تصَلّب کو بیان کرتے ہوئے دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے محققین لکھتے ہیں کہ داود ظاہری کی فقہ درحقیقت فقہ شافعی کی یک رخی تفسیر ہے جس میں انہوں نے استنباط مسائل کے لیے اجماعِ فقہا کے شافعی نقطہ نظر کو رد کرتے ہوئے اسے قیاس کی ایک شکل قرار دیا۔

اساتذہ

داود ظاہری کے چند مشہور اساتذہ کے نام حسب ذیل ہیں:

سلیمان بن حرب
عمرو بن مرزوق
قعنبی
محمد بن کثیر عبدی
مسدد بن مسرہد
اسحاق بن راہویہ
ابو ثور لمبی
قواریری

تدریس

نیشاپور میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد داود ظاہری واپس بغداد آگئے اور یہاں خود اپنا حلقہ درس قائم کیا۔ان کے شاگردوں کی درست تعداد کے سلسلے میں مورخین کا اختلاف ہے لیکن یہ متفق علیہ ہے کہ ان کی شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، جو شاگرد ان کی روزانہ مجلس میں مستقل حاضر ہوتے تھے ان کا اندازہ چار سے پانچ ہزار کے درمیان میں لگایا گیا ہے۔  جلد ہی ان کی شہرت بغداد سے نکل کر عالم اسلام کے دوسرے شہروں میں بھی پہنچ گئی اور ہر جگہ کے بڑے علما مذہبی موضوعات پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کرنے لگے۔گوکہ داود ظاہری کے دور میں بھی ان کے افکار و نظریات کو تسلیم نہیں کیا گیا لیکن ان کے معاصرین نے انہیں کبھی فتویٰ جاری کرنے سے روکا اور نہ منصب تدریس سے معزول کرنے کی کوشش کی۔ ان کے  تلامذہ میں محمد بن داود ظاہری، احمد بن حنبل کے فرزند عبد اللہ، محمد بن جریر طبری، نفطویہ اور رویم بن احمد قابل ذکر ہیں۔ نیز داود ظاہری قاضی عبد اللہ القیسی کے بھی استاد تھے جنہوں نے اندلس میں فقہ ظاہری کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تلامذہ

داود ظاہری کے چند مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں:

محمد بن داؤد ظاہری
زکریا ساجی
یوسف بن یعقوب داودی
عباس بن احمد مذکر

وفات

رمضان کے مہینے میں بغداد میں ان کی وفات و تدفین ہوئی۔ عیسوی تقویم کے حساب سے ان کا سنہ وفات مختلف فیہ ہے۔ مورخین کے یہاں 883ء اور 884ء دونوں سنین ملتے ہیں۔

افکار و نظریات
عقیدہ
داود ظاہری کے کلامی مکتب فکر کے متعلق ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ وہ اثری تھے اور خدا کی ذات میں غور کیے بغیر اس کی تمام صفات کے قائل تھے۔ بارہویں صدی عیسوی کے مورخ مذاہب عبدالکریم شہرستانی نے احمد بن حنبل اور سفیان ثوری کے ساتھ داود ظاہری کا ذکر کیا اور لکھا ہے کہ اہل سنت کے ان علما نے خدا کی ذات والا صفات کی تاویلی اور تشبیہی تعبیرات کو مسترد کر دیا تھا۔ نیز ابن تیمیہ اور شہرستانی دونوں نے داود ظاہری اور ان کے تلامذہ کو ابن حنبل، سفیان ثوری، ابو ثور، الماوردی، شافعی اور ان سب کے تلامذہ کے ساتھ طبقہ اہل حدیث میں شمار کیا ہے جو اہل الرائے کا مخالف مکتب فکر سمجھا جاتا ہے۔

مذہبی متون کی اساسی طبیعت میں غور و فکر نہ کرنے اور ان کے ظواہر پر عمل کر لینے کے رجحان نے داود ظاہری کو بھی متاثر کیا۔ دیگر علما و فقہائے اسلام کی طرح داود ظاہری بھی قرآن و سنت کو اسلامی شریعت کے اولین مآخذ قرار دیتے ہیں لیکن داود ان کے بیانات کو ظاہری معنوں پر محمول کرتے اور قیاس سے سخت اجتناب برتتے ہیں۔ نیز استنباط مسائل میں وہ قرآن و سنت کو چند مخصوص حالات (جن کا مفصل ذکر ان کتاب میں ملتا ہے) ہی میں قابل انطباق خیال کرتے ہیں۔

قیاس

داود ظاہری نے فقہ میں استنباط مسائل کے لیے قیاس کو یکسر مسترد کر دیا ہے، انہوں نے نہ صرف اسے مسترد کیا بلکہ اسے بدعت اور شرعا اسے ناجائز فعل قرار دیا۔ قرآن و سنت کے احکام و نواہی پر ان کی رائے کے متعلق سخت متضاد بیانات ملتے ہیں۔ مورخین اور سوانح نگاروں نے ان تمام متضاد بیانات کا ذکر کیا ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ داود ظاہری ان احکام کو انہی احوال تک محدود سمجھتے ہیں جن میں وہ احکام دیے گئے، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ بیان کردہ احوال کی مناسبت سے وہ ایک عمومی اصول تشکیل دیتے اور اسے منطبق کرتے ہیں۔

اجماع

داود ظاہری کے یہاں اجماع قابل اعتبار لیکن مشروط ہے یعنی یہ اجماع محض اصحاب رسول کا ہونا چاہیے، ان کے بعد آنے والی تمام نسلوں کا اجماع لغو ہے۔ اس مسئلے میں داؤد الظاہری کا مسلک درحقیقت ان کے پیشرو احمد بن حنبل اور ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق ہے۔

ماہیت قرآن

گوکہ داود ظاہری نے احمد بن حنبل سے علم حدیث حاصل کیا لیکن قرآن کی ماہیت پر ان کا اپنے استاد سے سخت اختلاف تھا۔ داود ظاہری کے نزدیک قرآن ایک "محدث" یعنی حال میں وقوع پزیر ہونے والی شے ہے۔ احمد بن حنبل کو اس موقف سے سخت اختلاف تھا۔ قبل ازیں ظاہری کا شافعی کے معاملے میں اسحاق بن راہویہ سے اختلاف ہوا، اس موقع پر جب احمد بن حنبل نے انہیں شافعی کا دفاع کرتے دیکھا تو انہوں نے ان تمام افراد سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے جو ظاہری کے ساتھی تھے یا مذہبی امور میں ان سے رجوع کرتے تھے۔ نیز قرآن کے متعلق ظاہری کے اس بیان کے سلسلے میں ایک افواہ بھی گشت کرنے لگی جس نے جلتی آگ میں تیل کا کام کیا اور اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہو گئی۔ شامی محدث ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ یہ تنازع اصلاً محض تعبیری تھے جو داود ظاہری (جن کا کہنا تھا کہ خدا کا کوئی ہمسر نہیں)، جہمیہ اور معتزلہ (جن کا اعتقاد تھا کہ قرآن مخلوق ہے) کے بیان سے پیدا ہوئے۔

نیز داود ظاہری، ابن حنبل، شافعی، اسحاق بن راہویہ، طبری، مالک بن انس، سفیان ثوری، عبد الرحمن اوزاعی، ابو حنیفہ، ابن خزیمہ، عبد اللہ ابن مبارک، دارمی اور بخاری - جیسا کہ ابن تیمیہ نے اپنے عہد تک ائمہ اسلام کے نام شمار کرائے ہیں - ان تمام حضرات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے لیکن اس وقت ایک تعبیری غلط فہمی رونما ہوئی جب داود ظاہری، بخاری اور مسلم بن الحجاج نے اللہ اور قرآن کے درمیان میں امتیاز برتنے کے لیے قرآن کے حق میں "حادث" کی تعبیر استعمال کی۔ اس کے برخلاف عام مسلمانوں اور بیشتر ائمہ اسلام کا موقف یہ تھا کہ قرآن خدا کا بلا استعارہ حقیقی کلام ہے جبکہ مذکورہ تین حضرات کا کہنا تھا کہ خدا کا کلام اس کی ایک صفت ہے۔

موجودہ دور کے بعض علما کا موقف یہ ہے کہ داود ظاہری کے متعلق حدوث قرآن کی روایت میں ضعف ملتا ہے اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کے متعلق ایسی بات کبھی نہیں کی اور نہ ان کا یہ اعتقاد رہا۔ بلکہ درحقیقت داود ظاہری کی جانب سے تقلید اور قیاس (اہل سنت کے دوسرے ممتاز مکاتب فکر کے اہم ستون) کے انکار نے ان سنی مکاتب فکر کے منتسبین کو اس امر پر برانگیختہ کیا کہ وہ ظاہری کی جانب اس غلط عقیدے کو منسوب کریں تاکہ عام مسلمان ان سے اور ان کے مکتب فکر سے بدگمان ہو کر دور ہو جائیں۔ بقول ابو عبیدہ، داود ظاہری اور ان کے تلامذہ نے تو معتزلہ اور قرآن کے بابت ان کے عقیدے کی جس شد و مد سے مخالفت کی تھی ویسی احمد بن حنبل نے بھی نہیں کی۔ اس طرح کے عقائد کی تردید میں انہوں نے تحریری رد بھی شائع کیے جن میں انتہائی درشت زبان استعمال کی گئی تھی۔

سود

داود ظاہری کا موقف ہے کہ اشیا کا مبادلہ بالمثل میں اضافہ یعنی سود کی ممنوعہ قسم کا اطلاق محض چھ اشیا پر ہوتا ہے جسے پیغمبر اسلام نے بیان کیا ہے: سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک۔ چونکہ ظاہری کے یہاں مسائل کے استنباط و تخریج میں قیاس کا استعمال ناجائز ہے اس لیے انہوں نے فقہا کے اس مسلمہ نظریہ سے انحراف کیا کہ مذکورہ نبوی بیان کا منشا دیگر تمام اشیا کو محیط ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک ان مذکورہ اجناس کے سوا کسی اور شے میں اضافہ کے ساتھ مبادلہ بالمثل سود نہیں۔ اگر پیمغبر اسلام ان اجناس کے علاوہ دیگر اشیا کو بھی اس فہرست میں شامل کرنا چاہتے تو انہیں بیان کرتے، ان چھ کے بیان کا مقصد ہی یہ ہے کہ مبادلہ بالمثل میں سود صرف انہی اشیا میں منحصر ہے اور مسلمان دوسری اشیا کے حسب مرضی لین دین میں آزاد ہیں۔

زنانہ لباس

امام شوکانی ؒ  نے لکھا ہے کہ امام داود ظاہری مسلمان خواتین کے لیے نقاب کو فرض کی بجائے مستحب خیال کرتے تھے، ان کا موقف یہ تھا کہ مسلمان خواتین چہرہ کھول سکتی ہیں البتہ بدن کے دوسرے اعضا ڈھکے رہنا ضروری ہے۔ ابو حنفیہ اور احمد بن حنبل کا بھی یہی موقف ہے۔

سفر
رمضان کے مہینے میں اگر کوئی مسلمان روزے کی حالت میں اپنا سفر شروع کرے توامام  ظاہری کے نزدیک وہ اپنا اس دن کا روزہ توڑ سکتا ہے۔ یہی موقف ابن راہویہ اور ابن حنبل کا بھی ہے۔ ظاہری کے اس موقف کی دلیل قرآن کی وہ آیت ہے جس میں مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت اور سفر ختم ہونے کے بعد ان کی قضا کر لینے کی ہدایت موجود ہے۔ البتہ ظاہری کے موقف میں مزید یہ شق بھی قابل ذکر ہے کہ اگر کسی مسلمان مسافر نے دوران سفر میں روزے رکھے تب بھی سفر سے واپسی پر ان روزوں کی قضا لازم ہوگی کیونکہ مذکورہ آیت میں روزہ نہ رکھنے کی ہدایت محض رخصت نہیں بلکہ حکم خداوندی ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔

دوران سفر میں بیشتر مسلمان نمازوں میں قصر بھی کرتے ہیں۔ فقہا کے درمیان "سفر شرعی" (جس سفر سے روزہ چھوڑنے کی رخصت اور نمازیں قصر کرنے کی اجازت حاصل ہو جائے) کی مدت اور مسافت موضوع بحث رہے ہیں۔ اس مسئلے میں ظاہری کا موقف یہ ہے کہ شریعت میں مدت اور مسافت سے قطع نظر ہر قسم کے سفر میں نمازیں قصر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

تصنیفات

امام داود ظاہری کثیر التصانیف تھے۔  مورخ ابن ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں ظاہری کی 157 تصنیفات کے نام درج کیے ہیں جن میں سے بیشتر اسلامیات سے متعلق ہیں۔ بعض کتابیں بہت طویل اور ضخیم بھی ہیں جن میں شرعی نقطہ نظر اور تمام مکاتب فکر کے موقف شرح و بسط سے مذکور ہیں۔ نیز ظاہری محمد بن ادریس شافعی کے سب سے پہلے سوانح نگار سمجھے جاتے ہیں ابن ندیم اور ابن عبد البر کا بیان ہے کہ ظاہری کی تحریر کردہ یہ کتاب نہ صرف شافعی کی پہلی سوانح عمری تھی بلکہ کسی فقیہ کی جانب سے لکھی جانے والی پہلی سوانح عمری بھی تھی۔ تاہم ان کی کتابیں دست برد زمانہ کی نذر ہو گئیں اور ہم تک پہنچ نہ سکیں۔

ابن ندیم نے مزید لکھا ہے کہ شافعی کی الرسالہ کے بعد اہل سنت کے یہاں ابن حنبل اور ظاہری ہی بڑے مصنف گزرے ہیں جنہوں نے فقہ اسلامی کے اصول پر مفصل کتابیں تصنیف کیں۔ ظاہری نے تقلید، قرآن کی عام اور خاص آیتوں کے فرق، شریعت کے مجمل و مفصل احکام کے فرق اور شافعی کے ساتھ اپنے تجربات جیسے موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ عصر حاضر کے محققین نے اصول پر ان کی تصنیفات کی حسب ذیل زمرہ بندی کی ہے:

مشروط اجماع، عدم جواز تقلید، عدم جواز قیاس، خبر آحاد، خبر متواتر، ادلہ محکمہ، خاص بمقابلہ عام اور مفصل بمقابلہ مجمل۔ یہ تمام زمرے یا ابواب اور شاید ان میں موجود معلومات ابتداً عہد فاطمی کے مصنف قاضی نعمان کی کتاب میں محفوظ ہوئے، نیز فقہ ظاہری کے عالم ابن حزم اندلسی نے بھی اپنی کتاب المحلی میں جا بجا داود ظاہری کی کتابوں سے اقتباس نقل کیے ہیں۔

معاصرین کی آرا

گوکہ ظاہری کے نظریات و افکار متنازع تھے اور آج بھی سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کا کردار اجلے کپڑے کی مانند اور تقویٰ مسلم تھا۔ خطیب بغدادی، سیوطی، البانی، ذہبی، نووی اور طبری نے متفقہ طور پر ان کے بلند اخلاق، تواضع اور کسر نفسی اور شخصی خصائل حمیدہ کا ذکر کیا ہے۔

سنی نقطہ نظر

اگرچہ موجودہ دور میں فقہ ظاہری کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہے جو دیگر چار مکاتب فکر کو حاصل ہے۔ تاہم فقہ ظاہری اپنے عہد میں ایک اہم مکتب فکر سمجھا جاتا تھا اور اس کا دائرہ اثر عراق ، جزیرہ نما آئبیریا، جزائر بلیبار، شمالی افریقا اور جنوبی ایران تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کے ہم عصر ناقدین بھی جب ان کے افکار پر نقد کرتے ہیں تو ساتھ ہی ان کی فہم اور علمی سطح کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتے۔ حتیٰ کہ ذہبی نے تو انہیں "محقق دوراں" کے خطاب سے نوازا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ بغداد میں علمی ریاست ظاہری پر ختم ہوتی ہے۔ جب طبری سے کسی نے ابن قتیبہ دینوری کی کتابوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ان کی کتابیں کچھ نہیں ہیں، ان کی بجائے اصحاب الاصول کی کتابیں پڑھیں جن میں سب سے پہلے شافعی اور ظاہری کے نام لیے اور بعد ازاں ان کے معاصرین کے۔

اہل سنت کے دوسرے مکاتب فکر نے بھی ظاہری کے رد قیاس پر خاصا نقد کیا ہے۔ شافعی کے ابتدائی پیروکاروں نے عموماً اپنے سابقہ ہم درس کے متعلق منفی نقطہ نظر قائم کر لیا تھا۔ چنانچہ شوافع میں خصوصاً امام الحرمین جوینی نے ظاہری پر سخت تنقیدیں کی ہیں۔ تاہم ایسے بہت سے شوافع بھی گزرے ہیں جنہوں نے ان کے بعض نظریات سے استفادہ کیا اور انہیں اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ذہبی نے ظاہری اور ان کے متبعین کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ جس طرح جوینی نے اجتہاد کے ذریعہ اپنے نظریات قائم کیے تھے اسی طرح ظاہری نے بھی کیا۔ نیز ابن الصلاح نے بھی ظاہری کے افکار اور ان کی فقہ کا دفاع کیا ہے اور ساتھ ہی اہل سنت کے ان علما کی فہرست بھی نقل کی ہے جو ظاہری کی آرا کو اجتہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔

شیعی نقطہ نظر
اہل تشیع کے یہاں ظاہری اور ان کے مکتب فکر پر زیادہ نہیں لکھا گیا۔ سنہ 1970ء کی دہائی میں ایک اثنا عشری عالم عبد الکریم مشتاق نے داود ظاہری پر الزام لگایا کہ وہ تشبیہ باری کے قائل تھے اور اپنے اس دعوے کا ماخذ سنی مورخ شہرستانی کی کتاب الملل و النحل کو بتایا۔ جبکہ حقیقت میں شہرستانی نے اس کے برعکس یہ لکھا ہے کہ ظاہری ایسا عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔ شہرستانی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

سو احمد بن حنبل، داؤد بن علی اصفہانی اور ائمہ سلف کی ایک جماعت نے اپنے سے متقدم سلف اصحاب حدیث مثلاً مالک بن انس اور مقاتل بن سلیمان کے طریقے کو اپنائے رکھا اور اسی پر قائم رہے۔ ان لوگوں نے سلامتی کی روش اختیار کی اور کہا: "کتاب و سنت میں جو کچھ آیا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور یہ بات قطعی طور پر جاننے کے بعد کہ اللہ عزوجل مخلوقات میں سے کسی چیز کے مشابہ نہیں ہے اور وہ تمام چیزیں جو وہم میں آتی ہیں اللہ ان کا خالق و قادر و مقدر ہے، ہم تاویل سے کسی طرح کا تعرض نہیں کرتے۔ آیات و اخبار تشبیہ باری میں ہم کسی طرح کی تاویل کے قائل نہیں ہیں"۔ یہ لوگ تاویل سے اس حد تک احتراز کرتے تھے کہ ان کا قول ہے کہ: "جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تلاوت کرتے وقت کہ خلقت بيدي (میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا) اپنا ہاتھ ہلایا، یا یہ روایت کے وقت کہ قلب المومن بين إصبعين من أصابع الرحمن (یعنی مومن کا قلب اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے) اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کیا، تو اس کا ہاتھ کاٹنا اور اس کی دو انگلیوں کا اکھاڑ دینا واجب و ضروری ہے"۔

ظاہری کی تردید میں اسماعیلی شیعوں کا نقطہ نظر زیادہ واضح معلوم ہوتا ہے۔ النعمان نے ظاہری کے بیک وقت رد قیاس اور قبول استدلال کو نشانہ تنقید بنایا ہے اور اسی موقف کی بنا پر انہوں نے ظاہری کے فرزند اور فقہ ظاہری پر بھی تنقید کی ہے۔

معتزلی نقطہ نظر
تاویلی فلسفہ کے قائل معتزلی یا اہل اعتزال کے یہاں ظاہری اور فقہ ظاہری کے تئیں تشدد پایا جاتا ہے۔ گوکہ کچھ مشہور معتزلی شخصیات مثلاً ابراہیم نظام وغیرہ نے ظاہری ہی کی طرح قیاس کا انکار کیا ہے لیکن ساتھ ہی وہ لفظی تشریح اور اجماع کے بھی منکر ہیں نیز ان میں سے بیشتر شخصیات ظاہری کے افکار کو لغو قرار دیتی ہیں۔

 شیخ  بن باز ؒ کا نقطہ نظر 

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ سے ایک مرتبہ اس مسلک کے بارے میں  سوال کیاگیا تو انہوں نے درج ذیل جواب لکھا:
" ظاہریہ معروف مسلک ہے، جس پر امام داود الظاہری چلے تھے اسی طرح سے امام ابو محمد ابن حزم (الاندلسی) رحمہما اللہ، اور جو کوئی بھی ان دونوں جیسے اقوال کا قائل  ہے کا مسلک ہے۔ ظاہری کا معنی ہے کہ نصوص کا صرف ظاہر لینا اور اس کی تعلیل وقیاس پر نظر نہ کرنا۔ ان کے نزدیک قیاس نہيں نہ ہی تعلیل موجود ہے ۔بلکہ وہ محض اوامر ونواہی کے ظاہر کے قائل ہيں، اس کی علتوں ومعانی کو نہيں دیکھتے، چناچہ اس معنی کے اعتبارسے انہيں ظاہری کہا جاتا ہے۔

کیونکہ وہ صرف ظاہر کو لیتے ہیں اور علتوں وحکمتوں و شرعی قیاس جس پرکتاب وسنت دلالت کرتے ہیں کو نہيں لیتے۔ لیکن ان کا قول بالجملۃ محض رائے والوں اہل رائے کے قول سے بہتر ہے کہ جو اپنی آراء وقیاسات کو فیصلہ کن سمجھتے ہیں، اور کتاب وسنت کے شرعی دلائل پر توجہ دینے سے روگردانی کرتے ہيں۔

لیکن بہرحال ظاہریت کا اپنا نقصان اور ان پر مؤاخذات ہیں کہ وہ ظاہر پر بالکل جمود اختیار کرلیتے ہيں، اور ان علتوں ، حکمتوں اور اسرار کی کوئی رعایت نہيں کرتے جن پر خود شارع نے تنبیہ کی ہے اور ان کا قصد فرمایا ہے۔ اسی لیے وہ بہت سے مسائل میں غلطی کرگئے ہيں جن پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں۔

والله ولي التوفيق۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔