امام غزالی ؒ کا ایک خط

"کسی مخلص نے امام غزالی کو خط لکھا اور اس صورتِ حال ( یعنی اشعری علماء کی مخالفت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو امام صاحب کے عقائد میں شبہات پیدا ہونے لگے)  کی اطلاع دیتے ہوئے اپنی قلبی تکلیف کا اظہار کیا امام صاحب نے ان کو مفصل جواب دیا،ایک مستقل رسالہ ( فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ) کے نام سے موجود ہے، اس کے شروع میں وہ تحریر فرماتے ہیں: 

"برادرِ شفیق!حاسدین کا گروہ جو میری بعض تصنیفات (متعلق باسرار دین) پر نکتہ چینی کررہاہے، اورخیال کرتا ہے کہ یہ تصنیفات قدمائے اسلام اور مشائخ اہل کلام کے خلاف ہیں ، اور یہ کہ اشعری کے عقیدے سے بال برابر بھی ہٹنا کفر ہے، اس پر جو تم کو صدمہ ہوتاہے، اور تمہارا دل جلتاہے، میں اس سے واقف ہوں۔

 لیکن عزیزمن! تم کو صبر کرناچاہئے ، جب رسول اللہ ﷺ مطاعنِ سے نہ بچ سکے، تومیری کیا ہستی ہے؟ جس شخص کا یہ خیال ہے کہ اشاعرہ یا معتزلہ یا حنابلہ یا اور دیگر فرقوں کی مخالفت کفر ہے تو سمجھ لو کہ وہ اندھا مقلد ہے، اس کی اصلاح کی کوشش میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو، اس کو خاموش کرنے کے لئے مخالفین کا دعویٰ کافی ہے، اس لئے کہ تمام مذاہب (کلامیہ) میں اشعری سے اختلافات پائے جاتے ہیں ، اب اگر کوئی دعویٰ کرتاہے کہ تمام تفصیلات وجزئیات میں اشعری کا اتباع ضروری ہے، اور ادنیٰ مخالفت بھی کفر ہے تو اس سے سوال کرو کہ یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ حق اشعری کے ساتھ مخصوص ہے، اور انہی کی اتباع میں منحصر ہے، اگر ایسا ہے تو وہ شاید باقلانی کے کفر کا فتویٰ دیں گے ۔

    اس لئے کہ صفت بقاء میں ان کو اشعری سے اختلاف ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ ذاتِ الہی سے زائد کوئی صفت نہیں ہے ، اور پھر سوال یہ ہے کہ باقلانی ہی اشعری کی مخالف کرکے کیوں کفر کے مستحق ہیں ، اشعریؒ باقلانی سے اختلاف کی بناء پر کیوں کفر کے مستحق نہیں ، اور حق ان میں سے کسی ایک میں کیوں منحصر سمجھا جائے، اگر کہا جائے کہ اشعری متقدم ہیں ، تو خود اشعری سے معتزلہ متقدم ہیں ، تو پھر معتزلہ کو برسرِ حق ہوناچاہئے یا یہ محض علم وفضل کے تفاوت کی بناء پر ہے؟ توبتلایا جائے کی علم وفضل کا موازنہ کرنے کے لئے کون سا ترازو ہے جس کی وجہ سے ایک شخص اپنے پیشوا کو علم وفضل میں سب سے بلند مرتبہ مانتاہے ، اگر باقلانی کو اشعری سے اختلاف کرنے کی اجازت ہے تو باقلانی کے بعد آنے والے اس حق سے کیوں محروم رہیں ، اور اس میں کسی ایک شخص کی تخصیص کیوں کی جائے. (1) 

-------------------------------------

1 - "فیصل التفرقہ بین الاسلام و الزندقہ"  ۔ بحوالہ " تاریخ دعوت و عزیمت " حصہ اول ص 185-186 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ