معتزلہ اور فتنۂ خلق قرآن

معتزلہ اور فتنہ خلق قرآن 
جب یونانی اور سریانی اور قدیم فارسی  کتابوں کے تراجم مسلم ممالک میں منتقل ہوئے اور مسلمانوں کا  دیگر مذاہب کے افکار اور علماء سے سابقہ ہوا  توجلد مسلمانوں کا ایک گروہ ان سے متاثر ہوئے اس کے نتیجے میں اللہ تعالی کی ذات و صفات،  کلام الہی،  رویت باری تعالی ، اللہ تعالی کی صفت عدل و تقدیر اور مسئلہ جبر و اختیار زیر بحث آیا ۔ یہ مسائل ایسے تھے جن کا ذریعہ علم  صرف وحی الہی ہے ، انسانوں کو ان کے بارے میں کوئی علم حاصل نہیں تھا ۔ لیکن یونانی فلسفہ اور منطق سے متاثرین  نے ان مسائل کے بارے میں  سوالات اٹھائیے ۔ 

عباسی دور میں اس گروہ کی قیادت معتزلہ کررہے تھے ۔ انھوں نے ان مسائل کو کفر وایمان کا معیار بنادیا ۔ان کے مقابلہ میں محدثین اور آئمہ فقہ کا گروہ تھا  جو صحابہ کرام اور تابعین کے مسلک پر قائم تھے ۔ 

خلیفہ مامون کے زمانہ میں معتزلہ کو خوب عروج حاصل ہوا۔ قاضی ابن ابی داؤد جو معتزلہ تھا دولت عباسیہ کا قاضی القضاۃ بن گیا۔ اس طرح  معتزلہ کے مسلک کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی ۔ حکومتی سرپرستی میں معتزلہ نے مسئلہ خلق قرآن  پر پوری توجہ مرکوز کردی ، یہاں تک کہ مامون نے والی بغداد اسحق بن ابراہیم کے نام ایک مفصل فرمان جاری کیا۔  مسئلہ خلق قرآن  سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا کہ جو لوگ اس مسئلہ کے قائل نہ ہوں ان کو سرکاری عہدوں سے معزول کردیا جائے اور خلیفہ کو اس کی اطلاع دی جائے۔  

اس کی نقلیں تمام اسلامی صوبوں کو بھیجی گئی  اور گورنروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ  ہر قاضی کا اس مسئلہ میں امتحان لیں جو اس سے متفق نہ ہو اس کو عہد ہ سے معزول کردیا جائے۔ 


مامون نے اس فرمان کے بعد حاکم بغداد کو لکھا کہ  سات بڑے محدثین کو اس کے پاس بھیج دیا جائے ۔ مامون ان سے اس مسئلہ کے متعلق سوال کیا ان سب نے اس سے اتفاق کیا  لیکن عام مسلمان اور دیگر محدثین اس مسئلہ پر متفق نہیں تھے ۔ مامون نے پھر تیسرا فرمان بھیجا اس فرمان میں  امتحان کادائرہ وسیع کرنے کا حکم تھا ۔ والی بغداد اسحاق بن ابراھیم نے مشاہیر علما کو جمع کرکے ان سے گفتگو کی ان کے جوابات اور مکالمہ مامون کے پاس بھیج دیا۔  مامون  ان کے جوابات سے سخت ناراض ہوکر دو علما  بشر بن الولید اور ابراہیم بن المہدی کے قتل کا حکم دیا ۔ 

اور اسحاق کو لکھا بقیہ جن کو اپنی رائی پر  اصرار ہو  ان کو اس کے پاس بھیج دیا جائے۔ بقیہ تیس علما میں  سے چار اپنی رائی پر قائم رہے یہ چار اشخاص امام احمد ابن حنبل، سجادہ، قواریری اور محمد بن نوح تھے۔

دوسرے دن سجادہ اور تیسرے دن قواریری نے بھی اپنی رائے سے رجوع کرلیا ۔اب صرف امام  اور محمد بن نوح باقی رہے جن کو مامون کے پاس ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں روانہ کر دیا گیا۔ ان کے ہمراہ  انیس دوسرے مقامات کے علماء تھے، جو خلق قرآن کے منکر اور اس کے غیر مخلوق ہونے کے قائل تھے۔ ابھی یہ لوگ رقہؔ ہی پہونچے تھے کہ مامون کے انتقال کی خبر ملی، اور ان کو حاکم بغداد کے پاس بغداد واپس کر دیا گیا۔ راستہ میں محمد بن نوح کا انتقال ہو گیا اورامام اور ان کے رفقاء بغداد پہونچے۔

مامون نے اپنے جانشین معتصم بن الرشید کو وصیت کی تھی کہ وہ قرآن کے بارے میں اس کے مسلک اور عقیدہ پر قائم رہے اور اسی کی پالیسی پر عمل کرے (وخذ بسیرۃ اخیک فی القرآن) اور قاضی ابن ابی دودا کو بدستور اپنا مشیر اور وزیر بنائے رہے۔ چنانچہ معتصم نے ان دونوں وصیتوں پر پورا پورا عمل کیا۔

امام احمد کو رقہؔ سے بغداد لایا گیا۔ چار چار بیڑیاں ان کے پاؤں میں پڑھی تھیں، تین دن تک ان سے اس مسئلہ پر مناظرہ کیا گیا، لیکن وہ اپنے اس عقیدہ سے نہیں ہٹے۔ چوتھے دن والیِ بغداد کے پاس ان کو لایا گیا۔ اس نے کہا کہ احمد! تم کو اپنی زندگی ایسی دوبھر ہے، خلیفہ تم کو اپنی تلوار سے قتل نہیں کرے گا، لیکن اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم نے اس کی بات قبول نہ کی تو مار پر مار پڑے گی اور تم کو ایسی جگہ ڈال دیا جائے گا جہاں کبھی سورج نہیں آئے گا۔ اس کے بعد امام کو معتصم کے سامنے پیش کیا گیا، اور ان کو اس انکار و اصرار پر ۲۸ کوڑے لگائے گئے۔ ایک تازہ جلاد صرف دو کوڑے لگاتا تھا، پھر دوسرا جلاد بلایا جاتا تھا۔ امام احمد ہر کوڑے پر فرماتے تھے :

"اعطونی شیئاً من کتاب اللہ او سنۃ رسولہ حتی اقول بہ"۔
میرے سامنے اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے کچھ پیش کرو تو میں اس کو مان لوں۔

صاحبزادہ کہتے ہیں کہ انتقال کے وقت میرے والد کے جسم پر ضرب کے نشان تھے، ابوالعباس الرقی کہتے ہیں کہ احمد رقہّ میں محبوس تھے، تو لوگوں نے ان کو سمجھانا چاہا، اور اپنے بچاؤ کرنے کی حدیثیں سنائیں، انھوں نے فرمایا خبات کی حدیث کا کیا جواب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پہلے بعض بعض لوگ ایسے تھے، جن کے سر پر آرا رکھ کر چلا دیا جاتا تھا، پھر بھی وہ اپنے دین سے ہٹتے نہیں تھے، یہ سن کر لوگ نا امید ہوگئے اور سمجھ گئے کہ وہ اپنے مسلک سے نہیں ہٹیں گے اور سب کچھ برداشت کریں گے۔ 

امام احمد کی بے نظیر ثابت قدمی اور استقامت سے یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا، اور مسلمان ایک بڑے دینی خطرہ سے محفوظ ہو گئے، جن لوگوں نے اس دینی ابتلاء میں حکومت وقت کا ساتھ دیا تھا، اور موقع پرستی اور مصلحت شناسی سے کام لیا تھا، وہ لوگوں کی نگاہوں سے گر گئے، اور ان کا دینی و علمی اعتبار جاتا رہا، اور اس کے بالمقابل امام احمد کی شان دو بالا ہو گئی، ان کی محبت اہل سنت اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کا شعار اور علامت بن گئی، ان کے معاصر قتیبہ کا مقول ہے کہ:۔

"اذارایت الرجل یحب احمد بن حبنل فاعلم انہ صاحب سنۃٍ"
جب تم کسی کو دیکھو کہ اس کو احمد بن حنبل سے محبت ہے تو سمجھ لو کہ وہ سنت کا متبع ہے۔

------------------------------
( مزید تفصیل کے لیے : تاریخ دعوت و عزیمت جلد اول  ص  84- 102 ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )