سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؓ کے چند خطوط و فرامین - سید ابوالحسن علی ندوی ؒ

سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؓ کے قالب میں جو خالص اسلامی ذہن اور اسلامی روح کار فرما تھی( اور جو بالاخر ان  سلطنت میں جلوہ گر ہوئی) اس صحیح اندازہ ان کے خطوط اور سرکاری فرامین سے ہوتا ہے، جو انہوں نے وقتاً فوقتاً سلطنت کے کارپردازوں اور اعلیٰ عہدہ داروں کو لکھے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰے نے ان کو کیا خالص اسلامی ذہن و دماغ بخشا تھا۔ جس پر جاہلیت کی کوئی پرچھائیں اور شاہانِ بنی اُمیّہ کے اخلاق و افکار کا کوئی سایہ بھی نہیں پڑا تھا۔ یہاں چند خطوط پیش کئے جاتے ہیں۔

ان کو ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ بعض قبائلی سردار اور عہدِ اموی کے "نو دولت" جاہلیت کی رسم حلف و مخالفت کو زندہ کر رہے ہیں (جاہلیت میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا اور ایک شخص دوسرے شخص کا حلیف بن جاتا تھا۔ پھر وہ جابجا اس کی پاسداری کرتا تھا اور حق و باطل میں اس کا ساتھ دیتا تھا۔)۔ اور جنگ و مقابلہ کے موقع پر "یا لبنی فلان، یا لمضر" (فلاں قبیلہ کی دہائی ہے، ہاں اے اہلِ مضر اپنے حلیف کی مدد کرو) کا جاہلی نعرہ لگانے لگے ہیں۔ یہ اسلام کے رشتہ، اخوت اور نظامِ اجتماعی کے متوازی ایک جاہلی نظام اور جاہلی رسم کا احیاء تھا اور بہت سے فتنوں کا پیش خیمہ، سابق فرمانروا شاید اس کو بعض ہلکی مصالح سے شہ دیتے یا کم از کم اہمیت نہ دیتے۔ لیکن عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اس خطرہ کو محسوس کیا اور اس کے بارے میں مستقل فرمان صادر کیا۔ 

اپنے ایک بڑے عہدہ دار ضحاک ابن عبد الرحمٰن کو لکھتے ہیں :

"حمد و صلوٰۃ کے بعد معلوم ہو کہ بیشک اللہ تعالیٰ اس اسلام کے علاوہ جس کو وہ اپنے لئے اور اپنے بندگان خاص کے لئے پسند فرما چکا ہے، کسی دین کو قبول نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اپنی اس کتاب سے عزت بخشی اور اس کے ذریعہ اسلام اور غیر اسلام میں تفریق کر دی ہے۔ ارشاد فرمایا :
ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿١٦﴾ ۔ المائدہ
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی اور ایک کتاب واضح کہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسے شخصوں کو جو رضائے حق کے طالب ہیں، سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں، اور ان کو اپنی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو راہ راست پر قائم رکھتے ہیں۔


نیز ارشاد ہے :
وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿اسرء:١٠٥﴾ 
اور ہم نے اس قرآن کو راستی ہی کے ساتھ نازل کیا اور وہ راستی ہی کے ساتھ نازل ہو گیا اور ہم نے آپ کو صرف خوشی سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اس وقت تم اے اہلِ عرب (جیسا کہ تم کو معلوم ہے) ضلالت، جہالت، پریشانی، تنگی اور سخت انتشار میں مبتلا تھے۔ فتنے تمہارے درمیان عام تھے، لوگ تم کو دبائے ہوئے تھے اور لوگوں کے پاس جو تھوڑا بہت دین باقی تھا، اس سے بھی تم محروم تھے۔ اس کے برعکس لوگوں کی گمراہیوں میں سے کوئی گمراہی ایسی نہی تھی جس میں تم مبتلا نہ ہو۔ تم میں سے جو زندہ رہتا تھا، وہ جہالت و گمراہی کے ساتھ زندہ رہتا تھا اور تم میں سے جو مرتا تھا، اس کا انجام جہنم ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ان برائیوں، بتوں کی پرستش، جنگ و جدال، منافرت اور تعلقات کی خرابیوں سے صاف بچا لیا۔ تم میں سے انکار کرنے والے نے انکار کیا اور تم میں سے تکذیب کرنے والے نے جھٹلایا اور اللہ کا پیغمبر اللہ کی کتاب اور اسلام کی دعوت دیتا رہا، پھر تم میں سے بہت کم اور کمزور لوگ اس پر ایمان لائے۔ ان کو ہر وقت خطرہ لگا رہتا تھا، کہ لوگ انہیں اُچک نہ لیں۔ تو اللہ نے ان کو پناہ دی اور اپنی مدد سے ان کی تائید کی۔ اور ان کو وہ لوگ عطا فرمائے جن کا اسلام لانا اس کو منظور ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے جانے والے تھے اور اللہ کو اپنے رسول سے اس وعدہ کو پورا کرنا تھا جس میں کوئی تغیر و تبدّل ممکن نہیں۔ اس وعدہ کو تھوڑے سے مسلمانوں کے علاوہ عام طور پر لوگوں نے بعید سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴿الصف:٩﴾
وہ اللہ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے، گو مشرک کیسے ہی ناخوش ہوں۔

 بعض آیتوں میں اللہ تعالٰی نے خود مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے۔ ارشاد فرماتا ہے کہ :
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ ﴿نور:٥٥﴾

تم میں جو لوگ ایمان لاویں اور نیک عمل کریں، ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو زمین میں حکومت عطا فرمائے گا۔ جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی، اور جس دین کو ان کے لئے پسند کیا ہے اس کو ان کے لئے قوت دے گا اور ان کے اس خوف کے بعد اس کو مبدّل بامن کر دے گا، بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں، میرے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کریں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور مسلمانوں سے اپنے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کر دیا۔ اے اہلِ اسلام! یاد رکھو تم کو اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا، اسی اسلام کے صدقہ میں دیا ہے، جس کی بدولت تم اپنے دشمنوں پر فتح پاتے ہو، اور جس کی وجہ سے تم قیامت کے دن گواہ بنو گے، تمہارے لئے دنیا و آخرت میں اس کے علاوہ نہ نجات ہے اور نہ کوئی حجت، نہ کوئی بچاؤ ہے اور نہ کوئی حفاظت کا سامان اور طاقت، جب اللہ تعالیٰ تم کو وہ بہترین دن نصیب کرے گا، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، تو موت کے بعد اللہ کے ثواب کی امید ہے، اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے :
تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿القصص:٨٣﴾
یہ عالمِ آخرت ہم انہی لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں، جو دنیا میں نہ بڑا بننا چاہیں، اور نہ فساد کرنا، اور نیک نتیجہ منقی لوگوں کو ملتا ہے۔

میں تم لوگوں کو اس قرآن اور اس پر عمل نہ کرنے کے نتائجِ بد سے ڈراتا ہوں، اس لئے کہ اس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں جو واقعات پیش آئے ہیں، امت میں جو خونریزی، جو خانہ ویرانی، جو پراگندگی اور انتشار برپا ہوا، وہ تمہاری نگاہوں کے سامنے ہے۔ پس جس چیز سے اللہ نے تم کو اپنی کتاب میں منع کیا ہے، اس سے رک جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی وعید سے 
زیادہ کوئی چیز خوف اور احتیاط کی مستحق نہیں ہے۔

جس چیز نے مجھے اس خط کے لکھنے پر مجبور کیا ہے، وہ یہ بات ہے جو دیہات کے باشندوں کے متعلق ذکر کی گئی اور ان لوگوں کی بابت جو نئے نئے حاکم اور عہدہ دار بنے ہیں، یہ بیچارے اجڈ اور جاہل قسم کے لوگ ہیں۔ احکام الہٰی کا ان کو علم نہیں، وہ اللہ کے معاملہ میں سخت دھوکہ میں مبتلا ہیں، اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ جو معاملہ رہا ہے، اس کو وہ بھول گئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی انہوں نے ناشکری اور ناقدری کی ہے۔ جس تک پہنچنے کی ان میں صلاحیت نہیں تھی، مجھے بتایا گیا ہے کہ ان میں کچھ لوگ جنگ میں مصر اور یمن والوں کا سہارا لیتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلہ مں ان کے حمائتی اور ولی ہیں۔ سبحان اللہ و بحمدہ! یہ کس قدر ناشکر گزار اور کافرِ نعمت ہیں۔ ان کو ہلاکت، ذلت و خواری کا کیسا شوق ہے؟ یہ دیکھتے نہیں کہ انہوں نے اپنے لئے کون سا مقام پسند کیا، کس امن و امان سے اپنے کو محروم کیا، اور کس گروہ سے اپنا تعلق پیدا کیا؟ اب مجھے معلوم ہوا کہ شقی اپنے ارادوں ہی سے شقی ہوتا ہے اور جہنم بیکار نہیں پیدا کی گئی ہے۔ کیا ان لوگوں نےکلام پاک میں اللہ تعالیٰ کا یہ کلام نہیں سُنا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿الحبرات:١٠﴾

مسلمان تو سب بھائی بھائی ہیں، سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
کیا انہوں نے یہ آیت کبھی نہیں سنی؟
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ﴿المائدہ:٣﴾
آج کے دن تمہارے دین کو میں نے کامل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تام کر دیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لئے پسند کر لیا۔

مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ زمانۂ جاہلیت کے طرز کی مخالفت کی دعوت دیتے ہیں، حالانکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط حمایت کے وعدہ سے منع فرمایا ہے اور ارشاد ہے "لا حلف فى الاسلام". (یعنی اسلام میں غلط دوستیاں اور جتھ بندی نہیں ہے) جاہلیت میں ہر حلیف دوسرے حلیف سے اس کی توقع رکھتا تھا کہ وہ اس کے معاہدہ اور رشتہ مخالفت کا حق ادا کرے گا اور اس کو پورا کرے گا خواہ وہ بالکل ظالمانہ اور فاجرانہ ہو اور اس میں صریح اللہ اور رسول کی نافرمانی ہوتی ہو...... میں ڈراتا ہوں ہر اس شخص کو جو میرا یہ خط سنے اور جس کو یہ خط پہنچے اس بات سے کہ وہ اسلام کے علاوہ کسی قلعہ کو اختیار کرے اور اللہ و رسول اور مومنین کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا دوست بنائے, بڑے شد و مد سے اور بار بار اس سے آگاہ اور متنبہ کرتا ہوں اور میں ان لوگوں پر اس ذات کو گواہ بنا رہا ہوں, جس کی قدرت اور تصرف میں تمام جاندار ہیں اور جو ہر شخص کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے۔  (سیرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ (ابن عبدالحکم) ص 107،104،ترجمہ مولوی ابو العرفان صاحب ندوی۔ )

انہوں نے اپنے ایک فوجی افسر کو جنگ پر روانہ ہونے کے وقت جو ہدایت نامہ لکھا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذہن قرآن کے سانچہ میں کس طرح ڈھل گیا تھا اور ان کا نقطہ نظر اور طریق فکر دنیادار بادشاہوں اور سیاسی حکمرانوں سے کس قدر مختلف تھا۔ "

منصور بن غالب کے نام ایک فرمان میں لکھتے ہیں:

"اللہ کے بندے ! امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ہدایت نامہ منصور بن غالب کے نام جب کہ امیر المؤمنین نے ان کو اہل حرب سے اور ان اہل صلح سے جو مقابلہ میں آئیں، جنگ کرنے کیلئے بھیجھا ہے، امیر المؤمنین نے ان کو حکم دیا ہے کہ ہر حال میں تقوی اختیار کریں، کیونکہ اللہ کا تقوی بہترین سامان، مؤثر ترین تدبیر اور حقیقی طاقت ہے، امیر المؤمنین ان کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے دشمن سے زیادہ اللہ کی معصیت سے ڈریں، کیونکہ گناہ دشمن کی تدبیروں سے بھی زیادہ انسان کیلئے خطرناک ہے، ہم اپنے دشمنوں سے جنگ کرتے ہیں اور ان کے گناہوں کی وجہ سے ہم ان پر غالب آ جاتے ہیں کیونکہ اگر یہ بات نہیں ہے تو ان سے دراصل ہم کو مقابلہ کی قوت نہیں ہے کیونکہ نہ تو ہماری تعداد ان کی تعداد کے برابر ہے اور نہ ہمارا سامان ان کے سامان کے برابر پس اگر وہ اور ہم معصیت میں برابر ہو جائیں تو وہ قوت اور تعداد میں ہم سے بڑھ کر ثابت ہونگے یاد رکھو اگر ہم ان پر اپنے حق کی وجہ سے فتح نہ پا سکیں گے تو اپنی قوت کی وجہ سے بھی ان پر غالب نہ آ سکیں گے اور اپنے گناہوں سے زیادہ کسی کی دشمنی سے چوکنا نہ ہوں جہاں تک ممکن ہو اپنے گناہوں سے زیادہ کسی چیز کی فکر نہ کریں، سمجھ لو کہ اللہ تعالٰی کی جانب سے تم پر کچھ محافظ مقرر کیے گئے ہیں جو تمہارے سفر و حضر کے اعمال کو جانتے ہیں پس ان سے شرم کرو اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور ان کو اللہ کی نافرمانی کرکے ایذا نہ پہنچاؤ، خصوصاً ایسی حالت میں کہ تمہارا دعوی ہے کہ تم اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے ہو یہ مت سمجھو کہ ہمارے دشمن ہم سے گئے گذرے ہیں اس لیے گو ہم گناہگار ہیں لیکن وہ ہم پر غالب نہیں آ سکتے کیونکہ بہت سی ایسی قومیں ہیں جن پر ان کے گناہوں کی وجہ سے ان بدتر لوگوں کو ان پر مسلط کر دیا گیا ہے پس اللہ تعالٰی سے اپنے نفسوں کے مقابلے میں مدد چاہو جیسا کہ اللہ تعالٰی سے تم اپنے دشمنوں کے مقابلے میں مدد چاہتے ہو میں بھی اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ تعالٰی سوال کرتا ہوں ۔

اور امیر المومنین، منصور بن غالب کو حکم دیتے ہیں کہ سفر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں اور اپنے ساتھیوں کو ایسی قطع مسافت پر مجبور نہ کریں جو مشقت میں مبتلا کر دے اور سفر میں کسی ایسی منزل پر پڑاؤ سے گریز نہ کریں جس سے ان کو آرام ملنا ہو یہاں تک کہ ان کا دشمنوں سے اس حال میں سامنا ہو کہ سفر کے تکان نے ان کی قوتوں کو گھٹا نہ دیا ہو وہ ایسے دشمن کے پاس جا رہے ہیں جو اپنے گھروں میں ہیں ان کا سامان اور سواریاں سستائ ہوئی ہیں پس اگر سفر میں اپنے اور اپنی سواریوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ نہیں کریں گے تو ان کے دشمن کو ان پر زیادہ قوت حاصل ہو گی کیونکہ دشمن اپنے گھروں میں ہیں جہاں ان کے آدمی اور سواریاں آرام کی ہوئی ہیں اور اللہ ہی سے مدد چاہی جاتی ہے  اور امیر المؤمنین ان کو حکم دیتے ہیں کہ ہر جمعہ ایک رات اور دن سفر نہ کریں ، اور آرام کریں ، جس میں خود کو اور جانوروں کو آرام پہنچائیں اور اپنے سامان اور ہتھیاروں کی مرمت کریں ،

 اور امیر المومنین ان کو حکم دیتے ہیں کہ اپنا قیام صلح کی بستیوں سے الگ رکھیں ، امن و امان والی بستیوں میں ان کے ساتھیوں میں سے کوئی نہ جائے ، نہ ان کے بازاروں میں ، نہ ان کی مجلسوں میں ، ہاں وہ شخص جاسکتا ہے جس کو اپنے دین اور امانت پر پورا بھروسا ہو اور نہ ان بستی والوں پر ظلم کریں اور نہ وہاں سے اپنے لئے گناہ جمع کریں اور نہ ان کو کچھ اذیت پہنچائیں ، سوائے اس کے کہ شرعی مطالبہ یا واجبی حق ہو ، کیونکہ ان کا حق اور ان کی ذمہ داری ہے ، جس کے پورا کرنے کا تم کو اسی طرح ذمہ دار بنایا گیا ہے ، جس طرح کہ وہ لوگ حقوق و ذمہ کی پابندی کے مکلف ہیں ، پس جب تک وہ لوگ اپنے حقوق کی ادائیگی پر ثابت قدم رہیں ، تم لوگ بھی ان کے حقوق ادا کرتے رہو ۔ اور صلح والوں پر ظلم کرکے جنگ والے ملکوں پر غلبہ مت حاصل کرو ، قسم اللہ کی تمہیں ان لوگوں کے مال میں سے اتنا حصہ ( جزیہ و خراج وغیرہ) پہلے ہی دے دیا گیا ہے کہ اب مزید کی نہ گنجائش ہے اور نہ ضرورت ۔ 

ہم نے تمہارے سامان میں کوئی کوتاہی بھی نہیں کی ہے اور نہ تمہاری قوت میں کوئی ضعف رہنے دیا ہے اور تمہارے لئے سامان اچھی طرح جمع ہو گیا ہے ، تمہیں ایک منتخب فوج دی گئی ہے اور شرک والے ملکوں کی طرف تم کو مشغول کرکے صلح والوں کی طرف سے تمہاری توجہ ہٹالی ہے ۔ اور ایک مجاہد کے لئے جتنا بندوبست کرسکتا تھا ، اس سے بہتر تمہارے لئے کردیا ۔ ہم نے تمہارے لئے قوت کی بہم رسانی میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی اور اللہ ہی پر بھروسا ہے ۔ " و لا حول و لا قوة إلا بالله " اور امیر المؤمنین کی ہدایت ہے کہ ان کے جاسوس عرب اور اہل ملک میں سے وہ لوگ ہوں جن کے اخلاص اور صدق پر ان کو اطمینان ہو ، کیوں کہ دروغ گو کی اطلاع نفع نہیں پہنچاتی ، اگرچہ اس کی کوئی بات صحیح بھی ہو ، فریب دہندہ دراصل تمہارے دشمن کا جاسوس ہے ، تمہارا جاسوس نہیں ۔ والسلام عليك " ( سیرت عمر بن عبد العزیز ص 84 - 87 ترجمہ مولوی ابو العرفان صاحب ندوی ۔ )

ایک عمومی خط میں عمالِ سلطنت کو تحریر فرماتے ہیں :

"اما بعد بیشک یہ ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد فرمائی ہے اگر میں نے اس کو قبول کیا ہے کہ اس سے میرا مقصد کھانا، لباس، سواری یا شادیاں یا جمع اموال ہوتا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے پہلے ہی یہ چیزیں اتنی دے رکھی تھیں، جو مشکل سے لوگوں کو ملا کرتی ہیں، لیکن میں نے اس ذمہ داری کو بہت ڈرتے ڈرتے قبول کیا ہے۔ مجھے اس کا بخوبی احساس ہے کہ یہ عظیم الشان ذمہ داری ہے۔ اس کی باز پرس بڑی سخت ہے۔ جس وقت فریق اور مدعی قیامت کے دن جمع ہوں گے تو اس کے معاملہ میں بڑی سخت جرح ہو گی۔ ہاں اگر اللہ تعالٰی معاف فرما دے اور نظر انداز فرما دے اور رحم فرمائے تو الگ بات ہے۔

میں نے تم کو حکومت کا جو کام سپرد کیا ہے اور جو اختیارات تفویض کئے ہیں، ان میں سے تم کو احتیاط اور خدا کے خوف کی ہدایت کرتا ہوں، ذمہ داریوں کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کے اتباع اور اس کے نواہی سے اجتناب کی تاکید کرتا ہوں۔ جو باتیں اس کے خلاف ہوں ان کی طرف بالکل توجہ کی ضرورت نہیں۔ تمہاری نظر اپنے اوپر اور اپنے عمل پر رہے اور ان چیزوں کی طرف ہو جا تمہارے رب تک پہونچائیں اور جو تم اپنے اور اپنی رعیت کے درمیان کرتے ہو، وہ تمہارے پیش نظر رہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ حفظ و نجات اسی میں منحصر ہے کہ اللہ تعالٰی کی اطاعت میں منزل مقصود تک پہونچ جاؤ۔ اس یوم موعود کے لئے وہی چیز تیار رکھو، جو خدا کے ہاں کام آنے والی ہو اور دوسرے کے واقعات میں تم نے ایسی عبرتیں دیکھی ہیں، جن کے برابر ہمارا وعظ و نصیحت مؤثر نہیں ہو سکی۔ والسلام" 
(سیرت عمر بن عبد العزیز صفحہ ۹۲-۹۳)

----------------------------------------------------------------------
(ماخوز از تاریخ دعوت و عزیمت جلد اول : 40-48 - سید ابوالحسن علی ندویؒ )