(یہ تقریر ندوۃ العلماء کے سالانہ اجلاس 1894ء میں کی گئی)
جناب صدر انجمن و دیگر حضرات!
قبل اس کے کہ میں اصل مضمون کے متعلق کچھ گفتگو کروں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمانوں کو علم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ مسلمانوں کی قوم کی حقیقت اور ماہیت جو کچھ کہو مذہب ہے۔
مسلمان کے لفظ کے اطلاق کے لیے کیا خصوصیت درکار ہے؟ سید ہونا؟ شیخ ہونا؟ مغل ہونا؟ عربی ہونا؟ عجمی ہونا؟ کچھ نہیں صرف کلمہ توحید کا دل سے ماننا اور زبان سے اقرار کرنا اس سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد، سیادت، مشخیت، غربیت، عجمیت نہیں ہے بلکہ اسلام ہے اور اسلام کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
اس امر کے ثابت ہونے کے بعد کہ ہماری قومیت اور اسلام، گویا مترادف الفاظ ہیں ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسلام کو علم سے کیا تعلق ہے؟ کیونکہ جو تعلق علم کو اسلام کے ساتھ ہو گا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا۔
اسلام کی بنیاد، اسلام کی ترکیب، اسلام کے نظام پر جب غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور علم آپس میں متلازم ہیں، قرآن مجید میں جہاں جہاں اسلامی عقائد کا ذکر ہے اور ان کے تسلیم اور اذعان کا حکم ہے اجتہادی حیثیت سے ہے نہ کہ تقلیدی، یعنی خود سوچو، دیکھو، غور کرو
اولم یتفکروا فی السموات والارض
بلکہ خود دعوت اسلام اور تبلیغ اسلام میں استدلالی اور علمی حیثیت ملحوظ ہے
ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظہ الحسنہ وجادلھم بالتی ھی احسن
کی تفسیریں امام غزالیؒ وغیرہ نے لکھا ہے کہ حکمت، موعظت جدال سے استدلال برہانی، خطابی، جدلی مراد ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ تینوں طریقے علمی طریقے ہیں عیانی ثبوت اس امر کا کہ علم اسلام کے خمیر میں داخل ہے، یہ ہے کہ علم اور اسلام کا ہمیشہ ساتھ رہا ہے عرب کو دیکھو وہ ملک جس پر ابتدائے آفرینش سے علم کا سایہ تک نہیں پڑا تھا، اسلام کے ساتھ اس کا ذرہ ذرہ علم کی روشنی سے چمک اٹھا۔
سلجوق، ویلم، افغان، تاتار، ترک جو دنیا کے آغاز سے بے علم رہے، اسلام قبول کرنے کے ساتھ شاعر، نثار، ادیب، فلاسفر، حکیم بن گئے۔ دنیا کی وہ قومیں جو ابتدائے آفرینش سے صحرا نوروی اور غارت گری کے سوا اور کچھ نہ جانتی تھیں ان میں امام شافعی، امام مالک، یعقوب کندی، فارابی، ابن رشد کا پیدا ہو جانا کس کا اثر تھا؟ اسلام کا اس سے زیادہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ علم، اسلام کا مایہ خمیر ہے اور یہ کہ علم اسلام سے جدا نہیں ہو سکتا یا کم از کم وہ کبھی اس سے جدا نہیں ہوا۔
حضرات! جب ہم مسلمانوں کو علم سے اس درجہ تعلق ہے تو نہایت افسوس ہے اگر ہم ہمیشہ اس بات کا خیال نہ رکھیں کہ اب علم میں ہمارا کیا پایہ ہے؟ ہمارے علوم کس حالت میں ہیں مختلف زبانوں کے لحاظ سے اس کے نصاب میں کیا کیا اضافے اور اصلاحیں ہوتی رہنی چاہئیں؟ بزرگان سلف عموماً ہر زمانہ میں اس اصول کے پابند رہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم کا طریقہ، کتابوں کا انتخاب، علوم ورسیہ کا تعین، یہ چیزیں ہمیشہ بدلتی رہیں۔ بنو امیہ کے دور تک کتابی درس کا مطلق رواج نہ تھا۔ بلکہ استاد زبانی تقریر کرتا تھا۔ اور طلبہ اس کو قلمبند کرتے جاتے تھے۔ یہ طریقہ دولت عباسیہ میں بھی مدت تک جاری رہا اس کے بعد کتابوں کا درس جاری ہوا لیکن پہلا طریقہ بھی مفقود نہیں ہوا۔ سب سے اخیر شخص جس نے اس طریقہ پر درس دیا علامہ جلال الدین سیوطی تھے۔ ایک زمانہ میں علوم عقلیہ نصاب تعلیم سے بالکل خارج تھے۔ بلکہ مقدس علماء اس سے نفرت رکھتے تھے۔ زمانہ ما بعد میں یہی علوم درس و تعلیم کے ضروری اجزاء بن گئے۔ یہاں تک کہ آج جس نے یہ علوم نہ پڑھے ہوں وہ پورا عالم شمارنہیں کیا جاتا۔ فارابی کے زمانہ تک یعقوب کندی کی تصنیفات درس معقولات میں داخل تھیں۔ فارابی کے زمانہ سے فارابی کی تصنیفات کا رواج ہوا پھر بو علی سینا کی کتابیں مقبول ہوئیں اور قدیم کتابیں گمنامی کے گوشہ میں چھپ گئیں اسی طرح ہرزمانہ کے سلسلہ درس میں تبدیلیاں ہوتی رہیں یہاں تک کہ ملا نظام الدین کا عہد آیا اور نظام قدیم کی بالکل کایا پلٹ ہو گئی موجودہ نصاب ملا صاحب ہی کی طرف منسوب ہے اور اسی وجہ سے نظامیہ کہلاتا ہے بعض کتابیں مثلاً ملا حسن، غلام یحییٰ، حمد اللہ، قاضی مبارک آہستہ آہستہ بعد میں داخل ہوتی گئیں۔ اور غلطی سے یا تغلیباً وہ بھی سلسلہ نظامیہ کے شمار میں آ گئیں۔
یہ امر واقعی حیرت کے قابل تھا کہ جب مختلف ضرورتوں کے لحاظ سے یعقوب کندی، حکیم فارابی، ابن سینا، قطب الدین رازی کے نصابات بدلتے رہے۔ تو سلسلہ نظامیہ کا آج تک من غیر تغیر بحال رہنا کس لحاظ سے ہے، خدا کا شکر ہے کہ ہمارے علما نے اس مہتمم بالشان مسئلہ کی طرف توجہ کی اور آج یہ مسئلہ ایسی پر وقعت مجلس میں پیش ہے، جس میں چار دانگ ہند کے علماء تشریف فرما ہیں۔
اس مسئلہ کے متعلق دو حیثیت سے بحث کی جا سکتی ہے ایک طرز تعلیم کے لحاظ سے، دوسرا کتب درسیہ کے تعین کے لحاظ سے میرے نزدیک طریقہ مروجہ کی نسبت جو نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں وہ دوسری حیثیت پر محدود نہیں ہیں بلکہ پہلی حیثیت کو بھی اس میں بہت کچھ دخل ہے۔ ممکن ہے کہ یہی کتابیں جو درس میں داخل نہیں رہیں لیکن طرز تعلیم بدل دیا جائے جس سے بہت سی خرابیوں کی خود اصلاح ہو جائے۔
طرز تعلیم میں ایک بڑا نقص یہ ہے کہ اصل فن کے بجائے کتاب کے ساتھ زیادہ اعتنا کی جاتی ہے اصل مسئلہ کی تحقیق کے بجائے زیادہ وقت اس امر میں صرف کیا جاتا ہے کہ وہ مسئلہ کس عبارت میں بیان کیا گیا ہے اور اس عبارت سے کیا کیا احتمالات پیدا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ان مباحث میں اعتراضات اور جوابات کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جن کی بنیاد کسی خاص کتاب کی عبارت و الفاظ پر ہوتی ہے۔ یعنی وہی مسئلہ اگر دوسرے لفظوں میں بیان کر دیا جائے تو وہ سلسلہ خود بخود منقطع ہو جائے ان مباحث میں پڑ کر طالب علم کو اصل فن سے بعد ہو جاتا ہے اور تحقیق مسائل کے بجائے لفظی اعتراضات، احتمال آفرینی، توجیہات کی عادت ہو جاتی ہے آج کل جو یہ شکایت عام ہے کہ موجودہ طریقہ تعلیم سے فن میں کمال نہیں حاصل ہو سکتا ہے اس کی وجہ زیادہ تر یہی ہے کہ فن کی تعلیم ہی نہیں ہوتی، تو اس میں کمال کیوں کر پیدا ہو۔ البتہ کتابوں کی تعلیم ہوتی ہے اس لیے کتاب میں کمال پیدا ہوتا ہے عموماً سننے میں آتا ہے کہ فلاں عالم میر زاہد ایسا پڑھاتے ہیں کہ کوئی اور نہیں پڑھا سکتا، قاضی مبارک کے نکات کا حل کرنا فلاں صاحب کا حصہ ہے، فلاں طالب العلم نے حمد اللہ بڑی تحقیق سے پڑھی ہے، کسی مستعد طالب العلم کا اگر مطول یا حمد اللہ میں امتحان لیا جائے تو ممکن ہے کہ وہ ان کتابوں کا مطلب نہایت شرح و بسط اور ایراد و جواب کے ساتھ بیان کرے۔ لیکن اسی طالب العلم سے اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کے کسی رکوع یا آیت کو فصاحت و بلاغت کے قواعد و اصول پر منطبق کر کے دکھائے۔ یا کسی مسئلہ پر جب گفتگو کرے تو دلائل منطقی کو قیاسات کے پیرایہ میں بیان کرتا جائے تو شاید نہ کر سکے اس سے صاف ثابت ہے کہ کتاب کی تعلیم ہوتی ہے فن کی نہیں ہوتی ملا نظام الدین کا طریقہ درس یہ تھا کہ وہ کتابی خصوصیتوں کا چنداں لحاظ نہیں کرتے تھے بلکہ کتاب کو ایک ذریعہ قرار دے کر اصل فن کی تعلیم دیتے تھے اسی طرز تعلیم نے لا کمال لجر العلوم، حمد اللہ جیسے اہل کمال پیدا کیے۔ جب یہ طرز تعلیم نہ رہا تو اہل کمال بھی مفقود ہو گئے۔ یہ گفتگو جو میں نے کی طرز تعلیم پر تھی۔
طرز تعلیم میں ایک بڑا نقص یہ ہے کہ اصل فن کے بجائے کتاب کے ساتھ زیادہ اعتنا کی جاتی ہے اصل مسئلہ کی تحقیق کے بجائے زیادہ وقت اس امر میں صرف کیا جاتا ہے کہ وہ مسئلہ کس عبارت میں بیان کیا گیا ہے اور اس عبارت سے کیا کیا احتمالات پیدا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ان مباحث میں اعتراضات اور جوابات کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جن کی بنیاد کسی خاص کتاب کی عبارت و الفاظ پر ہوتی ہے۔ یعنی وہی مسئلہ اگر دوسرے لفظوں میں بیان کر دیا جائے تو وہ سلسلہ خود بخود منقطع ہو جائے ان مباحث میں پڑ کر طالب علم کو اصل فن سے بعد ہو جاتا ہے اور تحقیق مسائل کے بجائے لفظی اعتراضات، احتمال آفرینی، توجیہات کی عادت ہو جاتی ہے آج کل جو یہ شکایت عام ہے کہ موجودہ طریقہ تعلیم سے فن میں کمال نہیں حاصل ہو سکتا ہے اس کی وجہ زیادہ تر یہی ہے کہ فن کی تعلیم ہی نہیں ہوتی، تو اس میں کمال کیوں کر پیدا ہو۔ البتہ کتابوں کی تعلیم ہوتی ہے اس لیے کتاب میں کمال پیدا ہوتا ہے عموماً سننے میں آتا ہے کہ فلاں عالم میر زاہد ایسا پڑھاتے ہیں کہ کوئی اور نہیں پڑھا سکتا، قاضی مبارک کے نکات کا حل کرنا فلاں صاحب کا حصہ ہے، فلاں طالب العلم نے حمد اللہ بڑی تحقیق سے پڑھی ہے، کسی مستعد طالب العلم کا اگر مطول یا حمد اللہ میں امتحان لیا جائے تو ممکن ہے کہ وہ ان کتابوں کا مطلب نہایت شرح و بسط اور ایراد و جواب کے ساتھ بیان کرے۔ لیکن اسی طالب العلم سے اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کے کسی رکوع یا آیت کو فصاحت و بلاغت کے قواعد و اصول پر منطبق کر کے دکھائے۔ یا کسی مسئلہ پر جب گفتگو کرے تو دلائل منطقی کو قیاسات کے پیرایہ میں بیان کرتا جائے تو شاید نہ کر سکے اس سے صاف ثابت ہے کہ کتاب کی تعلیم ہوتی ہے فن کی نہیں ہوتی ملا نظام الدین کا طریقہ درس یہ تھا کہ وہ کتابی خصوصیتوں کا چنداں لحاظ نہیں کرتے تھے بلکہ کتاب کو ایک ذریعہ قرار دے کر اصل فن کی تعلیم دیتے تھے اسی طرز تعلیم نے لا کمال لجر العلوم، حمد اللہ جیسے اہل کمال پیدا کیے۔ جب یہ طرز تعلیم نہ رہا تو اہل کمال بھی مفقود ہو گئے۔ یہ گفتگو جو میں نے کی طرز تعلیم پر تھی۔
نصاب تعلیم کے متعلق جو میرے خیالات ہیں ان کو بد فعات ذیل عرض کرتا ہوں
1- تعلیم میں دو چیزوں کا لحاظ ضروری ہیں۔ (ا) - تحصیل فن ( ب) - امعان نظر اور قوت مطالعہ۔
نصاب موجودہ میں دوسرے امر کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے اور پہلے مقصد کی طرف کم توجہ دی گئی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ طلبہ میں (بشرطیکہ تحقیق کے ساتھ پڑھا ہو) قوت مطالعہ دقت نظر، احتمال آفرینی، یہ تمام صفتیں ضرور پیدا ہو جاتی ہیں۔ لیکن کسی فن میں کمال نہیں ہوتا جس قدر کتابیں درس میں ہیں اسی قسم کی ہیں، جن سے دقت نظر اور تشحیذ ذہن پیدا ہوتی ہے لیکن ایسی کتابیں بہت کم ہیں، جن میں مسائل فن کا کافی استیعاب ہو، نحو میں بڑی سے بڑی کتاب شرح لما ہے، لیکن اس میں نحو کا ایک مسئلہ بھی کافیہ سے زیادہ نہیں منطق میں دس پندرہ کتابیں ہیں، لیکن سب کی سب دوسرے مقصد کے لیے مفید ہیں مسائل منطق کا استیعاب ایک میں بھی نہیں شرح مطالع، ملحض امام رازی جو منطق کے فتادے ہیں بالکل متروک اور درس سے خارج ہیں۔
نصاب موجودہ میں دوسرے امر کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے اور پہلے مقصد کی طرف کم توجہ دی گئی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ طلبہ میں (بشرطیکہ تحقیق کے ساتھ پڑھا ہو) قوت مطالعہ دقت نظر، احتمال آفرینی، یہ تمام صفتیں ضرور پیدا ہو جاتی ہیں۔ لیکن کسی فن میں کمال نہیں ہوتا جس قدر کتابیں درس میں ہیں اسی قسم کی ہیں، جن سے دقت نظر اور تشحیذ ذہن پیدا ہوتی ہے لیکن ایسی کتابیں بہت کم ہیں، جن میں مسائل فن کا کافی استیعاب ہو، نحو میں بڑی سے بڑی کتاب شرح لما ہے، لیکن اس میں نحو کا ایک مسئلہ بھی کافیہ سے زیادہ نہیں منطق میں دس پندرہ کتابیں ہیں، لیکن سب کی سب دوسرے مقصد کے لیے مفید ہیں مسائل منطق کا استیعاب ایک میں بھی نہیں شرح مطالع، ملحض امام رازی جو منطق کے فتادے ہیں بالکل متروک اور درس سے خارج ہیں۔
2- ایک بڑا نقص یہ ہے کہ منطق کی کتابیں جو درس میں داخل ہیں ان میں خلط مبحث بہت ہے ملا حسن، حمد اللہ، قاضی ہیں تو منطق میں لیکن ان میں منطق کے جس قدر مسائل ہیں اس سے کہیں زیادہ امور عامہ اور فلسفہ کے مسائل ہیں جعل بسیط اور جعل مرکب، علم باری کلی طبعی کا وجود فی الخارج وغیرہ ایسے اہم اور معرکۃ الآرا مسائل ہیں کہ ان میں مصروف ہو کر طالب العلم کو منطق کے خاص مسائل کی طرف بہت کم توجہ ہو سکتی ہے بے شبہہ مسائل بالا بڑے معرکہ کے مسائل ہیں اور ضرور ان کی تعلیم ہونی چاہیے لیکن وہ فلسفہ سے متعلق ہیں اور فلسفہ میں خود سینکڑوں کتابیں موجود ہیں ان مسائل کو مستقل و بالذات سیکھنا چاہیے اور انہی کتابوں کے ذریعہ سے سیکھنا چاہیے جن میں وہ بالا ستقلال مذکور ہیں قدماء کے زمانہ میں کبھی ایسی کتاب درس میں نہیں رکھی گئی جس میں مختلف فنون کے مسائل مخلوط ہوں۔
3- ایک بڑا نقص یہ ہے کہ موجودہ نصاب میں ادب و عربیت کا حصہ بہت کم ہے منطق کی بیسوں کتابیں درس میں ہیں اور ان میں ایک بھی اگر پڑھنے سے رہ جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ تحصیل کی تکمیل میں کمی ہے لیکن اگر ایک طالب العلم ادب سرے سے نہ پڑھا ہو، عربی زبان میں دو سطریں نہ لکھ سکتا ہو، قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت بھی نہ ثابت کر سکتا ہو، تو عام لوگوں کے نزدیک، طلبہ کے نزدیک، اساتذہ کے نزدیک، اس کے چہرہ کمال پر کوئی داغ نہیں، حالانکہ یہ امر یقینی ہے کہ ادب و عربیت کے بغیر تفسیر و حدیث کسی میں کمال نہیں پیدا ہو سکتا اس بنا پر ادب سے بے اعتنائی در حقیقت علوم دینیہ سے بے اعتنائی ہے۔
4- ایک بہت بڑا اور سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ موجودہ تصاب میں قرآن مجید کے ساتھ بہت کم اعتنا کی گئی ہے، اور تفسیر اور ملحقات تفسیر کی بہت کم کتابیں رکھی گئی ہیں۔ کل دو کتابیں درس میں داخل ہیں، بیضاوی، جلالین بیضاوی کے صرف ڈھائی پارے پڑھائے جاتے ہیں جلالین پوری پڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے اختصار کا یہ حال ہے کہ اس کے الفاظ اور حروف قرآن مجید کے الفاظ اور حروف کے برابر ہیں قرآن مجید کے ساتھ اس سے بہت زیادہ اعتنا درکار ہے اور اس کا یہ طریقہ ہے۔
اولاً تو کوئی کتاب ایسی درس میں رکھنی چاہئے جس سے قرآن مجید کے انداز بیان اور اس کے اقسام مضامین سے ایک اجمالی اطلاع حاصل ہو، مثلاً یہ کہ قرآن مجید کا اسلوب بیان جس کی وجہ سے وہ شعرائے عرب کے کلام سے بالکل الگ معلوم ہوتا ہے، کیا ہے؟ اس کے اساسی مضامین کیا کیا ہیں؟ کن مضامین کو بار بار فرمایا ہے؟ اور وجہ تکرار کیا ہے؟ اخلاق، فقہ ، عقائد، سیر انبیاء جو قرآن مجید کے مضامین کے ارکان اربعہ ہیں ان کے متعلق جو کچھ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، اس کا احاطہ اور اس کی واقفیت، صحت اور خوبی کے دلائل،
ثانیاً قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت پر نہایت توجہ ہونی چاہیے یہ امر عموماً مسلم ہے کہ اسلام کا وہ معجزہ جو دائمی اور ابدی ہے قرآن مجید ہے یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید کا اعجاز فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ہے۔ لیکن کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ موجودہ نصاب کے تعلیم یافتہ اس اعجاز کو بد لائل ثابت کر سکتے ہیں۔ ان طلبہ کے سامنے اگر عرب جاہلیت کا کوئی عمدہ شعر اور قرآن مجید کی کوئی آیت پیش کی جائے تو کیا وہ دونوں کا موازنہ کر کے آیت قرآن کی فصاحت و بلاغت کے وجوہ ترجیح بتا سکتے ہیں؟
ثانیاً قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت پر نہایت توجہ ہونی چاہیے یہ امر عموماً مسلم ہے کہ اسلام کا وہ معجزہ جو دائمی اور ابدی ہے قرآن مجید ہے یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید کا اعجاز فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ہے۔ لیکن کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ موجودہ نصاب کے تعلیم یافتہ اس اعجاز کو بد لائل ثابت کر سکتے ہیں۔ ان طلبہ کے سامنے اگر عرب جاہلیت کا کوئی عمدہ شعر اور قرآن مجید کی کوئی آیت پیش کی جائے تو کیا وہ دونوں کا موازنہ کر کے آیت قرآن کی فصاحت و بلاغت کے وجوہ ترجیح بتا سکتے ہیں؟
قرآن مجید کے اعجاز کے ثابت کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ پہلے فصاحت و بلاغت کا کوئی ایسا اعلیٰ معیار قرار دیا جائے جس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ وہ طاقت بشریٰ کی حد سے باہر ہے، پھر امثلہ اور استدلال کے ساتھ ثابت کیا جائے کہ قرآن مجید بالکل اس معیار کے مطابق ہے، مثلاً فصاحت کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ لفظ شریں ہو لطیف ہو، صاف و سادہ ہو، مبتذل اور عامیانہ نہ ہو، سبک اور کم وزن نہ ہو۔ بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جو ایک موقع پر خوش نما اور فصیح معلوم ہوتے ہیں دوسرے موقع پر نہیں، مثلاً فواد اور قلب کے الفاظ ایک موقع پر فواد کا لفظ اپنے سابق و لاحق الفاظ کے لحاظ سے مناسب معلوم ہوتا ہے یعنی سابق و لاحق الفاظ کی نشست اور ترتیب ایسی ہے کہ وہاں فواد ہی کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ تناسب اور حسن صورت جو فصاحت کا سبب ہے۔ قائم رہتا ہے۔ ورنہ نہیں رہتا۔ کہیں ایسا موقع ہوتا ہے کہ ترتیب اور تناسب صورت کے لحاظ سے یہی فواد کا لفظ مخل فصاحت ہو جاتا ہے اور وہاں قلب کا لفظ خوش نما اور فصیح معلوم ہوتا ہے۔ علامہ ابن الاثیر نے اس نازک اور دقیق فرق کے لیے قرآن مجید کی یہ آیتیں پیش کیں۔
ما کذب الفواد مارای ۔ لمن کان لہ قلب اوالقی السمع وھو شہید
پہلی آیت میں فواد کے بجائے قلب کا لفظ ہوتا تو فصاحت میں فرق آ جاتا بخلاف اس کے دوسری آیت میں فواد کا لفظ ہو تو تناسب صورت میں فرق آ جائے۔
اب اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ کسی کلام میں جو معتدبہ معیار رکھتا ہوتا، فصاحت کا ایسا التزام کہ ہر لفظ فصیح ہو۔ اور نہ صرف فصیح بلکہ فصیح تر ہو۔ انسان کی قدرت سے باہر ہے۔ امراء القیس ، فردوسی سعدی جن کو تمام شعراء میں افصح اور ابلغ مانا جاتا ہے ان کے کلام میں ہزاروں الفاظ موجود ہیں جو فصاحت کے اعلیٰ رتبہ بلکہ معمولی رتبہ سے گرے ہوئے ہیں اس معیار کے قرار دینے کے بعد ثابت کرنا چاہیے کہ قرآن بالکل اس معیار کے مطابق ہے یعنی اس میں قدر الفاظ ہیں، عموماً اپنے تمام مرادف الفاظ سے فصیح تر اور خوش نما تر ہیں، یہاں تک کہ اگر ایک چیز کے لیے زبان عرب میں جس قدر الفاظ تھے۔ سب غیر فصیح تھے تو قرآن مجید میں سرے سے وہ الفاظ استعمال نہیں کئے گئے بلکہ اس چیز کو دوسرے طور سے تعبیر کیا گیا۔ مثلاً اینٹ کے لیے عربی میں تین لفظ ہیں، قرمد، آجر، طوب، اور یہ تینوں غیر فصیح ہیں۔ اس لیے قرآن مجید میں اس کو بیان کرنا پڑا۔ تو یوں تعبیر کیا کہ
فاوقد لی یاھامان علی الطین
بے شبہہ اس معیار کے مطابق قرآن مجید کی فصاحت کا اعجاز ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ نصاب تعلیم میں کوئی کتاب ایسی داخل نہیں جس میں قرآن مجید کی فصاحت سے اس طرح بحث کی گئی ہو، اور ایسے الفاظ کا ایک معتدبہ ذخیرہ نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔ یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ اس قسم کی کتابیں تصنیف ہی نہیں ہوئیں۔ ایسی کتابیں خود ہماری نگاہ سے گزری ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان کو درس و تدریس کے دربار میں بار نہیں ملا۔
فصاحت کے بعد بلاغت کا مرحلہ ہے اور میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے مدارس کے اکثر تعلیم یافتہ
وللاکثر حکم الکل
بالکل اس قابل نہیں کہ اس مرحلہ میں قدم رکھ سکیں۔ بے شبہہ قرآن مجید بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے لیکن اگر ہمارے طلبہ اس امر کو صرف تقلیدی طور پر جانتے اور تسلیم کرتے ہیں تو ان میں اور ایک عامی مسلمان میں کیا فرق ہے؟
میں اس موقع پر نہایت اختصار کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کا من حیث البلاغۃ ہونا کن طرق سے ثابت کیا جا سکتاہے۔ عرب میں جن شعراء کو اپنے ہمعصروں میں اشعر الشعراء ثابت کرنا چاہتے ہیں اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ شعر کے چار عمود یا چار ارکان ہیں۔ فخر، مدح، نسیب، ہجو اور ان چاروں مضامین کو جس کمال کے ساتھ اس شاعر نے ادا کیا ہے، اس کے ہمعصروں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ چنانچہ جریر کے اشعر العصر ہونے کے ثبوت میں یہ اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔
اذا غصبت علیک بنو تمیم
حسبت الناس کلھم غضابا
الستم خیر من رکب المطایا
واندی العلمین بطون راح
ان العیون اللتی فی طرفھا ھور
قتلتنا ثم لم یحیین قتلانا
یصر عن ذاللب حتی لاحرال بہ
وھو اضعف خلق اللہ ارکانا
فغض الطرف انک من نمیر
فلا کعبا بلغت ولا کلابا
شعرا کی افضلیت ثابت کرنے کے لیے تو اسی قدر کافی ہے لیکن قرآن مجید کی شان بہت ارفع و اعلیٰ ہے اور قرآن مجید کی نسبت ہمارا دعویٰ بہت وسیع ہے، ہم اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس قدر شاعر اور خطیب تھے، وہ قرآن مجید کے معارضہ سے عاجز رہے، بلکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ جاہلیت میں اسلام میں، عربی میں، فارسی میں، یورپ میں، ایشیا میں، کبھی کوئی کلام قرآن مجید کے مثل نہیں لکھا گیا۔ اور نہ آئندہ لکھا جا سکتا ہے یہ دعویٰ حقیقت میں وجدانی ہے جس شخص کو ادب اور عربیت میں پوری مہارت ہو اور مذاق بھی صحیح ہو، خود اس کا وجدان اس دعوے کی شہادت دے گا۔ لیکن وجدان ایک ایسی چیز ہے جو مخالف پر حجت نہیں ہو سکتی اس لیے اس دعوے کے اثبات کا یہ طریقہ ہے کہ اخلاق و موعظت، ترغیب و تہدید، لطف و قہر وغیرہ وغیرہ اس قسم کے بہت سے عنوان متعین کئے جائیں اور ان کے متعلق انسانی کلام میں اعلیٰ سے اعلیٰ اور بلند سے بلند جو اشعار یا تحریریں موجود ہیں انتخاب کی جائیں، پھر انہی مضامین کے متعلق قرآن مجید میں جو آیتیں ہیں، ان سے موازنہ کر کے دکھایا جائے کہ وہ تمام اشعار اور تحریریں قرآن مجید کی بلاغت سے کچھ نسبت نہیں رکھتیں اسی طرح بلاغت کے جو بڑے بڑے ارکان ہیں یعنی وہ اسالیب جو اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے محل ہیں مثلاً ایجاز و اطناب، فصل و وصل، تشبیہ و استعارہ وغیرہ وغیرہ، ان کے متعلق عرب و عجم کے کلام سے وہ مثالیں انتخاب کی جائیں جو عموماً بے مثل خیال کی جاتی ہیں اور انہی اسالیب پر قرآن مجید میں جو آیتیں ہیں ان سے موازنہ کیا جائے۔
قرآن مجید کی بلاغت کے ثبوت کے یہ طریقے ہیں اور جب تک قرآن مجید کے وجوہ اعجاز پر توجہ نہ کی جائے، قرآن مجید کے ساتھ اعتنا کرنے کا دعویٰ صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ نصاب میں ایسی کوئی کتاب داخل ہے جس سے قرآن مجید کے وجوہ اعجاز معلوم ہو سکیں؟ کیا بیضاوی و جلالین اس مطلب کے لیے کافی ہیں؟ افسوس اور سخت افسوس ہے کہ منطق اور فلسفہ جس سے اسلام کو بہت کم تعلق ہے اس کے لیے تو صغریٰ، کبریٰ، ایسا غوجی، قال، اقول، میزان منطق، تہذیب، شرح تہذیب، قطبی، میر قطبی، یبندی، ملا حسن، ملا جلال، میر زاہد، غلام یحییٰ، حمد اللہ، قاضی مبارک، صدرا، شمس بازغہ، شرح تجرید، یہ تمام دفتر لازمی اور ضروری قرار دیا جائے اور قرآن مجید کے لیے جو مدار اسلام ہے، جلالین اور بیضاوی کے ڈھائی پارے کافی سمجھے جائیں۔
واللہ تلک قسمۃ منیزی
5ایک اور نقص طریقہ تعلیم میں یہ ہے کہ قدیم علم کلام جو فلسفہ یونانی کے مقابلہ میں ایجاد اور مدون ہوا تھا۔ آج تک بغیر کسی اضافہ اور ترمیم کے درس میں داخل ہے۔ حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ جو اعتراضات حال کی تحقیقات سے پیدا ہوتے ہیں ان کے لیے وہ علم کلام کیونکر کافی ہو سکت اہے جو اس وقت ایجاد ہوا تھا، جب کہ یہ اعتراضات پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، مثلاً یونانی آسمان کے وجود کے معترف تھے۔ صرف خرق والیتام سے ان کو انکار تھا، مسلمانوں کو نزول ملائکہ اور امکان معراج کے لیے خرق والیتام کے امکان کے ثبوت کی ضرورت تھی، چنانچہ علم کلام میں یہ امکان ثابت کر دیا گیا لیکن آج یورپ والوں کو سرے سے آسمان کے وجود سے انکار ہے، اس لیے اب ہم کو آسمان کا وجود ثابت کرنا ضرور ہے، کیوں کہ قرآن مجید میں سینکڑوں جگہ آسمان کا ذکر ہے۔ آسمان کے ثبوت کیلئے قدیم علم کلام کس کام آ سکتا ہے ۔ میں اس وقت اس بحث کو طول نہ دوں گا۔ مجھ کو معلوم ہے کہ نئے کلام کی ضرورت ہمارے علماء بھی تسلیم کرتے جاتے ہیں۔
کان پور کے ایک مدرسہ کا نصاب تعلیم جو حال میں شائق ہوا ہے اس میں فلسفہ جدیدہ اور اس کا رد بھی تعلیم میں داخل ہے، فلسفہ جدیدہ کا رد یہی نیا علم کلام ہے۔
2ایک نقص نصاب تعلیم میں یہ ہے کہ وہ ایک خاص سلسلہ پر محدود ہے قدیم زمانہ میں بہت سے لوگ صرف ایک یا دو فن کی تحصیل کرتے تھے۔ اور تحصیل کا تمام زمانہ اسی خاص فن میں صرف کر دیتے تھے۔ فرائ، کسائی، سیبویہ، خلیل، امام بخاری، مسلم، طحاوی، بزدوی اور بہت سے اہل کمال اسی طرز کے تعلیم یافتہ ہیں۔ اور در حقیقت یہ طرز ایک خاص فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے نہایت مفید تھا۔ آج یہ طریقہ بالکل متروک ہے اور اہل کمال کے نہ پیدا ہونے کا یہ بھی ایک بڑا سبب ہے۔
ان وجوہ مذکورہ بالا کی بنا پر میں اس تجویز کی جس کو جناب مولوی شاہ محمد حسین صاحب نے پیش کیا، تائید کرتا ہوں اور با صرار کہتا ہوں کہ موجودہ نصاب تعلیم ناقص ہے اور اس میں ضرور اصلاح اور اضافہ ہونا چاہیے۔
٭٭٭٭٭٭٭
-----------------------
از " خطبات شبلی" مرتب : سید سلیمان ندوی ؒ