ہمارے اصول فقہ کے علما اسلامی قانون کے عموماً چار مآخذ بتاتے ہیں: کتاب، سنت، اجماع اور قیاس
مسئلے کی یہ تعبیر اگرچہ غلط نہیں ہے لیکن اس تعبیر میں بعض ایسے خلا ہیں جن کے سبب سے موجودہ زمانے کے ذہنوں کو اصل حقیقت کے سمجھنے میں بعض الجھنیں پیش آتی ہیں۔ مَیں پہلے اس تعبیر کے خلا کی طرف اشارہ کروں گا۔ تاکہ وہ الجھنیں دور ہو سکیں جو اس تعبیر کے سبب سے ذہنوں میں پیدا ہوتی ہیں، اس کے بعد تفصیل کے ساتھ بتاؤں گا کہ اسلامی قانون کے ماخذ فی الواقع کیا کیا ہیں، ان ماخذوں کے حدود کیا ہیں اور ان سے استفادے کے شرائط کیا ہیں؟
مذکورہ تعبیر میں کھٹکنے والی باتیں تین ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اس میں اجماع کو تیسرے ماخذ قانون کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ کتاب و سنت کے بعد تیسرا ماخذ اسلام میں اجتہاد ہے۔ اجماع اجتہاد کی ایک قسم، بلکہ سب سے اعلی قسم تو ضرور ہے، لیکن اس کو تیسرے ماخذ قانون سے تعبیر کرنا اس عہد کے بہت سے لوگوں کو اجنبی سا معلوم ہوتا ہے۔ اجتہاد ایک تو کسی مجتہد کا انفرادی اجتہاد ہوتا ہے، ایک وہ اجتہاد ہوتا ہے جس پر وقت کے مجتہدین متفق ہو گئے ہوں۔ اس موخر الذکر اجتہاد کو اجماع کہتے ہیں۔ یہ سابق الذکر اجتہاد سے اس اعتبار سے بالکل مختلف ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت صرف ایک رائے کی نہیں رہ جاتی، بلکہ یہ دین میں بجائے خود ایک حجت کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔
اس میں دوسری کھٹکنے والی چیز یہ ہے کہ قیاس کا ایک چوتھے ماخذ قانون کی حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے حالانکہ قیاس بھی اصل ماخذ قانون نہیں ہے بلکہ اسلام کے تیسرے ماخذ قانون۔۔۔اجتہاد۔۔۔کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جس کا مقصد اگر فنی اصطلاحات و تعبیرات سے الگ ہو کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش آئے ہوئے کسی معاملہ میں شریعت کا حکم معلوم کرنے کی کوشش کرنا۔
ہمارے علمائے اصول نے اجتہاد ہی کو اجماع اور قیاس کے دو لفظوں سے تعبیر کر دیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہوئی ہو گی کہ اجتہاد کا لفظ جامع تو ضرور ہے، لیکن اپنی وسعت کی وجہ سے پوری طرح واضح نہیں ہے۔ اجماع اور قیاس سے اس کی تعبیر ایک حد تک اس کو گرفت میں لادیتی ہے۔ اجماع سے اس وجہ سے کہ یہ اجتہاد کی سب سے اعلی قسم ہے اور قیاس سے اس بنا پر کہ اجتہاد کے طریقوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ یہی ہے، اگرچہ اس تعبیر کے لیے یہ ایک وجہ جواز موجود ہے، لیکن میرے نزدیک صحیح اورجامع تعبیر اجتہاد ہی کی تعبیر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل والی حدیث میں بھی کتاب و سنت کے بعد تیسری چیز جس کا ماخذِ قانون کی حیثیت سے ذکر آیا ہے۔ وہ اجماع یا قیاس نہیں ہے بلکہ اجتہاد ہی ہے۔
مذکورہ بالا تعبیر میں تیسری کھٹکنے والی بات یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون کے تمام ماخذوں کا پورا پورا احاطہ نہیں کرتی۔ اسلامی قانون کے ماخذ میں سے ایک ماخذ عرف (رواج) بھی ہے جو ایک مخصوص دائرہ میں معتبر ہے اور اس کا معتبر ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور فقہا نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے، لیکن مذکورہ چاروں ماخذوں کے ساتھ اس کا کوئی حوالہ نہیں آتا۔ اسی طرح اسلامی قانون کے ماخذوں میں سے ایک ماخذ مصلحت بھی ہے اور اس کا بھی ایک خاص دائرہ ہے اور ہمارے فقہا نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے، لیکن اس کا بھی ان چاروں کے ساتھ کوئی ذکر نہیں آتا۔ میرا خیال ہے کہ ان کے نظر انداز کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ماخذ اصلی مآخِذ نہیں، بلکہ ضمنی مآخِذ ہیں اور ان کے دائرے کتاب و سنت اور اجتہاد کے دائروں سے الگ ہیں اس وجہ سے علما نے ان کا ذکر تو کیا، لیکن اسلامی قانون کے اصلی ماخذوں سے الگ کر کے کیا۔ اگرچہ ان کے ذکر نہ کرنے کی یہ وجہ موجود ہے اور مجھے اس کی اہمیت سے انکار نہیں ہے، لیکن قانون اسلامی کے اصلی ماخذوں کے ساتھ ان کا ذکر نہ آنے سے اسلامی قانون کے ماخذوں کا پورا تصور ذہن میں نہیں آتا۔
اسلامی قانون کے پانچ ماخِذ
مَیں پچھلے علما کی اس تعبیر کو اگرچہ حکمت سے خالی نہیں سمجھتا، لیکن بات کو موجودہ زمانہ کے ذہن سے قریب تر لانے کے لیے یوں کہنا میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے کہ اسلامی قانون کے پانچ ماخِذ ہیں: کتاب، سنت، اجتہاد، رواج اور مصلحت ان میں ترتیب الاقدم فالا قدم کی ہے یعنی جو پہلے ہے اس کی طرف پہلے رجوع کیا جائے گا۔ اس کو نظر انداز کر کے دوسرے کا اعتبار اور لحاظ نہیں ہو گا۔ مثلاً اسلامی قانون کا پہلا ماخذ قرآن ہے۔ اس وجہ سے ہر معاملہ میں سب سے پہلے اسی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اگر کسی معاملہ میں قرآن خاموش ہو گا تو پھر سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اسی طرح اجتہاد سے کام اس صورت میں لیا جائے گا جب کتاب و سنت کے نصوص میں کوئی رہنمائی نہ ملے۔ علی ہذا القیاس رواج اور مصلحت کا لحاظ انھی صورتوں میں ہو گا جن میں کتاب و سنت نے ہمیں رواج اور مصلحت پر عمل کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ یہ نہیں کریں گے کہ کتاب اللہ کو نظر انداز کر کے کسی معاملہ میں حدیث کو اختیار کر لیں یا سنت کو پسِ پشت ڈال کر رواج یا مصلحت کو ماخذِ قانون بنا لیں۔ چنانچہ جہاں تک ترتیب کا تعلق ہے حضرت معاذ بن جبل والی مشہور حدیث میں یہی ترتیب بیان ہوئی ہے۔ روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما اراد ان یبعث معاذاً الی الیمن قال: کیف تقضی اذا عرض لک قضاء؟ قال: اقضی بکتاب اللہ۔ قال: فان لم تجد فی کتاب اللہ؟ قال: فبسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فان لم تجد فی سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ولا فی کتاب اللہ؟ قال: اجتھد رایی ولا اٰلو۔ فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدرہ وقال: الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضیٰ رسول اللہ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل کو یمن بھیجنے لگے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ جب تمھارے سامنے کوئی معاملہ فیصلے کے لیے پیش ہو گا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ انھوں نے عرض کی کہ میں اس کا فیصلہ کتابُ اللہ کے مطابق کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اللہ کی کتاب میں اس کے متعلق کوئی بات نہ ملے تو کیا کرو گے؟ انھوں نے کہا کہ پھر اس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کروں گا۔ پھر حضور نے فرمایا کہ اگر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت میں بھی اس کے متعلق کوئی بات نہ ملے اورنہ اللہ کی کتاب میں تو کیا کرو گے؟ انھوں نے عرض کی کہ پھر میں اجتہاد کر کے اپنی رائے متعین کروں گا اور اس کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ بات سنی تو ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے نمائندے کو اس بات کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو پسند ہے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیہ، باب اجتہاد الرأی فی القضا)
اس حدیث سے وہ بات بھی واضح ہوتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے کہ اسلامی قانون کا تیسرا ماخذ دراصل اجتہاد ہے جس کے دو اہم رکن اجماع اور قیاس ہیں اور ان ماخذوں کی وہ ترتیب بھی واضح ہوتی ہے جس کی طرف ہم نے ابھی ابھی اشارہ کیا ہے اس وجہ سے صحیح بات میرے نزدیک یہ ہے کہ نہ قرآن کو حدیث منسوخ کر سکتی ہے اور نہ سنت کو اجتہاد منسوخ کر سکتا ہے۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ حدیث قرآن کو منسوخ کر سکتی ہے، میرے نزدیک ان کی رائے صحیح نہیں ہے۔ صحیح رائے میرے نزدیک اس بارے میں حدیث کے سب سے بڑے واقفِ حال حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ ان کا ارشاد فضل بن زیاد کے حوالے سے، ملاحظہ ہو:
قال: سمعت احمد بن حنبل وسئل عن الحدیث الذی روی: ان السنۃ قاضیۃ علی الکتاب۔ قال: ما اجسر علی ھذا ان اقولہ ولکن السنۃ تفسر الکتاب وتعرف الکتاب و تبینہ (۱)۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے سنا اور ان سے سوال کیا گیا تھا اس قول (حدیث) کے بارے میں جس کی روایت ہوئی کہ ’السنۃ قاضیۃ علی الکتاب‘ (سنت کتاب اللہ پر حاکم ہے) تو انھوں نے فرمایا کہ بھئی یہ کہنے کی میں جسارت نہیں کر سکتا۔ سنت تو قرآن کی تفسیر کرتی، اس کی تعریف کرتی اور اس کی مجمل باتوں کی وضاحت کرتی ہے۔
(کتاب اکفایہ فی علم الروایہ، باب تخصیص السنن لعموم محکم القرآن و ذکر الحاجۃ فی المحمل الی التفسیر و البیان)
یہی مذہب امام شافعی اور جمہور اصحاب مالک کا ہے۔ جب سنت قرآن کو نہیں منسوخ کر سکتی تو ظاہر ہے کہ عرف یا مصلحت کے سنت یا اجتہاد پر اثر انداز ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔