جاوید احمد غامدی: انٹرویو قومی ڈائجسٹ (1/2)

محمد صفدر سحر

جاوید احمد غامدی کا انٹرویو 
جناب جاوید احمد غامدی کا نام اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ..... علما کے روایتی حلقوں سے الگ، انھوں نے اپنی شناخت بنائی ہے اور اہل فکر و دانش کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ وہ جرأت اور متانت کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کے اظہار پر قادر ہیں۔ اپنی شخصیت اور اسلوب کی بدولت الیکٹرانک میڈیا پر ان کی مانگ بہت ہے، اور گھر گھر دیکھا اور سنا جا رہا ہے ..... معاشرے کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ان کی اپنی سوچ ہے اور وہ دلائل کے ساتھ اسے پیش کرنے پر قادر ہیں۔ ان سے اختلاف کرنے والے کم نہیں ہیں، لیکن ان کا اعتراف کرنے والے بھی کم نہیں رہے۔ عزیزم صفدر سحر نے ان سے گفتگو کر کے ان کے خیالات قارئین ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، یہ کوشش نامکمل ہو سکتی ہے، لیکن ناکام نہیں ہے۔

سوال: ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں، کہاں سے تعلق ہے، والد کیا کرتے تھے؟

جواب: میرا تعلق نارووال سے ۱۲ کلومیٹر دور چھوٹے سے قصبے، جیون شاہ سے ہے۔ خاندان کا پیشہ جیسا کہ غالب نے کہا تھا:

سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری
زمین داری تھا۔ والد صاحب نے ساری زندگی کاشت کاری کی۔ خاندان میں تعلیم تو تھی، لیکن دینی تعلیم کا کوئی تصور نہ تھا، اس میں میری تاریخ مجھ سے شروع ہوتی ہے اور شاید مجھ پر ہی ختم ہو جائے۔


سوال: لیکن سنا ہے آپ کے والد کو تو تصوف سے دل چسپی تھی؟

جواب: جی ہاں، والد صاحب صوفی شاعر تھے، جنیدی قادری سلسلے سے ان کا تعلق تھا۔ اور باقاعدہ بیعت تھے۔ ساری زندگی انھوں نے اپنی وابستگی کو نبھایا، وہ اپنا نام بھی محمد طفیل جنیدی قادری لکھتے تھے۔

سوال: تو آپ کیسے تصوف کے نقاد بن گئے؟

جواب: دیکھیے بات یہ ہے، میں نے ابتدائی تعلیم سکول سے پائی، ابتدا میں میں تصوف کی کتابیں ہی پڑھتا تھا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو میں نے تصوف کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھا۔ دراصل میں کسی کا نقاد نہیں ہوں اپنی ذات کے سوا۔ میں تو صرف یہ دیکھتا ہوں کہ کیا اللہ کی کتاب کے مطابق ہے اور کیا نہیں۔

سوال: تعلیم کہاں سے حاصل کی، کہاں تک پڑھے، کن کن اداروں اور اساتذہ سے فیض حاصل کیا؟

جواب: میری ابتدائی تعلیم دونوں طریقہ ہاے تعلیم سے ہوئی، میں سکول میں پڑھتا تھا، لیکن والد اس پر مطمئن نہ تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ میں اس کے ساتھ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھوں۔ اس دوران والد صاحب نے پاک پتن کے نواح میں واقع میاں محمد حسین بودلہ کی جاگیر پر ملازمت کر لی، اور وہیں منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا، مجھے پاک پتن کے ایم سی پرائمری سکول سے اٹھا کر ’’پکا سدھار‘‘ کے سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہ ایک کمرے پر مشتمل سکول تھا، جس میں ٹاٹ تک نہیں تھے، ہم جھاڑیوں سے شاخیں توڑتے، ان کے پتوں سے فرش کی صفائی کرتے اور وہیں بیٹھ جاتے۔ گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی جہاں والد صاحب نماز پڑھنے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ مولوی نور احمد صاحب اس مسجد کے امام اور خطیب تھے۔ غالباً ان کا تعلق دیوبندی مسلک سے تھا، والد نے ان سے میری تعلیم کی بات کی تو وہ مجھے عربی اور فارسی پڑھانے پر تیار ہو گئے، اور یوں میں عصر سے مغرب تک ان کے پاس عربی، فارسی پڑھنے کے لیے جانے لگا۔ پانچویں جماعت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ انھوں نے مجھے ’’شرح جامی‘‘ تک عربی اور ’’پند نامہ‘‘ تک فارسی پڑھائی۔ میں ابھی پانچویں جماعت میں ہی تھا کہ والد صاحب ملازمت چھوڑ کر واپس آ گئے۔ اس کے ساتھ ہی مولوی صاحب سے میری تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ تاہم شوق ختم نہیں ہوا۔ کہتے ہیں نا کہ

شوق در ہر دل کہ باشد رہبرے درکار نیست


میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ہی کسی استاد تک پہنچ جاتا۔ یوں میں درس نظامی کی کتابیں پڑھتا رہا، نویں جماعت تک میں نے فنون کی تمام کتابیں ختم کر لیں، دسویں کا امتحان درپیش تھا، اس لیے پوری توجہ اس کی طرف مبذول ہو گئی، اور عربی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ غالباً چھٹی یا ساتویں کے زمانے میں میری ملاقات نصیر الدین ہمایوں صاحب سے ہوئی، وہ ہمیں تاریخ پڑھاتے تھے۔ یہ ملاقات اس لحاظ سے اہم تھی کہ انھی کی وساطت سے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے نام اور کام سے میرا تعارف ہوا۔ مولانا کی تمام کتابیں میں نے ان سے لے کر پڑھیں۔ یہ علم و عمل کی ایک نئی دنیا تھی۔ دسویں کا سال شروع ہوا تو فلسفہ، تصوف، ادب اور تاریخ کی کتابیں پڑھنے سے میری دل چسپی بہت بڑھ چکی تھی۔ ان مضامین کی کوئی کتاب مل جاتی تو ختم کیے بغیر چین نہ آتا۔ سکول کی مصروفیت کسی حد تک رکاوٹ بنتی تھی ..... ایک دن میں نے اپنے استاد اور سکول کے ہیڈ ماسٹر سید شیر محمد صاحب سے درخواست کی کہ مجھے اسباق میں حاضری سے مستثنیٰ کر دیا جائے اور ہاسٹل میں ایک کمرہ بھی دیا جائے، میں مطالعہ کرنا چاہتا ہوں اور ان شاء اللہ دسویں کے نتیجے سے بھی آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ میری یہ درخواست مان گئے۔ انھوں نے بس اتنا پوچھا: ’’میرے اعتماد کو ٹھیس تو نہیں پہنچاؤ گے؟‘‘ میں نے اطمینان دلایا تو اگلے ہی دن یہ سہولتیں مجھے مل گئیں۔ مزید عنایت یہ کی کہ سکول کی لائبریری سے میرے ذوق کی تمام کتابیں اس کمرے میں منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔ یوں مجھے ’’فراغتے و کتابے‘‘ کی ہر صورت میسر آ گئی۔ وہ دن یاد آتے ہیں تو سید صاحب بھی ساتھ ہی یاد آ جاتے ہیں تشبیہ و تمثیل کے لیے اب ان جیسے استاد کہاں؟

اے تو مجموعہ خوبی ، بچہ نامت خوانم


میٹرک کے رزلٹ کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا۔ فلسفہ اور انگریزی ادب میرے اختیاری مضامین تھے۔ بی اے آنرز کے لیے میں نے انگریزی ادب کا انتخاب کیا ..... گورنمنٹ کالج اس زمانے میں علم و ادب کے درخشندہ ستاروں کی کہکشاں تھا۔ پروفیسر مرزا منور، صابر لودھی، غلام الثقلین نقوی، ملک بشیر الرحمن، پروفیسر سراج، پروفیسر سعید شیخ، پروفیسر بختیار حسین صدیقی جیسے علما اور ادبا کی صحبتیں طالب علموں کو میسر تھیں۔ کالج میں بہت اچھی لائبریری تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری اور پنجاب پبلک لائبریری بھی زیادہ دور نہ تھیں، اس زمانے کا لاہور خود ایک جہان علم تھا۔ مولانا مودودی، مولانا ابوالخیر مودودی، مولانا حنیف ندوی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا عطاء اللہ حنیف، ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، پروفیسر علم الدین سالک، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، فیض احمد فیض، شورش کاشمیری، حفیظ جالندھری، عابد علی عابد اور احمد ندیم قاسمی جیسے اساطین علم و ادب زندہ تھے اور آدمی جب چاہے، ان سے استفادے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہو سکتا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق صاحب سے ’’مقامات ہمدانی‘‘ اور مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب سے ’’دارمی‘‘ کا کچھ حصہ پڑھا، گورنمنٹ کالج میں کم و بیش پانچ برس رہا، معمول یہ تھا کہ صبح گھر سے نکلتا، کلاس لیتا، پھر شام تک کسی لائبریری میں بیٹھا رہتا یا لائبریری سے اٹھ کر ان بزرگوں کی صحبت میں پہنچ جاتا۔ 

طالب علمی کا دوسرا دور ۱۹۷۳ء سے شروع ہوا جب میں کالج کو الوداع کہہ کر مولانا امین احسن اصلاحی کے مدرسۂ علمی میں داخل ہو گیا۔ یہ سلسلہ کم و بیش دس سال تک جاری رہا۔ اس دوران میں مولانا نے خود بھی پڑھایا۔ سورۃ الزخرف سے آخر تک قرآن، قرآن و حدیث پر تدبر کے اصول و مبادی اور فلسفۂ جدید کے بعض مباحث بھی انھی کے طریقے سے اور انھی سے پڑھے۔ مولانا فرمایا کرتے تھے: پڑھے کم اور لکھے زیادہ لوگ اس زمانے میں بہت ہو گئے ہیں۔ ان کا ارشاد تھا کہ قلم اس وقت اٹھائیے جب کوئی نئی حقیقت سامنے آئے۔ چنانچہ طالب علمی کے اس دور میں لکھنے کی ہمت بہت کم ہوئی۔

سوال: مولانا امین احسن اصلاحی سے کب اور کیسے ملاقات ہوئی؟

جواب: یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں داخل ہوا۔ امام حمید الدین فراہی کی ایک کتاب دیکھی جس کے دیباچے میں امام کے تلمیذ رشید امین احسن اصلاحی کا ذکر تھا، الفاظ غالباً یہ تھے:

’’ثاني اثنین إذھما یتأدبان بآداب الإمام الفراہي.‘‘


میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ مولانا سے ملاقات کی جائے۔ اسلامی جمعیت کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ لاہور سے باہر کسی گاؤں میں مقیم ہیں، اتنا معلوم تھا کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا بھی ان سے کچھ تعلق ہے، ڈاکٹر اسرار صاحب ان دنوں کرشن نگر میں رہتے تھے۔ میں لائبریری سے اٹھا اور ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گیا، ڈاکٹر صاحب مطب کے پچھلے کمرے میں اپنے احباب سے باتیں کر رہے تھے، میں نے مولانا امین احسن اصلاحی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ حسن اتفاق سے وہ آج ہی اپنے گاؤں رحمان آباد سے آئے ہیں اور اس وقت اپنے داماد نعمان علی صاحب کے ہاں ہیں۔ میں واپڈا کالونی کے لیے روانہ ہو گیا، وہاں پہنچا تو مغرب کا وقت ہو رہا تھا۔ راہ چلتے ایک صاحب سے رہنمائی چاہی تو انھوں نے سامنے کی طرف اشارہ کیا، مولانا نماز کے لیے باہر نکل رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا، یہ استاذ امام سے میری پہلی ملاقات تھی۔ مولانا غالباً دو ہفتے لاہور میں رہے، میں روزانہ ملاقات کے لیے حاضر ہوتا اور ایک نئی دنیا کی سیر کر کے لوٹتا، استاذ امام کے ساتھ یہی ملاقاتیں ہیں جن سے پہلی مرتبہ شرح صدر ہوا کہ دین محض مان لینے کی چیز نہیں ہے، بلکہ اسے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت واضح ہوئی کہ قرآن ایک قول فیصل ہے، دین و شریعت کی ہر چیز کے لیے میزان ہے، پورے عالم کے لیے خدا کی محبت ہے۔ اس کی روشنی میں ہم حدیث و فقہ، فلسفہ و تصوف اور تاریخ و سیر، ہر چیز کا محاکمہ کر سکتے ہیں۔ یہ میرے لیے ایک نئے قرآن کی دریافت تھی، میں نے مولانا سے عرض کیا کہ میں آپ کے طریقے پر قرآن کا طالب علم بننا چاہتا ہوں۔ اپنی تعلیم کا کچھ پس منظر بتا کر پوچھا کہ اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا؟ مولانا نے مختلف علوم و فنون کی امہات کتب کی ایک لمبی فہرست بتائی جنھیں پڑھنے، سمجھنے اور دل و دماغ میں اتارنے کے لیے برسوں کی محنت چاہیے تھی۔ اس طریقے سے پڑھنا چاہتے ہو تو لیڈری کا خیال ذہن سے نکال کر علم و نظر اور فکر و تدبر کے لیے گوشہ گیر ہونا پڑے گا، یہ فیصلہ کرو کہ تمھارا سایہ بھی ساتھ نہ دے تو بھی حق پر قائم رہو گے، مولانا کا لاہور میں آخری دن تھا۔ اگلے دن وہ گاؤں واپس جا رہے تھے۔ میں نے دل و دماغ کا جائزہ لیا، نتائج و عواقب کا اندازہ کیا اور اسی روز فیصلہ کر لیا کہ مولانا کے مدرسے میں داخل ہونا ہے۔

سوال: مولانا مودودی کے بارے میں تاثرات؟ کیسے ملاقات ہوئی، کیسی شخصیت تھی؟

جواب: میں آپ کو پہلے ہی اپنے تاریخ کے استاد نصیر الدین ہمایوں صاحب کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ انھی کی وساطت سے جماعت اسلامی سے میرا تعارف ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبا کا سالانہ اجتماع ان دنوں داؤد گارڈن داروغہ والا میں منعقد ہوا۔ ہم چند دوست بھی اسلامیہ ہائی سکول سے ہمایوں صاحب کے ساتھ اس اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور آئے۔ ہمایوں صاحب غالباً اس وقت جماعت اسلامی کے شعبہ نظامت تعلیم کے ڈائریکٹر تھے۔ 

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کو پہلی مرتبہ اسی اجتماع کے موقع پر دیکھا، کیا دل نواز شخصیت تھی! لگتا تھا کہ ان کی صورت گری میں حسن فطرت کی ہر چیز کام آ گئی ہے۔ بعد میں ان سے ملنے اور بہت قریب رہ کر ان کو دیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے، علم و عمل، حسن اخلاق، دانش و بصیرت اور جرأت و عزیمت کے لحاظ سے جن شخصیتوں کے نام ان کے ساتھ لے سکتے ہیں، وہ انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ یہ صرف میرا تاثر نہیں ہے، انھیں دیکھنے، ملنے، ان سے ہم کلام ہونے اور ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت جن لوگوں کو بھی حاصل ہوئی ہے، وہ اس کی گواہی دیں گے:

نہ من براں گل عارض غزل سرایم و بس
کہ   عندلیب   تواز  ہر طرف  ہزار انند


میں غالباً ان دنوں نویں جماعت میں تھا جب اس جلسے میں شرکت کی، مولانا اس زمانے میں دین کی ایک تعبیر پیش کر رہے تھے جو نوجوانوں کو متاثر کر رہی تھی۔

سوال: کیا آپ کو بھی متاثر کیا؟

جواب: عمر کا وہ حصہ ایسا ہوتا ہے جب ابھی تنقیدی ذہن پیدا نہیں ہوا ہوتا، جذباتیت زیادہ ہوتی ہے۔

سوال: جماعت کی رکنیت کب اور کیسے اختیار کی؟

جواب: ۱۹۷۵ء میں مولانا کی خواہش پر میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوا، میرا جماعت اسلامی سے جڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن چونکہ مولانا میرے بزرگوں کی طرح تھے، اس لیے ان کی خواہش پر جماعت کی رکنیت اختیار کی۔

سوال: اور پھر نو سال تک اس کے رکن رہے؟

جواب: نہیں پونے دو سال تک۔

سوال: لیکن میں نے تو نو سال پڑھا ہے؟

جواب: آپ کی انفارمیشن غلط ہے۔ میں ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۷ء تک جماعت کا حصہ رہا۔

سوال: آپ نے جماعت کو چھوڑا تھا یا آپ کو expel کیا گیا تھا؟ میری معلومات کی حد تک آپ کو جماعت سے نکالا گیا تھا؟

جواب: ۱۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء کو جماعت اسلامی پنجاب کے امیر مولانا فتح محمد صاحب کا ایک دو سطری خط مجھے موصول ہوا جس میں مطلع کیا گیا تھا کہ جماعت اسلامی سے میری رکنیت ختم کر دی گئی ہے۔ خط میں کوئی وجہ تحریر نہیں کی گئی تھی، بس فیصلہ سنا دیا گیا کہ میں اب جماعت کا رکن نہیں رہا۔

سوال: کچھ نہ کچھ تو اختلاف راے ہوا ہو گا؟

جواب: سچی بات ہے، مجھے آج تک پتا نہیں۔ میں نے جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد صاحب کو ایک خط بھی تحریر کیا اور اس فیصلہ کی وجوہ معلوم کرنا چاہیں ..... میں نے لکھا کہ اگر وجوہات درست ہوں گی تو میں ان کا ازالہ کروں گا، اگر غلط ہوں گی تو وضاحت کروں گا، اس لیے ازراہ کرم مجھے وجوہات سے آگاہ کریں۔ لیکن میرے خط کا کوئی جواب نہ آیا۔

سوال: آپ کے اپنے خیال میں کیا وجوہ ہو سکتی ہیں؟

جواب: دیکھیے، میں قیاس آرائی نہیں کرتا، بلکہ ٹھوس حقائق پر تبصرہ کرتا ہوں۔ مجھے فقط دو سطری ایک خط ملا جس کے بعد میں نے خط لکھ کر ان سے وضاحت چاہی، لیکن مجھے کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اگر آپ مجھے ان سے پتا کر کے بتا دیں تو پھر میں کوئی تبصرہ کر سکتا ہوں۔

سوال: اس کے بعد جماعت سے راستے جدا ہو گئے؟

جواب: جی۔ یقینا۔

سوال: وصل و فصل کی اس داستان کے بارے میں کیا تاثرات ہیں؟

جواب: یہ وصل و فصل میرے لیے زندگی کا ایک اہم تجربہ تھا، میں نے اس عرصے میں اپنے عہد کی ایک عظمت کو بہت قریب سے دیکھا، ان کے ساتھ کھڑے ہو کر نمازیں پڑھیں، ان سے باتیں کیں، زندگی کے آداب سیکھے، صبر و حکمت کا درس لیا، زبان و بیان کی بعض نزاکتیں سمجھیں، ماچھی گوٹھ سے پہلے اور بعد میں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر خود ان کی زبان سے سنا۔ مولانا اصلاحی کے ساتھ ان کے علمی اختلافات پر ان سے تبادلۂ خیالات کیا۔ امام فراہی کے متعلق ان کے عقیدت مندانہ تاثرات سنے۔ ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر اور علامہ اقبال سے ان کی محبت کی داستانیں سنیں۔ یہ محبتیں سرمایۂ حیات ہیں اور میں اب بھی مولانا کو اس طرح یاد کرتا ہوں، جس طرح ایک مہجور بیٹا اپنے باپ کو یاد کرتا ہے۔ ان کی جماعت کو بھی اپنی برادری کی طرح یاد کرتا ہوں اور پالیسی اور طرزعمل سے ہزار اختلافات کے باوجود ایسا ہی تعلق خاطر محسوس کرتا ہوں جس طرح کوئی شخص اپنے خاندان سے محسوس کرتا ہے۔ مولانا نے امریکا جانے سے پہلے آخری ملاقات میں مجھ سے کہا تھا:

’’میری عزیز توقعات آپ سے وابستہ ہیں، اپنے ناقدین کی بات ہمیشہ توجہ کے ساتھ سنیے۔ وہ آپ کو مشتعل کرنا چاہیں تو ان کے افترا اور بہتان طرازی کے باوجود اشتعال میں آنے سے انکار کر دیجیے، اس کے بعد خدا آپ کے ساتھ ہو گا اور آپ ان شاء اللہ انھیں اپنے میدان میں شکست دیں گے۔‘‘
زندگی کے نشیب و فراز میں مولانا کی یہ نصیحت میرے پیش نظر رہی ہے۔ یہ اسی کا ثمر ہے کہ

اس دشت بے چراغ میں کرتا ہوں روز و شب
پیدا ہر اک ببول سے سرو و سمن کو میں


سوال: آپ کے مباحث زیادہ تر الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ اسلامی فکر کے حوالے سے ہمارے ہاں دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں، ایک traditionalists اور دوسرے revivalists جیسے جماعت اسلامی۔ یہ دونوں آپ سے فاصلے پر ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ ذہن کا حامل ایک چھوٹا سا طبقہ آپ کی بات سنتا ہے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کا مخاطب ایک چھوٹا سا طبقہ ہے؟

جواب: میری ساری زندگی اس ایک اصول پر گزری ہے کہ میں صحیح بات کو دریافت کروں اور جب مجھے موقع ملے اپنے قاری تک صحیح بات پہنچاؤں۔ کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا، مجھے اس سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ اگر کوئی مجھ پر تنقید کرتا ہے تو میں دیانت داری سے اس کی تحقیق کروں گا، اگر تنقید جائز ہوئی تو میں اس کا جا کر شکریہ ادا کروں گا، اگر تنقید غلط ہو گی تو آپ نے بھی یہ دیکھا ہو گا کہ میں کبھی جواب نہیں دیتا۔

سوال: آپ پر rationalist اور modernist کا لیبل لگایا جاتا ہے، کیا یہ لیبل درست ہے؟

جواب: میں مسلمان ہوں، اول مسلمان آخر مسلمان .....، میری کتاب، جس پر میں نے زندگی کے ۱۷ سال صرف کیے ہیں، اس جملے سے شروع ہوتی ہے: ’’دین کا تنہا ماخذ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت ہے، وہ جس چیز کو اپنے قول و فعل، تقریر و تصویب سے دین قرار دے دیں، وہ دین ہے۔‘‘ میں اول آخر مسلمان ہوں اور اس کے علاوہ کوئی لاحقہ اپنے نام کے ساتھ پسند نہیں کرتا، میری دل چسپی اس میں ہے کہ رسول کا دین کیا ہے؟ میں اس کو سمجھوں اور اس کو بیان کر دوں۔ مجھے کبھی اس کی پروا نہیں رہی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ٹھیک ہے کہ آج میڈیا کے ذریعے سے لوگوں تک میری بات پہنچ رہی ہے، لیکن میں یہ باتیں آج سے نہیں پچھلے ۳۰، ۳۵ سال سے کہہ رہا ہوں۔

سوال: آپ نے مختلف ٹی وی انٹرویوز اور مباحث میں جہاد کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، عامۃ المسلمین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ آپ جو باتیں کہہ رہے ہیں، کیا پوری اسلامی تاریخ میں وہ باتیں کسی اور اسلامی مفکر کے ذہن میں نہیں آئی تھیں؟ آپ کا تصور جہاد اجنبی محسوس ہوتا ہے۔

جواب: میں نے کیا کہا ہے؟ یہی نا کہ جہاد ظلم و عدوان کے خلاف ہوتا ہے، جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے، قیامت تک یہ رکن ایسے ہی قائم رہے گا، لیکن جہاد کرنے کا حق مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو ہے، یہ بات سارے مسلم مفکرین کہتے آ رہے ہیں۔

سوال: آپ کہتے ہیں کہ جہاد کا اعلان اسلامی حکومت، یعنی مسلمانوں کا نظم اجتماعی کرے، جبکہ دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ اسلامی ریاست کا قیام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ نہیں ہے؟

جواب: یہ میں نے کب کہا ہے؟

سوال: آپ کے حوالے سے میں نے کہیں پڑھا ہے؟

جواب: جو میں نے نہیں لکھا، اس پر مجھ سے سوال نہیں بنتا۔ میرے بارے میں جو لکھا جاتا ہے، اس میں، میں صرف یہ دیکھتا ہوں کہ میری کسی غلطی کی نشان دہی تو نہیں کی گئی، میں اس کو سمجھتا ہوں ..... میں آپ کو مولانا مودودی کا ایک واقعہ سناتا ہوں، ان پر بہت تنقید کی جا رہی تھی۔ اس زمانے میں ’’فتنۂ مودودیت‘‘ جیسی کتابیں لکھی جا رہی تھیں۔ یہ جو آپ میری تاریخ سنا رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا کچھ ان کے ساتھ ہو چکا ہے، حالاں کہ میں تو ایک چھوٹا سا آدمی ہوں، مولانا بہت بڑے آدمی تھے:

چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک


لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہوا۔ مولانا احمد علی جیسے لوگ بھی ان کے خلاف لکھ رہے تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ آپ تردید کیوں نہیں کرتے؟ انھوں نے جواب دیا میں تردید میں اپنا وقت کیوں ضائع کرتا پھروں، اس وقت کو مثبت مصرف میں کیوں نہ لاؤں؟

سوال: آپ کی علمیت مرعوب کرتی ہے، ہمارا تعلیمی نظام تو بڑے دماغ پیدا نہیں کر رہا، آپ اس قسم کے علمی ڈھانچے سے کیسے نکلے؟

جواب: اس حوالے سے دو باتیں سمجھ لینی چاہییں: دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک وہ جو اپنی ذات میں محنت کر کے کسی مقام تک پہنچتے ہیں، ایسے لوگوں کو کسی نظام تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی، کسی مدرسے اور سکول کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ علی گڑھ میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں،دیوبند میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں، ندوے میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں، یہ دیہاتی سکولوں میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ صف اول کے لوگ کہلاتے ہیں۔ ایک ہوتی ہے صف ثانی: یہ لوگ وہ ہیں جو اصل میں ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، ان سے معاشرے تشکیل پاتے ہیں، بہت بڑے بڑے لوگ مسلم امت میں ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ صف ثانی کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہونے چاہییں۔ بہت بڑے لوگ چار پانچ بھی ہوں تو کافی ہوتے ہیں ..... مولانا مودودی، امین احسن اصلاحی یا فراہی یا شبلی یا اقبال جیسے دو چار لوگ بھی کافی ہوتے ہیں ..... صف ثانی دراصل تعلیم گاہیں قائم کرتی ہے، اس سے معاشرے بنتے ہیں، جو اول صف کے لوگ ہوتے ہیں، ان کو پیدا ہونے کے لیے تعلیمی نظام اور درس گاہوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ وہ کسی تعلیمی نظام کے پابند ہوتے ہیں، یہ ہر قسم کے ڈھانچے میں اپنا وجود قائم کر لیتے ہیں، یہ لوگ اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ زمانے کی روش کو توڑ ڈالیں، لیکن صف ثانی کو تعلیم کی، تربیت کی، ڈھانچے کی، ہر چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔

سوال: اسلامی ریاست کیا ہے؟ ذرا ڈیفائن کر دیں؟

جواب: سیدھی بات یہ ہے کہ ریاست نہ اسلامی ہوتی ہے نہ غیر اسلامی۔ ریاست یا شخصی ہوتی ہے یا طبقاتی یا جمہوری۔

سوال: یہ تو جدید تعریفیں ہیں؟

جواب: نہیں! ہمیشہ سے ایسا رہا ہے، شخصی ریاست وہ ہوتی ہے جس میں ایک شخص کے ہاتھ اقتدار ہو، وہ اکبر ہو گا تو اس کا نظام چلے گا، اورنگزیب ہو گا تو اس کا ..... طبقاتی ہو گی، جیسا کہ ایران میں ہے، یعنی طبقۂ علماکی تو وہ اپنا دین نافذ کر دیں گے۔ جمہوری ہو گی تو جو اکثریت کا نقطۂ نظر ہو گا، وہی نافذ ہو جائے گا۔ دنیا میں ریاست کا نظام دین پر قائم نہیں ہوتا، اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ خون آشامی لائے گا۔

سوال: تو یہ خلافت کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں، احیائی تحریکیں، تنظیمیں اور گروپ کام کر رہے ہیں، یہ کہاں اسٹینڈ کرتے ہیں؟

جواب: آپ نے نتیجہ بھی تو دیکھ لیا ہے۔

سوال: لیکن بہرحال اسلام میں خلافت کا ایک تصور تو ہے؟

جواب: ’خلافت‘ کا جو لفظ ہے یہ کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے، آپ جانتے ہیں یہ لفظ کیسے وجود میں آیا؟ حضور کے بعد حضرت ابوبکر صدیق حکمران بنے تو لوگوں نے انھیں کہا کہ یہ خلیفۃ رسول اللہ ہیں، یعنی رسول اللہ کے جانشین۔ حضرت عمر حکمران ہوئے تو عربی زبان کے مطابق انھیں خلیفۃ خلیفۃ رسول اللہ کہا جانا چاہیے تھا۔ یوں سلسلہ آگے بڑھتا رہتا تو خلیفۃ، خلیفۃ، خلیفۃ ..... بات بہت لمبی ہو جاتی، اس لیے انھوں نے امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا۔

سوال: اسلامی ریاست کوئی اصطلاح نہیں ہے؟

جواب: دیکھیں نظام اصل چیز ہے اگر شخصی حکومت ہو گی اور شخص اورنگزیب ہو گا تو وہ دین نافذ کر دے گا۔ اگر طبقاتی حکومت ہو گی جیسے ایران میں تو وہ اپنا دین نافذ کر دیں گے۔ اگر جمہوری حکومت ہو گی تو ریاست کا وہ دین ہو گا جو جمہور کا ہو گا۔ یہ بڑی سادہ سی بات ہے۔

سوال: اس وقت پاکستان میں جمہوریت ہے، جمہور کا دین اسلام ہے تو گویا ہم اسے اسلامی ریاست کہیں گے؟

جواب: پاکستان اس وقت جمہوری ریاست ہے، درمیان درمیان میں فوج آجاتی ہے تو شخصی ہو جاتی ہے، بلکہ یوں کہیں کہ طبقاتی، یعنی فوجی طبقے کی حکومت آ جاتی ہے۔

سوال: اب تو جمہوریت ہے، جمہور کا مذہب اسلام ہے، تو اسے اسلامی ریاست ہونا چاہیے؟

جواب: بات یہ ہے، ہمارے ملک میں پچھلے ساٹھ سالوں کے اندر کل پندرہ بیس سال جمہوریت رہی۔ باقی عرصہ تو ایک طبقے، یعنی فوج کی حکومت رہی ہے، تو جو فوج کے جرنیل کا دین ہو گا، وہ نافذ ہو گا اور وہی ریاست کا مذہب بھی ..... جرنیل اگر ضیاء الحق ہو گا تو اس کا ..... اور پرویز مشرف ہو گا تو اس کا ..... باقی سب افسانے ہیں۔ ریاست کا انتظام یا تو فرد کے پاس ہو گا، یا طبقے کے پاس یا جمہور کے پاس۔ کوشش اس کے لیے کرنی چاہیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیا آپ شخصی حکومت چاہتے ہیں یا طبقاتی حکومت یا جمہوری؟ اگر پاکستان میں جمہوریت ہوتی تو جو قوم کا مذہب ہے، جو ان کی روایات ہیں، ان کی حکومت ہوتی اور وہ نافذ ہوتیں۔

سوال: اس وقت پاکستان میں جمہوریت ہے؟

جواب: آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کب شب خون مار دیا جائے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جمہوری روایات قائم نہیں کر سکے۔ اگر ایک جمہوری ریاست آپ کا آئیڈیل ہے تو کوشش اس کے لیے کرنی چاہیے۔ جمہور کا اگر تعلیمی نظام اچھا ہو گا، مذہب سے ان کی دل چسپی ہو گی اور پارلیمنٹ میں پہنچنے والے لوگوں کا دینی شعور اچھا ہو گا تو ریاست کا مذہب خود بخود اسلام ہو جائے گا ..... مجھے آپ یہ بتائیں آپ سعودی عرب کے بارے میں کیا کہتے ہیں، وہاں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ پتا ہے اس کا نام کیا ہے؟ اس کا نام ہے المملکۃ السعودیہ العربیہ۔ معذرت سے کہوں گا، ہمارے ہاں بالکل احمقانہ کام کیا گیا ہے۔ نام رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی نام رکھنے سے ریاست اسلامی ہو جائے گی۔ اسلامی ریاست ہونے کا کیا مطلب ہے؟ فقط یہ کہ اس کے بارے میں طے کر دیا جائے کہ وہ اسلامی ہے۔ فرض کریں، اس پر کسی فوجی نے قبضہ کر لیا، آئین توڑ دیا، ہر چیز ختم کر دی، کیا پھر وہ اسلامی رہ جائے گی؟ میرے نزدیک یہ ساری بات ہی بے بنیاد ہے، درست بات یہ ہے کہ ریاست کا نظام یا شخصی ہو گا یا طبقاتی یا جمہوری، یہ آپ بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔

سوال: یقیناًجمہوریت۔

جواب: جمہوریت میں تو اکثریت کی راے فیصلہ کن ہوتی ہے۔ آپ پاکستان کے لوگوں کو مسلمان، اعلیٰ درجے کامسلمان بنانے کی سعی کیجیے خود بخود آپ کی ریاست اسلامی ہو جائے گی۔

سوال: اگر ہم ریاست کو اسلامی نہ مانیں تو پھر اسلامی فقہ کیسے نافذ ہو گی، حدود کیسے نافذ ہوں گی؟

جواب: میں یہ کہتا ہوں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، نظام کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا ہے، کیا شخصی ہے کیا طبقاتی ہے کیا جمہوری ہے؟

سوال: ہم آئیڈیل اسلامی ریاست فرض کر لیتے ہیں، جسے پرہیز گار لوگ چلا رہے ہوں، اسلام کا سماجی نظام ہو، حدود نافذ ہوں، معیشت سود کے بغیر ہو؟

جواب: یہ تو نتیجہ ہے۔ یہ نتیجہ پہلے نہیں مل سکتا۔ پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ چلانے والے لوگ کون ہیں۔ اگر جمہور ہیں تو پاکستان کے جمہور کیسے ہیں؟

سوال: یعنی آپ کہتے ہیں کہ اگر اسلامی ریاست قائم کرنی ہے تو پہلے جمہور کو اعلیٰ درجے کا مسلمان بنائیں؟

جواب: اگر آپ کا نظام جمہوری ہے اور آپ جمہوریت چاہتے ہیں تو پھر یہی طریقہ ہے۔ اگر آپ شخصی طریقے سے چاہتے ہیں تو پھر قبضہ کریں حکومت پر۔

سوال: قبضہ کرنے کا طریقہ تو پھر جہاد ہے؟

جواب: میں دراصل آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ریاست کے لیے ایسی اصطلاحات استعمال ہی نہیں کرنی چاہییں۔ ریاست نہ تو سیکولر ہوتی ہے نہ مذہبی اور نہ ہی اسے ہونا چاہیے۔ ریاست یا شخصی ہوتی ہے یا طبقاتی یا جمہوری۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا چاہیے؟ اگر ہمیں جمہوری ریاست چاہیے اور جیسا کہ آپ بھی اسی کی تعریف کر رہے ہیں ..... میں تو اسے دین کا تقاضا سمجھتا ہوں کہ ریاست جمہوری ہونی چاہیے ..... اگر ریاست جمہوری ہو گی تو جیسے جمہور ہوں گے، اس کا ظہور ہو جائے گا۔ اگر جمہور مسلمان ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں تو وہ اچھے مسلمان ہیں، اسی طرح اگر جمہور ایمان کے بارے میں اسلام کے بارے میں واضح ہوں تو سود کا خاتمہ ہو جائے گا، اسلام کا سماجی نظام آ جائے گا۔ لیکن اگر جمہور کا نقطۂ نظر ہی واضح نہ ہو تو آپ کے یا میرے کہنے سے ریاست اسلامی تو نہیں ہو جائے گی۔

سوال: جمہور کو تبدیل کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ دعوت دی جائے، دوسرا یہ کہ ریاستی نظام کے ذریعے.....

جواب: ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے دعوت اور تعلیم۔ آپ اگر جمہور میں دین کو راسخ کرنا چاہتے ہیں تو تعلیم کو مقصد بنانا ہو گا۔ عالموں، مفکروں اور دانش وروں اور مذہبی لوگوں کو ساری کوششیں اس سوسائٹی کو educate کرنے پر لگا دینی چاہییں۔ آپ لوگوں کا اصل مسئلہ جہالت ہے، ریاست نہیں، جب تک آپ اپنی قوم کی جہالت دور نہیں کریں گے اور اسلام کے بارے میں ان کے اندر ایک جذبہ پیدا نہیں کریں گے، اسلامی نظام نہیں آئے گا۔ آپ باربار جمہوری نظام کی بات کرتے ہیں۔ یہی conviction اللہ کے دین کے بارے میں لوگوں میں پیدا کریں، ورنہ آپ کو جدوجہد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اس کی پارلیمنٹ میں جو لوگ منتخب ہو کر آئیں گے، وہ سارے مسلمان ہوں گے، اگر مسلمان اللہ کے دین سے واقف ہی نہ ہو تو اسلام کا ریاست میں ظہور کیسے ہو جائے گا۔

سوال: یہی تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی معیار پر پورا اترنے والے کو ہی الیکشن لڑنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ یہ پابندی تو ریاست لگا سکتی ہے نا؟

جواب: مطلب آپ کا یہ ہے کہ جمہور تو سارے کم تولنے والے، ملاوٹ کرنے والے، جھوٹ بولنے والے اور بدمعاشی کرنے والے ہوں اور ان کے اندر سے پرہیز گار لوگ نکل کر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں۔ دوسری بات! اس کو نافذ کون کرے گا؟ آپ کے آئین میں دفعہ ۶۱ اور ۶۲ میں یہی کچھ لکھا ہوا ہے ..... آپ ذرا نافذ کر کے دکھا دیں۔ بات یہ ہے کہ مذہبی لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ریاست فقط خواہشات کا نام نہیں ہے۔

سوال: پچھلے پانچ سو سال سے اس خواہش میں رہے ہیں؟

جواب: خیر! پچھلے پانچ سو سال تو نہیں۔ اس خواہش کی بنیاد تو انگریزوں کے دور میں مولانا مودودی کے ہاتھوں رکھی گئی ہے۔ ہمارے ہاں اصل میں شخصی حکومتیں رہی ہیں۔ شخصی حکومتوں میں تو یہی ہو گا اکبر کی حکومت ہو گی، تو دین الٰہی چل رہا ہو گا، عالمگیر ہو گا تو اس کا دین ..... شخصی حکومت میں تو اسلامی نظام کے لیے ایک ہی کام ہو سکتا تھا کہ بادشاہ کے دل کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔

دیکھیں شخصی حکومتیں سیدنا امیر معاویہ سے شروع ہوئیں اور بہادر شاہ ظفر تک چلیں۔ اس قسم کے نظم ریاست میں تو بادشاہ حضور کے دل کو بدلنے کی ہی کوشش ہو سکتی تھی۔ شیخ احمد سرہندی کا سب سے بڑا کارنامہ یہی بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے مغل شہنشاہوں کے دل و دماغ کو تبدیل کر دیا ..... اگر طبقاتی حکومت ہوتی تو اس طبقے کو بدلنے کی کوشش کی جاتی اور اگر جمہوری ہوتی تو پھر جمہور کو بدلنے کی کوشش ہوتی۔

جاوید احمد غامدی: انٹرویو قومی ڈائجسٹ (2/2)

____________

مآخذ : آن لائن حوالہ ،  جاوید احمد غامدی ڈاٹ کام