اردو زبان کس کی ہے؟ سعد اللہ جان برق کی نئی تحقیق

( روزنامہ ایکسپریس ، 25 فروری 2019 )

آج ہم اپنی تحقیق کا ٹٹو ایک بالکل ہی نئی سمت میں دوڑانا چاہتے ہیں اور یہ سمت ’’اردو زبان‘‘ کی ہے اور وجہ اس ’’بے سمتی‘‘ کی یہ پیدا ہوئی کہ بعض اوقات ہم اخبارات و رسائل میں کچھ اساتذہ قسم کے حضرات کے ایسے مضامین پڑھ لیتے ہیں جن میں اردو زبان کے بگاڑ اور الفاظ کی تصحیح کا سلسلہ ہوتا ہے خاص طور پر اردو میں انگریزی یا دوسری زبانوں کی ملاوٹ پر تو بہت واویلہ کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات طے ہونی چاہیے کہ اردو کے اہل زبان ہم کن لوگوں کو سمجھیں گے اور یا یہ کہ ایسا کوئی فرد یا لوگ موجود ہیں جن کو اردو کا یا کے اہل زبان کہا جا سکتا ہے۔


عام طور پر تو بھارت سے آنے والوں کو اہل زبان کہا جاتا ہے خاص طور پر جو وسطی بھارت سے آئے ہیں لیکن یہ سن کر آپ چونک بلکہ چونکہ چنانچہ ہو جائیں گے کہ اردو کا اہل زبان نہ کوئی تھا نہ ہے اور جو لوگ اس کے مدعی ہیں وہ بالکل غلط دعویٰ کرتے ہیں بلکہ دعوے کے بغیر قبضے کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے پہلے ہمیں زبان اور قوم کی تشریح کرنا پڑے گی، زبان ہمیشہ کسی قوم کی ہوتی ہے اور قوم ہم زبان نسلوں کی بنتی یا ہم نسل لوگوں کی۔

اردو تو کم و بیش چار سو سال کی زبان ہو گی جو پہلے ریختہ تھی، پھر اردو ہو گئی۔ اس کے بولنے اور لکھنے والے اس عرصے میں پیدا ہو گئے۔ وہ اردو کی طرح اچانک چار سو سال پہلے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ زمانوں سے موجود دوسری اقوام اور زبانوں کے ہوا کرتے تھے۔ یعنی جدی پشتی زبان ان کی کچھ اور ہوا کرتی تھی۔ مثال کے طور پر غالبؔ اپنے آپ کو ایرانی افراسیابی کہا کرتے تھے، جوشؔؔ ملیح آبادی جو اردو کی ڈکشنری کہلاتے تھے آفریدی پشتون تھے، میرؔ ایرانی النسل تھے، امیر خسروؔ بھی فارسی ترک تھے۔ اس طرح ہر بڑے ادیب و شاعر کو ٹٹولیے تو کسی اور زبان سے ’’نقل لسانی‘‘ کر کے آئے ہوئے ثابت ہوں گے۔ ہمارے علامہ اقبالؔؔ،احسان دانشؔؔ، فیضؔ، منیرؔ نیازی، حفیظؔؔ جالندھری پنجابی سے ادھر آئے تھے۔
مطلب یہ کہ اردو زبان کے بارے میں اگر صحیح صحیح کہا جائے تو وہ یہ کہ یہ زبان سب کی ہے اور جب سب کی ہے تو سب ہی اہل زبان ٹھہرے اس کی صفت ہمہ گیری ہے محدودیت نہیں۔اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس میں ایک بلکہ آدھا لفظ بھی ایسا نہیں جسے اردو زبان کا اپنا لفظ قرار دیا جا سکے اور جب کوئی لفظ ہی نہیں تو زبان کیسی اور اہل زبان کیسے؟

ٹھیک ہے جو لوگ کئی نسلوں سے اسے بطور زبان اختیارکیے ہوئے ہیں وہ سینئر ہونے کی وجہ سے محترم ہیں، اساتذہ بھی ان کو کہا جا سکتا ہے لیکن ساری اردو زبان کی میراث یا ملکیت نہیں اور یہی تو اس کی واحد خوبی ہے کہ کسی کی نہیں ہے، اس لیے ہر کسی کی ہے۔

اب ذرا اس کی پیدائش اور نام کا سلسلہ بھی زیر بحث لایا جائے تو معاملہ اور صاف ہو جائے۔ لفظ’’اردو‘‘ کو ترکی زبان کا مشہور کر دیا گیا ہے لیکن یہ غلط ہے۔ یہ لفظ اپنی بنیاد میں سومیری، بابلی بلکہ زیادہ صحیح اشوری زبان کا لفظ ہے۔

اشوری دور میں بڑے بڑے اشوری بادشاہ ہوئے ہیں جن میں وہ حمورابی بھی شامل ہے جسے بابائے قانون یا پہلا مقنن بادشاہ کہا جاتا ہے لیکن ہماری بحث سے تعلق رکھنے والا مشہور بادشاہ ’’اشوربنی پال‘‘ ہے جس کی لائبریری آثار میں اہم ترین چیز ہے، مٹی کی پختہ اور کچی تختیوں پر مشتمل اس لائبریری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی بیس ہزار تختیاں توصرف برٹش میوزیم میں موجود ہیں اور چونکہ اسی لائبریری میں اس زبان کی ’’کلید‘‘ بھی ملی ہے اس لیے ساری تختیاں آسانی سے پڑھی گئیں۔

لیکن اس نیک شہرت کے ساتھ ساتھ یہ اشوری بادشاہ نہایت ہی ظالم اور خونریز بھی تھے۔ ارد گرد کے علاقوں کو تاخت و تاراج کر کے لوٹنا اور خون بہانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ مال غنمیت میں یہ بادشاہ ان اقوام کے لوگ بھی پکڑ کر لاتے اور غلام بناتے تھے خاص طور پر بنی اسرائیل کی دونوں سلطنتیں یہودیہ اور اسرائیلہ تو ان کا ہمیشہ نشانہ رہتے رہیں، چنانچہ سناخریب، نارام سن اور تغلت پلاسر نامی بادشاہوں نے بھی حمورابی اور اشوری بنی پال کے بعد یہ سلسلہ جاری رکھا۔ اسرائیلہ کی سلطنت پہلے ان اشوری بادشاہوں نے تہس نہس کی تھی بعد میں بابل کے کلدانی بادشاہ بخت نصر نے یہودیہ کی سلطنت کو بھی ملیامیٹ کر کے بنی اسرائیل کو مکمل طور پر کچل دیا۔

ان جنگوں میں جو غلام لائے جاتے تھے، وہ اتنے زیادہ ہو گئے کہ ان کے لیے ایک الگ کیمپ ’’اریدو‘‘ کے نام سے بسایا گیا۔’’ار‘‘ کے معنی شہر کے اور’’ایدو‘‘ بمعنی غلام۔

ادھر آہستہ آہستہ ان بادشاہوں نے سوچا کہ ان غلاموں یا یرغمالیوں سے کچھ کام کیوں نہ لیا جائے چنانچہ ان کو اپنے ساتھ لشکری بنا کر جنگوں پر لے جایا جانے لگا اور مال غنیمت میں سے کچھ تھوڑا سا حصہ ان کو دیا جاتا تھا باقی بادشاہ کا ہوتا تھا۔ یہیں سے دنیا میں پہلی بار معاوضہ دار یا تنخواہ دار لشکر کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ’’اریدو‘‘ شہر کی وجہ سے ان کو اریدو کہا جانے لگا۔ یہ لفظ پھر لشکر سے منسوب ہو گیا اور دوسرے ممالک اور زبانوں میں بھی مروج ہو گیا۔ ترکی میں اس کی شکل ’’اردو‘‘ ہو گئی جو آج بھی تقریباً تمام ایشیائی ممالک میں ’’لشکر‘‘ یا فوج کے لیے مروج ہے۔ افغانستان میں بھی مختلف حصوں کے لیے اردوئے فلاں اور اردو ئے فلاں کے الفاظ رائج ہیں۔

اب فوج یا لشکر میں تو ہر قوم و ملت کے اور زبان و نسل کے لوگ ہوا کرتے ہیں چنانچہ ان ساری زبانوں کے مال مسالہ پر مبنی زبان کا نام بھی اردو ہو گیا۔

جس طرح اس کے بولنے والے ہر قوم و نسل کے ہو سکتے ہیں اسی طرح اس کے الفاظ یا لغات یا مال کا بھی نہ کوئی حد ہے اور تخصیص۔ چونکہ ہند کے کچھ خاص علاقوں میں اس کی پرورش و پرداخت ہوئی ہے اور وہیں پر یہ تحریری اور ادبی زبان بنی ہے اس لیے ان علاقوں کے لوگوں کو اولیت کا درجہ حاصل ہے لیکن زبان یہ سب کی ہے۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اب بھی مسلسل دوسری زبانوں سے الفاظ کھینچ رہی ہے اور جزو بدن بنا رہی ہے۔ اس کی مثال ایک بے تحاشا کھانے والے جانور کی طرح ہے کہ جتنا کھاتا ہے اتنا ہی موٹا ہوتا ہے اور جتنا موٹا ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ کھاتا ہے۔

معروف معنوں میں یہ ایک صحیح اور حقیقی بین الاقومی یا بین اللسانی زبان ہے پھر وہی بات دہرائیں گے کہ ہر کسی کی ہے اس لیے کسی کی نہیں ہے اور کسی کی نہیں ہے اس لیے ہر کسی کی ہے۔

پاکستان میں اس کے ساتھ سیاسی اور سرکاری طور پرکچھ ’’برا‘‘ ہوا ہے جس نے اس معصوم نہایت کارآمد اور ہمہ صفت زبان کے لیے کچھ لوگوں میں نفرت اور ناپسندیدگی کے گوشے بنا دیے ہیں۔ لیکن وہ سیاست اور سرکاری غلط کاریوں کا شاخسانہ ہے۔ بجائے خود اردو اب بھی ایک بین القومی اور پیاری زبان ہے۔

جہاں تک اس میں بیرونی الفاظ کی آمد اور چلن کی بات ہے تو ہمارے خیال میں اس پر نہ کوئی قدغن لگانا درست ہے اور نہ ہی ممکن۔

اردو میں بیرونی الفاظ 

(روزنامہ ایکسپریس ،  26 فروری 2019 )

اب اس مسئلے کی طرف آتے ہیں جس پر اکثر اخبارات اورسائل یا تقریبات ومجالس میں بات ہوتی رہتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو میں دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی اور عربی کے الفاظ لائے جاتے ہیں اور ان کی درست ادائیگی نہیں ہوتی، مثالیں بھی دی جاتی ہیں کہ فلاں فلاں زبان کا لفظ ہے اور اس کی ادائیگی یا تحریر ویسی ہونی چاہیے جیسی اس زبان میں ہوتی ہے۔

ہمارے خیال میں یہ سراسرغلط رویہ ہے جس میں وہ قباحت پائی جاتی ہے جس نے سنسکرت زبان کو محدود اور پھر فنا کردیاہے۔ایک زمانے میں عوام کی زبان پراکرت کہلاتی تھی اور پراکرت کسی خاص خطے کی کوئی خاص زبان نہیں بلکہ عوام الگ الگ علاقوں میں جو زبان بولتے تھے وہ وہاں کی ’’پراکرت‘‘ ہوتی ہے۔

پراکرت کے معنی بہت سارے کیے جاتے ہیں۔ دور دور، الگ الگ، ٹولی ٹولی وغول غول اجڈ گنوار جاہل وغیرہ۔لیکن یہ سارے معنی مجازی ہیں، اصل لغوی معنی پراکرت کے یوں ہے کہ پرا۔پرایا، پرانا پرے، پرہ وغیرہ عوام ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن کوبزعم خویش’’شرفا‘‘ پرے پرے سمجھ کر پرائے کرتے ہیں اور اپنی برتری کے احساس کو لے کر جاہل اجڈ یعنی ’’عوام کالانعام‘‘ کہتے ہیں اور’’کرت‘‘ تو پشتو میں اب بھی ’’باتوں‘‘ کو کہتے ہیں لیکن اس میں بھی حقارت کا پہلو ہوتاہے، فضول اور ناپسندیدہ باتوں کو ’’کڑت‘‘ اور ایسی باتیں کرنے والوں کو ’’کڑتو‘‘ کہاجاتاہے۔

پھر ’’پانینی‘‘نام کا ایک علامہ پیدا ہوا، اس کی پیدائش یوں تو لاہور میں ہوئی لیکن یہ وہ بڑا لاہور نہیں جہاں راوی دریا بہتا ہے بلکہ یہ صوابی ضلع کا ایک تحقیقی شہر تھا جو جی ٹی روڈ پر جہانگیرہ کے قریب ہے۔

پانینی نے اس جاہلانہ ، اجڈ گنوار اور عوام کالانعام کی زبان’’پراکرت‘‘ پر محنت کرکے اسے صاف ستھرا کیا، اس کے لیے قواعد اور ترتیب وضع کی اور نام رکھا سم کرت۔ سم کا لفظ اب بھی پشتو میں درست کرنے، سنوارنے اور سیدھا کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے چنانچہ یہ سم کیاہوا سنوارا ہوا سمکرت ہوا، پھر بعد میں سنسکرت ہوگیا۔نہایت خوبصورت شستہ اور اعلیٰ درجے کی زبان تھی، اس لیے اعلیٰ اور اونچے لوگوں ہی میں رہی ، عوام کی زبان پر کبھی نہیں چڑھی اور صرف مندروں مناجاتوں اور تحریروں میں محدود ہوکر معدوم ہوگئی۔

ہم حسن کے اس موتی کو دیکھ سکے پر چھو نہ سکے

جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ موتی کیا وہ خزانہ کیا

دراصل کچھ لوگ اپنی اعلیٰ دانائی اور علمیت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ زبان کوئی عمارت نہیں جو جیسی بن گئی ویسی ہی ہمیشہ رہے گی بلکہ زبان ایک درخت، ایک پیڑ کی طرح ہوتی ہے جس کے نئے نئے پتے نکلتے ہیں اور پرانے جھڑتے رہتے ہیں۔زبان زندہ لوگوں کی زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہے، اپنے محدود اور طے شدہ الفاظ یا مال مسالہ کے ساتھ زندہ رہ ہی نہیں سکتی۔بلکہ یہاں وہاں سے الفاظ اور لغات لے کر کھانا اور انھیں جزوبدن بنانا ہی زبان کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ کسی جاندار کی طرح جتنا زیادہ کھاتی ہے، اتنی ہی بڑھتی اور فربہ ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ خوبی اردو زبان میں ساری زبانوں سے زیادہ ہے۔بلکہ اس کی بنیاد ہی یہاں وہاں سے کھاکر جزو بدن بنانے پر ہے، اگر اس کی اس خوبی کو اس سے چھین لیاگیا تو محدودہوکر اسے بھی معدومیت کا شکار ہوناپڑے گا۔

اس لیے میرے خیال میں اس پرغیر زبانوں سے الفاظ لینے کی قدغن لگانا درست بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ ہاں اگر بغیر قدغن اور پابندی کے اسے چھوڑ کر اپنے مزاج پر جانے دیاگیا تو اس میں ایک مکمل بین الاقوامی اور ’’لینگوافرنیکا‘‘بننے کی استعداد موجود ہے۔ ویسے یہ بیرونی الفاظ روکنے یا نکالنے یا رد کرنے یا ناپسند کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو اردو کے پاس اپنا تو ایک بھی لفظ نہیں ہے۔باقی بچے گا کیا؟۔

اور الفاظ کا تویہ ہے کہ پہلے پہلے یہ اجنبی لگتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ اتنے زیادہ گھل مل جاتے ہیں کہ اسی زبان کے لگتے ہیں مثلاً فیل اور پاس کے الفاظ کو لے لیجیے کوئی کہہ سکتاہے اردو کے نہیں انگریزی کے ہیں۔ افراتفری کو عربی کا افراط وتفریط کہہ سکتے ہیں۔ لاٹین، بوٹ پالش،گلاس کو آپ بیرونی کہہ سکتے ہیں؟ اسکول ، اسپتال، اردلی ،کیس ، مسٹر، مسز اور ممی کو آپ چھوڑ سکتے ہیں؟ جمہوریت (ڈیماکریسی) صیہونیت(شاونزم) مسمریزم، موٹر، مشین، انجن وغیرہ سب کو اردو نے اپنا لیاہے۔

ایک اور مکتبہ فکر ان لوگوں کا ہے جو الفاظ کی درستگی پر زور دیتے ہیں کہ یہ فلاں لفظ جو اردو میں بولا یا لکھا جاتا ہے، یہ اصل میں فلاں زبان کا ہے جس کی درست شکل یہ ہے۔یہ بھی ایک غلط فہمی اور خواہ مخواہ کی سعی لاحاصل ہے، ہر زبان کا اپنا ایک نظام ادائیگی اور ووکل ساونڈ ہوتاہے اور اپنا ہی لفظ سازی کا طریقہ کار ہوتاہے۔جس کے مطابق بیرونی لفظ کو ادا کرنا پڑتاہے چنانچہ ایسے بہت سارے الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں جو جس زبان سے آئے ہیں وہاں ان کی شکل وصورت ادائیگی اور تحریر بالکل ہی الگ ہوتی ہے مثلاً کوئی کہہ سکتاہے،کہ یہ جو ’’بازو‘کا لفظ ہے، یہ سنسکرت سے آیا ہے۔ وہاں یہ ’’بجائیں‘‘ ہے۔

سچ وہاں ’’ستیہ‘‘ہے اور بجلی وہاں’’وجربجر‘‘ ہے جو اندر دیوتا کا ایک سم شاخہ ہتھیار’’وجر‘‘سے بناہے کیونکہ اندر(بارش) نے خشک سالی کے عفریت کو اسی وجر سے ہلاک کیاتھا۔ عربی میں مفلس اور افلاس کے معنی مالدار یعنی صاحب فلوس(نقدی) کو کہتے ہیں۔لاٹین کو لے لیجیے اصل لفظ ’’لٹرن‘ہے ۔منولین لفظ’’قلی‘‘ مالدار اور اہل ثروت کو کہتے ہیں۔

لفظ ’’پوچھ‘‘ سنسکرت میں پرش۔فارسی میں پرسان، پشتو میں پوشتنہ ہے۔بہت ساری مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ اردو میں آکر دوسری زبانوں سنسکرت عربی فارسی وغیرہ کے الفاظ کی اصل صورت باقی نہیں رہ سکتی۔کیونکہ ہر زبان کا اپنا اپنا لہجہ (ووکل ساونڈ) اور تلفظ ہوتا ہے۔ عرب کبھی پاکستان نہیں کہہ سکتے وہ باکستان ہی کہیں گے، جس طرح اردو میں ساؤتھ والے غیر کو گیر نظام کو نجام  کہتے ہیں، ویسے بھی زبان کے اصل مالک تو اس کے بولنے والے اور عوام ہوتے ہیں علماء اور پانینی نہیں ہوتے۔