دینی تعلیم و تربیت میں زوال اور انیسویں صدی کا انقلابی اقدام

بیرن توسی ایک مسیحی عالم نے انیسوی صدی میں ممالک اسلامیہ کا سفر کیا اس نے گیارہ جلدوں میں اپنا سفر نامہ مرتب کیا پھر خاص اہتمام سے مصر سے چھپوایا ۔  اس نے خاص کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا  کہ جن طریقوں پر اسلامی اور عربی علوم کا نظام تعلیم رائج ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا ۔

 یہ حقیقت  مصر کے مشہور عالم  شیخ عبدہ نے تسلیم کی ،  انہون نے بیروت میں سید جمال الدین افغانی سے 1892ء ملاقات کی ان کے ساتھ ملکر  انہوں نے  ایک سکیم تیار کی،  اسے مرتب کرکے  اس وقت  ترکی کے شیخ الاسلام کے پاس پھیجی ۔ اس میں شیخ الاسلام کو مشورہ دیا گیا کہ قسطنطنیہ (موجودہ  استنبول) میں ایک نیا مدرسہ اور کالج قائم کیا جائے۔  چانچہ شیخ رشید رضا مصری کے مضامین بھی اس سکیم کا حصہ تھے۔ 


 لیکن اس کا خاطر خواہ جواب نہیں ملا اس کے بعد سید جمال الدین نے ایک عربی اخبار" العروۃ الوثقی"  نکالا ۔ وہ اسکیم اس میں شائع کی گئی ۔  اس نے عرب دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا ۔ ہندوستان تک اس کے اثرات آئے۔  چنانچہ برصغیر کی تعلیمی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دینی تعلیم کے مسئلہ کو  سب سے زیاد قوت کے ساتھ  ندوۃ العلما نے اٹھایا ۔ ندوہ نے اپنا بنیادی مقصد دینی نصاب کی اصلاح قرار دیا ۔ انہوں نے اس بات پر توجہ دی  کہ  نصاب جو علوم  ذرائع کی حیثیت رکھتے ان کو ثانوی حیثیت دی جائے جن کو علوم آلیہ کہا جاتا ہے۔ جیسے عربی زبان ادب ، منطق وغیرہ،  اصل زوراور توجہ قرآن ، حدیث ، فقہ، اور  سیرت النبی ﷺ پر دی جائے ۔ 

دینی تعلیم اور تربیت کے زوال کا احساس ابوالکلام آزاد ؒ کو سب سے زیادہ تھا اس کا اندازہ مولانا کی تحریر اور خطبات سے  سے ہوتا ہے ،  مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ایک خطبہ میں  مدارس کے زوال پر نوحہ کرتے ہوئے فرمایاتھا  :

" ایک چیز آپ بھول گئے وہ چیز ہے تعلیم اور وقت ، اور زندگی کی چال کے متعلق کوئی تعلیم کامیاب نہیں ہوسکتی اگروہ وقت اورزندگی کی چال کے ساتھ نہ ہو ، جو تعلیم ہو وہ ایسی ہونی چاہیے کہ زمانہ کی جو چال ہے و اس کے ساتھ جڑ سکتی ہو ۔

 اگر آپ دونون ٹکڑوں کو الگ الگ رکھیں گے تو وہ تعلیم کا میاب نہیں ہوسکتی ۔ یہی عربی اور فارسی کی تعلیم تھی لیکن اس وقت زمانہ 1947 نہ تھا اس تعلیم اور وقت میں رشتہ تھا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ۔

 نتیجہ یہ تھا کہ ان مدرسوں سے جو لوگ پیدا ہوئے زمانہ ان کا استقبال کرتا تھا ۔ بہر طور وہ زمانہ گزر گیا لیکن اس کے بعد کیا  ہوا کہ زمانہ تو اپنی پوری تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہا اور آپ وہیں بیٹھے رہے ۔ آپ ان ہی مدرسوں میں بیٹھے رہے جن مدرسوں میں آپ نے آج سے پانچ سو برس کی مسافت طرے کرچکا ہے اور آپ وہی کے وہیں بیٹھے ہوئے ہیں ۔

آج جو تعلیم آپ ان مدرسوں میں دے رہے ہیں آپ وقت کی چال سے اسے کیسے جوڑ سکتے ہیں ؟ نہیں جوڑ سکتے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ زمانہ میں اور آپ میں ایک اونچی دیوار کھڑی ہوگئی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ تعلیم کہ جس تعلیم سے ملک کے بہترین مدبر ملک کے بہترین منتظم اور ملک کے بہترین عہدہ دار پید ہوتے تھے آج ان ہی مدرسوں کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ لوگ بالکل نکمے ہیں ان مدرسوں سے نکلنے کے بعد مسجدوں میں بیٹھ کر یہ لوگ بس خیرات کی روٹیاں توڑلیں ۔

کتنے افسوس کی بات ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایسا سمھتے ہیں انہوں نے حقیقت کو نہیں سمجھا ہے لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا اور ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم زمانے سے دور ہوگئے ہیں ۔

میرے پاس ایک بہت ہی جچی تلی بہتر طریقے سے لکھی ہوئی ایک تحریر آئی کہ چوں کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کے صیٖغہ تعلیم میں موجود ہیں تو کیا یہ توقع کی جائے کہ جو عربی فارسی علوم کے مدرسے موجود ہیں جہاں سے بہتر سے بہتر سے مستند طلباء فارغ ہو کر ڈگریاں حاصل کرکے نکلتے ہیں کو سی وجہ ہے کہ ان کے لیے ملک کی انتظامی زندگی میں وہ دورزے کھلے نہ ہون جو انگریزی تعلیم کے حاصل کئے ہوئے اور پڑھے ہوئے لوگوں کے لیے ہین ؟ کون سی وجہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے ملک کی اصلی تعلیم مدرسوں اور پاٹھ شالاؤں میں دی جاتی تھی اور جس تعلیم کو حاصل کرکے فتح اللہ شیرازی ار ٹوڈرملک پیدا ہوتے تھے ، آج اس تعلیم سے جو لوگ نکلے ہیں ان پر ملک کے انتظامی دروازے بند ہوں ؟ مجھے ان کے جواب دینے کی مہلت نہیں ہوئی ۔

 لیکن میں آپ سے  کہتا ہوں کہ اس کا جواب اسی میں موجود ہے ۔ آپ نے کبھی اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانہ کی چال کے ساتھ جوڑ سکیں ۔ زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا اور آپ وہیں رہے جہاں تھے ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کو زمانہ کی مانگوں سے کوئی رشتہ نہیں رہا ۔ اور زمانہ نے آپ کے خلاف آپ کو نکما سمجھھ کر فیصلہ کردیا ۔ زمانہ نے آپ کو بے کار سمجھا ہے آپ کو نکما سمجھا ہے ۔

مدرسہ میں عربی ان کو پڑھنا ہے تو یہ مجبوری ہے کہ کسی نہ کسی مولوی کو رکھ لیا لیکن کوئی حقییقی وقعت آپ کے دل میں مولوی کی نہیں ہے ۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے ۔

 آپ کے دل میں اس کی عزت ہونا چاہیے تو میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس کی تہہ میں جو چیز ہے وہ زمانے کی نا قدرشناسی ہے ۔ ہم کو  اس کے ساتھ یہ بھی ماننا چاہیے کہ ہمارا فرض تھا کہ ہم زمانے کے تقاضوں کے ساتھ دیتے مگر ہم نے زمانے کا ساتھ نہیں دیا ۔ ( دینی مدارس : نصاب  و نظام تعلیم اور عصری تقاضے ص 547 )

اس کے بعد بھی زمانہ نے کئی کروٹ بدلا ، اب بھی ہمارے مدارس کے نصاب اور نظام تعلیم میں بہت سی خامیاں موجود ہیں۔ برصغیر کے علماء اور ماہرین تعلیم کی اس بارے میں کیا آراء اور تجاویز تھی   درج ذیل کتاب سے معلوم کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی روشنی میں مدارس کے نصاب میں کیا کیا تبدیلی کی گئی اور کیا تبدیلی نہیں کئی گئی اس کا بھی اندازہ ہوگا ۔

 دینی مدارس : نصاب  و نظام تعلیم اور عصری تقاضے

جمع و ترتیب : مولانا ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری