درست تحریر کے لیے اہم باتیں

(بی بی سی اردو )

درست تحریر خبر کے اعلئ معیار کے لیے نہایت ضروری ہے- وہ کیا ایسی باتیں ہیں جو زبان کے لکھنے میں مد نظر رکھنا ضروری ہیں


پہلی ضرورت:

ہمیشہ جو کچھ لکھیں اسے کم سے کم ایک بار ضرور پڑھ لیں۔ جب آپ لکھنے بیٹھتے ہیں تو آپ کا خیال ، آپ کے قلم یا کی بورڈ پر انگلیوں کی رفتار سے زیادہ تیز چلتا ہے۔انگلیاں جب خیال کے ساتھ دوڑ لگاتی ہیں تو غلطیاں کرجاتی ہیں۔ ان میں صرف زبان کی غلطیاں نہیں ہوتیں بلکہ facts کی غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

اگر آپ اپنے لکھے ہوئے کو دوبارہ پڑھ لیں توان غلطیوں کو خود ہی ٹھیک کرلیں گی/ کرلیں گے۔

ایک مثال دیکھیے جس میں ایک چھوٹی سی غلطی ہے جو سکرپٹ کو دوسری بار پڑھنے سے دور کی جاسکتی تھی:


پولیس کے مطابق ڈبل کیبن میں سوار نامعلوم ملزمان نے سکول پر قبضہ سے پہلے ضلع کرک سے ایک سرکاری افسر اور ان کے ڈرائیور کو اغواء کر کے لے جا رہے تھے۔ کرک سے ایک سرکاری افسر نے بی بی سی بتایا کہ اغواء ہونے والوں میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کرک کے انچارج شامل ہیں۔

پہلی سطر میں ’نے‘ غلط ہے۔ دوسری سطر میں بی بی سی کے بعد ’کو‘ ہونا چاہیے ۔ بالکل اسی طرح کی ایک اور مثال:

سائنسدانوں نے آتش فشانی کا سراغ ریڈار سے حاصل کردہ معلومات سے لگیا جو کہ سنہ دو ہزار چار اور پانچ کے دوران ایک فضائی سروے میں حاصل کی گئی تھیں۔

اس جملے میں بھی لگایا کی بجائے لگیا لکھ دیا گیا ہے

میں جانتا ہوں کہ آپ انہیں ٹائپنگ کی غلطیاں کہیں گے جو ہر تحریر میں ہوتی ہیں لیکن اگر غور کیجۓ تو ہماری تحریروں میں ایسی غلطیوں کی مثالیں کچھ زیادہ ہی مل جائیں گی۔

ٹائپنگ کی ضرورت سے زیادہ غلطیوں کا نقصان براڈکاسٹنگ میں یہ ہوتا ہے کہ مائیکروفون کے سامنے ہم ہچکچاتے ہیں، رکتے ہیں، زبان ٹھوکر کھا جاتی ہے۔

آن لائن پر پڑھنے والا الجھن محسوس کرتا ہے۔ اور ایک آئٹم میں ایک سے زیادہ غلطیاں نظر آئیں تو اس کی طبیعت اچاٹ ہو جاتی ہے۔

دونوں صورتوں میں سننے اور پڑھنے والے کا اعتماد ہم کھو بیٹھتے ہیں۔

دوسری ضرورت:

غیر ضروری الفاظ کا استعمال نہ کیجیے۔

ایران کے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام کو روکنے کے لیے اس قرارداد کے تحت تجویز کردہ پابندیوں کی چین اور روس نے مخالفت کرنے کی کافی کوششیں کیں۔

غور کیجیے تو اس جملے میں کے تحت غیر ضروری ہے، صرف میں سے کام چل سکتا تھا۔ یعنی قرارداد میں تجویز کردہ

اسی طرح آگے چل کر مخالفت کے بعد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یعنی مخالفت کی کافی کوششیں کیں۔

ایک اور مثال:

اس اعزاز کے اعلان کے بعد ایک بیان میں بارڈم نے کہا کہ ایسے میں جب اس زمرے میں بہت سی شاندار کارکردگیاں موجود ہیں انہیں یہ ایوارڈ ملنا ان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔

کیا صرف یہ کافی نہیں تھا یہ ایوارڈ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔

تیسری اور چوتھی ضرورت:

چھوٹے چھوٹے جملے، چھوٹے چھوٹے پیراگراف، ایک پیرے میں ایک سے زیادہ باتوں سے اجتناب۔

اس اصول کی مدد سے آپ کی تحریر میں روانی آجاتی ہے۔ اسے پڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔ قاری کو بار بار واپس جاکر بات سمجھنے کی تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑتی اور سب سے بڑھ کر قاری کا ذہن آپ کی فراہم کردہ معلومات کو قبول کرتا جاتا ہے۔ ­­­­­­­­­­­­­­ ­­­­­­­­­­­­­­

یہاں صرف ایک مثال اس لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہوجائے کہ طویل جملے کیسی مشکل پیدا کرسکتے ہیں:

یاد رہے کہ پاکستان میں جنرل مشرف نے بطور آرمی چیف اپنے صدر بن جانے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پیشتر ہی تین نومبر کو آئین معطل کرکے چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت عدالت عظمی اور ہائی کورٹوں کے ساٹھ ججوں کو برطرف کردیا تھا جس کے خلاف وکلاء اب تک احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اس جملے کو کیسے آسان بنایا جاسکتا تھا:

یاد رہے کہ تین نومبر کو صدر شرف نے اس وقت آئین معطل کردیا تھا جب وہ بطور آرمی چیف صدر تو بن چکے تھے لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹوں کے ساٹھ ججوں کو بھی برطرف کردیا تھا۔ اس کے خلاف وکلاء اب تک احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پانچویں ضرورت:

انگریزی زبان میں clauseاورsub clause کی مدد سے پیچیدہ باتیں آسانی کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہیں لیکن اردو کا مزاج بالکل مختلف ہے۔ اس میں جملے کے اندر جملہ بات کو اتنا الجھا دیتا ہے کہ اسے بار بار پڑھنا پڑتا ہے۔ اردو میں عام طور سے طویل جملے میں دو تین باتیں ایک ساتھ بتانےکی جب کوشش کی جاتی ہے تو عالموں اور دانشوروں کی تحریروں میں تو یہ انداز برا نہیں لگتا لیکن صحافتی تحریر میں الجھن کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک مثال دیکھیے:

فروری 2007 میں انہوں نے افغانستان میں اطالوی فوجیوں کی تعیناتی اور شمالی اٹلی میں اپنے فوجی اڈے کی توسیع کے امریکی منصوبے پر بائیں بازو کے سیاستدانوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد استعفیٰ دے دیا۔

غور کیجیے تو اس جملے کو بڑی آسانی سے اس طرح توڑ کے لکھا جاسکتا تھا:

فروری 2007 میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔کیونکہ وہ افغانستان میں اطالوی فوجیوں کی تعیناتی اور شمالی اٹلی میں امریکی فوجی اڈے کی توسیع کے منصوبے پر بائیں بازو کے سیاست دانوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔

تو یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اردو میں طویل جملے، خاص طور سے وہ جن میں جملوں کے اندر جملے ہوتے ہیں، قابل قبول نہیں ہوتے۔ ایسے جملوں کو توڑ کے کئی فقرے بنا لینے چاہئیں۔

چھٹی ضرورت:

ناموں کے ہجے spellings اور ان کے تلفظ کی درستی کا خیال رکھیے۔

مثلاً:

یہ القائدہ ہے یا القاعدہ

حامد کرزائی ہے یا کرزئی

براک اوباما ہے یا بارک اوباما

سرکوزی ہے یا سارکوزی

ریڈیو پر درست تلفظ اور آن لائن پر درست ہجے آپ کی تحریر کو معتبر بنا دیتے ہیں۔

---------------------

حروفِ جار

حروف جار کیا ہوتے ہیں اور ان کو استعمال کرنے کے رہنما اصول کیا ہیں؟
آپ جانتے ہیں کہ انگریزی میں in, on, at, after, before کی طرح کے الفاظ کو preposition کہتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ noun یا pronoun سے پہلے لگائے جاتے ہیں۔

The upper house of the Afghan parliament supports a death sentence issued against a journalist for blasphemy.

Cinema owners in Pakistan are keen to screen Bollywood films.

اردو میں ان کو حروفِ جار کہا جاتا ہے۔ اور یہ noun یا pronoun کے بعد لگائے جاتے ہیں۔ اس لیے ہم ان کو postposition کہہ سکتے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان حروف کو verb کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ نہیں یہ بات نہیں ہے۔ ان کو انگریزی کی طرح noun کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔

تو اصول یہ ہے کہ حروفِ جار یعنی نے، میں، کو، پر، کا کی کے، کے بعد، سے وغیرہ ہمیشہ noun اور pronoun کے فوراّ بعد لگائے جائیں۔

مثال:

بان کی مون جو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہیں نے کہا۔

اس جملے میں حرف جار نے ہے جس کا تعلق بان کی مون سے ہے اس لیے اسے بان کی مون کے ساتھ لگانا چاہیے۔

صحیح استعمال یہ ہوگا:

بان کی مون نے جو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہیں کہا۔

چند اور مثالیں:

غلط

اسامہ بن لادن جو دو سال گزرنے کے باوجودگرفتار نہیں ہوسکے ہیں کو پکڑنے کا پچیس ملین ڈالر کا انعام

فلوجہ جو سنی تکون والا شہر ہے میں امریکی فوجوں کا داخلہ بند ہے

صحیح

اسامہ بن لادن کو جو دو سال گزرنے کے باوجودگرفتار نہیں ہوسکے ہیں پکڑنے کا پچیس ملین ڈالر کا انعام

فلوجہ میں جو سنی تکون والا شہر ہے امریکی فوجوں کا داخلہ بند ہے

تو اصول یہ ہے کہ حروفِ جار یعنی نے، میں، کو، پر، کا کی کے، کے بعد، سے وغیرہ ہمیشہ noun اور pronoun کے فوراّ بعد لگائے جائیں۔

گرامر کی طبیعت اور مزاج اردو شاعری کے محبوب کی طرح ہے۔ ایک سادہ سے اصول کو پیچیدہ اور پیچیدہ اصول کو اور زیادہ الجھا دیتی ہے۔ مندرجہ ذیل پیراگرفوں میں انہی پیچیدگیوں کا ذکر آپ دیکھیں گے۔

-----------------
اِمالہ

جب آپ حروفِ جار یا postposition لگاتے ہیں تو کچھ noun ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بدل جاتی ہے۔

کچھ مثالیں دیکھیے:

سلسلہ سلسلے میں
کالا کالے پر
راستہ راستے بھر
شعلہ شعلے سے
معاملہ معاملے کا
حوالہ حوالے سے
روزہ روزے میں
جمعہ جمعے کو
سارا سارے کا سارا
ذرا غور سے دیکھیے تو ان تمام الفاظ میں دو باتیں آپ کو مشترک نظر آئیں گی۔ ایک یہ کہ یہ سب مذکر masculine الفاظ ہیں۔ دوسرے یا تو ہ پر ختم ہوتے ہیں یا الف پر۔

تو اصول یہ مقرر ہوا کہ وہ مذکر الفاظ جو ہ پر یا الف پر ختم ہوتے ہیں ان کے بعدpostposition لگایا جائے تو ہ یا الف کو بدل کر ے کر دیا جائے۔ لیکنfeminine الفاظ کو نہیں بدلا جاتا۔

اس تبدیلی کو امالہ لگانا کہتے ہیں۔

لیکن ذرا رکیے۔ گرامر نے اس سادہ اصول کو بھی یہ کہہ کر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ بعض الفاظ پر یہ اصول لاگو نہیں ہوتا۔ وہ کونسے الفاظ ہیں:

دادا، نانا، چچا، تایا، پھوپھا، بابا

ہمارے دادا کی چار اولادیں تھیں
میرے بھائی نے نانا سے جاکر کہا
چچا کے بعد گھر سونا سونا سا ہوگیا
اس کے تایا نے اس کی پرورش کی تھی
بابا نے جوتے پہنے اور گھر سے چل دیئے

نوٹ: سالا کے ساتھ امالہ لگانا ضروری ہے

سالا سالے

یہ تو ہوئے رشتے جو امالہ سے مستثنیٰ ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے الفاظ ہیں جن کے ساتھ امالہ نہیں لگاتے:

خلا: خلا کے سفر سے جو دشوار تر ہے وہ مشرق کے بیت الخلا کا سفر ہے

رملہ: اسرائیلی بمبار طیارے نے رملہ پر گولہ باری کی

تو اصول یہ مقرر ہوا کہ وہ مذکر الفاظ جو ہ پر یا الف پر ختم ہوتے ہیں ان کے بعد postposition لگایا جائے تو ہ یا الف کو بدل کر ے کر دیا جائے۔ لیکن feminine الفاظ کو نہیں بدلا جاتا۔ اس کے علاوہ داد، نانا، چچا، تایا، بابا کو ے میں تبدیل نہیں کرتے۔ اور تھوڑے سے اور بھی الفاظ ہیں جو اس اصول سے مسثنیٰ ہیں۔

یہ تھے noun جن کے بارے میں امالہ لگانے کا اصول ہمیں گرامر نے بتایا ہے۔ pronoun کی شکل بھی postposition کی وجہ سے بدل جاتی ہے۔ لیکن فکر نہ کیجیے۔ آپ کو یہ اصول پوری طرح معلوم ہے۔ یہاں صرف یاد دہانی کے لیے اسے دہرایا جا رہا ہے۔

 
نے

سے

کو

لیے

میں

میں نے

مجھ سے

مجھ کو یا مجھے

میرے لیے

تم

تم نے

تم سے

تم کو

تمہارے لیے

آپ

آپ نے

آپ سے

آپ کو

آپ کے لیے

وہ
اس نے

اس سے

اس کو یا اسے

اس کے لۓ

وہ /یہ

انہوں نے

ان سے

ان کو

ان کے لۓ

ہم

ہم نے

ہم سے

ہم کو یا ہمیں

ہمارے لۓ

postposition کے بارے میں جو اصول ہم نے دیکھے ان کو ایک بار پھر دہرا لیتے ہیں۔

پہلا اصول:

حروفِ جار یعنی نے، میں، کو، پر، کا کی کے، کےبعد، سے وغیرہ ہمیشہ noun اور pronoun کے فوراّ بعد لگائے جائیں۔

دوسرا اصول:

وہ مذکر الفاظ جو ہ پر یا الف پر ختم ہوتے ہیں ان کے بعد postposition لگایا جائے تو ہ یا الف کو بدل کر ے کر دیا جائے۔ لیکن feminine الفاظ کو نہیں بدلا جاتا۔ اس کے علاوہ داد، نانا، چچا، تایا، بابا کو ے میں تبدیل نہیں کرتے۔ اور تھوڑے سے اور بھی الفاظ ہیں جو اس اصول سے مسثنیٰ ہیں۔

تیسرا اصول:

pronoun کی شکل بھی postposition کی وجہ سے بدل جاتی ہے۔


-------------------

اِمالے کا حوالہ

امالہ اردو گرامر کا ایک سادہ اصول ہے جو تقریباً ہر فقرے میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے تو اردو لکھنے والے کئی غلطیاں کرنے سے بچ جائیں گے۔ بی بی سی اردو کے نامہ نگار ظفر سید کی تحریر۔
امالہ بظاہر ایک بڑی سادہ سی چیز لگتی ہے، لیکن اگر گہرائی میں جا کر دیکھیں تو اس کے اندر کچھ ایسی پیچیدگیاں نظر آتی ہیں جو اردو کے نئے لکھنے والوں کو خاصی الجھن میں ڈال دیتی ہیں۔ اس تحریر میں کوشش کی جا رہی ہے کہ ان الجھنوں کے جالوں کو دور کیا جائے۔

امالے کا لفظی مطلب ہے ’جُھکنا۔‘ انگریزی میں اسے declension اور اس عمل کو to decline کہا جاتا ہے۔ جب یہ اصطلاح اردو گرامر میں استعمال کی جاتی ہے تو اس کے تحت کسی لفظ کے آخر میں آنے والے الف یا الف سے ملتی جلتی کسی دوسری آواز کو ے سے بدل دیا جاتا ہے۔

اس کی چند مثالیں دیکھیے:

لڑکا: لڑکے نے کھانا کھایا۔
گھوڑا: گھوڑے نے دوڑنا شروع کیا۔
کتا: کتے نے چھلانگ لگائی۔
مدینہ: مولا مدینے بلا لو مجھے۔
اب جب کہ ہم امالہ کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کر چکے ہیں، اس کے چند اصول بھی ذہن نشین کر لیجیے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر لفظ کا امالہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی چند شرائط ہیں۔

امالہ صرف ان الفاظ کا بھی کیا جاتا ہے جن کے آخر میں یا تو الف ہو، یا کوئی ایسا حرف ہو جو بولنے میں الف کی طرح لگے۔ ایسے الفاظ کی مثالیں ہ اور ع ہیں، جو اردو میں الف کی طرح سنائی دیتی ہیں۔
بچہ:              بچے نے کھلونا توڑ دیا
حملہ:             حملے میں ملوث افراد
صدمہ:           صدمے کے اثرات
مسئلہ:           مسئلے کی وجوہات
جمعہ:            جمعے کا بابرکت دن
موقع:             موقعے پر موجود لوگ
تنازع:           تنازعے کے بعد کی صورتِ حال
امالہ صرف مذکر الفاظ کا ہوتا ہے، مونث کا امالہ نہیں کیا جاتا۔ مثلاً لڑکی نے کھانا کھایا، گھوڑی نے دوڑنا شروع کیا، کتیا نے چھلانگ لگائی۔ ان تمام الفاظ میں اسم نہیں بدلا، حالانکہ آخری اسم (کتیا) کے آخر میں الف بھی موجود تھا۔
مشہور شہروں اور جگہوں کے ناموں کا امالہ بھی اسی اصول کے تحت کیا جاتا ہے، یعنی اگر کسی شہر کا نام الف یا اس سی ملتی جلتی آواز پر ختم ہوتا ہو تو اس کا امالہ کیا جائے گا۔
مکہ:              مکے کی شان
مدینہ:            مدینے کے انوار
سرگودھا:       سرگودھے کے مالٹے
آگرہ:             آگرے کی تاریخ
کوئٹہ:            کوئٹے کا موسم
بصرہ:           بصرے کی کھجور
ڈھاکہ:           ڈھاکے کی ململ
جن الفاظ کا امالہ نہیں ہوتا:

شہروں کے نام کا امالہ تو کیا جاتا ہے، لیکن ملکوں یا براعظموں کے ناموں کا امالہ نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر برطانیہ، امریکہ، افریقہ، کینیا، کینیڈا، سری لنکا، آسٹریلیا، کوریا، چائنا، ارجنٹینا، البانیہ، بوسنیا، چیچنیا، سربیا، وغیرہ مذکر بھی ہیں اور ان کے آخر میں الف یا ہ بھی آتی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا امالہ نہیں کیا جاتا، کیوں کہ یہ اردو تہذیبی دنیا کا حصہ نہیں ہیں، اور اردو ذخیرۂ الفاظ میں ابھی پوری طرح سے رچے بسے نہیں۔ اردو تہذیبی دنیا سے مراد ہندوستان، پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے شہر ہیں جن سے ہمارے مذہبی اور ثقافتی روابط ہیں۔
وہ شہر یا جگہیں، جن کا تعلق اردو تہذیبی دنیا سے نہیں ہے، ان کا امالہ بھی نہیں کیا جاتا۔ اس اصول کے تحت کیلیفورنیا، کیرولائنا، فلاڈیلفیا، منیلا، آٹووا، انقرہ، بارسلونا، کینبرا، ایڈنبرا، وغیرہ کا امالہ نہیں کیا جائے گا۔
وہ الفاظ جن کی جمع نہیں بنائی جاتی، ان کا امالہ بھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر فصیح اردو میں ابا، دادا، چچا، پھوپھا، دیوتا، راجہ، وغیرہ کی جمع نہیں بولی جاتی، اس لیے ان کا امالہ بھی نہیں ہوتا۔
بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ امالہ بولتے وقت تک تو ضرور کیا جائے لیکن انھیں امالے کے بغیر لکھا جائے۔ یہ بات صریحاً غیرمنطقی ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کی اردو املا کمیٹیوں نے سفارش کی ہے کہ جو لفظ جیسے بولا جاتا ہے ویسے ہی لکھا جائے۔  اس لیے دھماکہ کے وقت، موقع پر پہنچ گئے، واقعہ کے بعد کی بجائے دھماکے کے وقت، موقعے پر اور واقعے کے بعد بولا اور لکھا جائے۔

اور آخر میں ایک سوال: میر تقی میر کا ایک شعر ہے جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

          مکے  گیا   مدینے  گیا  کربلا  گیا

          جیسا گیا تھا ویسے ہی چل پھر کے آ گیا

اس شعر میں مکہ اور مدینہ کا امالہ تو ہوا ہے، لیکن کربلا کا نہیں، حالانکہ اس کے آخر میں الف ہے۔ کیوں؟

----------------------

تاکیدی فعل

انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرتے وقت کن اصولوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے ؟ عام بول چال میں ہم لوگ تاکیدی فعل استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انگریزی سے ترجمہ کرتے ہوئے انہیں بھول جاتے ہیں۔

عام بول چال کے دو جملے دیکھیے:

چائے پیئں گی آپ؟

پی لونگی-

میرا ایک کام کردیں گے؟

ضرور کر دونگا، کیا ہے؟

انگریزی میں up out off وغیرہ کی طرح کے الفاظ جب verb کے ساتھ لگائے جاتے ہیں تو ان سے خصوصی مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر to eat up to sell off میں جو مفہوم ہے وہ to eat to sell میں نہیں پایا جاتا۔

اردو میں بھی لینا دینا وغیرہ کی طرح کے الفاظ verb کے ساتھ جوڑ کر ایک خاص مفہوم پیدا کیا جاتا ہے یعنی فعل میں تھوڑی سی شدت پیدا کردی جاتی ہے۔ اسی لیے ایسے verb کو intensive یا تاکیدی فعل کہا جاتا ہے۔

عام بول چال میں ہم لوگ تاکیدی فعل استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انگریزی سے ترجمہ کرتے ہوئے انہیں بھول جاتے ہیں۔

مثالیں:

وزیر اعظم نے بالاخر تسلیم کیا ہے کہ عراق میں وسیع تباہی کے ہتھیار نہیں تھے۔

اس جملے میں اگر تسلیم کرلیا ہے لکھ دیا جاتا تو کیسا اجالا سا آجاتا۔

آپ دیکھتے ہیں کہ ان اضافی الفاظ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔

دینا: جب verb کے ساتھ دینا لگاتے ہیں تو تین میں سے کوئی ایک مطلب نکلتا ہے۔

1: کسی عمل کی تکمیل:

انتخابی مہم ختم کردی گئی۔

2: کوئی کام کسی اور کے لیے کرنا:

افغانستان میں اقوام متحدہ نے وہ کام کردیا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادی نہیں کر پائے تھے۔

3: اس بات کا اظہار کہ یہ عمل کسی اور کی طرف اشارہ کر رہا ہے:

وزیر خزانہ کے بیان کے مطابق پینشن میں دو فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

لینا: جب verb کے ساتھ لینا لگاتے ہیں تو مندرجہ ذیل چار میں سے کوئی ایک مطلب نکلتا ہے۔

1: کسی عمل کی تکمیل:

American Enterprise Institute نے سوویت یونین کے زوال کے بعد ہی یہ نظریہ قائم کرلیا تھا کہ دنیا کی قیادت اب امریکہ کے ہاتھوں میں آچکی ہے۔

2: کوئی کام اپنے لیے کرنا:

دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو اپنا قریبی حلیف بنا لیا تھا۔

3: کوئی کام پورا کرنے میں مشکل پیش آنا یعنی کسی نہ کسی طرح اسے پورا کرنا:

پاکستان میں زیادہ تر لوگ انگریزی سمجھ لیتے ہیں۔

4: اس بات کا اظہار کہ یہ عمل اس کی جانب اشارہ کررہا ہے جس نے کیا ہے:

صدر مشرف کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ وہ بے حد غیر مقبول ہو چکے ہیں۔

-------------------------

ہوا اور گیا کا استعمال

اردو زبان میں ہوا اور گیا کا استعمال۔

نیچے لکھے ہوئے دو جملوں پر غور کیجیے: 

میرے پاسپورٹ پر میرا نام غلط لکھا گیا ہے۔

میرے پاسپورٹ پر میرا نام غلط لکھا ہوا ہے۔

پہلے جملے میں یہ کہا گیا ہے کہ جس نے بھی میرا نام لکھا ہے اس نے غلط لکھا ہے۔ یعنی یہ جملہ لکھنے کے عمل action کا اظہار کررہا ہے۔

دوسرا جملہ لکھی ہوئی بات کی حالت state کو ظاہر کررہا ہے یعنی یہ جو نام نظر آ رہا ہے یہ غلط ہے۔

جب ہم کوئی منظر، کوئی حالت یا کوئی کیفیت بیان کر رہے ہوں تو اسے عمل action کے ذریعہ بیان کرنا درست نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر:

سڑکوں پر لگائے گئے جھنڈے
دیواروں پر لگائے گئے پوسٹر
میزوں پر چُنے گئے لیف لیٹ

صحیح verb ہوگا:

سڑکوں پر لگے ہوئے جھنڈے
دیواروں پر لگے ہوئے پوسٹر
میزوں پر چُنے ہوئے لیف لیٹ

ایک اور مثال:

دھوئیں سے بھری ہوئی فضا
سڑکوں پر پڑی ہوئی لاشیں
گولے برساتے ہوئے ہوائی جہاز
دھواں اٹھ رہا ہے ہوائی جہاز گولے برسا رہے ہیں

ان دونوں میں action ہے لیکن چونکہ منظر کی حالت یا کیفیت بیان کی جارہی ہے اس لیے ہوئی اور ہوئے کا استعمال زیادہ صحیح ہے۔

-----------------

past tense کا استعمال

اردو کے جملوں میں فعل کے ساتھ ماضی بعید کا استعمال، فعل کی مختلف قسمیں۔

اردو میں  past tense کا استعمال تھوڑا سا پیچیدہ لیکن اگر انگریزی گرامر کے مطابق اس پر عمل کیا جائے  تو غلطی کا امکان بہت کم رہ جائے گا لیکن آگے بات کرنے سے پہلے verb کے بارے میں دو ایک باتیں:

verb یا فعل دو طرح کے ہوتے ہیں: transitive اور intransitive

Transitive کی مثالیں: میں سمجھا، وہ گیا، وہ آئی، تم بولیں، وہ سب جانے لگے

Intransitive کی مثالیں: میں نے کہا، اس نے سمجھا، تم نے بات کی، انہوں نے دیکھا

دونوں میں فرق دیکھ لیا آپ نے۔ intransitive میں verb سے پہلے نے استعمال کیا جاتا ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ انگریزی میں فعل چار قسم کے ہوتے ہیں:

1) simple past 2) perfect 3) pluperfect 4) future perfect

اردو میں simple past کی مثالیں وہی ہیں جو اوپر آپ دیکھ چکے ہیں:
میں سمجھا وہ گیا وہ آئی تم بولیں

Perfect کے ساتھ has, have کا استعمال ہوتا ہے has issued, have been arrested
اردو میں ہے، ہیں، ہوں سے ان کو پہچانا جاتا ہے جیسا کہ جاری کیا ہے، گرفتار ہوئے ہیں و غیرہ

Pluperfect کی پہچان had سے کی جاتی ہے had noticed, had issued
اردو میں تھا، تھے، تھی، تھیں سے ان کو پہچانا جاتا ہے۔ جیسا کہ محسوس کیا تھا، جاری کیے تھے وغیرہ

اور آخر میں future perfect کی پہچان will have یا must have سے کی جاسکتی ہے
They must have walked at least four miles in atrocious weather conditions

اردو میں ہوگا، ہونگا، ہونگی، ہونگے وغیرہ اس فعل کی پہچان ہیں۔

اردو لکھتے ہوئے یہ آخری دو verb کوئی مشکل پیدا نہیں کرتے۔ خواہ ترجمہ کرتے ہوئے یا اپنا مراسلہ لکھتے ہوئے آپ pluperfect اور future perfect بخوبی استعمال کرلیتے ہیں۔

مشکل ہوتی ہے simple past اور perfect کے استعمال میں۔

ماضی کے ان دونوں tenses کو استعمال کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ جو واقعہ ہوا ہے اس کی گزری ہوئی مدت کا پوری طرح اندازہ ہو جائے۔

مثال کے طور پر:

میں نے آج گیارہ بجے ناشتہ کیا (یعنی ناشتے میں دیر ہوگئی)
میں نے آج گیارہ بجے ناشتہ کیا ہے(یعنی ابھی تھوڑی دیر پہلے ناشتہ کیا ہے)
میں نے آج گیارہ بجے ناشتہ کیا تھا ( یعنی گیارہ بجے سے اب تک بہت دیر ہوچکی ہے)
مندرجہ بالا جملوں میں ماضی کے tense کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ گزری ہوئی مدت کا اندازہ ہو جائے۔

اب ایک مثال اور دیکھیے:

اسرائیل کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ اور مصر کی سرحدی دیوار توڑنے کا جو واقعہ ہوا تھا اس میں حماس کے عسکریت پسند بہت بڑی مقدار میں جدید اسلحہ سمگل کر کے غزہ میں لے گئے ہیں۔

اوپر کے جملے میں کہا ہے اور لے گئے ہیں یہ دونوں perfect tense میں ہیں۔ اگر آپ ان کو simple past میں بدل دیں گے تو جملہ یوں ہوگا:

اسرائیل کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے کہا کہ غزہ اور مصر کی سرحدی دیوار توڑنے کا جو واقعہ ہوا تھا اس میں حماس کے عسکریت پسند بہت بڑی مقدار میں جدید اسلحہ سمگل کر کے غزہ میں لے گئے۔

دونوں میں فرق آپ نے دیکھا؟ پہلے جملے کا زمانہ ہم سے قریب تھا، دوسرے جملے کا زمانہ دور چلا گیا۔

اسی لیے اردو میں perfect tense کو ماضی قریب کہتے ہیں اور simple past کو ماضی مطلق۔

ایک اور مثال:

کُل جماعتی حریت کانفرنس نے آج شام گئے ایک بیان جاری کیا جس میں بھارت کی حکومت پر الزام لگایا۔

کیا اس جملے میں ماضی قریب کا استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا؟

کُل جماعتی حریت کانفرنس نے آج شام گئے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں بھارت کی حکومت پر الزام لگایا ہے۔

غرض کہ یہ خیال رکھیے کہ ماضی کا tense درست استعمال کیا جائے۔