موجودہ فلسفہ، ادب ، سماجی اور سائنسی علوم میں کائنات اور انسان کے بارے میں دوہی نقطہ نظر پائے جاتے ہیں ۔
ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے، انسان اس کی دیگر مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، دنیا کے مشہور مذاہب کے نمائندہ فلاسفہ ، ادیب اور دانشور اس نقطہ نظر کے قائل ہیں ۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں، انسان ڈرون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق ایک ترقی یافتہ حیوان ہے۔
مغربی دنیا کے اکثر فلاسفہ ، دانشور ، سماجی شخصیات اور سائنس دان اس نقطہ نظر پر عامل ہیں۔ جو بھی ان کےخیالات کا جائزہ لے گا تو معلوم ہوگا کہ ان کی غالب سوچ انکار خالق پر مبنی ہے، اس بناء پر ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو مغرب میں آج بھی فروغ حاصل ہورہا ہے ۔
انسویں اور بیسوی صدی میں یورپ میں جو سیاسی ، تہذیبی اور فکری تبدیلی ظاہر ہوئی ادب اور فلسفہ میں اس رجحان کو جدیدیت (ماڈرن ازم ) کہا جاتا ہے ، سیاسی اعتبار سے جدیدیت کی سوچ ، دراصل یورپ کے قدیم جاگیر دارانہ نظام سے بغاوت کے نتیجہ پروجود میں آئی ہے، اس سوچ نے یورپ کے معاشی انقلاب کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت کےلیے راہ ہموار کی ۔ اسی سوچ نے پہلی مرتبہ مغرب میں انفرادی آزادی اور انسانی حقوق کو ریاست کے قوانین کا جز بنایا ، اس کی ایک مثال میگنا کارٹا ہے۔
اس سوچ نے یورپ کی سیاسی ، تہذیبی اور سماجی زندگی کو ایک سر بدل دیا اور ماضی کے افکار اور طرز زندگی کو رد کرکے ایک نئی زندگی اور نئی دنیا تعمیر کردی۔ اس جدیدیت کے علم بردارعام طور پر خالق کائنات یا خدا ، وحی اور نبوت کے منکر ہیں ۔
لیکن اس کے متوازی بیسویں صدی کے آغاز سے ہی مغرب کے کچھ دانشوروں نے جدیدیت پسند دانشوروں کے بعض خیالات سے بے اطمینانی کا اظہار کیا اس کے خلاف مابعد جدیدیت کی اصطلاح میں رد عمل سامنےآیا۔ اگرچہ اس کا کوئی مخصوص نظریہ نہیں تھا بلکہ جدیدیت کے خلاف ایک رد عمل کی کیفیت کے طور ظاہرہوا۔ اس کا ظہور سب سے پہلے ادب ، آرٹ ، فنون لطیفہ اور فن تعمیر میں ہوا۔ اس سوچ کو ان تحریکوں سے بھی تقویت ملی جو جدیدیت کے استحصال کے شکارطبقوں کے حقوق کے لیے کام کررہی تھیں ، موجودہ دور میں ابلاغ کے عوامی ذرائع شوشل میڈیا نے اس سوچ کوسب سے زیادہ فروغ دیا ہے ۔
مابعد جدیدیت کی خاص بات یہ ہے کہ یہ جدیدیت کے پیش کردہ استعماری نظریات کو رد کرتی ہے۔ اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انسان کی آزادی اور انفرادیت کے علم بردار ہے ۔
ان دونوں نظریات کے پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے، دونوں سوچ ظلم و جبر کے خلاف ردعمل کے طور پر وجود میں آئی ۔ جس طرح جدیدیت یورپ کے قدیم جاگیردارانہ نظام کے ظلم و بربریت کے خلاف رد عمل کے طور پر ظاہر ہوئی اسی طرح جدیدیت کے جبر و استبداد سے نجات پانے کے لیے مابعد جدیدیت کا رجحان سامنے آیا ۔
ان دونوں نظریات سے اگر اسلام کی تعلیمات کا تقابل کیا جائے تو پیغامبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی ظلم و جبر کے خلاف پیغام امن و سلامتی لیکر آئیے ہیں ۔ اسلام دیگر ادیان اور نظریات سے بڑھ کر عدل و انصاف ، مساوات ، انسانی انفرادیت اور آزادی کے حق میں کھڑا ہوا ہے لیکن اسلام آزادی اور انفرادیت کی حمایت اجتماعی حقوق اور مفادات کی قربانی دیکر نہیں کرتا اور نہ ہی اجتماعیت کی حمایت انفرادی آزادی کی نفی کرکے کرتا ہے۔ بلکہ اسلام وحدت انسانیت کے عقیدہ پر مبنی ایسا نظام حیات کے داعی ہے جس کی عمارت کی بنیاد توحید الہ کے عقیدہ پر کھڑی ہے اور انسان میں وحدت فکر اور وحدت عمل پیدا کرکے دنیا کو زیادہ سے زیادہ پرامن اور سلامتی کا گہوارہ بنانے کی تعلیم دیتا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : " قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ " (آل عمران : 64)
کہو، ”اے اہل کتاب! آؤ ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے“۔۔۔۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو۔ ہم تو مسلم ﴿صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے ﴾ہیں۔
اس لازوال اور ابدی عالم گیر پیغام کا حامل یہ دین آج بھی قرآن کی شکل میں محفوظ ہے ۔
ایک اورحیثیت سے دیکھا جائے تو جدیدیت اور مابعد جدیدیت دونوں کا ظہور رد عمل کی حیثیت سے ہوا ، اس لیے دونوں نظریات کے حامل دانشوروں سے بعض بے اعتدال خیالات سرزد ہوئے جن کی بنا پر انسانی معاشرہ غیر اخلاقی اورغیر فطری رویوں کا شکار ہوا، حتی کہ انسان کو ایک معاشی یا معاشرتی حیوان کا درجہ دینے کی کوشش ہوئی ۔ اس کے نتیجے میں مغرب میں ایک ایسی نسل وجود میں آئی جو انسانی اخلاق اور فطری عادات سے یکسر محروم ہوگئی ۔ اس کے برعکس اسلام انسانی فطرت کا ترجمان ہے۔ اس کا اظہار قرآن میں ان الفاظ میں ہوا :
ارشاد باری تعالی : " فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ (الروم : 30)
" پس ﴿اے نبی ؐ﴾ یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نےانسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی ، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ "
اس اعتبار سے مسلم دانشور، ادباء، فلاسفہ، سماجی شخصیات اور سائنس دانوں پر لازم ہے کہ کائنات اور انسان کے بارے میں تحقیق اور تجزیہ کرتے وقت جدید یت اور مابعد جدیدیت کے دونوں رجحانات کوسامنے رکھتے ہوئے اسلام کے فطری اور روشن عالم گیر پیغام کو سامنے رکھنا چاہیئے اس کے بغیر اس فطرت کی ترجمانی نہیں ہوسکتی ہے جس فطرت یہ کائنات اورانسان کی تخلیق ہوئی، اس حقیقت کی طرف رہنمائی کے لیے اللہ تعالی نے اپنا پیغام انبیاء کے ذریعے عطا فرمایا اوربے شک قرآن بھی اسی فطرت کی ترجمانی کے لیے نازل کیاگیا ہے۔
ارشاد باری تعالی : " هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوْا بِهٖ وَلِيَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّلِيَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ابراھیم : 52) یہ (قرآن ) ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، اور یہ اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اس کے ذریعہ سے خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا ایک ہی ہے اور دانش مند لوگ نصیحت حاصل کریں۔