علامہ شبلی ؒ کا خطاب : ( محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، لکھنو منعقدہ دسمبر1887ء )

(محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے اجلاس لکھنو منعقدہ دسمبر1887ء میں تقریر سرسید کی اس تجویز پر کہ چھوٹے کم درجہ اسلامی اسکولوں کا قیام مسلمانوں کے لیے مضر ہے)


میں اس امید پر کھڑا ہوا ہوں کہ اس بحث میں میری اسپیچ شاید سب سے پچھلی اور فیصلہ کرنے والی اسپیچ ہو گی۔
روز ولیوشن پر نہایت سرگرمی سے مباحثہ ہو چکا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اکثر تقریریں اصل مطلب سے دور پڑ گئی ہیں چھوٹے چھوٹے مدارس تین حالتیں رکھتے ہیں اور ہم کو دیکھنا ہے کہ رزولیوشن کا مقصد ہر ایک پر کیا جداگانہ اثر رکھتا ہے پہلی قسم کے وہ اسکول ہیں جن کے پہلو میں کوئی گورنمنٹ یا مشنری اسکول موجود نہیں ہے۔ میں اپنے حافظہ کے اعتماد پر کہتا ہوں کہ اس قسم کے اسکولوں کی ضرورت کو سید صاحب نے اپنی تقریر میں تسلیم کر لیا ہے۔


دوسری قسم کے وہ اسکول ہیں کہ جن مقاموں میں قائم کئے گئے ہیں وہاں ان سے عمدہ تر گورنمنٹ یا مشنری اسکول موجود ہیں۔ غالباً سید صاحب کے مخالفین بھی ان سکولوں کے قائم کرنے کے حامی نہ ہوں گے، کیونکہ اس حالت میں گویا یہ صراحتہً اقرار کرنا ہے کہ عمدہ تعلیم گاہ کے ہوتے ہوئے ہم ناقص تعلیم گاہ کو اختیار کرتے ہیں۔

تیسری قسم کے وہ اسلامی اسکول ہیں جو گورنمنٹ اور مشنری اسکولوں کے ہم پلہ ہیں، گو سید صاحب کی اصطلاح کی رو سے وہ کم رتبہ اور چھوٹے درجہ کے اسکولوں میں شامل ہیں۔ میرے نزدیک تمام بحث کا مرکز صرف یہ تیسری حالت ہے اور میں بے تکلف کہتا ہوں کہ اس خاص حالت کے اعتبار سے میرا فیصلہ رزولیوشن کے مخالف ہے۔

سید صاحب نے اپنی فصیح اور پر اثر اسپیچ میں ثابت کیا ہے کہ ’’ قوم کو تعلیم سے زیادہ قومیت کی طرف خیال دلانے کی ضرورت ہے‘‘ بے شبہہ ہماری کوششوں کا بڑا مقصد یہی ہونا چاہیے یہی بات ہے جس کی وجہ سے ہم مدرسۃ العلوم علی گڑھ کو تمام دوسرے کالجوں پر ترجیح دیتے ہیں اس کے بورڈنگ میں جو لڑکے تعلیم پاتے ہیں وہ اپنی جماعت کو ایک قومی جماعت کی صورت میں دیکھتے ہیں جب وہ کالج کا نام لیتے ہیں تو پر فخر لہجہ میں ’’ ہمارا کالج‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں بے شبہہ ترقی کا اصلی زینہ یہی ہے کہ تعلیم ہی کے زمانہ سے جو آئندہ زندگی کی بنیاد ہے بچوں کے دل و دماغ میں قومیت کا نشہ سرایت کر جائے میرا خیال ہے کہ تیسری قسم کے اسکول اس مقصد کے لیے بہت کچھ مفید ہوں گے یہ تربیت نہایت موزوں ہو گی کہ قوم کے بچے لڑکپن سے ’’ ہمارا اسکول‘‘ کہنے کی مشق بڑھائیں اور نوجوانی کے آغاز میں وہ ایک ایسے با عظمت اور وسیع کالج کے احاطہ میں پہنچ جائیں جس کو ’’ قومی کالج‘‘ کے لقب یافتہ ہونے سے ان کے ابتدائی خیالات قومیت زیادہ قومی، پر جوش اور سر گرم ہو جائیں۔

ہم اس اصول سے کبھی در گزر کرنا نہیں چاہتے کہ ’’ قومی طاقت‘‘ متفرق نہ ہونے پائے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہ اسکول اس مقصد میں خلل انداز نہیں ہیں۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جن رقموں سے یہ اسکول چلائے جاتے ہیں ان میں کوئی بڑی قومی طاقت صرف ہوتی ہے یا یہ کہ ان سے کوئی دوسرا کام لیا جا سکتا ہے ان اسکولوں میں آمدنی کا ایک بڑا حصہ گورنمنٹ ایڈ اور طالب علموں کی فیس سے حاصل ہوتا ہے، جو کسی طرح دوسرے موقع کے لیے منتقل نہیں کیا جا سکتا تھوڑی سی رقم چندہ اور ڈونیشن سے حاصل کی جاتی ہے لیکن وہ اکثر مقامی خصوصیت رکھتی ہے۔ اور اگر یہ خصوصیت اٹھا دی جائے تو شبہہ ہے کہ چندہ دینے والے اپنی رقموں کو واپس لے لیں گے یا قائم رکھیں گے پس یہ خیال غلط ہے کہ ان اسکولوں کی آمدنی سے کوئی بڑی تعلیم گاہ تیار ہو سکتی ہے یا یہ کہ اس سے کسی قومی کالج کو امداد پہنچ سکتی ہے۔

جب یہ ثابت ہے کہ ان اسکولوں سے قومی مجتمع طاقت کو کچھ گزند نہیں پہنچتا بلکہ بخلاف اس کے ایک اعتبار سے وہ قومیت پیدا کرنے کے لیے مفید آلہ ہیں تو میں ان اسکولوں کو فائدہ مند خیال کرتا ہوں نہ مضر اور اگر رزولیوشن کے مقصد کا ان پر کوئی مخالفانہ اثر پڑتا ہے تو میں رزولیشن کا کامیاب ہونا مطلقاً نہیں چاہتا۔

٭٭٭٭٭٭