دیباچہ خطبات شلبی ؒ ۔ مولانا عبد السلام ندوی


تبلیغ دین، دعوت و ارشاد، تدبیر و سیاست، غرض پبلک زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق خطابت و تقریر کی ضرورت ہے، اور جس شخص میں یہ ملکہ جس قدر قوی ہو گا اسی قدر وہ جمہور کی رہنمائی میں کامیاب ہو گا مولانا شبلی نعمانی جن اوصاف و خصوصیات کا مجموعہ تھے ان میں ایک خاص خصوصیت یہ تھی کہ ان میں زور تحریر کے ساتھ قوت تقریر کا خداد داد ملکہ پایا جاتا تھا۔ اگرچہ ان کی زندگی کے ابتدائی دور میں اس ملکہ کا اظہار نہیں ہونے پایا۔ چنانچہ ان کی زندگی کے ابتدائی دور کے خطوط میں کسی موقع پر تقریر کرنے کا تذکرہ انہوں نے نہیں کیا لیکن علی گڑھ جانے کے بعد جب ان کی پبلک زندگی کا آغاز ہوا تو اس ملکہ خدا داد نے پوری نشوونما حاصل کی اور وہ علی گڑھ کالج کی سوسائٹیوں اور کانفرنس کے جلسوں میں تقریریں کرنے لگے۔ اس کے بعد ندوۃ العلماء قائم ہوا تو اس کے جلسوں میں بھی ان کی تقریروں نے خاص طور پر اہمیت حاصل کی اور وہ ہندوستان کے بے مثل اور بے نظیر خطیب اور مقرر تسلیم کئے جانے لگے۔


خوش قسمتی سے تقریر و زور بیان کے لیے جس قدر لوازم و اوصاف ضروری ہیں وہ سب ان میں قدرتی طور پر موجود تھے قد نہایت بلند بالا تھا اس لیے جب اسٹیج پر تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو ہر شخص کے سامنے ظاہری حیثیت سے بھی ایک نمایاں شخصیت آ جاتی تھی آواز بلند اور گونجنے والی تھی اور اول سے آخر تک یکساں حالت میں قائم رہتی تھی۔ مزاج میں نہایت اشتعال اور جوش و خروش پایا جاتا تھا اس لیے ان کی تقریروں میں قدرتی طور پر زور اور جوش بیان پیدا ہو جاتا تھا عام واعظوں اور پیشہ ور مقرروں کی طرح ہر موضوع پر محض تقریر کرنے کے لیے تقریر نہیں کرتے تھے بلکہ صرف اسی موضوع کا انتخاب کرتے تھے جس کو وہ خود محسوس کرتے تھے اور ملک و قوم کے لیے اس کو ضروری سمجھتے تھے اس لیے ان کے طبعی احساس اور ملک و قوم کی عام ضرورت کے لحاظ سے ان کی تقریروں میں خود بخود زور و اثر پیدا ہو جاتا تھا۔ تقریروں میں متبذل اشعار، قصہ و حکایت اور محض لفاظی سے بالکل اجتناب کرتے تھے، بلکہ ان کی تمام تقریریں تاریخی واقعات اور علمی معلومات کا مجموعہ ہوتی تھیں اور کوئی واقعہ ایسا نہیں بیان کرتے تھے جو دور از کار روایتوں پر مبنی ہو غرض ان کی تقریر و تحریر دونوں میں معلومات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔

ان کی تقریروں کے موضوع یا تو خالص علمی ہوتے تھے مثلاً اعجاز القرآن، علم کلام اور فارسی شاعری کی تاریخ یا مذہبی مثلاً ختم نبوت اور تکمیل دین، یا قومی جس میں زیادہ تر دین و دنیا کی آمیزش یا علوم قدیمہ و جدیدہ یا معقول و منقول کی تطبیق پر زیادہ زور دیتے تھے، اور یہ تمام موضوع قرآن و حدیث اور تاریخ کے ٹھوس معلومات سے لبریز ہوتے تھے تقریر کا ایک پر زور میدان ان کے لیے سیاست کا میدان تھا اور اس میں شبہہ نہیں کہ اگر سیاسی موضوع پر ان کو تقریر کرنے کا موقع ملتا تو ان کی آتش بیانی میں اور بھی بہت سے شرارے شامل ہو جاتے۔ لیکن وہ علانیہ اس میدان میں کبھی نہیں آئے اس لیے یہ شرارے ان کے دل ہی میں بجھ کر رہ گئے۔

افسوس ہے کہ ان کی تقریروں کا یہ نا مکمل مجموعہ جو چھپ کر شائع ہو رہا ہے اس سے ان کے زور بیان کا پورا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ وہ تقریر خود کبھی لکھ کر نہیں کرتے تھے چند تقریریں جو لوگوں نے لکھی ہیں ان میں ان کے تمام الفاظ کا بعینہ احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ میں جو اخیر تقریریں ہیں وہ مختصر نویسوں نے لکھی ہیں جن میں ان کے الفاظ، جملے اور فقرے بعینہ اپنی جگہ پر باقی نہیں رہ سکے ہیں۔ اور وہ اسی طرح روداد میں چھپ گئے ہیں اور ہم نے بھی ان میں تغیر مناسب نہیں سمجھا اس کے علاوہ ان سے ان کا عام طرز خطابت بھی نہیں معلوم ہو سکتا تاہم ان سے ان کے طرز تقریر کا ایک اجمالی اندازہ ہو سکے گا۔

عبدالسلام ندوی

دار المنفین 30اگست1941ء