انبیاء کا طریقہ دعوت زمانہ کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتارہا ہے

قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کا طریقۂ تبلیغ زمانہ کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ہے۔ آج کے دور میں دعوت و تبلیغ کا طریق کار کیسا ہو؟ اس بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کا اپنا ایک خاص نقطہ نظر ہے ان کی کتاب (دعوت دین اور اُس کا طریق کار) میں ان کا نقطہ نظر دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس میں ایک جگہ برصغیرکی معروف تبلیغی جماعت کے طریقہ دعوت پر تنقید کی ہے اِس کتاب کا ایک اقتباس پڑھیں !

’’بعض دینی حلقوں میں خدا جانے یہ خیال کہاں سے پھیل گیا ہے کہ تبلیغ کا معیاری اور پیغمبرانہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہاتھ میں ایک لٹھیا اور جھولی میں تھوڑے سے چنے لے لے اور تبلیغ کے لیے نکل کھڑا ہو۔ 

نہ پاؤں میں جوتی ہو، نہ سر پر ٹوپی، گاؤں گاؤں میں پھرے اور جس جگہ کوئی شخص مل جائے، خواہ وہ سنے نہ سنے ،اُس پر تبلیغ شروع کر دے ۔اگر کسی شہر میں گزر ہو تو وہاں جس نکڑ یا چوراہے پر چار آدمی نظر آ جائیں ، وہیں تقریر کے لیے کھڑا ہو جائے ۔

 ریل میں،اسٹیشن پر، بازار میں، سڑک پر جس جگہ کوئی بھیڑ مل جائے ،وہیں اُس کا وعظ شروع ہو جائے۔ ہر مجلس میں گھس جائے،ہر کانفرنس میں اپنی جگہ پیدا کر لے،ہر پلیٹ فارم پر جا دھمکے۔سننے والے تھک تھک جائیں،لیکن وہ سنانے سے نہ تھکے۔ لوگ اُس کے تعاقب سے گھبرا گھبرا جائیں ،لیکن وہ خدائی فوج دار بنا ہوا ہر ایک کے سر پر مسلط رہے۔ 

لوگ اُس کے سوال و جواب کے ڈر سے چھپتے پھریں، بلکہ بسا اوقات آزردہ ہو کر گستاخیاں اور بدتمیزیاں بھی کر بیٹھیں، لیکن وہ اِسی انہماک و جوش کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے۔ جہاں وعظ کی فرمایش کی جائے، وعظ کہہ دے، جہاں میلاد کی خواہش کی جائے ،میلاد پڑھ دے اور جہاں مخالفین و منکرین سے سابقہ پڑ جائے ،وہاں خم ٹھونک کر میدان مناظرہ میں بھی اتر پڑے۔یہ ہے تبلیغ کا اصلی طریقہ اور یہ ہے ایک سچے مبلغ کی صحیح تصویر جو ہمارے بہت سے دین دار لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے ۔ 


تبلیغ و تعلیم کے موجودہ ترقی یافتہ اور سائنٹیفک طریقوں کے تھوڑے بہت مفید ہونے سے ممکن ہے یہ لوگ منکر نہ ہوں، لیکن خیرو برکت والا طریقہ اُن کے نزدیک یہی ہے جس کو اُن کے خیال میں حضرات انبیا نے اختیار فرمایا۔

ہمارے نزدیک اِس طریقہ کو انبیا کا طریقہ سمجھنا کچھ تو انبیا کے طریقے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے اور کچھ اِن حضرات کی اِس خواہش کا کہ اِن کا اپنا اختیار کیا ہوا طریقہ جس کے سوا کسی اور طریقے کو اختیار کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ایک محترم و مقدس طریقہ ثابت ہو جائے۔ 

انبیا کے طریقۂ تبلیغ کا جہاں تک ہم نے مطالعہ کیا ہے ، اُس سے ہم اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام نے تبلیغ کے جو طریقے اختیار کیے ہیں ، وہ اُن کے زمانوں کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ و ترقی یافتہ طریقے تھے اور یہ طریقے حالات کے تغیر اور تمدنی ترقیوں کے ساتھ ساتھ بدلتے بھی رہے ہیں جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس معاملہ میں کسی ایک ہی طریق پر اصرار صحیح نہیں ہے ،بلکہ داعیان حق کو چاہیے کہ وہ ہر زمانے میں تبلیغ و تعلیم کے لیے وہ طریقے اختیار کریں جو اُن کے زمانوں میں پیدا ہو چکے ہوں اور جن کو اختیار کر کے وہ اپنی کوششوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ مفید اور نتیجہ خیز بنا سکتے ہوں۔‘‘

---------------------------------------------