ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی تقریر: سید محمد تقی کی کتاب " تاریخ و کائنات، میرا نظریہ“ کی تقریب رونمائی پر

نوٹ : مقرر کے خیالات سے بلاگر کا اتفاق لازم نہیں ۔





سید محمد تقی کا تعارف : 


(آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے )
------------------------------------------
سید محمد تقی پاکستان کے ممتاز فلسفی، دانشور، شاعر اور صحافی تھے۔ 12 مئی 1917ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانہ بشمول والد علامہ شفیق حسن، بڑے بھائی رئیس امروہوی اور چھوٹے بھائی جون ایلیا اردو ادب کی آبرو خیال کیے جاتے ہیں۔ آپ کا انتقال 26 جون 1999ء کو کراچی میں ہوا۔


سید محمد تقی 
نہایت وسیع العلم باپ، علامہ شفیق حسن ایلیا کے صاحبزادے، رئیس امروہوی کے تین سال چھوٹے بھائی، جون ایلیا سے چودہ سال بڑے بھائی، کمال امروہوی کے چچازاد بھائی، سید محمد تقی 1917ء میں پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے سال امروہہ میں پیدا ہوئے۔ سیاسی ماحول میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا زمانہ تھا۔ امروہہ کے نہایت اعلیٰ علمی ادبی ماحول میں پرورش ہوئی۔ بچپن سے عنفوان شباب تک کھلنڈرے رہے کہ علم و ادب سے شغف پیدا نہیں ہوا تھا اور کمال امروہوی، رئیس امروہوی اور محلے کے دیگر شرارتی لڑکوں کی صحبت میں رہے لیکن علامہ شفیق حسن ایلیا جیسے گھنے اعلیٰ علمی و ادبی درخت کے سائے میں کیسے ممکن تھا کہ علم و ادب سے بچتے۔ جب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا تو علم و ادب کے مشرقی امتحانات بہت تیزی سے پاس کر لیے۔ چنانچہ اکیس سال کی عمر تک الہ آباد بورڈ کے ادیب، ادیب عالم، ادیب کامل، منشی فاضل، مولوی فاضل، مولوی کامل اور پھر پنجاب بورڈ کا فاضل ادب پاس کر لیے۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ انگریزی کے بغیر آگے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ دہلی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی زبان و ادب میں مکمل کر لیا۔

اب ملازمت کے میدان میں داخل ہونے کا وقت آیا تو رئیس امروہوی سے مشورہ کیا۔ رئیس صاحب ان دنوں مرادآباد میں عادل صاحب (شکیل عادل زادہ کے والد) کے رسالے ”مسافر“ کے ایڈیٹر تھے۔ دونوں بھائی دہلی آ گئے۔ دہلی میں اولاً تو رسالوں میں مضامین لکھتے رہے، غیر معروف رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے لیکن ساری زندگی کی پیشہ ورانہ مصروفیت اس وقت شروع ہوئی جب میر خلیل الرحمان نے دونوں بھائیوں کو اپنے نوزائیدہ روزنامہ ”جنگ“ میں ساتھ لے لیا۔ رئیس صاحب اداریئے لکھتے تھے اور تقی صاحب نیوز ایڈیٹر تھے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے فوراً بعد کے پرآشوب زمانے میں میر خلیل الرحمان رئیس امروہوی صاحب کو ساتھ لے کر کراچی آ گئے۔ تقی صاحب پھر 26 جنوری 1948ء کو بمبئی کے راستے پانی کے جہاز سے کراچی آئے۔ وہ اپنی بیگم اور چار سال کی بیٹی کے ساتھ اسی دن بمبئی سے سوار ہوئے جب گاندھی جی کے قتل کے نتیجے میں غلط فہمی کے تحت مسلم کش فسادات شروع ہو گئے تھے۔

1950ء کی دہائی کے اوائل میں تقی صاحب نے عام لوگوں میں فلسفے کا شوق پیدا کرنے کی غرض سے ہر ہفتے ایک مضمون فلسفے کے موضوعات پر شائع کرنا شروع کر دیے۔ اتنے مشاق صحافی کے لیے جاذب توجہ سرخیاں لگانا روزمرہ کا معمول تھا۔ مثلاً انگلستان کے فلسفی برکلے پر اپنے مضمون کی یہ سرخی لگائی تھی۔ ”کتے، میزیں اور پردے“۔ اس انداز کے آسان فہم اردو میں لکھے ہوئے مضامین مقبول ہوئے۔ 1958ء میں ان کے ایسے ہی مضامین یکجا کر کے اردو اکیڈمی سندھ نے ان کی پہلی کتاب ”روح اور فلسفہ“ شائع کی۔ اب تقی صاحب کا نام معتبر فلسفیوں میں شامل ہوا تو ڈاکٹر شریف، جو گورنمنٹ کالج میں شعبہ فلسفہ کے صدر تھے سالانہ پاکستان نیشنل فلسفہ کانفرنس میں ہر سال تقی صاحب کو بلاتے اور تقی صاحب نے کئی مقالے ان کانفرنسوں میں پڑھے۔ 1958ء میں تقی صاحب اور دیگر کئی عامل صحافیوں کو برطانیہ کی حکومت نے دورے پر بلایا۔ وہاں تقی صاحب نے برٹرینڈرسل سے ملاقات بھی کی۔ دو سال بعد تقی صاحب کو روم میں ہونے والی بین الاقوامی کانگریس میں مقالہ پیش کرنے بلایا گیا، ساتھ ہی انہیں روم کی تاریخی عمارت اور نہروں والے تاریخی شہر وینس کی تفریح کرائی گئی۔ تقی صاحب واپس آئے تو اپنا سفرنامہ اخبار میں کئی قسطوں میں شائع کیا۔

اس دوران ”جنگ“ میں ان کے فلسفیانہ مضامین شائع ہوتے رہے، ساتھ ہی بعض طبعزاد اور بعض اپنے ہی اردو مضامین کے ترجمے روزنامہ ”ڈان“ میں احمد علی خان صاحب شائع کرتے رہے۔ وہ تقی صاحب کے جوانی کے دوست تھے۔ انہی دنوں تقی صاحب مصر کے سرکاری دورے پر جا رہے تھے تو مولوی عبدالحق نے ان سے کہا کہ وہ وہاں سے یہ معلوم کر آئیں کہ کارل مارکس کی شہرہ آفاق اور تاریخ ساز کتاب ”داس کیپٹل“ کا ترجمہ عربی میں ہوا ہے یا نہیں۔ تقی صاحب مصر سے لوٹے تو انہوں نے مولوی صاحب کو بتایا کہ عربی میں ترجمہ نہیں ہوا ہے۔ مولوی صاحب نے اسی وقت اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنے کا کام تقی صاحب ہی کے ذمے کر دیا جو انجمن ترقی اردونے 1961ء میں شائع کیا۔ اس کی اشاعت کے پچیس سال بعد جب انجمن کا کاپی رائٹ ختم ہو گیا تو تین سال پہلے 2004ء میں دارالشعور نے بہت دیدہ زیب انداز میں یہ ترجمہ شائع کیا۔ کارل مارکس کی اس عسیر الفہم کتاب کے پڑھنے والے اتنی تعداد میں ضرور موجود ہیں کہ چار سال بعد اسی سال دارالشعور نے دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ جس پر تقی صاحب کے بہت پرانے ساتھی اور دوست شفیع عقیل کا تبصرہ چند روز پہلے ”جنگ“ میں شائع ہوا ہے۔

اس ترجمے کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ ”جنگ“ سے وابستگی کے چوبیس پچیس برسوں کے دوران تقی صاحب کا معمول یہ تھا کہ صبح ساڑھے چھ بجے ناشتا کر کے تصنیف اور ترجمے میں چار گھنٹے مصروف رہتے اور گیارہ بجے مزید ایک پیالی چائے پی کر گھر کی گوشت ترکاری کی خریداری کے لیے بازار جاتے۔ پھر گھر آ کر نہا دھو کر کھانا کھا کر ساڑھے بارہ ایک بجے دفتر جنگ آتے اور پھر رات کو ساڑھے نو دس بجے اخبار مکمل کر کے پریس بھجوا کر گھر آتے، کھانا کھا کردو گھنٹے مطالعہ کر کے سو جاتے۔ اس دوران تقی صاحب سر سید کالج کے بانی اور پاکستان ایجوکیشنل سوسائٹی کے صدر سید الطاف علی بریلوی کے لیے کتابوں کے ترجمے کرتے رہے۔ انہی دنوں انہوں نے بریلوی صاحب کے لیے امریکی تعلیمی فلسفی کی کتاب ”جمہوریت اور تعلیم“ اور وہائٹ ہیڈ کی ”تعلیم کا فلسفہ“ نام کی کتابیں ترجمہ کیں۔ پھر اپنے طور پر نوبل انعام یافتہ سائنس دان سر جیمس جینس کی کتاب ”پراسرار کائنات“ اور سر آرتھر ایڈنگٹن کی کتاب ”سائنس اور فلسفہ“ کے ترجمے شائع کیے۔ تقی صاحب کی پہلی طبعزاد کتاب ”روح اور فلسفہ“ 1958ء میں اور دوسری ”منطق، فلسفہ اور سائنس“ 1968ء میں شائع ہوئیں۔ 1971-72ء میں بھٹو کے اقتدار کے اوائل میں انہوں نے اپنی سب سے اہم تصنیف ”تاریخ و کائنات، میرا نظریہ“ تقریباً آٹھ مہینے کے عرصے میں تصنیف کی جس کی رونمائی 1974ء میں ہوئی۔ اس میں موضوعات کے تنوع پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے رونمائی میں اپنی تقریر کے آخر میں یہ مصرع پڑھا کہ ”ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔“ اس کتاب نے تقی صاحب کو اردو زبان میں لکھنے والا برصغیر پاک و ہند کا پہلا صاحب نظام فلسفی بنایا۔

1999ء میں وفات تک وہ تصنیف ہی میں مصروف رہے۔ 1982ء میں بین الاقوامی فلسفہ کانگریس میکسیکو سٹی میں ہوئی۔ تقی صاحب کو مقالے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے کانگریس میں شرکت کی، مقالہ پیش کیا جس کا عنوان تھا ”فلسفہِ قانون“۔ اس سے کچھ ماہ قبل تقی صاحب کے انگریزی مضامین کا مجموعہ "Essays in Philosophy" شائع ہواتھا۔ انہیں اس سیشن کی صدارت کا اعزاز بھی دیا گیا۔ اسی دوران انہوں نے امریکا کے بعض نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں سے ملاقات کر کے سائنس پر اپنے فلسفیانہ اعتراضات پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس کے بعد تقی صاحب روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے مطالعہ کرتے۔ ایک تصنیف اس دوران مکمل ہوئی یعنی ”نہج البلاغہ کا تصور الوہیت“۔ وفات سے چار پانچ سال پہلے انہوں نے قویٰ مضمحل ہونے کے باوجود ٹائپرائٹر پر انگریزی کتاب "My View of Science" تصنیف کی جس کی کمپوزنگ 1998ء میں مکمل ہو گئی تھی لیکن ابھی شائع نہیں ہوئی ہے۔ سید محمد تقی فلسفی کی حیثیت سے خدا کو ”شعور محض“ کہتے تھے اور کائنات کو توانائی کے مختلف مظاہر سے تعبیر کرتے تھے۔ سیاست میں جمہوریت، معیشت میں مساوات اور ذاتی اخلاق میں ہر انسان کی عزت وتکریم کے قائل تھے۔ ان کا اپنا اخلاق اپنے اصولوں پر عمل کی تصدیق تھا۔

1999ء کی 20 جون کو تقی صاحب کی مختصر علالت شروع ہوئی۔ ڈاکٹروں نے انہیں ہیپاٹائٹس سی تشخیص کیا جو لاعلاج حد تک پھیل گیا تھا۔ 25 اور 26 جون کی شب وہ عظیم فلسفیوں کی آسمانی محفل میں شرکت کے لیے اس جہان فانی سے سدھار گئے۔ ان کی قبر کے تین اطراف ان کے بہترین اقوال کندہ ہیں اور کتبے پر جو تحریر کندہ ہے اس کے لکھنے والے نے حافظ شیرازی کے معروف شعر میں ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ شعر لکھ دیا ہے

ہرگز نمیرد آن کہ دِلش زندہ شدز ”علم“

ثبت است بر جریدہِ عالم دوام ما

آپ کی اہم کتب کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

روح، فلسفہ اور سائنس
روح اور فلسفہ
تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ
ہندوستان، پس منظر اور پیش منظر

---------------------

سلیم الزماں صدیقی کا تعارف : 


سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر، 1897ء کو لکھنؤ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لکھنؤ ٔ میں حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ آ گئے۔ انہوں نے 1919ء میں علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ اُس وقت تک وہ ایم۔ اے۔ او۔ کالج تھا۔ یونیورسٹی 1920ء میں بنی۔ پھر وہ لندن آ گئے اور کچھ دنوں یونیورسٹی کالج لندن میں رہنے کے بعد فرینکفرٹ چلے گئے جہاں سے انہوں نے 1927ء میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ ہندوستان واپس آتے ہی وہ دہلی آ گئے اور یہاں کے طبیہ کالج میں حکیم اجمل خاں کی قیادت میں شعبۂ تحقیق برائے آیورویدک اور یونانی طب قائم کیا۔ یہ شعبہ 1931ء میں قائم ہو ا تھا۔ 1940ء میں انہوں نے انڈین کائونسل آف سائینٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں کام شروع کیا اور وہاں دس برس رہے۔ قائدِ ملت لیاقت علی خاں کے اصرار پر وہ 1951ء میں پاکستان آ گئے۔ حکومت پاکستان کے ایما پر انہوں نے پاکستان کاؤنسل آف انڈسٹریل اینڈ سائینٹفک ریسرچ قائم کی جس کا مرکز کراچی میں تھا اور اس کی شاخیں ڈھاکہ، راجشاہی، چٹاگانگ، لاہور اور پشاور میں بھی قائم کیں۔ 1966ء میں وہ کائونسل سے ریٹائر ہوئے اور کراچی یونیورسٹی میں حاجی ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمکل ریسرچ قائم کیا۔ 1990ء تک وہ وہاں رہے اور اس کے بعد بھی پرائیویٹ کام کرتے رہے۔

سلیم الزماں صدیقی 
ہندوستان میں تحقیق کے دوران سلیم الزماں نے ہندوستانی پودہ سرپاگندھا ﴿Rauvolfiaserpentina﴾ سے ایک دوا بنائی جس کا نام انہوں نے حکیم اجمل کی یاد میں اجملین رکھا۔ اس کا کیمیائی فارمولا (C21H24N2O3)ہے۔ یہ دل کی غیر منظم دھڑکنوں (ARRYTHMIA) کا علاج کرتی ہے۔ انہوں نے نیم کے درخت، اس کی چھال اور اس کے پھل یعنی نمکوری پر تحقیق کی۔ انہوں نے نیم کے تیل سے تین دوائیں بنائیں اور انکا نام نیمبین، نیمبیدین اور نیمبینین رکھا۔ انہوں نے بتا یا کہ نیمبیدین میں جراثیم کُش اثرات ہوتے ہیں، اس طرح سے ان کی تحقیق نے پہلی بار یونانی اور آیورویدک طب کو جدید کیمسٹری میں متعارف کروایا۔ 1961ء میں وہ رائل سوسائٹی کے ارکان منتخب ہوئے۔ سوویٹ اکیڈمی آف سائنس نے انکو ایک گولڈ میڈل دیا۔ ا ور حکومت برطانیہ نے 1946ء میں انکو او۔ بی۔ ای۔ کا خطاب دیا۔ پاکستان میں سلیم الزماں کی خدمات کوبہت سراہا گیا۔ 1953ء میں وہ پاکستان اکیڈمی آف سائنس کے فیلو قرار پائے۔ 1958ء میں انکو تمغۂ پاکستان ملا۔ 1962ء میں انکو ستارۂ امتیاز ملا۔ 1966ء میں انکو صدر پاکستان کا امتیازی انعام صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی دیا گیا۔ 1980ء میں انکو ہلال امتیاز ملا۔ سلیم الزماں صدیقی تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنس کے اساسی رکن بھی رہے۔ ان کی پانچویں برسی پر پاکستان پوسٹ نے انکا یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ یہ قراردادِ پاکستان کی حمایت کرنے والے چوہدری خلیق الزماں صدیقی کے چھوٹے بھائی تھے۔

ان کے مطابق ہرمل نامی جڑی بوٹی میں غالباٗ بارہ فیصد تک بے رنگ بے بو اور بے ذائقہ خوردنی آئل ہوتا ہے جس پر اگر کام کیا جائے تو ہماری مارکیٹ کی ضرورت بہت حد تک پوری ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹرعطاءالرحمِن جب پی ایچ ڈی کے لیے باہر جانا چاہتے تھے تو ان کی یونیورسٹی نے شرط رکھی تھی کہ اگر وہ ڈاکٹر صدیقی سے لیٹر لکھوا لائیں تو انکو داخلہ دے دیا جائے گا۔ بعد ازاں ڈاکٹر عطاالرحمان انہی کے قائم کردہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔

چاند یا چھوٹی چندن نامی بوٹی سے انہوں نے متعدد الکلائڈ دریافت کیے ۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک الکلائڈ کا نام اجملین رکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس وقت وہ حکیم اجمل خان کی لیبارٹری میں ہی تحقیق کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ چھوٹی چندن کا بایولوجیکل نام راولفیا ہے۔ ۔۔۔۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیم پر بھی قابل قدر تحقیق کی۔ اجملین اور آئسو اجملین جیسے الکلائڈ امراض قلب خصوصاً Arrhythmia کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر الکلائڈ ذہنی امراض کے علاج میں کارآمد ہیں۔ نیم کے پتوں، چھال اور جڑوں سے انہوں نے 50 سے زائد دریافتیں کیں اور انہیں پیٹنٹ کرایا۔ یہ دریافتیں، بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور کیڑوں کے خلاف موثر پائی گئیں

عہدے اور اعزازت

کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ " 1927ء جرمنی ریسرچ سائنٹسٹ، انڈین کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ 1940ء ڈائریکٹر نیشنل کیمیکل لیبارٹریز، انڈیا، فروری 1947ء پاکستان آمد : 1951ء (لیاقت علی خان کی دعوت پر) بانی، ڈائریکٹر، صدر ۔۔۔۔ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ : 1953ء تا 1966ء بانی پاکستان اکیڈمی آف سائنسز 1953ء ممبر ٹیکنیکل، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن 1956ء پروفیسر اینڈ ڈائریکٹر ریسرچ، کراچی یونیورسٹی 1966ء بانی حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری فیلو رائل سوسائٹی آف لندن 1961ء ممبر ویٹی کن اکیڈمی آف سائنس 1964ء سوویت اکیڈمی آف سائنسز سے گولڈ میڈل لیڈز یونیورسٹی برطانیہ سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 1967ء کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 1967ء برطانوی حکومت کی جانب سے "ایم بی ای" کا اعزاز 1964ء حکومت پاکستان سے ستارہ امتیاز 1962، صدارتی تمغا 1966، ہلال امتیاز 1980ء بانی رکن، تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز 1983ء

شاعر اور فنکار
سائنس دان ہونے کے علاوہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک اچھے شاعر، موسیقار اور مصور بھی تھے۔ 1924ء اور 1927ء میں ان کی پینٹنگز کی نمائشیں فرینکفرٹ جرمنی میں ہوئیں۔ ان کا کیا ہوا جرمن شاعری کا اردو ترجمہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مجلے میں بھی شائع ہوا۔ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کراچی کے قیام میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔

وفات
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا انتقال 14 اپریل 1994ء کو کراچی میں ہوا اور انہیں کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔