دنیا کی تاریخ میں بعض ادوار ایسے آتے ہیں، جب انسانی معاشرہ تہذیب و تمدن کے بجائے تاریکی اور انحطاط کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک دور کو قرآن مجید نے "جاہلیت" کا نام دیا۔ قبل از اسلام، مکہ مکرمہ کا معاشرہ بھی اسی جاہلیت میں گِھرا ہوا تھا۔ یہ جاہلیت صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ہر پہلو سے نمایاں تھی۔ یہ مضمون اس دور کی تصویر کشی کرتا ہے اور ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتا ہے جن پر قرآن اور تاریخ نے روشنی ڈالی ہے۔
مذہبی جاہلیت: شرک اور باطل عقائد
قبل از اسلام مکہ

بت پرستی اور مشرکانہ نظام
قبل از اسلام عرب معاشرے میں سب سے بڑی گمراہی بت پرستی تھی۔ مکہ کے لوگ حضرت ابراہیمؑ کی توحیدی تعلیمات کو بھلا چکے تھے اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو معبود بنا لیا تھا۔ قرآن نے ان کے اس شرک پر تبصرہ کیا:
"وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ"(یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع، اور کہتے ہیں: یہ اللہ کے نزدیک ہمارے سفارشی ہیں۔) (یونس: 18)
بتوں کے نام اور ان کے گرد رسوم
مکہ میں مختلف قبائل کے الگ الگ بت تھے، جن میں لات، عزیٰ، منات، ہبل، اساف اور نائلہ زیادہ مشہور تھے۔ ان کے گرد مختلف جاہلانہ رسوم رائج تھیں، جیسے:
-
قربانی کے جانوروں پر مخصوص نشان لگانا (بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حام)
-
فال کے تیر نکالنا تاکہ نصیب کا فیصلہ معلوم ہو
-
مقدس مہینوں میں بھی جنگ کو حلال کرنا
تبرجِ جاہلیت: عورتوں کے فیشن پر قرآن کی مذمت
عرب کی جاہلیت میں عورت کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اور بعض مواقع پر وہ نیم برہنہ ہو کر سج دھج کر بازاروں اور میلوں میں جاتی تھیں۔ قرآن نے اس بے حیائی کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
"وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ"(اور پہلی جاہلیت کی طرح متبَرّج (نمایاں) ہو کر نہ نکلو۔) (الاحزاب: 33)
سیاسی جاہلیت: قبائلی عصبیت اور خانہ جنگی
قبیلہ پرستی اور جنگی کلچر
قبل از اسلام عرب میں سیاسی ڈھانچہ کسی مرکزی حکومت کے تابع نہیں تھا، بلکہ مختلف قبائل میں بٹا ہوا تھا۔ ہر قبیلہ اپنی خودمختاری کا قائل تھا اور ان میں شدید عصبیت (tribalism) پائی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ معمولی باتوں پر بھی نسلوں تک جنگیں جاری رہتی تھیں، جیسے:
-
جنگِ بسوس: قبیلہ بکر اور تغلب کے درمیان چالیس سال جاری رہی
-
جنگِ داحس و غبراء: ایک گھوڑے کی دوڑ کے تنازع پر قبیلوں میں خون کی ندیاں بہہ گئیں
یہ قبائلی جھگڑے ایک دوسرے کو ختم کر دینے کی کوششوں میں بدل جاتے، اور قرآن نے اس نفرت انگیز ماحول پر تنقید کرتے ہوئے کہا:
"وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا"(اور تم جہنم کے گڑھے کے کنارے پر تھے، پھر اللہ نے تمہیں بچا لیا۔) (آل عمران: 103)
قیادت کا فقدان اور سرداری کا اصول
چونکہ کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی، اس لیے سیاسی قیادت قبائلی سرداروں کے ہاتھ میں تھی۔ قیادت کا معیار حکمت، عدل، یا دیانت داری نہیں بلکہ مال و دولت، جنگی بہادری، اور سازشیں تھیں۔ قریش میں دار الندوہ نامی ایک غیر رسمی اسمبلی تھی، جہاں بڑے فیصلے کیے جاتے تھے، لیکن یہ طاقتور افراد کے مفادات کا مرکز تھا۔
معاشرتی جاہلیت: ظلم، ناانصافی اور طبقاتی تفریق
کمزوروں اور غلاموں پر ظلم
مکہ کے سردار اور دولت مند طبقہ غریبوں اور غلاموں کو انسان نہیں سمجھتا تھا۔ غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا، اور ان پر معمولی غلطیوں پر بھی بے رحمانہ تشدد کیا جاتا۔
قرآن نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی:
"كَلَّا بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ، وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ، وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا، وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا"
(نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے، اور مسکین کو کھلانے پر ایک دوسرے کو آمادہ نہیں کرتے، اور تم وراثت کو سمیٹ کر کھا جاتے ہو، اور تمہیں مال سے بے پناہ محبت ہے۔) (الفجر: 17-20)
لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا
قبل از اسلام عرب میں بیٹی کی پیدائش کو شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا تھا، اور بہت سے لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ قرآن نے اس سنگین ظلم کا نقشہ یوں کھینچا:
"وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ، بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ"(اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ کس جرم میں قتل کی گئی؟) (التکویر: 8-9)
معاشی جاہلیت: سود، جوا، اور ناجائز تجارت
سودی نظام اور دولت کی ہوس
عرب کے تاجر طبقے کا بنیادی اصول یہ تھا کہ سرمایہ دار مزید امیر ہوں اور غریب مزید غریب ہو۔ سودی لین دین عام تھا، اور قرآن نے اس کے خلاف سخت لہجہ اختیار کیا:
"وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"(اور اگر تم ایمان رکھتے ہو تو سود کا باقی حصہ چھوڑ دو۔) (البقرہ: 278)
جوا اور قسمت آزمائی
عربوں کے ہاں جوا کھیلنا اور فال کے تیر نکالنا عام تھا، اور اسے قسمت کا حال معلوم کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ قرآن نے اسے "شیطانی عمل" قرار دیا:
"إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ"(شراب، جوا، بت کے آستانے، اور فال کے تیر ناپاک شیطانی عمل ہیں۔) (المائدہ: 90)
اسلام کا انقلابی کردار
یہ جاہلیت کا سماج تھا، جس میں نبی اکرم ﷺ مبعوث ہوئے اور قرآن کا نور پھیلا۔ یہ وہ معاشرہ تھا جہاں طاقتور ہی قانون تھا، دولت ہی انصاف تھی، اور مذہب کا نام شرک و بدعات تھا۔ مگر اسلام نے آکر اس تاریکی کو اجالے میں بدلا، اور انسانی زندگی کو عزت، عدل، اور توحید کی روشنی عطا کی۔
یہ مضمون ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کیسا تھا اور کیوں اسلام کا آنا ایک انقلاب ثابت ہوا۔ آج کے دور میں بھی جاہلیت کے مختلف رنگ موجود ہیں، اور ہمیں چاہیے کہ قرآن کی روشنی میں ان سے نجات پائیں۔