اسلامی ریاست اور خلافت - سید ابوالاعلی مودودی ؒ


  ٭  اسلامی ریاست کے رئیس یا صدر کے لیے ’خلیفہ‘ کا لفظ کوئی لازمی اصطلاح نہیں ہے۔ امیر، امام، سلطان وغیرہ الفاظ بھی حدیث،فقہ، کلام اور اسلامی تاریخ میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ مگر اصولاًجو چیز ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی ریاست نہ تو بادشاہی یا آمریت ہوسکتی ہے اور نہ ایسی جمہوریت جو حاکمیت ِعوام کے نظریے پر مبنی ہو۔ اس کے بر عکس صرف وہی ریاست حقیقت میں اسلامی ہوسکتی ہے جو خدا کی حاکمیت تسلیم کرے ، خدا اور اس کے رسول ؐ کی شریعت کو قانونِ برتر اور اوّلین ماخذِ قوانین مانے، اور حدود اللہ کے اندر رہ کر کام کرنے کی پابند ہو۔ اس ریاست کا اقتدار ، اقتدارِ اعلیٰ نہیں ہے بلکہ خدا کی نیابت وامانت ہے۔ یہی معنی ہیں’خلافت‘ کے۔  

٭  اموی فرماںروائوں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا، لیکن دستور (constitution)کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انھوں نے توڑ دیا تھا۔ [اور ] ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی ۔  ٭ اصولی حیثیت سے خلافتِ عباسیہ کی پوزیشن بھی وہی ہے جو خلافت بنی امیہ کی ہے۔ فرق بس اتنا تھا کہ خلفاے بنی امیہ دین کے معاملے میں بے پروا تھے اور اس کے برعکس خلفاے بنی عباس نے اپنی مذہبی خلافت اور روحانی ریاست کا سکّہ بٹھانے کے لیے دین کے معاملے میں ایجابی طور پر دل چسپی لی۔ لیکن ان کی یہ دل چسپی اکثر دین کے لیے مضر ہی ثابت ہوئی۔ 

٭ ظالم امرا کے مقابلے میں خروج ایسی صورت میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہو جاتا ہے، جب کہ ان کو ہٹا کر ایک صالح وعادل حکومت قائم کرنے کا امکان ہو۔ اس معاملے میں امام ابوحنیفہ کا مسلک بہت واضح ہے۔ اس کے برعکس ایک حکومت عادلہ کے خلاف خروج بہت بڑا گناہ ہے اور تمام اہلِ ایمان پر لازم ہے کہ ایسے خروج کو دبا دینے میں حکومت کی تائید کریں۔ حکومت عادلہ کے مقابلے میں جو لوگ خروج کریں وہ اگر مساجد میں پناہ لیں تو ان کا محاصرہ کیا جا سکتا ہے ، اور اگروہ وہاں سے گولہ باری کریں تو جوابی گولہ باری بھی کی جا سکتی ہے ۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ’رسائل ومسائل‘ ترجمان ا لقرآن ، جلد ۵۲،عدد ۲، مئی ۱۹۵۹ء ،ص ۵۹-۶۱)